بچھڑ جانے والوں سے ایک ملاقات
دسمبر کا کمبخت مہینہ آتا ہے تو بے چین روحوں کو یہ یاد آجاتا ہے کہ71ء میں اسی مہینے پاکستان کے ساتھ کیا واردات گزری
پہلے میر کا ایک شعر سن لیجیے۔۔
چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم تو سمجھے تھے کہ کمبخت یہ گزار گیا
کیا کیا جائے سال کے سال جب دسمبر کا کمبخت مہینہ آتا ہے تو تاریخیں گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر پھر کر ان بے چین روحوں کو جن کے حافظے نے ابھی جواب نہیں دیا ہے یہ یاد آجاتا ہے کہ 71ء میں اسی مہینے پاکستان کے ساتھ کیا واردات گزری تھی۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ جو ہم سمجھ رہے تھے کہ رات گئی بات گئی ویسی بات نہیں ہے۔ زخم ابھی مندمل نہیں ہوا ہے۔ تو سمجھ لیجیے کہ یہ زخم کے ہرا ہونے کا موسم ہے۔ کم از کم اخبارات پاکستان کے دولخت ہو جانے کے واقعے کو یاد کرنے کی رسم ضرور ادا کرتے ہیں۔
کیا مضائقہ ہے کہ اس واسطے سے ہم بھی اپنی ایک یاد قلمبند کر دیں۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ابھی ابھی بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ گزرا تھا اور پورے برصغیر میں ایک کشیدگی کا ماحول تھا۔ ایسے لوگوں کی ایک تنظیم نے جو ہندوستان پاکستان کے درمیان امن چین کے لیے کوشاں چلے آتے ہیں کھٹمنڈو میں ایک اجتماع کا ڈول ڈالا۔ اس تنظیم کے ناظم اعلیٰ نے جو جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے اس کی توجیہہ اس طرح کی کہ ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش یہ تینوں دیس بابری مسجد کے واقعہ سے متاثر ہوئے ہیں اور فضا بہت مکدر ہے۔ تو ہم نے سوچا کہ ان علاقوں سے دور ہمالہ کے دامن میں مل بیٹھیں اور تھوڑا سوچ بچار کریں۔ یہاں تقریریں نہیں ہوں گی۔ کوئی قرار داد منظور نہیں ہو گی۔ کوئی اخباری بیان جاری نہیں ہو گا۔ بس ہم غیر رسمی طور پر سوچ بچار کریں گے اور ہمارے دکھی دل جو سوچ رہے ہیں اسے بیان کریں گے۔
مگر اجلاس تو اگلی صبح کو ہونا تھا۔ یہ اس سے پہلے کی ایک شام یوں ہوا کہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے مہمان آ چکے تھے اور ڈنر ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ نیلم بشیر مجھ سے کچھ دور بیٹھی ایک خاتون سے مصروف گفتگو تھی۔ اچانک اس نے مجھے مخاطب کیا۔ ''انتظار صاحب' میں تو ان دنوں جب مشرقی پاکستان میں حالات خراب تھے میں تو بچی تھی۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں آپ کو وہ واقعات یاد ہوں گے۔ آپ شہید اللہ قیصر کو جانتے تھے''۔
''شہید اللہ قیصر؟'' میں چونکا۔
پاس بیٹھی بی بی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ''ہاں شہید اللہ قیصر۔ یہ ان کی بیگم ہیں پنا قیصر''۔
اب میں نے نگاہ بھر کرانھیں دیکھا۔ ایک روشن چہرے والی خاتون جو پاکستانی' ہندی بنگلہ مندوب بیبیاں وہاں بیٹھی تھیں ان میں سب سے روشن چہرہ یہی تھا۔
میں نے رکتے رکتے کہا ''ہاں میں انھیں اس حیثیت سے جانتا تھا کہ ہماری صحافیوں کی جو کل پاکستان تنظیم تھی اس کے لیڈروں میں وہ گنے جاتے تھے۔ اور ہاں ایک اور حیثیت سے بھی میں ان سے واقف ہوں۔ ان کے ایک بنگلہ ناول کا پاکستان رائٹرز گلڈ نے اردو میں ترجمہ کراکے چھاپا تھا۔ میں نے وہ ناول پڑھ رکھا ہے۔ تو میں انھیں ناول نگار کی حیثیت سے بھی جانتا ہوں''۔
