سیکیورٹی خطرات… جنرل کیانی کی وارننگ

جنرل کیانی ایک محب وطن سپہ سالار کی طرح اپنا فریضہ نبھائیں، میرا نحیف قلم ان کے ساتھ ہے۔

ghalib1947@gmail.com

ڈاکٹر طاہرالقادری کے سلسلہ کالم کو درمیان میں چھوڑ کر مجھے خطرے کی اس گھنٹی کی طرف قوم کی توجہ مبذول کرانی ہے جو جنرل کیانی نے بجائی ہے، وہ بری فوج کے سربراہ ہیں لیکن ان کی عزت یہ ہے کہ بحریہ کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں بھی انھیں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کیا گیا ہے، یہ رتبہ بلند ملا، جس کو مل گیا۔اس تقریب میں جو کراچی میں منعقد ہوئی، جنرل کیانی نے جو کچھ کہا ہے، اسے اخبارات نے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ایک اخبار نے اسے لیڈ بنایا ہے، ایک اخبار نے اس خبر کو نمایاں کیا ہے اور زیادہ تر اخبارات میں اسے رسمی طور پر جگہ دی گئی ہے۔

اس کا پہلا مطلب میں یہ لیتا ہوں کہ جنرل کیانی نے کوئی بڑی بات نہیں کی۔مگر جب میں اس کی شایع شدہ خبر کی تفصیل پر نظر ڈالتا ہوں تو میں کانپ کر رہ جاتا ہوں۔اخباری لیڈ کے الفاظ یہ ہیں: پاکستان تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔بیرونی حالات پیچیدہ ہیں اور اندرونی صورت حال غیر یقینی ہوتی جارہی ہے۔ہمارا مقابلہ ایسے دشمن سے ہے جس کی کوئی واضح شکل سامنے نہیں۔روایتی خطرات کئی گنا بڑھ چکے۔خبر کے متن میں واضح کیا گیا ہے کہ ان تمام خطرات کا مقابلہ قوم کی اجتماعی کوشش ہی سے کیا جا سکتا ہے جس میں مسلح افواج کا مرکزی کردار ہے جو وہ دیگر ریاستی اداروں سے ہم آہنگ ہو کر ادا کررہی ہے۔

یہ تو تھی جنرل کیانی کی بات ، اب اخبارات نے اس سانحے کی خبر بھی ساتھ ہی شایع کی ہے جو کراچی کینٹ میں پیش آیا جس میں نصف درجن افراد شہید ہو گئے، ایک اخبار نے اس خبر کے ساتھ یہ تڑکا لگانا ضروری سمجھا ہے کہ یہ سانحہ اس وقت رونما ہوا جب جنرل کیانی کراچی کینٹ میں موجود تھے۔اخبارات میں نمایاں طور پر شایع ہونے والی ایک خبر یہ بھی ہے کہ جن خاصہ داران کو اغوا کیا گیا تھاان میں سے اکیس کو شہید کر دیا گیا ، صرف ایک اہل کار معجزانہ طور پر محفوظ رہا اور جب میں یہ سطریں لکھنے بیٹھا ہوں تو مستونگ سے یہ روح فرسا خبر آ گئی ہے کہ زائرین کی بسوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں سے موقع پر انیس افراد شہید ہو گئے۔اخبارات نے چیف الیکشن کمشنر کی اس تسلی کو بھی نمایاں جگہ دی ہے کہ غیر یقینی داخلی صورت حال کو الیکشن پر اثرانداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔

میں ملک میں سیاسی ابتری اور غیر یقینی صورتحال پر تبصرے سے پہلو بچاتے ہوئے ان خطرات کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جو ممکنہ طور پر جنرل کیانی کے ذہن میں ہو سکتے ہیں، میں انھیں کبھی ملا نہیں، اس لیے واضح طور پر ان کا ذہن پڑھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا لیکن جو کچھ ہر کسی کو نظر آرہا ہے ، اس پر لازمی طور پر جنرل کیانی کی نظر بھی ہو سکتی ہے۔میں جنرل کیانی کے بیان کو کھینچ تان کر ڈاکٹر طاہرالقادری کے اس نعرے سے تو نہیں ملانا چاہتا کہ سیاست نہیں ، ریاست بچائو مگر پاکستان کو اس سے کم کے خطرات لاحق نہیں ہیں ،اب یہ الگ بات ہے کہ ہم بلی کو جھپٹتے دیکھ کرکبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیں۔جو کچھ پچھلے چند ہفتوں میں ہو رہا ہے ، اس پر ہر پاکستانی شدید مضطرب ہے۔حالات اچھے نہیں ہیں۔


