میانمار مسلمانوں کے استحصال کو ایک اور برس بیت گیا
یہ ملک بودھوں کی اکثریت کا حامل ہے، مسلمان یہاں کی لگ بھگ پانچ فی صد اقلیت ہیں، اکثریت روہنگیوں کی ہے.
میانمار کے مسلمان صدیوں سے زیرِ عتاب چلے آرہے ہیں، 2012 بھی انھیں آگ پر بھونتا اور لہو میں نہلاتا گزرا ہے۔
یہ ملک بودھوں کی اکثریت کا حامل ہے، مسلمان یہاں کی لگ بھگ پانچ فی صد اقلیت ہیں، اکثریت روہنگیوں کی ہے، دیگر نسلوں کے مسلمانوں میں کچھ انگریز راج میں تجارت و ملازمت کے لیے یہاں آئے یا لائے گئے، کچھ چینی ہیں اور کچھ عرب ہیں جو ساتویں صدی عیسوی سے ہی یہاں آنا جانا شروع ہو گئے تھے۔ ہندوستانی ہندوؤں مسلمانوں کی آمد نہر سوئز کھلنے کے بعد شروع ہوئی، جس کی وجہ میانمار کے چاولوں کی مانگ میں اضافہ تھا۔
مسلمانوں کے خلاف شکوک و شبہات اور جذبۂ نفرت میانمار میں آغاز ہی سے موجود ہے۔ بیات وائی (Byat wi) نامی پہلا مسلمان یہاں تھاٹن بادشاہ مَون کے عہد (1050) میں قتل ہوا۔ پورا واقعہ گلاس پیلس کرانیکل میں درج ہے جو برمی تاریخ (Hmannan Yazawin) کا ترجمہ ہے۔ بیات وائی کے بعد اس کے بھائی بیات تا کے دو بیٹوں (شوی بَیِِن برادرز) کو جبری مشقت سے انکار پر مارا گیا۔ کرانیکل میں درج ہے کہ ان دو واقعات کے بعد میانمار کے بادشاہوں نے مسلمانوں کو کبھی قابل اعتماد نہیں سمجھا۔ رحمان خان (Nga Yaman Kan) ایک اور ایسی ہی شخصیت ہے جسے بادشاہ کیان ستھا نے سازش اور سیاسی و مذہبی مناقشت کے باعث قتل کیا۔
سترہویں صدی کی وسطی دہائیوں کے دوران اراکان ایک قزاق بادشاہ ساندھا تھوڈاما کے زیرِنگیں تھا، اُدھر ہندوستان میں شاہ جہاں کے بیٹوں کے درمیان چھینا جھپٹیاں جاری تھیں۔ شہ زادہ شجاع اہل خانہ کو لے کر بھاگا تو بدبختی اسے اراکان لے آئی۔ مال و دولت کی اس کے پاس فراوانی تو تھی ہی، صاحب زادی بھی اس کی چندے آفتاب و چندے ماہ تاب تھی جس پر ساندھا بے ایمان ہوگیا۔ شجاع مکہ معظمیٰ جانے کے لیے منہ مانگی قیمت پر بحری جہاز خریدنا چاہتا تھا لیکن قزاق سب کچھ چھین لینا چاہتا تھا، اس پر جھڑپ ہو گئی جس میں مسلمان خاصی تعداد میں مارے گئے البتہ شجاع اور اس کے اہل خانہ بچ نکلے ۔
1550-1589 کے دوران میانمار میں بے انت نانگ سریر آرائِ سلطنت تھا، مسلمان بڑی تعداد میں اس کی ملازمت میں تھے۔ اس بادشاہ نے جب باگو (موجود پیگو) فتح کیا تو اسلامی ذبیحے پر پابندی عاید کر دی کہ خدا کے نام پر جانوروں کو ''قتل'' نہ کیا جائے حتیٰ کہ عیدالاضحیٰ کی قربانی پر بھی پابندی لگا دی، شاہ الائونگ پایا (1752-1819) کے دور میں بھی ایسی ہی پابندی تھی۔
شاہ بوڈائو پایا نے علاقہ میے دُو میں چار مسجدوں کے اماموں کو سؤر کا گوشت کھانے کا حکم دیا، انھوں نے انکار کیا تو تہِ تیغ کر دیا۔ میے دو اور میانمار کے مسلمان آج بھی روایت کرتے ہیں کہ ان اماموں کی شہادت کے بعد میانمار پر سات دن، تاریکی رہی جس پر بادشاہ نے خوف زدہ ہو کر معافی مانگی اور مقتول اماموں کو ولی اللّٰہ تسلیم کیا۔
میانمار میں ہندوستانی ہندوؤں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگریز راج میں عروج پر پہنچی۔1921 میں میانمار میں مسلمانوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی، نصف سے زیادہ ہندوستان سے آئے تھے۔ برمی ہندوستانیوں کو بلا امتیاز مذہب حقارت سے ''کالا'' کہا کرتے تھے۔ اس نفرت کی کچھ وجوہات یوں ہیں کہ مغلوں کے عہد میں جنگوں کے دوران بودھوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی، بعض عاقبت نا اندیشوں نے بہ زورِ شمشیر مقامیوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کی، انگریزی عہد میں ہندوستان سے آنے والوں کا معیارِ زندگی یہاں آکر بلند ہوگیا اور اصل باشندے بھوک اور افلاس کی بدترین جکڑ میں آگئے، انھیں اکثر گندگی کی صفائی اور خطرناک کام دیے جاتے تھے، اس پر ہندو سود خوروں نے برمیوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کر دیں۔ 1930 کی کساد بازاری اگرچہ عالمی تھی لیکن برمی اپنے ہاں اس کا ذمے دار ہندوستانیوں ہی کو ٹھہراتے تھے۔