کہنے لگیں ''آپ نے وہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ کس طرح رات کے وقت کچھ گھروں پر دستک ہوئی۔ ہمارے کچھ صحافیوں دانشوروں کو وہ لوگ پکڑ کر لے گئے اور پھر وہ واپس نہیں آئے''۔
یہ کہتے کہتے وہ رک گئیں۔ میں نے کہا ''ہاں ہمارے اخباروں میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی تھی اور خاص طور پر ہمارے صحافتی حلقوں میں اور ادیبوں دانشوروں کے حلقوں میں بہت پریشانی پھیلی تھی۔ ان میں سے زیادہ ایسے نام تھے جن سے رائٹرز گلڈ کے حوالے سے ہمارے ادیب اور صحافتی تنظیم کے واسطے سے ہمارے صحافی ان سے شناسا تھے بلکہ ان سے دوستانہ تعلقات تھے''۔
اتنے میں کھانا لگ گیا۔ اور ہم کھانے میں مصروف ہو گئے۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی اور چائے کا دور چلنے لگا تو ایک لڑکی میرے پاس آ بیٹھی۔ اس وقت تو وہ مجھے بچی ہی لگ رہی تھی۔ کتنی معصومیت سے اس نے مجھ سے پوچھا ''انکل' آپ میرے ابو کو جانتے تھے''۔
''ہاں میں نے تمہارے ابو کا نام بہت سنا تھا۔ وہ پاکستان کے بہت بڑے صحافی تھے اور ہاں وہ ناول نگار بھی تو بہت اچھے تھے۔ ان کا ایک ناول جو اردو میں ترجمہ ہو کر کراچی سے چھپا تھا۔ 'ملاح کی بیوی' وہ بھی میں نے پڑھا تھا۔ بہت اچھا ناول ہے''۔
اس نیک بخت پاکستانی صحافی کی معصوم بیٹی کو یہ سن کر کتنی تسکین ہوئی کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے ابو کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔
سو وہاں مہمان خانے سے ذرا فاصلے پر ایک اور چھوٹی سی عمارت تھی جہاں بنگلہ دیشی مندوبین ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان ہی کے ساتھ میرے اور اصغر علی انجینئر کے کمرے بھی تھے۔ دوسرے دن صبح ہم دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ وہی لڑکی جس نے اپنا نام شومی بتایا تھا۔ کیمرہ بدست نمودار ہوئی اور کیمرہ آنکھ سے لگاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی ''انکل میری طرف دیکھیے۔ اور انجینئر صاحب آپ بھی''۔ کھٹ کھٹ اس نے دو تصویریں کھینچ لیں اتنے میں پنا قیصر بھی نمودار ہوئیں۔ ''اماں آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیے۔ اور اس نے تیسری تصویر بھی کھینچ لی۔
مگر اس خوشگوار صبح کے بعد جو شام آئی وہ بہت درد بھری شام تھی ؎
پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
پنا قیصر نے جب زبان کھولی تو پھر اس ڈرائونی رات کا احوال جب ان کے دروازے پر دستک ہوئی تھی کچھ ایسے پر درد لہجہ میں سنایا اور بیان اتنا موثر تھا کہ بیان ختم ہو گیا اور سامعین کتنی دیر تک گم صم بیٹھے رہے۔ پھر ایک نے زبان کھولی کہا ابھی تو ہماری عقل گم ہے۔ بہتر ہو کہ انٹرول کا اعلان کر دیا جائے۔ اگلی نشست میں بولیں بات کریں گے۔ اور یہی ہوا۔
