طیبہ کا مقدمہ اور سنگدل سماج
یوں تو سلگتی ہوئی سرخیاں صبح و شام ہمارے گرد رقصاں ہیں اور ہم عام طور پر سب کچھ بھول کر سو جاتے ہیں
PESHAWAR:
یوں تو سلگتی ہوئی سرخیاں صبح و شام ہمارے گرد رقصاں ہیں اور ہم عام طور پر سب کچھ بھول کر سو جاتے ہیں، لیکن ایڈیشنل سیشن جج کے گھر پر کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد نے ہمارے احساس کو جھلسا دیا ہے۔ ٹیلی ویژن کی خبریں جس طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں، اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ گلی گلی اور گھر گھر اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر بہت ممکن ہے کہ چند دن گزریں گے اور ہم یہ واقعہ بھول جائیں گے۔
زمانہ ہمیشہ کمزور پر ستم ڈھاتا ہے اور ایک لاوارث بچی سے بڑھ کر ناتواں کون ہوسکتا ہے۔ اگر شور و غل نہ ہوتا تو ایک منصف کے گھر میں ظلم کا شکار ہونے والی بچی کا مقدمہ بھی داخل دفتر ہوجاتا، عدلیہ نے ازخود نوٹس لیا ہے تو عین ممکن ہے کہ درد سے چور طیبہ کے زخموں کو مرہم میسر آ ہی جائے، شاہراہ دستور پر ایستادہ ایک عظیم الشان عمارت کی شان اور بڑھ جائے، لیکن طیبہ جیسے ان لاکھوں نہیں کروڑوں بچوں کا کیا ہوگا جو آج بھی کسی صاحب حیثیت کے گھر اچھوتوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد کے پوش علاقوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں بچوں سے جبری مشقت نہ لی جاتی ہو۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے ملکی سطح پر آخری سروے 1996ء میں ہوا، جس کے مطابق 3.3 ملین بچے بیگار کاٹ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے تحت 2012ء میں ہونے والے سروے سے معلوم ہوا کہ ایسے بچوں کی تعداد 12.5 ملین ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 25 ملین بچے جنھیں مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمے داری ہے، اسکول سے باہر ہیں۔ ظلم و جبر کے تھپیڑے سہتی طیبہ تو خوش قسمت ہے کہ میڈیا کی ایک زوردار لہر نے اسے منجدھار سے نکال کر ساحل پر پٹخ دیا، مگر ان طفلان قوم کا کیا ہوگا جو آج بھی کسی وکیل، کسی جج، کسی سول سرونٹ، کسی بزنس مین کے گھر میں اپنے مقدر پر آنسو بہارہے ہیں۔
چائلڈ لیبر کا مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے، اس کے علاوہ بیروزگاری، بہت کم شرح خواندگی بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جس ملک کی نصف کے قریب آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، وہاں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ غریب کے بچے کمسنی میں مشقت نہیں کریں گے تو ان کے خاندان کے لیے دو وقت روکھی سوکھی روٹی بھی کھانا ناممکن ہوجائے گا۔ ان خانماں برباد اور خاک بہ سر لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک حاصل نہیں، جسم ڈھانپنے کا بندوبست کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں، رہنے کے لیے مکان اور علم کا حصول تو ایسے خاندان کے افراد کے لیے سہانے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے عوام علم کی اہمیت سے آگاہ نہیں اور دوسری جانب طبقاتی نظام تعلیم نے غریب کے بچوں کے لیے علم کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا ہے۔ لہٰذا ناخواندہ خاندان کی نئی نسل بھی ناخواندہ رہتی ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔
حکومتوں کی بھی ترجیح کبھی بھی یہ نہیں رہی کہ وہ چائلڈ لیبر ختم کریں گی، اس لیے قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن وہ قوت نافذہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمان میں زیادہ تر وہ افراد پہنچتے ہیں جو جاگیردار یا صنعتکار ہوتے ہیں اور ان دونوں طبقات کے لیے چائلڈ لیبر کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
