عرب بہار کا پاکستان میں ظہور
2014ء میں امریکی فوج کے انخلاء کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کا ’’آغاز‘‘ ہوگیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ مفاہمت ہمارا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ ایک طرف ہم دہشت گردی کے سامنے سب سے بڑی دیوار اور دوسری طرف ''وہ'' ہیں جو دہشت گردوں کا نام لینے سے بھی ڈرتے ہیں۔ ایک بلور شہید ہوگا تو ہزاروں بلور سامنے آئیں گے۔ ایک ملالہ پر حملہ ہوگا تو ہزاروں ملالائیں پیدا ہوں گی۔ ہمارا راستہ جمہوریت کا راستہ ہے۔ اس راستے میں آنسو بھی ہیں اور پتھر بھی۔ وہ لوگ یہیں سے واپس لوٹ جائیں جنھیں زندگی پیاری ہو۔ آج جمہوریت کے سائے میں بیٹھنے والے یاد رکھیں یہ جمہوریت ہم لے کر آئے ہیں اور اس کی حفاظت بھی ہم ہی کریں گے۔ دہشت گردی اور سیلاب کے باوجود معیشت اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔
ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ ہیں۔ عالمی معاشی بحران، دہشت گردی اور سیلاب نے ملک کو بہت نقصان پہنچالیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے نانا کو پھانسی اور ماں کو سرعام قتل کیا گیا۔ ہزاروں ورکرز کی جان لے لی گئی مگر ہم پاکستان سے نہیں بھاگے نہ ہی پاکستان کو چھوڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری صدر ایوان صدر میں آیا تو لوگوں کی نیندیں کیوں اڑ گئیں۔ انھیں ایوان صدر میں جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کیوں نہیں نظر آئے۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ رگوں میں خون کھول رہا ہے لیکن ہم خاموش ہیں کیونکہ ہم نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جس سوسائٹی میں انصاف نہیں ہوتا، وہ سوسائٹی قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیتی ہے، پھر اس پر طالبان جیسی قوتیں راج کرتی ہیں۔
اسی موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہوں گے۔ جیالے اگلی باری کی تیاری کرلیں۔ اپوزیشن کے مشورے سے متفقہ نگران وزیراعظم لائیں گے جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہوگا۔ بلاول نے پڑھائی مکمل کرلی ہے، اب عوام کی سوچ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ بلاول کے انکلز بے نظیر کے انکلز کی طرح انھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہم ایوان صدر میں 12 سال بعد قید تنہائی کاٹ کر آئے ہیں۔ ہم گھبرانے والے نہیں۔ ہم نے برداشت کیا ہے۔ برداشت کرنا ظلم کرنے سے زیادہ بہادری ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلے گا۔ زرداری نے کہا کہ لیبیا اور مصر میں آنے والے انقلاب کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ پاکستان میں بھی ایسا انقلاب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسا انقلاب بے نظیر کی شہادت کے بعد بھی آسکتا تھا اور خانہ جنگی شروع ہوسکتی تھی لیکن ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اس کو ناکام بنا دیا اور اب بھی ہم پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلنے دیں گے۔ اصغر خاں کیس میں بہت سے نقاب پوشوں کے نقاب اترے ہیں۔ ابھی مزید نقاب اتریں گے۔ ہم اڑن کھٹولوں پر نہیں آئے کہ گھبرا جائیں گے یا ڈر جائیں گے۔ ہم نے برداشت کا ایک پیمانہ دیا ہے۔ اب اسی پیمانے پر سب کو چلنا ہوگا۔ صدر نے کہا کہ سیاست کرنا اور ملک کو سنوارنا ایک دن کا کام نہیں۔ اس کے لیے زندگی وقف کرنا پڑتی ہے۔ اب بھی بہت سی اندرونی اور بیرونی طاقتیں ہیں جو پاکستان میں شر پھیلا رہی ہیں مگر انشاء اللہ عوام کی طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے۔
اس پاکستان میں کوئی شک نہیں کہ بلاول بھٹو کا سیاست میں آغاز بھر پور تھا اور اس حوالے سے انھیں پورے نمبر دیے جاسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی شکل و شباہت اور آواز اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو خاص طور پر اپنی والدہ پر گئی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود بلاول کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نہ 70ء ہے اور نہ 77ء اور 79ء بھی نہیں ہے اور نہ ہی دسمبر 07ء ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت کچھ گزر چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں آئیں، وہ مصنوعی اور نظر کا دھوکہ تھیں کیونکہ ابھی سوویت یونین کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، اب دنیا حقیقی معنوں میں ''تبدیلی'' کی طرف جارہی ہے۔ ایسی تبدیلی جس میں سامراجی سرمایہ دارانہ مفادات محفوظ سے محفوظ تر ہوں لیکن خطے کے عوام کو بھی ''پہلی مرتبہ کچھ آزادیوں'' کی ہوا لگنے دی جائے، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی شکل میں۔