بس ذرا دیر بعد شومی میرے قریب آئی۔ بولی ''انکل' آپ کو یہ باتیں سن کر تکلیف ہوئی ہو گی۔ پتہ نہیں اماں کو اب یہ ذکر کرنا بھی چاہیے تھا یا نہیں''۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں۔ مگر ایک بات جس کا بعد میں مجھے احساس ہوا یہ تھی کہ پنا قیصر نے ادھر ادھر کا کوئی حوالہ نہیں دیا تھا۔ نہ حکومت پاکستان یا پاکستانی فوج کی طرف کوئی اشارہ نہ اپنی طرف کے مزاحمت کرنے والوں کا کوئی ذکر۔ ایسے سارے حوالوں سے پاک یہ بیان اپنی نجی مصیبت کا احوال تھا۔ یہی کہ وہ رات ان پر کیسے گزری۔ کیسے صبح ہوتے ہوئے وہ بیقرار ہو کر شوہر کو ڈھونڈنے نکلیں اور ڈھاکہ کی سڑکوں پر ماری ماری پھریں۔
وہ جو شکایت سننے میں آتی ہے کہ بنگلہ دیشی جب ہم سے کسی موقعے پر ملتے ہیں تو کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ مگر مجھے تو کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ اگلے دن صبح ہی صبح میرے کمرے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پنا قیصر کھڑی ہیں۔ بولیں ''ارے ابھی تک آپ تیار نہیں ہوئے ہیں۔ چلنا نہیں ہے''۔
میں نے تعجب سے پوچھا ''کہاں''
اس بستی کا بھلا سا نام تھا۔ جہاں اپنے ایک نیپالی میزبان کے ساتھ انھوں نے آج صبح جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس پروگرام کا حوالہ دیا۔ میں نے کہا ''مگر کیا مجھے بھی ادھر چلنا تھا''۔
''آپ کو بالکل ہمارے ساتھ چلنا ہے''۔
''بس پھر آپ مجھے پانچ منٹ کی مہلت دیں۔ کپڑے بدل کر ابھی آیا''۔
کپڑے بدل کر باہر نکلا تو بنگلہ بیبیاں تیار کھڑی تھیں۔ ہاں اور جو بزرگ جنھیں یہ سب ٹیگور بابا کہتے تھے۔ ان کی داڑھی بالکل ٹیگور والی تھی۔ وہ بیبیاں تو وہاں پہنچ کر خریدوفروخت میں مصروف ہو گئیں۔ میں نے ٹیگور بابا کے ساتھ ایک چائے کی دکان پر بیٹھ کر باتیں کر کے وقت گزارا۔
آخری صبح میں نے اپنے سابق ہموطنوں کو سلام آخر کہا۔ شومی کو جو ابھی سو رہی تھی اپنی طرف سے دعا کہی اور ایئر پورٹ کی طرف چل پڑا۔
چشم خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا
ہم تو سمجھے تھے کہ کمبخت یہ گزار گیا
کیا کیا جائے سال کے سال جب دسمبر کا کمبخت مہینہ آتا ہے تو تاریخیں گزرنے کے ساتھ ساتھ ہر پھر کر ان بے چین روحوں کو جن کے حافظے نے ابھی جواب نہیں دیا ہے یہ یاد آجاتا ہے کہ 71ء میں اسی مہینے پاکستان کے ساتھ کیا واردات گزری تھی۔ پتہ چلتا ہے کہ وہ جو ہم سمجھ رہے تھے کہ رات گئی بات گئی ویسی بات نہیں ہے۔ زخم ابھی مندمل نہیں ہوا ہے۔ تو سمجھ لیجیے کہ یہ زخم کے ہرا ہونے کا موسم ہے۔ کم از کم اخبارات پاکستان کے دولخت ہو جانے کے واقعے کو یاد کرنے کی رسم ضرور ادا کرتے ہیں۔
کیا مضائقہ ہے کہ اس واسطے سے ہم بھی اپنی ایک یاد قلمبند کر دیں۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب ابھی ابھی بابری مسجد کے انہدام کا واقعہ گزرا تھا اور پورے برصغیر میں ایک کشیدگی کا ماحول تھا۔ ایسے لوگوں کی ایک تنظیم نے جو ہندوستان پاکستان کے درمیان امن چین کے لیے کوشاں چلے آتے ہیں کھٹمنڈو میں ایک اجتماع کا ڈول ڈالا۔ اس تنظیم کے ناظم اعلیٰ نے جو جنوبی ہند سے تعلق رکھتے تھے اس کی توجیہہ اس طرح کی کہ ہندوستان پاکستان بنگلہ دیش یہ تینوں دیس بابری مسجد کے واقعہ سے متاثر ہوئے ہیں اور فضا بہت مکدر ہے۔ تو ہم نے سوچا کہ ان علاقوں سے دور ہمالہ کے دامن میں مل بیٹھیں اور تھوڑا سوچ بچار کریں۔ یہاں تقریریں نہیں ہوں گی۔ کوئی قرار داد منظور نہیں ہو گی۔ کوئی اخباری بیان جاری نہیں ہو گا۔ بس ہم غیر رسمی طور پر سوچ بچار کریں گے اور ہمارے دکھی دل جو سوچ رہے ہیں اسے بیان کریں گے۔