اسی دوران رنگون کی بندرگاہ سے فسادات کا ایک مرحلہ شروع ہوا۔ یہاں ایک ایسا واقعہ ہوا جو واقعی دل آزار تھا۔ ہوا یوں کہ ایک برطانوی فرم کے سیکڑوں ہندوستانی کارکنوں نے ایک موقع پر ہڑتال کر دی، فرم نے اگلے ہی روز اتنے ہی برمی بھرتی کر لیے۔ ہندوستانیوں نے یہ دیکھا تو ہڑتال ختم کر دی، فرم نے بھی انھیں واپس لے لیا۔ اگلی صبح پرامید برمی کام پر آئے تو انھیں شدید مایوسی ہوئی، بعضے مشتعل ہو کر ہندوستانیوں پر ٹوٹ پڑے۔ اب جو سلسلہ چل نکلا تو پورا میانمار لپیٹ میں آ گیا۔ ان بیرونی کارکنوں میں چوںکہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لہٰذا انھیں زیادہ زد پر لیا گیا اور جب ہاتھ کھل گیا تو نہ ہندوستانی مسلمان چھوڑا گیا اور نہ ہم وطن۔ نفرت کی شدت یہ رہی کہ پہلے آدھے گھنٹے ہی میں دو سو تارکین وطن قتل کرکے لاشیں پانی میں بہا دی گئیں۔ یہ واقعہ 26 مئی کا ہے اور اسے سیاہ دن Black Day کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
1938 میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر تحریک چلی۔ اس تحریک کا اصل ہدف تو فرنگی تھا لیکن برمی کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہ رکھتے تھے سو انھوں نے قوم پرستی کی آڑ رکھ کر مسلمانوں کو زد پر لے لیا اور بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارا۔ ''میانمار صرف برمیوں کا ہے'' کے نعرے لگاتے بودھ، سورتی مسلمانوں کے بازار پر چڑھ دوڑے، بدقسمتی سے پولیس بھی ہندوستانی تھی، لاٹھی چارج ہوا تو تین بھکشو بھی زخمی ہوگئے۔ برمی اخباروں نے جلتی پر خوب خوب تیل ڈالا۔ مسلمانوں کے کاروبار لوٹے گئے، مکان نذر آتش کیے گئے، 113 مسجدیں مسمار کر دی گئیں۔ بلوے فرو ہوئے تو ستمبر 1938 میں سائمن کمیشن نے لیجس لیٹو کائونسل نے میانمار میں مسلم آبادیوں کے لیے مقامات مختص کرنے، اقلیتوں کو شہریت دینے اور مذہبی آزادیوں وغیرہ کے حقوق دینے کی سفارش کی۔ اس میں ہوم رول یا آزاد نو آبادیاتی درجہ (Dominion status) دینے کی سفارش بھی شامل تھی۔
جنگ عظیم دوئم سے کچھ ہی قبل میانمار میں دو سیاسی جماعتیں، میانمار مسلم کانگریس (BMC) اور انٹی فاشسٹ پیپلز فریڈم پارٹی (AFPFL) وجود میں آئیں۔ بی ایم سی کے صدر یُو رزاق اور دوسری کے سربراہ آنگ سان اور یُو نُو تھے۔ یو رزاق بعد میں AFPFL میں شامل ہوگئے اور 1946 میں اس پارٹی کے صدر چنے گئے۔ رزاق اتفاق سے بدھ مت کی زبان پالی کے عالم تھے سو بودھوں سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی، آنگ سان کی حکومت میں مختلف وزارتوں پر فائز رہے اور مارے بھی ان ہی کے ساتھ گئے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے میانمار کے مسلمانوں کو یک سو کیا اور میانمار آزاد کرانے میں قابلِ قدر کردار ادا کیا تاہم ان پر یہ الزام عاید کیا جا سکتا ہے کہ انھوںنے دوسروں کی خوش نودی پر مسلم مفادات کو قربان کیا۔
آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد وزیرِ اعظم یو نو کے اندر سے ان کا بودھ برآمد ہوا اور انھوں نے بدھ مت کو میانمار کا سرکاری مذہب قرار دے دیا، اپنے پیش روؤں کی طرح انھوں نے بھی جانور ذبح کرنے پر پابندی عاید کر دی البتہ عیدالاضحیٰ پر ایک لائسنس پر ایک جانور، پولیس کی نگرانی میں، قربان کرنے کی رعایت دی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ آمر جنرل نَے وِِن نے ذبیحے پر سے عاید پابندی اٹھا لی تھی مگر ان کے بعد ایک بار پھر یہ پابندی عاید کی گئی جو تاحال جاری ہے۔ یونو حکومت کے دوران مسلمانوں کے لیے حج پر جانا بھی دشوار تر کر دیا تھا۔ 1962 میں جنرل نے ون نے جمہوریت کا تختہ الٹا اور اقتدار سنبھالتے ہی فوج سے مسلمانوں کو یک سر نکال باہر کیا۔
