امریکی انتخاب کا مستقبل اور اثرات

اب تک پاکستان میں عموماً ہر انتخاب کے بعد ہارنے والی پارٹی اپنی شکست کو عام طور پر تسلیم نہیں کرتی تھی

anisbaqar@hotmail.com

اب تک پاکستان میں عموماً ہر انتخاب کے بعد ہارنے والی پارٹی اپنی شکست کو عام طور پر تسلیم نہیں کرتی تھی، اور ہر انتخاب کے بعد ایک شور برپا ہوتا رہا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے، نتائج کی جانچ پڑتال کی جائے۔ یہی شور ذوالفقار علی بھٹو کے آخری انتخاب میں حزب اختلاف نے بھی کیا اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے ملکی باگ ڈور سنبھال لی، مگر امریکی انتخابات کی تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہ ہوا کہ ہارنے والا کسی حیلے بہانے سے یہ کہتا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا کوئی فریب ہوا۔

یہاں تک کہ 1860ء کی دہائی میں جب ابراہم لنکن کے دور میں امریکا خانہ جنگی کے دور سے گزر رہا تھا اس وقت بھی یہ نعرہ بلند نہ ہوا، مگر حالیہ امریکی انتخاب کے بعد جو آوازیں امریکی میڈیا خصوصاً سی این این، بی بی سی اور فوکس نیوز جو خبریں مسلسل نشر کر رہے ہیں یا وہاں تبصرے ہو رہے ہیں تو کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ انتقال اقتدار ہوگا بھی یا نہیں یا اقتدار منتقل ہونے کے بعد کوئی بڑی سیاسی کشمکش ہونے کو ہے۔ کیوں کہ معروف میڈیا سی این این کے انداز سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انھوں نے اب تک ٹرمپ کو امریکا کے انتخاب میں کامیاب ہونے والا حقیقی صدر نہیں مانا، بلکہ ہر روز نت نئے شگوفے ان چینلوں سے چھوڑے جا رہے ہیں۔

انتخاب کو ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ کچھ (Hack) ہیک کرنے کی خبر زور شور سے نشر ہونے لگی۔ یہاں تک کہ امریکی صدر اوباما بھی اپنے منطقی اور غیر منطقی ساز و سامان کے ساتھ میدان عمل میں آگئے اور روس پر واضح الفاظ میں الزامات عائد کرنے شروع کردیے۔ آخرکار روسی صدر ولادی میر پوتن کو بھی وضاحت کرنی پڑی کہ ایسا نہیں ہوا اور اگر ایسا ہوا تو پھر اس کا کوئی ثبوت دیا جائے۔ ٹرمپ نے واضح طور پر اس کی وضاحت کی کہ یہ ایک بے بنیاد گفتگو ہے۔ ایسی گفتگو نے امریکی امیج کو شدید نقصان پہنچایا۔ کیوں کہ صدر اوباما کے دور میں امریکی خارجہ حکمت عملی کو شدید دھچکا لگا، خصوصاً کریمیا اور شرق اوسط میں حلب کی جنگ میں عرب جانبازوں کو جو شکست ہوئی اس کا مداوا کرنے کی ضرورت پیش آئی۔

ایک سرگوشی یہ بھی سنی گئی کہ اب بشارالاسد کو اسلامی جنگجو تو گرا نہ سکے، لہٰذا شرق اوسط میں اب مارکسٹ جانباز گروپ ترتیب دیا جائے اور اگر ایسا گروپ نہ بنایا جاسکے تو کُرد جانباز جن کا نعرہ سوشلزم کا قیام ہے، ان کے کسی حلقے اور ان کے کسی اتحادی گروپ کو امریکی پالیسی کا ہمنوا بنایا جائے اور اس طرح مشرق وسطیٰ میں ایک نئی تحریک کو جنم دیا جائے، جو بشارالاسد حکومت کو فارغ کردے۔ مگر یہاں ایک بڑی مزاحمت خود امریکا میں موجود ہے، وہ ہے نئے صدر ٹرمپ کی، جو اپنی انتخابی تحریک کے دوران بشارالاسد کو شام کا اصل حکمران تسلیم کرتے رہے ہیں۔

ان کا یہ خیال امریکی اسٹیبلشمنٹ کے بالکل برعکس ہے۔ لہٰذا امریکا اپنی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں تضادات کا شکار رہے گا، کیوں کہ اگر دنیا میں جنگ کا خاتمہ اور شرق اوسط میں امن ہوگا تو امریکی اسلحہ جو ان کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے اس سے امریکی معیشت کو شدید نقصان ہوگا۔ بلکہ امریکی نئے صدر کا تو یہ کہنا ہے کہ وہ اقوام متحدہ پر یقین نہیں رکھتے اور اس کے ہیڈ کوارٹر کو کہیں اور لے جائیں، یہ تو بیکار لوگوں کی آماجگاہ ہے۔