ٹارگٹ کلنگ زوروں پر ہے، دہشت گردی کی لہر نئے سرے سے سونامی بن کر امڈ آئی ہے،امریکا میں نئی حکومت آنے والی ہے جو ہے تو پرانی مگر اس میں بعض چہرے تبدیل ہو رہے ہیں ، جان کیری وزارت خارجہ کے منصب پر متمکن ہو گئے ہیں ، وہ پاکستان کے ہمدرد سمجھے جاتے ہیں مگر جان کیری پاکستان سے زخم خوردہ بھی ہیں، کئی بحرانوں کے حل کے لیے وہ بنفس نفیس آئے مگر ہم نے ان کی سنی ان سنی کر دی، ہم نے ان کا کیری لوگر بل بھی مسترد کر دیا ، مگر اب وہ ہماری کیا سنیں گے ، کیا نہیں سنیں گے، اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔افغانستان کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں۔امریکا ایک سال بعد وہاں سے نکل جانا چاہتا ہے مگر اپنے پیچھے کیسی مہلک بارودی سرنگیں چھوڑ جائے گا،اس کو پہلے افغان جہاد کے پس منظر میں سمجھنا مشکل نہیں۔

ضیا الحق چیختا رہ گیا کہ جینیوا معاہدے پر دستخط نہ کرو لیکن ان کے جمہوری منتخب وزیر اعظم محمد خاں جونیجو نے ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرے، امریکا کو ضیاالحق سے پیچھا چھڑانے کے لیے اپنے سفیر کی بھی قربانی دینا پڑی۔اور ہم اگلے کئی برسوں تک افغانستان کے مختلف جہادی گروپوں کی باہمی چپقلش کی بھینٹ چڑھ گئے۔اب نئی افغان جنگ میں امریکا نے کمال حکمت کاری سے ان جہادی گروپوں کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے اور ان کی ہلہ شیری کے لیے بھارت بھی افغانستان کے طول وعرض میں موجود ہے۔ بلوچستان کی دہشتگردی میں بھارت کے براہ راست ملوث ہونے کی طرف حال ہی میں وزیر داخلہ رحمن ملک نے انڈیا کے دورے میں اشارہ کیا ہے، چار سال قبل شرم الشیخ مصر میں سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ سے اس مداخلت پر احتجاج کیا تھا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ بلوچستان میں خونریزی کے لیے ہمارے میڈیا، ہماری سول سوسائٹی اور ہماری عدلیہ کی طرف سے فوج اور اس کے اداروں کو مورد الزام ٹھہرا یا جاتا ہے۔

جب کہ علیحدگی پسند کھلم کھلا بغاوت کے اعلانات کر رہے ہیں اور ایک اور سولہ دسمبر کے اعادے کی دھمکی دے رہے ہیں، ان لیڈروں کو ہماری سول سوسائٹی اور میڈیا ہیرو کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ہمارے ساتھ مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، وہ اس سے مختلف نہیں تھا، ہم آج بھی یک سو نہیں ہیں کہ مکتی باہنی علیحدگی کے لیے کوشاں تھی یا نہیں اور اس کی پیٹھ کھلے عام بھارت ٹھونک رہا تھا یا نہیں اور شیخ مجیب غدار تھا یا نہیں۔ہمارے دائیں بازو کے دانش ور آج بھی محبت کے زمزمے بہنے کے موقف کو درست قراردے رہے ہیں۔اس عقل ودانش کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔

ہم مستقبل کے خطرات سے مکمل طور پر غفلت کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے اپنے مفادات کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ اب کوئی طاقت رات کے گیارہ بج کر انسٹھ منٹ پر حکومت اور جمہوریت کی بساط نہیں لپیٹ سکتی۔یہاں راجہ صاحب دو حقائق کو نظر انداز کر گئے ہیں، نواز شریف حکومت کا دھڑن تختہ دن کی روشنی میں ہوا تھا ، دوسرے جب جنرل کیانی نے چار سال قبل یہ کہہ دیا کہ ان کی زیر کمان فوج سیاست اور حکومت میں مداخلت نہیں کرے گی اور انھوںنے یہ قول آج کے لمحے تک اور ہر طرح کے مواقع ملنے کے باوجود نبھایا تو پھر وہ کسے مخاطب کر رہے ہیں۔

جنرل کیانی کے ہوتے سیاست دانوں کومطمئن ہو جانا چاہیے کہ اب کوئی شب خوں نہیں مارے گا،اب جو ہونا ہے وہ اس دشمن کی طرف سے ہونا ہے جسے جنرل کیانی نے غیر مرئی کہا ہے، جو کسی کو نظر نہیں آتا، جو ہر جگہ ہے مگر پکڑائی نہیں دیتا، ایسی صورتحال میں کہنا تو یہ چاہیے کہ ہم اپنے دشمن خود ہیں ، ہمیں مارنے والا باہر سے نہیں آئے گا۔بلکہ جو مارنے والے باہر بیٹھے ہیں ، وہ تو اس علاقے سے رخت سفر باندھ رہے ہیں مگراس امر کو یقینی بنا کرکہ ہم اپنے گلے اپنے ہاتھوں سے کاٹیں گے۔مجھے جنرل کیانی صاحب سے ہمدردی ہے کہ انھیں ایک ایسی قوم سے ہمدردی ہے جو نقارخانے میں طوطی کی آواز پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔بہر حال جنرل کیانی ایک محب وطن سپہ سالار کی طرح اپنا فریضہ نبھائیں، میرا نحیف قلم ان کے ساتھ ہے۔
Load Next Story