میانمار میں حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں عسکریت پسند مسلمان کوئی بھی کارروائی کریں، نزلہ میانمار کے مسلمانوں پر لازماً گرتا ہے۔ افغانستان میں جب عسکریت پسندوں نے 2001 میں دشتِ بامیان کے بدھا (مجسمے) کو نقصان پہنچایا تو بودھوں نے تاانگو کی مسجد کو بامیان کے بدلے میں مسمار کرنے کا مطالبہ جڑ دیا۔ اس دوران فسادات پھوٹے جن میں متعدد مسلمان مارے گئے۔
16 مارچ 1997 کو بدھا کے ایک معروف مجسمے کی تزئین و آرائش کی جارہی تھی، روایت ہے کہ اس مجسمے کے اندر ایک طلسمی یاقوت تھا، مقامی بودھوں کے عقیدے کے مطابق یہ یاقوت جس کے پاس ہو، وہ ہر حال میں فاتح ہوتا ہے۔ دوران تزئین اس مجسمے کے درمیان ایک بڑا سوراخ اور یاقوت غایب پایا گیا، حکومت نے محسوس کیا کہ بھکشو اس پر مشتعل ہوں گے تو ایک بودھ لڑکی پر مسلمانوں کے مجرمانہ حملے کی افواہ پھیلا دی گئی اور سچ مچ بودھوں کے غم و غصے کی رو مسلمانوں کی طرف پلٹ گئی بس پھر کیا تھا کوئی ڈیڑھ ہزار بودھوں اور بھکشوئوں نے مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں، گاڑیوں اور مساجد پر حملے شروع کردیے، مقدس کتابیں بھی نہ بخشیں، غرض سارا علاقہ تاراج کرکے رکھ دیا۔ بعد میں حقیقت حال اگرچہ کھلی لیکن تب تک مسلمانوں کا خانہ خراب کیا جا چکا تھا اور بودھوں کی بھڑاس بھی نکل چکی تھی، یاقوت کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں ملا۔
2001 میں بھی سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ وہ موقع تھا جب افغانستان میں بامیان کے بدھا کو مسمار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی جس کے جواب میں 15 مئی کو پیگو ڈویژن کے شہر تاانگو میں 200 سے زیادہ مسلمان قتل، گیارہ مسجدیں شہید اور 400 مکان راکھ کیے گئے، ہان تھا کی مسجد میں 20 مسلمان حالتِ نماز میں مارے گئے، فوجی ٹائوٹوں نے متعدد مسلمانوں کو مار مار کر مار دیا، 17 مئی کو کرفیو نافذ کر دیاگیا جو 12 جولائی تک جاری رہا۔ سرکاری اہل کاروں نے ہانتھا کی مسجد بلڈوز کر دی اور تاانگو کی مسجد پر تالے ڈال دیے جو مئی 2012 تک ڈلے رہے۔n
آزاد نیوروشیا کا خواب: مغربی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی علیحدگی کی جدوجہد 1947 سے جاری تھی۔ یہاں مجاہدین تحریک 1961 تک جاری رہی۔ یہ مجاہدین اپنے علاقوں کا الحاق پاکستان کے ساتھ چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اراکان اپنے علاقے مایو کی وساطت سے مشرقی پاکستان کو چھوتا تھا۔ جمعیت العلماء اسلام کے بینر تلے بھی یہاں مسلح جدوجہد ہوتی رہی۔ میانمار کی آزادی سے پہلے 1946 میں بعض مسلم رہ نمائوں نے قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی یا ان سے درخواست کی کہ وہ اراکان کو پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد کی حمایت کریں، اس مقصد کے لیے اراکان مسلم لیگ بھی قائم کی گئی تاہم قائداعظم نے اس تجویز کو رد کر دیا۔
بعد میں مجاہدین نے میانمار کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کر دیا۔ چاولوں کے ایک بڑے ''بیوپاری'' عبدالقاسم ان مجاہدین کے رہ نما تھے۔ چند برس مجاہدین کام یابی سے شمالی اراکان پر قابض رہے۔ اس دوران حکومت میانمار کے الزام کے مطابق ہزاروں افراد کو مشرقی پاکستان سے اراکان لایا گیا۔ نومبر 1948 میں میانمار میں مارشل لا لگا اور فوج نے مجاہدین کے خلاف سخت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں مجاہدین شمالی اراکان کے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ 1954 میں مجاہدین نے ایک بار پھر زور پکڑا اور بعض علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تاہم فوج نے آپریشن مان سون کیا تو مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے۔