اسی دوران پاکستان سے بھی ایک آواز اٹھی کہ ایک مسلم اقوام متحدہ ہونی چاہیے۔ یہ بھی ایک مذاق تھا کہ مسلم ممالک خود امریکا کے دست نگر اور اربوں ڈالر کے مقروض ہیں اور امریکی جنگی ہوائی جہازوں پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ خیر ایسے بیانات پاکستان کے سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

زیادہ تر مسلم ممالک امریکا کے ہم خیال ہیں اور بعض اسلامی ممالک آزاد خارجہ پالیسی کے خیال کو عملی جامہ پہنانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں، جن میں پاکستان سرفہرست ہے، جو علاقے میں امن کی راہ اختیار کر رہا ہے۔ جس کے اقتصادی اور سیاسی تعلقات چین اور روس سے مزید بہتر ہو رہے ہیں اور شرق اوسط کے کسی نئے مناقشے میں شرکت سے دور رہنے کا عندیہ دے رہا ہے اور نئی خارجہ حکمت عملی اختیار کر رہا ہے، کیوں کہ امریکا کے مستقبل کی کیا پالیسی ہوگی۔

فی الوقت شرق اوسط کے دو تازہ ایشو ہیں، اول فیڈریشن آف کردستان اور یمن کا تنازع۔ روس اور امریکا ممکن ہے صلح جوئی کی راہ اختیار کریں۔ کیوں کہ روس اور امریکا کے نئے لیڈروں میں بظاہر اچھے تعلقات ہیں۔ مگر ٹرمپ اور پوتن کس راہ پر چلتے ہیں۔ کیوں کہ صدر پوتن گوکہ وہ روسی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ہیں مگر ان کو عوامی حمایت بھی حاصل ہے جب کہ صدر ٹرمپ امریکی اسٹیبلشمنٹ سے کافی دور ہیں، کیوں کہ ان کی انتظامیہ میں یہودی کے بجائے عیسائی مشیر ہیں، جو عام طور پر امریکی حکومت کی روش نہیں رہی۔ گوکہ امریکا کے موجودہ آنے والے سربراہ یہودیوں کے خلاف نہیں مگر ان کے اتنے قریب نہیں جوکہ ماضی کا طریقہ کار تھا، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ امریکا کی خارجہ پالیسی ماضی میں اسرائیل کی لابی تشکیل دیتی رہی اور مغربی دنیا اس کی تائید کرتی رہی۔ اسی لیے فلسطین کا مسئلہ آج بھی سرد صندوق میں بند ہے۔ مگر صدر ٹرمپ نے ذرا سنبھل کر خارجہ حکمت عملی تشکیل دینے کی ٹھانی ہے۔

دیکھیں کہ نئے صدر وہائٹ ہاؤس منتقل ہونے کے بعد کیا گل کھلاتے ہیں۔ مگر ہلیری اور سابق صدر امریکا کے رویے سے اس کا اظہار ہوتا ہے کہ روس اور امریکا کی جو سرد جنگ از سر نو شروع ہوئی تھی، اس کا اختتام ہونے کو ہے اور دونوں ملکوں کے مابین شکوک اور شبہات کی جو صورت حال تھی اس میں کمی آجائے گی۔ ایسی صورت میں اس وقت شرق اوسط میں جو صورت حال رنگ بدل رہی ہے، اس میں کشیدگی باقی نہ رہے گی۔ مگر حالیہ دنوں میں مسلم ممالک کے نام سے جو 34 ملکی عسکری اتحاد بنا ہے بعض لوگ اس کو ایک نئی صورتحال سے تشبیہ دے رہے ہیں اور وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ مگر ایسا ہرگز نہیں، کیوں کہ یہ اتحاد حفظ ماتقدم کا ایک عمل ہے۔ مگر ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیاں عالمی موضوعات اور ممکنات پر توجہ دینے کی عادی نہیں، وہ اس وقت بیدار ہوتی ہیں جب کوئی نئی صورت حال سامنے آتی ہے۔

اس کی تازہ مثال امریکا کے نئے انتخابات کے بعد ایک پاکستانی اہم عہدیدار دس دن کے قریب امریکی صدر سے ملنے کے لیے امریکا میں مقیم رہے اور نئی انتظامیہ میں ہماری رسائی نہ ہوسکی۔ پاکستان نے خارجہ حکمت عملی پر توجہ دینی شروع کردی ہے، مگر ہنوز سیاسی عمل سست روی کا شکار ہے۔
Load Next Story