عالمی سیاسی حالات کی متوقع تیزی پہلا حصہ
عالمی سیاست سے بے خبر مقامی سیاست میں گم ہم کنوئیں کے اس مینڈک کی مانند ہیں جو باہر کی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے
عالمی سیاست سے بے خبر مقامی سیاست میں گم ہم کنوئیں کے اس مینڈک کی مانند ہیں جو باہر کی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے، جب کہ باہر کی دنیا کے مختلف تغیرات اس کے لیے اندرونی ماحول سے کہیں بڑھ کر اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ سیاسی اعتبار سے عالمی افق پر جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں وہ یقینا قابل غور ہی نہیں بلکہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر دعوت فکر بھی فراہم کرتی دکھائی دیتی ہے۔
ہر عہد میں دانشمندی کا تقاضا رہا ہے کہ ہوش مند اپنے حالات حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہوئے نہ صرف مستقبل بلکہ پائیدار مستقبل کی موثر منصوبہ بندی کریں، سازشیں ہر دور میں ہوئیں اور فتنے ہر عہد میں پھوٹے اور پروان چڑھے۔ حالات حاضرہ کی تازہ ترین صورتحال بھی یقینا باعث تشویش ہے۔
20 جنوری سے جس نئے امریکا کا جنم ہو رہا ہے وہ پرانے سے چار ہاتھ آگے معلوم ہوتا ہے۔ وہائٹ ہاؤس کے مکین کی تبدیلی کے ساتھ نظام، پالیسیوں اور نیو ورلڈ آرڈر میں کئی ایسی متضاد تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے جو بالعموم تمام دنیا اور بالخصوص اسلامی دنیا کے لیے ایک نیا چیلنج ثابت ہوسکتی ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کی متوقع پالیسیاں اسلام دشمن طاقتوں کو مزید تقویت دیتی معلوم ہوتی ہیں۔ 20 جنوری کے بعد اسرائیل کو نئے امریکی صدر کی مکمل حمایت حاصل ہوگی اور وہ مظلوم فلسطینیوں کے لیے نئے مصائب اور مشکلات پوری شد و مد کے ساتھ پیدا کرے گا۔
سلامتی کونسل کی قراردادیں تاریخ کا حصہ سہی، تاہم اسرائیل نے فلسطینیوں کے حق میں انھیں کبھی تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی کبھی تعمیل کی، کئی قراردادیں تو منظور ہی نہیں ہونے دی گئیں، یہی طرز سیاست خود بھارت کا بھی رہا، جس کے تناظر اور پس منظر میں ہمیں مظلوم فلسطینیوں کے ہمراہ مظلوم کشمیریوں کی درد میں ڈوبی آہ و بکا اور چیخیں سنائی دیتی رہی ہیں۔ اس سے مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور امریکا اور اس کی طفیلی بڑی طاقتوں کے معیار انصاف کا باآسانی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ خطے میں اسرائیل اور بھارت کی بدمعاشی خود ان ہی طاقتوں کی سرپرستی کی بدولت مسلسل پروان چڑھ رہی ہے۔
حلب اور برما کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں مسلمانوں کا لہو ارزاں ہے وہاں درحقیقت یہی اسلام دشمن عالمی طاقتیں کارفرما ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے سلامتی کونسل کی قرارداد کو مسترد کرنا کھلی دہشت گردی ہے، لیکن اس دہشت گردی کو پس پردہ ان ہی طاقتوں کی کھلی اور ڈھکی چھپی حمایت حاصل ہے جنھوں نے عالم اسلام کے قلب میں اس یہودی ریاست کا خنجر گھونپا۔ 1948ء میں طاقت کے زور پر فلسطین کے ٹکڑے کرکے دنیا بھر سے یہودیوں کو بلاکر یہاں جمع کرکے اس صہیونی مملکت کی بنیاد رکھی اور اپنی چھتری تلے اسے فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھلی چھٹی دے دی۔