لیکن یہ تمام آزادیاں اور ان کی خوراک نپی تلی ہوگی تاکہ اس عطا کردہ آزادی سے نہ تو ان کے پیٹ خراب ہوں اور نہ ہی ان کے دماغ۔ ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرات کو بھی ان دی گئی آزادیوں کے ذریعے کم کیا جاسکے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنی تقریر میں مصری ماڈل کی بات کی ہے۔ مصری ماڈل یا امریکی بہار عرب نئے دور کا تیربہدف نسخہ ہے جس کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک بسے مسلمانوں کی بہت سی ''بیماریوں'' کا ''شافی علاج'' کیا جاسکے گا۔ اور اسی سلسلے کے نفاذ کی سب سے اہم ترین کڑی جناب طاہر القادری پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ جناب قادری پر لعن طعن سے کچھ نہیں بنے گا۔ اس وقت پاکستانی قوم کا اصل مسئلہ بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہے۔
صرف جمہوریت جمہوریت کا ورد کرنے سے عوام راضی نہیں ہوگی نہ اس سے بات بنے گی۔ اگر صرف جمہوریت ہی کافی اور شافی ہوتی تو ہمارے پڑوس بھارت میں تو جمہوریت پچھلے 65 سال سے پورے آب و تاب سے چمک رہی ہے لیکن وہاں نصف آبادی کو روزانہ بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر آتا ہے جب کہ وہاں سرمایہ دارانہ نظام آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی شکل میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے اور مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک عطا کردہ جمہوریتوں کی شکل میں ان پر چیک کے لیے عدالتی فعالیت کا ''تحفہ'' مل بھی رہا ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں اسی مصری ماڈل کا ذکر چکا ہوں اور صدر زرداری نے اپنے باخبر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میری ہی بات کی تائید کی ہے۔
بہرحال 2014ء میں امریکی فوج کے انخلاء کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کا ''آغاز'' ہوگیا ہے۔ چاہے یہ جناب طاہر القادری کی آمد کی شکل میں ہو یا طالبان کی طرف سے مذاکرات کی شکل میں۔ امریکی بہار عرب کا پاکستان میں ظہور ہونے جارہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی نظر میں سیکولر جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی شکل میں جمعیت العلمائے اسلام کب اس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔
...پاکستان میں انتخابات کب ہوں گے ۔ اس کا پتہ فروری کے تیسرے ہفتے میں چلے گا جس کا آغاز جنوری کے تیسرے ہفتے سے ہوجائے گا۔
...وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی صحت کے حوالے سے 9 سے 12 جنوری اہم وقت ہے جس کا آغاز 5 جنوری سے ہوجائے گا۔
ہمارے سامنے مشکلات کے پہاڑ ہیں۔ عالمی معاشی بحران، دہشت گردی اور سیلاب نے ملک کو بہت نقصان پہنچالیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ میرے نانا کو پھانسی اور ماں کو سرعام قتل کیا گیا۔ ہزاروں ورکرز کی جان لے لی گئی مگر ہم پاکستان سے نہیں بھاگے نہ ہی پاکستان کو چھوڑیں گے۔ انھوں نے کہا کہ جمہوری صدر ایوان صدر میں آیا تو لوگوں کی نیندیں کیوں اڑ گئیں۔ انھیں ایوان صدر میں جنرل ضیاء اور پرویز مشرف کیوں نہیں نظر آئے۔ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ رگوں میں خون کھول رہا ہے لیکن ہم خاموش ہیں کیونکہ ہم نظام قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ جس سوسائٹی میں انصاف نہیں ہوتا، وہ سوسائٹی قانون کا احترام کرنا چھوڑ دیتی ہے، پھر اس پر طالبان جیسی قوتیں راج کرتی ہیں۔
اسی موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ انتخابات کسی صورت ملتوی نہیں ہوں گے۔ جیالے اگلی باری کی تیاری کرلیں۔ اپوزیشن کے مشورے سے متفقہ نگران وزیراعظم لائیں گے جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہوگا۔ بلاول نے پڑھائی مکمل کرلی ہے، اب عوام کی سوچ کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔ بلاول کے انکلز بے نظیر کے انکلز کی طرح انھیں چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ ہم ایوان صدر میں 12 سال بعد قید تنہائی کاٹ کر آئے ہیں۔ ہم گھبرانے والے نہیں۔ ہم نے برداشت کیا ہے۔ برداشت کرنا ظلم کرنے سے زیادہ بہادری ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلے گا۔ زرداری نے کہا کہ لیبیا اور مصر میں آنے والے انقلاب کو دیکھتے ہوئے کئی لوگ پاکستان میں بھی ایسا انقلاب لانے کی کوشش کررہے ہیں اور ایسا انقلاب بے نظیر کی شہادت کے بعد بھی آسکتا تھا اور خانہ جنگی شروع ہوسکتی تھی لیکن ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر اس کو ناکام بنا دیا اور اب بھی ہم پاکستان میں مصری ماڈل نہیں چلنے دیں گے۔ اصغر خاں کیس میں بہت سے نقاب پوشوں کے نقاب اترے ہیں۔ ابھی مزید نقاب اتریں گے۔ ہم اڑن کھٹولوں پر نہیں آئے کہ گھبرا جائیں گے یا ڈر جائیں گے۔ ہم نے برداشت کا ایک پیمانہ دیا ہے۔ اب اسی پیمانے پر سب کو چلنا ہوگا۔ صدر نے کہا کہ سیاست کرنا اور ملک کو سنوارنا ایک دن کا کام نہیں۔ اس کے لیے زندگی وقف کرنا پڑتی ہے۔ اب بھی بہت سی اندرونی اور بیرونی طاقتیں ہیں جو پاکستان میں شر پھیلا رہی ہیں مگر انشاء اللہ عوام کی طاقت سے ان کا مقابلہ کریں گے۔
اس پاکستان میں کوئی شک نہیں کہ بلاول بھٹو کا سیاست میں آغاز بھر پور تھا اور اس حوالے سے انھیں پورے نمبر دیے جاسکتے ہیں۔ بلاول بھٹو کی شکل و شباہت اور آواز اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو خاص طور پر اپنی والدہ پر گئی ہے لیکن ان سب باتوں کے باوجود بلاول کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ نہ 70ء ہے اور نہ 77ء اور 79ء بھی نہیں ہے اور نہ ہی دسمبر 07ء ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت کچھ گزر چکا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برصغیر اور مشرق وسطیٰ میں جو تبدیلیاں آئیں، وہ مصنوعی اور نظر کا دھوکہ تھیں کیونکہ ابھی سوویت یونین کا خاتمہ نہیں ہوا تھا، اب دنیا حقیقی معنوں میں ''تبدیلی'' کی طرف جارہی ہے۔ ایسی تبدیلی جس میں سامراجی سرمایہ دارانہ مفادات محفوظ سے محفوظ تر ہوں لیکن خطے کے عوام کو بھی ''پہلی مرتبہ کچھ آزادیوں'' کی ہوا لگنے دی جائے، آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی شکل میں۔
لیکن یہ تمام آزادیاں اور ان کی خوراک نپی تلی ہوگی تاکہ اس عطا کردہ آزادی سے نہ تو ان کے پیٹ خراب ہوں اور نہ ہی ان کے دماغ۔ ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کو لاحق خطرات کو بھی ان دی گئی آزادیوں کے ذریعے کم کیا جاسکے۔ صدر آصف علی زرداری نے بھی اپنی تقریر میں مصری ماڈل کی بات کی ہے۔ مصری ماڈل یا امریکی بہار عرب نئے دور کا تیربہدف نسخہ ہے جس کے ذریعے مشرق وسطیٰ سے برصغیر تک بسے مسلمانوں کی بہت سی ''بیماریوں'' کا ''شافی علاج'' کیا جاسکے گا۔ اور اسی سلسلے کے نفاذ کی سب سے اہم ترین کڑی جناب طاہر القادری پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ جناب قادری پر لعن طعن سے کچھ نہیں بنے گا۔ اس وقت پاکستانی قوم کا اصل مسئلہ بیروزگاری، مہنگائی اور غربت کا خاتمہ ہے۔
صرف جمہوریت جمہوریت کا ورد کرنے سے عوام راضی نہیں ہوگی نہ اس سے بات بنے گی۔ اگر صرف جمہوریت ہی کافی اور شافی ہوتی تو ہمارے پڑوس بھارت میں تو جمہوریت پچھلے 65 سال سے پورے آب و تاب سے چمک رہی ہے لیکن وہاں نصف آبادی کو روزانہ بمشکل ایک وقت کا کھانا میسر آتا ہے جب کہ وہاں سرمایہ دارانہ نظام آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی شکل میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جارہا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی کچھ ہونے جارہا ہے اور مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک عطا کردہ جمہوریتوں کی شکل میں ان پر چیک کے لیے عدالتی فعالیت کا ''تحفہ'' مل بھی رہا ہے۔ اپنے گزشتہ کالم میں اسی مصری ماڈل کا ذکر چکا ہوں اور صدر زرداری نے اپنے باخبر ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے میری ہی بات کی تائید کی ہے۔
بہرحال 2014ء میں امریکی فوج کے انخلاء کے اثرات پاکستان پر مرتب ہونے کا ''آغاز'' ہوگیا ہے۔ چاہے یہ جناب طاہر القادری کی آمد کی شکل میں ہو یا طالبان کی طرف سے مذاکرات کی شکل میں۔ امریکی بہار عرب کا پاکستان میں ظہور ہونے جارہا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ طالبان کی نظر میں سیکولر جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمن کی شکل میں جمعیت العلمائے اسلام کب اس کا حصہ بننے جارہے ہیں۔
...پاکستان میں انتخابات کب ہوں گے ۔ اس کا پتہ فروری کے تیسرے ہفتے میں چلے گا جس کا آغاز جنوری کے تیسرے ہفتے سے ہوجائے گا۔
...وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز کی صحت کے حوالے سے 9 سے 12 جنوری اہم وقت ہے جس کا آغاز 5 جنوری سے ہوجائے گا۔