1971 میں جب مشرقی پاکستان کے خرابے پر بنگلہ دیش تعمیر ہو رہا تھا تو سرحدی روہنگی مسلمانوں کو ایک بار پھر اسلحہ جمع کرنے کا موقع مل گیا۔ 1972 میں ایک مجاہد ظفر نے روہنگیا لبریشن پارٹی ترتیب دی اور بکھری ہوئی مسلم تنظیموں کو یک جا کیا تاہم یہ لوگ بھی 1974 کے فوجی آپریشن میں تتربتر ہو گئے۔ 1978 میں نَے وِن نے ''آپریشن کنگ ڈریگن'' کے تحت اراکان میں غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑنا شروع کیا، نتیجتاً ہزارہا مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوگئے۔ وکی لیک کے مطابق اس دوران ان مجاہدین کے رابطے طالبان اور القاعدہ سے بھی ہوے اور انھوں نے افغانستان اور لیبیا میں گوریلا جنگ کی تربیتیں بھی حاصل کیں۔n
2012 کا اراکان : شمالی رکھائین میں روہنگی مسلمانوں اور رکھائنی بودھوں کے مابین فسادات کی بہ ظاہر کوئی نئی وجہ نظر نہیں آتی لہٰذا اس کے ڈانڈے تاریخ ہی میں تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ 2012 کے ماہِ جون کے فسادات کی بنیاد ایک خبر پر رکھی گئی ہے جس میں ایک رکھائنی خاتون پر چند روہنگی مسلمانوں کے مجرمانہ حملے اور اسے قتل کر دینے کی اطلاع تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی برمی فوجی جنتا نے ایک ایسے ہی مجرمانہ حملے کی جھوٹی خبر اڑا کر بودھوں کے اشتعال کو مسلمانوں کی طرف منتقل کیا تھا۔ اس بار بھی یہ خبر ملنے پر پہلے ہی ہلے ہیں کوئی درجن بھر روہنگی مسلمان مار دیے گئے۔ حکومت نے پہلے کرفیو نافذ کیا اور 10 جون کو ایمرجنسی لگا دی۔
22 جون تک 57 مسلمان مارے گئے، 90 ہزار افراد بے گھر ہوئے، 31 بودھ بھی ہلاک ہوے، اڑھائی ہزار سے زیادہ مکان جلائے گئے، ان میں 13 سو سے زیادہ گھر مسلمانوں کے تھے۔ اس سارے دورانیے میں مسلمانوں کے خلاف جی بھر کر امتیازی سلوک کیا گیا جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور حقوق انسانی کی تمام عالمی تنظیموں نے برمی حکومت کے لتے لیے۔ اس اثنا میں برمی صدر تھین سین نے اقوام متحدہ کو روہنگیا مسلمانوں کو کسی اور ملک میں منتقل کرنے کی تجویز دی جو سختی سے رد کر دی گئی۔ عالمی تنظیمیں برمی حکومت پر روہنگی مسلمانوں کو ''انسانی بحران'' سے دوچار کرنے، کیمپوں میں رکھنے اور امدادی کارکنوں کی گرفتاریوں پر لعن طعن کر رہی ہیں۔
ابھی پچھلے زخم ہرے تھے کہ اکتوبر کے اواخر میں حالات پھر بگڑ گئے۔ اس بار فسادات مِن بیا اور مرائوک سے آغاز ہوئے اور ریاست بھر میں پھیل گئے، 80 افراد مارے گئے، 46 سو مکانات جلائے گئے اور کوئی 22 ہزار افراد بے گھر کیے گئے، یوں اب تک بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ مسلم بستیاں تاراج ہونے کا اعتراف صدر تھین سین نے خود بھی کیا ہے تاہم متاثرین کو امداد پہنچانے میں اب بھی رکاوٹیں ہیں اور ''ڈاکٹرز وِد آئوٹ بارڈرز'' کی تنظیم نے بھی نومبر میں اپنے کارکنوں کو علاقہ چھوڑ دینے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ ان کارکنوں کے خلاف بودھوں میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اس طرح میانمار کے مسلمانوں پر استیصال کا ایک اور برس غروب ہونے جا رہا ہے۔
2012 کی جنوری:
میانمار میں جون 2012 کے فسادات سے چھے ماہ قبل یعنی جنوری میں ایک بنگلہ دیشی اخبار نے اطلاع دی کہ مختلف روہنگی عسکریت پسند گروہ بنگلہ دیش میں داخل ہو رہے ہیں جن میں روہنگیا سولیڈیریٹی آرگنائزیشن، اراکان موومنٹ، اراکان پیپلز فریڈم پارٹی اور اراکان نیشنل آرگنائزیشن بڑے نام ہیں، ان تنظیموں نے ایکا کرکے اراکان کو ''آزاد نیوروشیا'' کے نام سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے چوٹی کے رہ نمائوں میں آر ایس او کے چیئرمین محمد یونس اور آر این او کے صدر نورالاسلام کے نام شامل ہیں اور اتحاد کا نام اراکان روہنگیا یونین (ARU) تجویز کیاگیا ہے۔