1967ء میں بھی ان ہی طاقتوں سے اسرائیل کو بچایا اور آج ان ہی کے بل بوتے پر اسرائیل اب وہاں یہودیوں کو آباد کر رہا ہے جس کے خلاف عالم اسلام سراپا احتجاج ہے۔ یہودی بستی کی تعمیر کا اعلان سلامتی کونسل کے منہ پر ایک اور طمانچہ ہے۔ دوسری جانب بھارت پر امریکا کی نظر کرم اس کو امریکی حمایت سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اکسا رہی ہے، اس تناظر میں پاک چین دوستی اہمیت کی حامل ہے۔ چین سے قربت اور دوستی ہماری سلامتی، بقا اور دوام کے ضمن میں اہم سنگ میل ہے، یہ ہمارے لیے گویا آب حیات کا درجہ رکھتی ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کی ساڑھے چودہ سو سالہ تاریخ میں مسلمانوں پر ہزاروں قیامتیں ٹوٹیں لیکن ان سب کا منبع و مخرج ایک اور صرف ایک تھا۔ بارہویں صدی میں مشرق سے طوفان اٹھا اور کئی صدی جاری رہا۔ اس میں وسط ایشیا کے پرستاران توحید کی 4/5 حصہ آبادی پیوند خاک کی گئی۔ ابن اثیر نے کہا ''کاش میری ماں مجھے جنم نہ دیتی کہ میں ان حالات کے لکھنے کے لیے اس دنیا میں موجود ہوتا۔ مغرب سے گیارہویں صدی میں بجلیاں گرنی شروع ہوئیں اور بیت المقدس میں 75 ہزار مسلمان مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے تہ تیغ کیے گئے۔''
فخریہ یہ لکھا گیا کہ ''ان کافر مسلمانوں کا خون ان کی مسجدوں میں ہمارے گھوڑوں کے گھٹنوں تک ہے۔'' پہلی جنگ عظیم کے خاتمے پر جب جنرل ایلن بی بیت المقدس پر قبضے کے بعد وہاں پہنچا تو اس نے یہ الفاظ کہے ''آج صلیبی جنگوں کا اختتام ہوا ہے۔'' جب کہ انگلستان کے وزیراعظم لائر جارج نے کہا ''ہم نے وہ کارنامہ سر انجام دیا جو کروسیڈر (صلیبی جنگ آزما) انجام نہ دے سکے تھے''۔ اسی سلسلے میں ہسٹری آف رومانس، صفحہ 32 پر درج ہے کہ ''مسلمان کا گوشت کھا کر وہی تاثیر محسوس ہوئی جو سور کا گوشت کھانے کے بعد ہوتی ہے۔''
پہلی جنگ عظیم کے اختتام پر فرانسیسی جنرل گورو صلاح الدین ایوبی کی قبر پر آیا تو اس نے اس صلیبی جنگ میں اپنی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''اے صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں۔'' پچاس کی دہائی میں فرانسیسی وزارت خارجہ نے ایک عہدیدار نے کہا ''اسلامی دنیا ایک دیو ہے جسے جکڑ دیا گیا ہے۔ آؤ ہم اپنی تمام تر قوت لگا دیں تاکہ یہ دوبارہ نہ اٹھ سکے''۔
ساٹھ کی دہائی میں یوجین روسٹو، جوکہ اس وقت امریکا اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پلاننگ ڈویژن کا سربراہ اور صدر جانسن کا مشیر بھی تھا نے کہا ''مشرق وسطیٰ میں مغربی دنیا کا ہدف اسلامی تہذیب کو تباہ کرنا ہے اور اسرائیل کا قیام اس منصوبے کا ایک حصہ ہے اور یہ صلیبی جنگوں کے تسلسل کے سوا کچھ نہیں''۔ 1990ء کے آغاز میں صحافی ڈیوڈپال کا ایک مضمون ''تاریخ کے دھارے کی تبدیلی'' کے عنوان سے واشنگٹن پوسٹ اور جاپان ٹائمز میں شایع ہوا، جس میں اس نے کہا کہ ''سوویت یونین کے انہدام کے بعد اولین دشمن اسلام اور اس کی تہذیب ہے۔''
1990ء کے وسط میں ایک اور صلیبی سابق فرانسیسی وزیراعظم مائیکل ڈیبری نے اپنے ایک مضمون جو لوکوتھیڈین ڈبرے نامی اخبار میں شایع ہوا میں کہا کہ اسلام اب یورپ کا دشمن بن چکا ہے اور سب سے پہلے وہ فرانس کا دشمن ہے اور (فرانس کو) جنوب یعنی اسلامی خطوں سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ اسی طرح جرمن میگزین ڈیرش بیگل نے اپنے 1991ء کے آٹھویں شمارے میں ''مغربی تہذیب کو اسلام سے لاحق خطرات'' کے بارے میں ایک تحقیقی رپورٹ شایع کی، جس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ ''مغرب نے صلیبی جنگوں کے دوران بیت المقدس میں صلاح الدین کے ہاتھوں ہونے والی شکست کا بدلہ لے لیا ہے۔''
مغرب نے عالم اسلام سے دو مرتبہ اس کا بدلہ لیا، اول: مغرب نے اپنے آلہ کار سے خلافت جیسے اہم ترین ادارے کو ختم کراکے عالم اسلام کے اتحاد کو انتشار و افتراق اور خلفشار میں بدل دیا، دوم: اس نے اسلامی علاقوں کے عین قلب یعنی فلسطین میں یہودیوں کو ریاست قائم کرنے میں مدد دی اور اپنا بھرپور کردار ادا کیا، گویا صدیوں سے اہل مغرب کے دل اسلام و اہل اسلام کے خلاف نفرت و دشمنی سے لبریز ہیں۔
(جاری ہے)