مگر اجلاس تو اگلی صبح کو ہونا تھا۔ یہ اس سے پہلے کی ایک شام یوں ہوا کہ ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش کے مہمان آ چکے تھے اور ڈنر ٹیبل کے ارد گرد بیٹھے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ نیلم بشیر مجھ سے کچھ دور بیٹھی ایک خاتون سے مصروف گفتگو تھی۔ اچانک اس نے مجھے مخاطب کیا۔ ''انتظار صاحب' میں تو ان دنوں جب مشرقی پاکستان میں حالات خراب تھے میں تو بچی تھی۔ مجھے تو کچھ یاد نہیں آپ کو وہ واقعات یاد ہوں گے۔ آپ شہید اللہ قیصر کو جانتے تھے''۔
''شہید اللہ قیصر؟'' میں چونکا۔
پاس بیٹھی بی بی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ''ہاں شہید اللہ قیصر۔ یہ ان کی بیگم ہیں پنا قیصر''۔
اب میں نے نگاہ بھر کرانھیں دیکھا۔ ایک روشن چہرے والی خاتون جو پاکستانی' ہندی بنگلہ مندوب بیبیاں وہاں بیٹھی تھیں ان میں سب سے روشن چہرہ یہی تھا۔
میں نے رکتے رکتے کہا ''ہاں میں انھیں اس حیثیت سے جانتا تھا کہ ہماری صحافیوں کی جو کل پاکستان تنظیم تھی اس کے لیڈروں میں وہ گنے جاتے تھے۔ اور ہاں ایک اور حیثیت سے بھی میں ان سے واقف ہوں۔ ان کے ایک بنگلہ ناول کا پاکستان رائٹرز گلڈ نے اردو میں ترجمہ کراکے چھاپا تھا۔ میں نے وہ ناول پڑھ رکھا ہے۔ تو میں انھیں ناول نگار کی حیثیت سے بھی جانتا ہوں''۔
کہنے لگیں ''آپ نے وہ واقعہ تو سنا ہو گا کہ کس طرح رات کے وقت کچھ گھروں پر دستک ہوئی۔ ہمارے کچھ صحافیوں دانشوروں کو وہ لوگ پکڑ کر لے گئے اور پھر وہ واپس نہیں آئے''۔
یہ کہتے کہتے وہ رک گئیں۔ میں نے کہا ''ہاں ہمارے اخباروں میں یہ خبر نمایاں طور پر شایع ہوئی تھی اور خاص طور پر ہمارے صحافتی حلقوں میں اور ادیبوں دانشوروں کے حلقوں میں بہت پریشانی پھیلی تھی۔ ان میں سے زیادہ ایسے نام تھے جن سے رائٹرز گلڈ کے حوالے سے ہمارے ادیب اور صحافتی تنظیم کے واسطے سے ہمارے صحافی ان سے شناسا تھے بلکہ ان سے دوستانہ تعلقات تھے''۔
اتنے میں کھانا لگ گیا۔ اور ہم کھانے میں مصروف ہو گئے۔ جب کھانے سے فراغت ہوئی اور چائے کا دور چلنے لگا تو ایک لڑکی میرے پاس آ بیٹھی۔ اس وقت تو وہ مجھے بچی ہی لگ رہی تھی۔ کتنی معصومیت سے اس نے مجھ سے پوچھا ''انکل' آپ میرے ابو کو جانتے تھے''۔
''ہاں میں نے تمہارے ابو کا نام بہت سنا تھا۔ وہ پاکستان کے بہت بڑے صحافی تھے اور ہاں وہ ناول نگار بھی تو بہت اچھے تھے۔ ان کا ایک ناول جو اردو میں ترجمہ ہو کر کراچی سے چھپا تھا۔ 'ملاح کی بیوی' وہ بھی میں نے پڑھا تھا۔ بہت اچھا ناول ہے''۔
اس نیک بخت پاکستانی صحافی کی معصوم بیٹی کو یہ سن کر کتنی تسکین ہوئی کہ پاکستان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس کے ابو کو محبت سے یاد کرتے ہیں۔