جون میں اراکان میں فسادات کے آغاز کے دنوں میں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ دیپومونی نے بنگلہ دیش کی ''جماعتِ اسلام'' پر الزام عائد کیا کہ وہ عسکریت پسند روہنگی مسلمانوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ستمبر میں بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق اراکان میں جماعت الاراکان عسکری سرگرمیوں میں مصروف ہے، باور کیا جاتا ہے کہ وہ کالعدم بنگلہ دیشی ''جماعت المجاہدین'' کی شاخ ہے۔ اخبار نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اراکان روہنگیا یونین، بنگلہ دیش اور اراکانی عسکریت پسندوں کا اکٹھ ہے اور ان کے تعلقات پاکستان کے چند دہشت گرد گروہوں سے بھی ہیں۔
یہ ملک بودھوں کی اکثریت کا حامل ہے، مسلمان یہاں کی لگ بھگ پانچ فی صد اقلیت ہیں، اکثریت روہنگیوں کی ہے، دیگر نسلوں کے مسلمانوں میں کچھ انگریز راج میں تجارت و ملازمت کے لیے یہاں آئے یا لائے گئے، کچھ چینی ہیں اور کچھ عرب ہیں جو ساتویں صدی عیسوی سے ہی یہاں آنا جانا شروع ہو گئے تھے۔ ہندوستانی ہندوؤں مسلمانوں کی آمد نہر سوئز کھلنے کے بعد شروع ہوئی، جس کی وجہ میانمار کے چاولوں کی مانگ میں اضافہ تھا۔
مسلمانوں کے خلاف شکوک و شبہات اور جذبۂ نفرت میانمار میں آغاز ہی سے موجود ہے۔ بیات وائی (Byat wi) نامی پہلا مسلمان یہاں تھاٹن بادشاہ مَون کے عہد (1050) میں قتل ہوا۔ پورا واقعہ گلاس پیلس کرانیکل میں درج ہے جو برمی تاریخ (Hmannan Yazawin) کا ترجمہ ہے۔ بیات وائی کے بعد اس کے بھائی بیات تا کے دو بیٹوں (شوی بَیِِن برادرز) کو جبری مشقت سے انکار پر مارا گیا۔ کرانیکل میں درج ہے کہ ان دو واقعات کے بعد میانمار کے بادشاہوں نے مسلمانوں کو کبھی قابل اعتماد نہیں سمجھا۔ رحمان خان (Nga Yaman Kan) ایک اور ایسی ہی شخصیت ہے جسے بادشاہ کیان ستھا نے سازش اور سیاسی و مذہبی مناقشت کے باعث قتل کیا۔
سترہویں صدی کی وسطی دہائیوں کے دوران اراکان ایک قزاق بادشاہ ساندھا تھوڈاما کے زیرِنگیں تھا، اُدھر ہندوستان میں شاہ جہاں کے بیٹوں کے درمیان چھینا جھپٹیاں جاری تھیں۔ شہ زادہ شجاع اہل خانہ کو لے کر بھاگا تو بدبختی اسے اراکان لے آئی۔ مال و دولت کی اس کے پاس فراوانی تو تھی ہی، صاحب زادی بھی اس کی چندے آفتاب و چندے ماہ تاب تھی جس پر ساندھا بے ایمان ہوگیا۔ شجاع مکہ معظمیٰ جانے کے لیے منہ مانگی قیمت پر بحری جہاز خریدنا چاہتا تھا لیکن قزاق سب کچھ چھین لینا چاہتا تھا، اس پر جھڑپ ہو گئی جس میں مسلمان خاصی تعداد میں مارے گئے البتہ شجاع اور اس کے اہل خانہ بچ نکلے ۔
1550-1589 کے دوران میانمار میں بے انت نانگ سریر آرائِ سلطنت تھا، مسلمان بڑی تعداد میں اس کی ملازمت میں تھے۔ اس بادشاہ نے جب باگو (موجود پیگو) فتح کیا تو اسلامی ذبیحے پر پابندی عاید کر دی کہ خدا کے نام پر جانوروں کو ''قتل'' نہ کیا جائے حتیٰ کہ عیدالاضحیٰ کی قربانی پر بھی پابندی لگا دی، شاہ الائونگ پایا (1752-1819) کے دور میں بھی ایسی ہی پابندی تھی۔
شاہ بوڈائو پایا نے علاقہ میے دُو میں چار مسجدوں کے اماموں کو سؤر کا گوشت کھانے کا حکم دیا، انھوں نے انکار کیا تو تہِ تیغ کر دیا۔ میے دو اور میانمار کے مسلمان آج بھی روایت کرتے ہیں کہ ان اماموں کی شہادت کے بعد میانمار پر سات دن، تاریکی رہی جس پر بادشاہ نے خوف زدہ ہو کر معافی مانگی اور مقتول اماموں کو ولی اللّٰہ تسلیم کیا۔
میانمار میں ہندوستانی ہندوؤں اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگریز راج میں عروج پر پہنچی۔1921 میں میانمار میں مسلمانوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی، نصف سے زیادہ ہندوستان سے آئے تھے۔ برمی ہندوستانیوں کو بلا امتیاز مذہب حقارت سے ''کالا'' کہا کرتے تھے۔ اس نفرت کی کچھ وجوہات یوں ہیں کہ مغلوں کے عہد میں جنگوں کے دوران بودھوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی، بعض عاقبت نا اندیشوں نے بہ زورِ شمشیر مقامیوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کی، انگریزی عہد میں ہندوستان سے آنے والوں کا معیارِ زندگی یہاں آکر بلند ہوگیا اور اصل باشندے بھوک اور افلاس کی بدترین جکڑ میں آگئے، انھیں اکثر گندگی کی صفائی اور خطرناک کام دیے جاتے تھے، اس پر ہندو سود خوروں نے برمیوں کی زمینیں ہتھیانا شروع کر دیں۔ 1930 کی کساد بازاری اگرچہ عالمی تھی لیکن برمی اپنے ہاں اس کا ذمے دار ہندوستانیوں ہی کو ٹھہراتے تھے۔