پاکستان میں اقتصادیات کے تینوں شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بڑی تعداد میں کمسن محنت کش اپنا جسم اور روح جلاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے دن نہیں بدلتے، ان میں سے بہت سے بچوں سے باقاعدہ غلاموں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ سگنل پر پھول بیچنے والے بچے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بچے، الاسٹک، کمر بند بیچنے والے بچے، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے بچے، مکینک کی دکانوں پر کام کرنیوالے بچے، گھروں میں کام کرنے والے بچے، کیا کیا یاد دلایا جائے۔
ہمارے پھول کی مانند بچے محض اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھلانے کے لیے صبح اسکول جانے کے بجائے محنت مشقت کے لیے نکلتے ہیں تو انھیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خوشحالی کے خواب سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ناخواندگی اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پھر انھیں اور ان کے والدین کو کون سمجھائے کہ کمسنی کی مشقت ان کی مشکلات وقتی طور پر تو کم کرسکتی ہے لیکن آگے چل کر یہ مشکلات نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں گی، ایسے میں یہ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ آگے آئے، ماہرین کے مطابق اگر ریاست غریبوں کے بچوں کے لیے بالخصوص سستی اور معیاری تعلیم کا موثر طریقے سے انتظام کردے تو یہ ظالم چکر وقت کے ساتھ کم ہوتا جائے گا اور ایک روز پاکستان میں کوئی کمسن محنت کش نظر نہیں آئے گا۔
ایک عربی کہاوت ہے کہ حکمرانوں کا دین ہی رعایا کا دین ہوتا ہے، اس لیے اتنا ضرور کہیں گے کہ سڑکیں بھی ضرور بنائیں، پل بھی بنائیں، موٹروے اور میٹرو بھی قابل تحسین ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ استاد کے کردار کی تعمیر پر بھی تھوڑی سی توجہ دیدیں، جو صرف علم سے ممکن ہے، تعلیم کو بھی عام کریں، بچوں کے اسکولوں کو بھینسوں کے باڑوں میں تبدیل نہ ہونے دیں، گورنمنٹ اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہ نہ دیں، ان کی اسکول حاضری کو یقینی بنائیں، کوشش کریں کہ ہمارے پیارے وطن کے ہر نونہال کے ہاتھ میں قلم اور کتاب ہو۔ ننھے منے پھولوں جیسے بچے جنھیں مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ایسے ہی دھکے کھا کھا کر اس قابل نہیں ہوں گے کہ اپنے ملک کی حفاظت کرسکیں اور اس کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرسکیں۔ انھیں اپنے خون سے سینچنا پڑے گا، کوشش کرنا ہوگی کہ بین کرتی چیخیں معصوم کلکاریوں میں تبدیل ہوجائیں، مایوسی اور ناامیدی کی جگہ خوشی اور امید ہو، روتے بلکتے بچوں کی جگہ ہنستے مسکراتے بچے نظر آئیں۔
لیکن جس ملک کی تاریخ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر کبھی جی ڈی پی کے دو فیصد سے زائد رقم خرچ نہ کی گئی ہو، جہاں ہر برس کھربوں روپے بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں، جہاں امیر اور غریب کے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نصاب علیحدہ ہوں، وہاں ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور جب ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر عالمی انسانی سرمائے کے انڈیکس میں بھی ہم غریب ترین ہی شمار ہوں گے، جب انسانی سرمایہ نہیں ہوگا تو یہاں کون سرمایہ کاری کرے گا اور ہم کیونکر ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے نکل سکیں گے؟ کیا ہم نے کبھی ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