سو وہاں مہمان خانے سے ذرا فاصلے پر ایک اور چھوٹی سی عمارت تھی جہاں بنگلہ دیشی مندوبین ٹھہرے ہوئے تھے۔ ان ہی کے ساتھ میرے اور اصغر علی انجینئر کے کمرے بھی تھے۔ دوسرے دن صبح ہم دونوں لان میں بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ وہی لڑکی جس نے اپنا نام شومی بتایا تھا۔ کیمرہ بدست نمودار ہوئی اور کیمرہ آنکھ سے لگاتے ہوئے مجھ سے مخاطب ہوئی ''انکل میری طرف دیکھیے۔ اور انجینئر صاحب آپ بھی''۔ کھٹ کھٹ اس نے دو تصویریں کھینچ لیں اتنے میں پنا قیصر بھی نمودار ہوئیں۔ ''اماں آپ بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائیے۔ اور اس نے تیسری تصویر بھی کھینچ لی۔
مگر اس خوشگوار صبح کے بعد جو شام آئی وہ بہت درد بھری شام تھی ؎
پر ہوں میں شکوے سے یوں راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے
پنا قیصر نے جب زبان کھولی تو پھر اس ڈرائونی رات کا احوال جب ان کے دروازے پر دستک ہوئی تھی کچھ ایسے پر درد لہجہ میں سنایا اور بیان اتنا موثر تھا کہ بیان ختم ہو گیا اور سامعین کتنی دیر تک گم صم بیٹھے رہے۔ پھر ایک نے زبان کھولی کہا ابھی تو ہماری عقل گم ہے۔ بہتر ہو کہ انٹرول کا اعلان کر دیا جائے۔ اگلی نشست میں بولیں بات کریں گے۔ اور یہی ہوا۔
بس ذرا دیر بعد شومی میرے قریب آئی۔ بولی ''انکل' آپ کو یہ باتیں سن کر تکلیف ہوئی ہو گی۔ پتہ نہیں اماں کو اب یہ ذکر کرنا بھی چاہیے تھا یا نہیں''۔
میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں۔ مگر ایک بات جس کا بعد میں مجھے احساس ہوا یہ تھی کہ پنا قیصر نے ادھر ادھر کا کوئی حوالہ نہیں دیا تھا۔ نہ حکومت پاکستان یا پاکستانی فوج کی طرف کوئی اشارہ نہ اپنی طرف کے مزاحمت کرنے والوں کا کوئی ذکر۔ ایسے سارے حوالوں سے پاک یہ بیان اپنی نجی مصیبت کا احوال تھا۔ یہی کہ وہ رات ان پر کیسے گزری۔ کیسے صبح ہوتے ہوئے وہ بیقرار ہو کر شوہر کو ڈھونڈنے نکلیں اور ڈھاکہ کی سڑکوں پر ماری ماری پھریں۔
وہ جو شکایت سننے میں آتی ہے کہ بنگلہ دیشی جب ہم سے کسی موقعے پر ملتے ہیں تو کھنچے کھنچے رہتے ہیں۔ مگر مجھے تو کوئی ایسا تجربہ نہیں ہوا۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ اگلے دن صبح ہی صبح میرے کمرے پر دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو دیکھا کہ پنا قیصر کھڑی ہیں۔ بولیں ''ارے ابھی تک آپ تیار نہیں ہوئے ہیں۔ چلنا نہیں ہے''۔
میں نے تعجب سے پوچھا ''کہاں''
اس بستی کا بھلا سا نام تھا۔ جہاں اپنے ایک نیپالی میزبان کے ساتھ انھوں نے آج صبح جانے کا پروگرام بنایا تھا۔ اس پروگرام کا حوالہ دیا۔ میں نے کہا ''مگر کیا مجھے بھی ادھر چلنا تھا''۔
''آپ کو بالکل ہمارے ساتھ چلنا ہے''۔
''بس پھر آپ مجھے پانچ منٹ کی مہلت دیں۔ کپڑے بدل کر ابھی آیا''۔
کپڑے بدل کر باہر نکلا تو بنگلہ بیبیاں تیار کھڑی تھیں۔ ہاں اور جو بزرگ جنھیں یہ سب ٹیگور بابا کہتے تھے۔ ان کی داڑھی بالکل ٹیگور والی تھی۔ وہ بیبیاں تو وہاں پہنچ کر خریدوفروخت میں مصروف ہو گئیں۔ میں نے ٹیگور بابا کے ساتھ ایک چائے کی دکان پر بیٹھ کر باتیں کر کے وقت گزارا۔
آخری صبح میں نے اپنے سابق ہموطنوں کو سلام آخر کہا۔ شومی کو جو ابھی سو رہی تھی اپنی طرف سے دعا کہی اور ایئر پورٹ کی طرف چل پڑا۔