اسی دوران رنگون کی بندرگاہ سے فسادات کا ایک مرحلہ شروع ہوا۔ یہاں ایک ایسا واقعہ ہوا جو واقعی دل آزار تھا۔ ہوا یوں کہ ایک برطانوی فرم کے سیکڑوں ہندوستانی کارکنوں نے ایک موقع پر ہڑتال کر دی، فرم نے اگلے ہی روز اتنے ہی برمی بھرتی کر لیے۔ ہندوستانیوں نے یہ دیکھا تو ہڑتال ختم کر دی، فرم نے بھی انھیں واپس لے لیا۔ اگلی صبح پرامید برمی کام پر آئے تو انھیں شدید مایوسی ہوئی، بعضے مشتعل ہو کر ہندوستانیوں پر ٹوٹ پڑے۔ اب جو سلسلہ چل نکلا تو پورا میانمار لپیٹ میں آ گیا۔ ان بیرونی کارکنوں میں چوںکہ مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی لہٰذا انھیں زیادہ زد پر لیا گیا اور جب ہاتھ کھل گیا تو نہ ہندوستانی مسلمان چھوڑا گیا اور نہ ہم وطن۔ نفرت کی شدت یہ رہی کہ پہلے آدھے گھنٹے ہی میں دو سو تارکین وطن قتل کرکے لاشیں پانی میں بہا دی گئیں۔ یہ واقعہ 26 مئی کا ہے اور اسے سیاہ دن Black Day کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
1938 میں مسلمانوں کے خلاف ایک بار پھر تحریک چلی۔ اس تحریک کا اصل ہدف تو فرنگی تھا لیکن برمی کھل کر سامنے آنے کی ہمت نہ رکھتے تھے سو انھوں نے قوم پرستی کی آڑ رکھ کر مسلمانوں کو زد پر لے لیا اور بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اتارا۔ ''میانمار صرف برمیوں کا ہے'' کے نعرے لگاتے بودھ، سورتی مسلمانوں کے بازار پر چڑھ دوڑے، بدقسمتی سے پولیس بھی ہندوستانی تھی، لاٹھی چارج ہوا تو تین بھکشو بھی زخمی ہوگئے۔ برمی اخباروں نے جلتی پر خوب خوب تیل ڈالا۔ مسلمانوں کے کاروبار لوٹے گئے، مکان نذر آتش کیے گئے، 113 مسجدیں مسمار کر دی گئیں۔ بلوے فرو ہوئے تو ستمبر 1938 میں سائمن کمیشن نے لیجس لیٹو کائونسل نے میانمار میں مسلم آبادیوں کے لیے مقامات مختص کرنے، اقلیتوں کو شہریت دینے اور مذہبی آزادیوں وغیرہ کے حقوق دینے کی سفارش کی۔ اس میں ہوم رول یا آزاد نو آبادیاتی درجہ (Dominion status) دینے کی سفارش بھی شامل تھی۔
جنگ عظیم دوئم سے کچھ ہی قبل میانمار میں دو سیاسی جماعتیں، میانمار مسلم کانگریس (BMC) اور انٹی فاشسٹ پیپلز فریڈم پارٹی (AFPFL) وجود میں آئیں۔ بی ایم سی کے صدر یُو رزاق اور دوسری کے سربراہ آنگ سان اور یُو نُو تھے۔ یو رزاق بعد میں AFPFL میں شامل ہوگئے اور 1946 میں اس پارٹی کے صدر چنے گئے۔ رزاق اتفاق سے بدھ مت کی زبان پالی کے عالم تھے سو بودھوں سے ان کی گاڑھی چھنتی تھی، آنگ سان کی حکومت میں مختلف وزارتوں پر فائز رہے اور مارے بھی ان ہی کے ساتھ گئے۔ ان کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے میانمار کے مسلمانوں کو یک سو کیا اور میانمار آزاد کرانے میں قابلِ قدر کردار ادا کیا تاہم ان پر یہ الزام عاید کیا جا سکتا ہے کہ انھوںنے دوسروں کی خوش نودی پر مسلم مفادات کو قربان کیا۔
آزادی کے کچھ ہی عرصے بعد وزیرِ اعظم یو نو کے اندر سے ان کا بودھ برآمد ہوا اور انھوں نے بدھ مت کو میانمار کا سرکاری مذہب قرار دے دیا، اپنے پیش روؤں کی طرح انھوں نے بھی جانور ذبح کرنے پر پابندی عاید کر دی البتہ عیدالاضحیٰ پر ایک لائسنس پر ایک جانور، پولیس کی نگرانی میں، قربان کرنے کی رعایت دی۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ آمر جنرل نَے وِِن نے ذبیحے پر سے عاید پابندی اٹھا لی تھی مگر ان کے بعد ایک بار پھر یہ پابندی عاید کی گئی جو تاحال جاری ہے۔ یونو حکومت کے دوران مسلمانوں کے لیے حج پر جانا بھی دشوار تر کر دیا تھا۔ 1962 میں جنرل نے ون نے جمہوریت کا تختہ الٹا اور اقتدار سنبھالتے ہی فوج سے مسلمانوں کو یک سر نکال باہر کیا۔