یوں تو سلگتی ہوئی سرخیاں صبح و شام ہمارے گرد رقصاں ہیں اور ہم عام طور پر سب کچھ بھول کر سو جاتے ہیں، لیکن ایڈیشنل سیشن جج کے گھر پر کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد نے ہمارے احساس کو جھلسا دیا ہے۔ ٹیلی ویژن کی خبریں جس طرح ہمارے اعصاب پر سوار ہوجاتی ہیں، اس سے یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ گلی گلی اور گھر گھر اس موضوع پر گفتگو ہوئی ہوگی۔ ان تمام باتوں سے قطع نظر بہت ممکن ہے کہ چند دن گزریں گے اور ہم یہ واقعہ بھول جائیں گے۔
زمانہ ہمیشہ کمزور پر ستم ڈھاتا ہے اور ایک لاوارث بچی سے بڑھ کر ناتواں کون ہوسکتا ہے۔ اگر شور و غل نہ ہوتا تو ایک منصف کے گھر میں ظلم کا شکار ہونے والی بچی کا مقدمہ بھی داخل دفتر ہوجاتا، عدلیہ نے ازخود نوٹس لیا ہے تو عین ممکن ہے کہ درد سے چور طیبہ کے زخموں کو مرہم میسر آ ہی جائے، شاہراہ دستور پر ایستادہ ایک عظیم الشان عمارت کی شان اور بڑھ جائے، لیکن طیبہ جیسے ان لاکھوں نہیں کروڑوں بچوں کا کیا ہوگا جو آج بھی کسی صاحب حیثیت کے گھر اچھوتوں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد کے پوش علاقوں میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جہاں بچوں سے جبری مشقت نہ لی جاتی ہو۔
چائلڈ لیبر کے حوالے سے ملکی سطح پر آخری سروے 1996ء میں ہوا، جس کے مطابق 3.3 ملین بچے بیگار کاٹ رہے تھے۔ اقوام متحدہ کے تحت 2012ء میں ہونے والے سروے سے معلوم ہوا کہ ایسے بچوں کی تعداد 12.5 ملین ہے، تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 25 ملین بچے جنھیں مفت تعلیم کی سہولت فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمے داری ہے، اسکول سے باہر ہیں۔ ظلم و جبر کے تھپیڑے سہتی طیبہ تو خوش قسمت ہے کہ میڈیا کی ایک زوردار لہر نے اسے منجدھار سے نکال کر ساحل پر پٹخ دیا، مگر ان طفلان قوم کا کیا ہوگا جو آج بھی کسی وکیل، کسی جج، کسی سول سرونٹ، کسی بزنس مین کے گھر میں اپنے مقدر پر آنسو بہارہے ہیں۔
چائلڈ لیبر کا مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی چائلڈ لیبر کی سب سے بڑی وجہ غربت ہے، اس کے علاوہ بیروزگاری، بہت کم شرح خواندگی بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
جس ملک کی نصف کے قریب آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے، وہاں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ غریب کے بچے کمسنی میں مشقت نہیں کریں گے تو ان کے خاندان کے لیے دو وقت روکھی سوکھی روٹی بھی کھانا ناممکن ہوجائے گا۔ ان خانماں برباد اور خاک بہ سر لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتیں تک حاصل نہیں، جسم ڈھانپنے کا بندوبست کرتے ہیں تو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں، رہنے کے لیے مکان اور علم کا حصول تو ایسے خاندان کے افراد کے لیے سہانے خواب سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے عوام علم کی اہمیت سے آگاہ نہیں اور دوسری جانب طبقاتی نظام تعلیم نے غریب کے بچوں کے لیے علم کا حصول تقریباً ناممکن بنادیا ہے۔ لہٰذا ناخواندہ خاندان کی نئی نسل بھی ناخواندہ رہتی ہے اور یہ سلسلہ دہائیوں سے جاری ہے۔