میانمار میں حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں عسکریت پسند مسلمان کوئی بھی کارروائی کریں، نزلہ میانمار کے مسلمانوں پر لازماً گرتا ہے۔ افغانستان میں جب عسکریت پسندوں نے 2001 میں دشتِ بامیان کے بدھا (مجسمے) کو نقصان پہنچایا تو بودھوں نے تاانگو کی مسجد کو بامیان کے بدلے میں مسمار کرنے کا مطالبہ جڑ دیا۔ اس دوران فسادات پھوٹے جن میں متعدد مسلمان مارے گئے۔
16 مارچ 1997 کو بدھا کے ایک معروف مجسمے کی تزئین و آرائش کی جارہی تھی، روایت ہے کہ اس مجسمے کے اندر ایک طلسمی یاقوت تھا، مقامی بودھوں کے عقیدے کے مطابق یہ یاقوت جس کے پاس ہو، وہ ہر حال میں فاتح ہوتا ہے۔ دوران تزئین اس مجسمے کے درمیان ایک بڑا سوراخ اور یاقوت غایب پایا گیا، حکومت نے محسوس کیا کہ بھکشو اس پر مشتعل ہوں گے تو ایک بودھ لڑکی پر مسلمانوں کے مجرمانہ حملے کی افواہ پھیلا دی گئی اور سچ مچ بودھوں کے غم و غصے کی رو مسلمانوں کی طرف پلٹ گئی بس پھر کیا تھا کوئی ڈیڑھ ہزار بودھوں اور بھکشوئوں نے مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں، گاڑیوں اور مساجد پر حملے شروع کردیے، مقدس کتابیں بھی نہ بخشیں، غرض سارا علاقہ تاراج کرکے رکھ دیا۔ بعد میں حقیقت حال اگرچہ کھلی لیکن تب تک مسلمانوں کا خانہ خراب کیا جا چکا تھا اور بودھوں کی بھڑاس بھی نکل چکی تھی، یاقوت کا کہیں کوئی اتا پتا نہیں ملا۔
2001 میں بھی سیکڑوں مسلمانوں کا قتل عام ہوا۔ یہ وہ موقع تھا جب افغانستان میں بامیان کے بدھا کو مسمار کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی جس کے جواب میں 15 مئی کو پیگو ڈویژن کے شہر تاانگو میں 200 سے زیادہ مسلمان قتل، گیارہ مسجدیں شہید اور 400 مکان راکھ کیے گئے، ہان تھا کی مسجد میں 20 مسلمان حالتِ نماز میں مارے گئے، فوجی ٹائوٹوں نے متعدد مسلمانوں کو مار مار کر مار دیا، 17 مئی کو کرفیو نافذ کر دیاگیا جو 12 جولائی تک جاری رہا۔ سرکاری اہل کاروں نے ہانتھا کی مسجد بلڈوز کر دی اور تاانگو کی مسجد پر تالے ڈال دیے جو مئی 2012 تک ڈلے رہے۔n
آزاد نیوروشیا کا خواب: مغربی میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی علیحدگی کی جدوجہد 1947 سے جاری تھی۔ یہاں مجاہدین تحریک 1961 تک جاری رہی۔ یہ مجاہدین اپنے علاقوں کا الحاق پاکستان کے ساتھ چاہتے تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اراکان اپنے علاقے مایو کی وساطت سے مشرقی پاکستان کو چھوتا تھا۔ جمعیت العلماء اسلام کے بینر تلے بھی یہاں مسلح جدوجہد ہوتی رہی۔ میانمار کی آزادی سے پہلے 1946 میں بعض مسلم رہ نمائوں نے قائداعظم محمد علی جناح سے ملاقات کی یا ان سے درخواست کی کہ وہ اراکان کو پاکستان میں شامل ہونے کی جدوجہد کی حمایت کریں، اس مقصد کے لیے اراکان مسلم لیگ بھی قائم کی گئی تاہم قائداعظم نے اس تجویز کو رد کر دیا۔
بعد میں مجاہدین نے میانمار کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کر دیا۔ چاولوں کے ایک بڑے ''بیوپاری'' عبدالقاسم ان مجاہدین کے رہ نما تھے۔ چند برس مجاہدین کام یابی سے شمالی اراکان پر قابض رہے۔ اس دوران حکومت میانمار کے الزام کے مطابق ہزاروں افراد کو مشرقی پاکستان سے اراکان لایا گیا۔ نومبر 1948 میں میانمار میں مارشل لا لگا اور فوج نے مجاہدین کے خلاف سخت اقدامات کیے جس کے نتیجے میں مجاہدین شمالی اراکان کے جنگلوں میں روپوش ہو گئے۔ 1954 میں مجاہدین نے ایک بار پھر زور پکڑا اور بعض علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا تاہم فوج نے آپریشن مان سون کیا تو مجاہدین کے قدم اکھڑ گئے۔
1971 میں جب مشرقی پاکستان کے خرابے پر بنگلہ دیش تعمیر ہو رہا تھا تو سرحدی روہنگی مسلمانوں کو ایک بار پھر اسلحہ جمع کرنے کا موقع مل گیا۔ 1972 میں ایک مجاہد ظفر نے روہنگیا لبریشن پارٹی ترتیب دی اور بکھری ہوئی مسلم تنظیموں کو یک جا کیا تاہم یہ لوگ بھی 1974 کے فوجی آپریشن میں تتربتر ہو گئے۔ 1978 میں نَے وِن نے ''آپریشن کنگ ڈریگن'' کے تحت اراکان میں غیر قانونی تارکین وطن کو پکڑنا شروع کیا، نتیجتاً ہزارہا مسلمان بنگلہ دیش میں داخل ہوگئے۔ وکی لیک کے مطابق اس دوران ان مجاہدین کے رابطے طالبان اور القاعدہ سے بھی ہوے اور انھوں نے افغانستان اور لیبیا میں گوریلا جنگ کی تربیتیں بھی حاصل کیں۔n