حکومتوں کی بھی ترجیح کبھی بھی یہ نہیں رہی کہ وہ چائلڈ لیبر ختم کریں گی، اس لیے قوانین تو بن جاتے ہیں لیکن وہ قوت نافذہ سے محروم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پارلیمان میں زیادہ تر وہ افراد پہنچتے ہیں جو جاگیردار یا صنعتکار ہوتے ہیں اور ان دونوں طبقات کے لیے چائلڈ لیبر کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔
پاکستان میں اقتصادیات کے تینوں شعبوں یعنی زراعت، صنعت اور خدمات کے شعبوں میں بڑی تعداد میں کمسن محنت کش اپنا جسم اور روح جلاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے دن نہیں بدلتے، ان میں سے بہت سے بچوں سے باقاعدہ غلاموں کی طرح کام لیا جاتا ہے۔ سگنل پر پھول بیچنے والے بچے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے والے بچے، الاسٹک، کمر بند بیچنے والے بچے، اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے بچے، مکینک کی دکانوں پر کام کرنیوالے بچے، گھروں میں کام کرنے والے بچے، کیا کیا یاد دلایا جائے۔
ہمارے پھول کی مانند بچے محض اپنے گھر والوں کو دو وقت کی روکھی سوکھی روٹی کھلانے کے لیے صبح اسکول جانے کے بجائے محنت مشقت کے لیے نکلتے ہیں تو انھیں یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خوشحالی کے خواب سے قریب ہونے کے بجائے دور ہوتے جارہے ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ ناخواندگی اور غربت کا چولی دامن کا ساتھ ہے، پھر انھیں اور ان کے والدین کو کون سمجھائے کہ کمسنی کی مشقت ان کی مشکلات وقتی طور پر تو کم کرسکتی ہے لیکن آگے چل کر یہ مشکلات نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں گی، ایسے میں یہ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ آگے آئے، ماہرین کے مطابق اگر ریاست غریبوں کے بچوں کے لیے بالخصوص سستی اور معیاری تعلیم کا موثر طریقے سے انتظام کردے تو یہ ظالم چکر وقت کے ساتھ کم ہوتا جائے گا اور ایک روز پاکستان میں کوئی کمسن محنت کش نظر نہیں آئے گا۔
ایک عربی کہاوت ہے کہ حکمرانوں کا دین ہی رعایا کا دین ہوتا ہے، اس لیے اتنا ضرور کہیں گے کہ سڑکیں بھی ضرور بنائیں، پل بھی بنائیں، موٹروے اور میٹرو بھی قابل تحسین ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ استاد کے کردار کی تعمیر پر بھی تھوڑی سی توجہ دیدیں، جو صرف علم سے ممکن ہے، تعلیم کو بھی عام کریں، بچوں کے اسکولوں کو بھینسوں کے باڑوں میں تبدیل نہ ہونے دیں، گورنمنٹ اساتذہ کو گھر بیٹھے تنخواہ نہ دیں، ان کی اسکول حاضری کو یقینی بنائیں، کوشش کریں کہ ہمارے پیارے وطن کے ہر نونہال کے ہاتھ میں قلم اور کتاب ہو۔ ننھے منے پھولوں جیسے بچے جنھیں مستقبل میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے، ایسے ہی دھکے کھا کھا کر اس قابل نہیں ہوں گے کہ اپنے ملک کی حفاظت کرسکیں اور اس کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرسکیں۔ انھیں اپنے خون سے سینچنا پڑے گا، کوشش کرنا ہوگی کہ بین کرتی چیخیں معصوم کلکاریوں میں تبدیل ہوجائیں، مایوسی اور ناامیدی کی جگہ خوشی اور امید ہو، روتے بلکتے بچوں کی جگہ ہنستے مسکراتے بچے نظر آئیں۔
لیکن جس ملک کی تاریخ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں پر کبھی جی ڈی پی کے دو فیصد سے زائد رقم خرچ نہ کی گئی ہو، جہاں ہر برس کھربوں روپے بدعنوانی کی نذر ہوجاتے ہیں، جہاں امیر اور غریب کے تعلیمی ادارے اور تعلیمی نصاب علیحدہ ہوں، وہاں ایسا کیسے ممکن ہوسکتا ہے اور جب ایسا نہیں ہوسکتا تو پھر عالمی انسانی سرمائے کے انڈیکس میں بھی ہم غریب ترین ہی شمار ہوں گے، جب انسانی سرمایہ نہیں ہوگا تو یہاں کون سرمایہ کاری کرے گا اور ہم کیونکر ترقی پذیر ملکوں کی فہرست سے نکل سکیں گے؟ کیا ہم نے کبھی ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