2012 کا اراکان : شمالی رکھائین میں روہنگی مسلمانوں اور رکھائنی بودھوں کے مابین فسادات کی بہ ظاہر کوئی نئی وجہ نظر نہیں آتی لہٰذا اس کے ڈانڈے تاریخ ہی میں تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ 2012 کے ماہِ جون کے فسادات کی بنیاد ایک خبر پر رکھی گئی ہے جس میں ایک رکھائنی خاتون پر چند روہنگی مسلمانوں کے مجرمانہ حملے اور اسے قتل کر دینے کی اطلاع تھی۔ یاد رہے کہ اس سے قبل بھی برمی فوجی جنتا نے ایک ایسے ہی مجرمانہ حملے کی جھوٹی خبر اڑا کر بودھوں کے اشتعال کو مسلمانوں کی طرف منتقل کیا تھا۔ اس بار بھی یہ خبر ملنے پر پہلے ہی ہلے ہیں کوئی درجن بھر روہنگی مسلمان مار دیے گئے۔ حکومت نے پہلے کرفیو نافذ کیا اور 10 جون کو ایمرجنسی لگا دی۔
22 جون تک 57 مسلمان مارے گئے، 90 ہزار افراد بے گھر ہوئے، 31 بودھ بھی ہلاک ہوے، اڑھائی ہزار سے زیادہ مکان جلائے گئے، ان میں 13 سو سے زیادہ گھر مسلمانوں کے تھے۔ اس سارے دورانیے میں مسلمانوں کے خلاف جی بھر کر امتیازی سلوک کیا گیا جس پر ایمنسٹی انٹرنیشنل اور حقوق انسانی کی تمام عالمی تنظیموں نے برمی حکومت کے لتے لیے۔ اس اثنا میں برمی صدر تھین سین نے اقوام متحدہ کو روہنگیا مسلمانوں کو کسی اور ملک میں منتقل کرنے کی تجویز دی جو سختی سے رد کر دی گئی۔ عالمی تنظیمیں برمی حکومت پر روہنگی مسلمانوں کو ''انسانی بحران'' سے دوچار کرنے، کیمپوں میں رکھنے اور امدادی کارکنوں کی گرفتاریوں پر لعن طعن کر رہی ہیں۔
ابھی پچھلے زخم ہرے تھے کہ اکتوبر کے اواخر میں حالات پھر بگڑ گئے۔ اس بار فسادات مِن بیا اور مرائوک سے آغاز ہوئے اور ریاست بھر میں پھیل گئے، 80 افراد مارے گئے، 46 سو مکانات جلائے گئے اور کوئی 22 ہزار افراد بے گھر کیے گئے، یوں اب تک بے گھر ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ مسلم بستیاں تاراج ہونے کا اعتراف صدر تھین سین نے خود بھی کیا ہے تاہم متاثرین کو امداد پہنچانے میں اب بھی رکاوٹیں ہیں اور ''ڈاکٹرز وِد آئوٹ بارڈرز'' کی تنظیم نے بھی نومبر میں اپنے کارکنوں کو علاقہ چھوڑ دینے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ ان کارکنوں کے خلاف بودھوں میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ اس طرح میانمار کے مسلمانوں پر استیصال کا ایک اور برس غروب ہونے جا رہا ہے۔
2012 کی جنوری:
میانمار میں جون 2012 کے فسادات سے چھے ماہ قبل یعنی جنوری میں ایک بنگلہ دیشی اخبار نے اطلاع دی کہ مختلف روہنگی عسکریت پسند گروہ بنگلہ دیش میں داخل ہو رہے ہیں جن میں روہنگیا سولیڈیریٹی آرگنائزیشن، اراکان موومنٹ، اراکان پیپلز فریڈم پارٹی اور اراکان نیشنل آرگنائزیشن بڑے نام ہیں، ان تنظیموں نے ایکا کرکے اراکان کو ''آزاد نیوروشیا'' کے نام سے الگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کے چوٹی کے رہ نمائوں میں آر ایس او کے چیئرمین محمد یونس اور آر این او کے صدر نورالاسلام کے نام شامل ہیں اور اتحاد کا نام اراکان روہنگیا یونین (ARU) تجویز کیاگیا ہے۔
جون میں اراکان میں فسادات کے آغاز کے دنوں میں بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ دیپومونی نے بنگلہ دیش کی ''جماعتِ اسلام'' پر الزام عائد کیا کہ وہ عسکریت پسند روہنگی مسلمانوں کی سرپرستی کر رہی ہے۔ ستمبر میں بنگلہ دیشی اخبار ڈیلی اسٹار کے مطابق اراکان میں جماعت الاراکان عسکری سرگرمیوں میں مصروف ہے، باور کیا جاتا ہے کہ وہ کالعدم بنگلہ دیشی ''جماعت المجاہدین'' کی شاخ ہے۔ اخبار نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ اراکان روہنگیا یونین، بنگلہ دیش اور اراکانی عسکریت پسندوں کا اکٹھ ہے اور ان کے تعلقات پاکستان کے چند دہشت گرد گروہوں سے بھی ہیں۔