سنگین ہوتی صورتحال پہلا حصہ

پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے امریکی حکام کے ذہنوں میں پیداہونے والی تبدیلی پرتوجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔


Muqtida Mansoor December 31, 2012
[email protected]

پاکستان میں جہاں منتخب حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پرسیاسی وصحافتی حلقوں میں داد وتحسین کے ڈونگرے برس رہے ہیں، وہیں جمہوریت اور جمہوری عمل نئے خطرات سے بھی دوچار ہے۔نت نئے کلیے اور فارمولے سامنے آرہے ہیں اورعجیب وغریب قسم کی صف بندیاں ہورہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے بنتے بگڑتے اتحادوں کے پس پشت نہ کوئی نظریہ ہے اور نہ اصول وضابطہ۔ کچھ جماعتیں نادیدہ قوتوں کے فرمان پر اپنے قبلے تبدیل کررہی ہیں، تو کچھ انتخابی عمل میں کامیابی کی امید نہ ہونے پر غیر سیاسی سیٹ اپ کے ذریعے کسی نہ کسی طوراقتدارکا حصہ بننے کی خواہشمند ہیں۔اس صورتحال نے عوام کے مسائل کو کئی گنا بڑھا دیا ہے اور ان مسائل کے حل کی توقع ہر آنے والے دن کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ملک میں سوجھ بوجھ رکھنے والامتوشش طبقہ اس صورتحال پر خاصا دل گرفتہ ہے، کیونکہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ملک میں نظم حکمرانی کب ایک واضح سمت اختیار کرے گا اور کب حکمران ثانوی نوعیت کے معاملات سے نکل کر قومی ترقی کے اہداف کی تکمیل پر توجہ دے سکیں گے۔

حالانکہ یہ بات ہر ذی ہوش پاکستانی کے علم میں ہے کہ پاکستان گزشتہ تیس برس سے بالعموم اور دس برس سے بالخصوص ایک ایسی چومکھی لڑائی میں گھر چکا ہے، جس کے مستقبل قریب میں منطقی انجام تک پہنچنے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ایک طرف وہ عناصر ہیں ،جو اس ملک میں خلافت کا نظام رائج کرنے کی خاطر جاری نظام پر ضربِ کاری لگاکراسے ختم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اس لیے وہ خود کش حملے، بم دھماکے اور فوجی تنصیبات کونشانہ بنارہے ہیںاوراہم سیاسی شخصیات کوخود ان کے بقول واصلِ جہنم کررہے ہیں۔ دوسری طرف بعض دوست ممالک نے اپنی پراکسی لڑائی کے لیے پاکستان کو میدان جنگ کے طورپر منتخب کررکھاہے۔ لہٰذا مختلف عقائد اور مسالک کے علماء اورکارکنوںکی ٹارگٹ گلنگ روز کا معمول بن چکی ہے۔

تیسری طرف ریاست کی بے حسی سے عاجز بلوچ نوجوان اپنے حقوق کے حصول کی خاطر قومی آزادی کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔چوتھی طرف وہ جرائم پیشہ عناصر ہیں،جنھیںحکومتی انتظامی اداروں کی نااہلی کی وجہ سے کھلی چھٹی مل گئی ہے اور وہ اغواء برائے تاوان، بینک ڈکیتیاں اور بھرے بازاروںمیں دیدہ دلیری سے لوٹ مار کررہے ہیں۔ حکومت اور اس کے انتظامی ادارے حالات کی سنگینی سے بے نیاز باہمی کشمکش اور قانونی موشگافیوںمیں الجھے ہوئے ہیں۔جب کہ سیاست دان اور سیاسی جماعتیں اگلے انتخابات(اگر ہوئے تو) میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خاطر نئی صف بندیوںمیں مصروف ہیں۔یوں اس پوری صورتحال کا براہ راست نشانہ کراچی سے خیبر تک بے بس و لاچار عوام ہیں، جوبجلی اور گیس کے طویل ناغوں، بے روزگاری، بڑھتی ہوئی مہنگائی اورامن وامان کی ابتر صورتحال کے عذاب میں گھرے ہونے کے ساتھ ساتھ ان عفریتوں کا بھی شکار ہیں۔

محسوس یہ ہورہا ہے کہ پاکستان جس راستے پر چل رہاہے یا اسے چلنے پر مجبور کیاجارہاہے، اس کے پس پشت بہت سی اندرونی وبیرونی نادیدہ قوتوں کا ہاتھ ہے،جن کامقصداس ملک میں انتشار پھیلاکرمطلوبہ نتائج حاصل کرناہے۔ اگر ایک طرف عالمی قوتیں پاکستان کے اس خطے میں کردار کو محدود کرنے پر تلی ہوئی ہیں، تو ملک کے اندر موجود بعض قوتیں اپنے لامتناہی اقتدار واختیار کو برقرار رکھنے کے لیے سازشوں میں مصروف ہیں۔سیاسی جماعتوں میں عدم اعتماد اور سیاسی بصیرت کے فقدان نے اس صورتحال کو مزید پیچیدہ اور سنگین بنادیاہے۔بیشتر سیاسی رہنما ایسے ہیں، جو ملک کے معروضی حالات، عالمی سوچ میں آنے والی تبدیلیوں اور خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال کو سمجھنے کا ویژن نہیں ہے اور وہ محض سطحی سوچ کی بنیاد پر مزید کنفیوژن پھیلارہے ہیں ۔جب کہ کچھ سیاسی رہنما بعض نادیدہ قتوں کی آلہ کار بن کر جمہوری عمل کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ انھیں اس سے غرض نہیں کہ اس وقت ملک کہاں کھڑاہے؟آنے والے دنوں میں اس کی پوزیشن کیا ہونے جارہی ہے اور اس کے قومی سلامتی اور ملک کی بقاء پر کیا مجموعی اثرات مرتب ہوسکتے ؟

دوسری طرف عالمی سیاسی منظر نامے ہماری خواہشات اور تمنائوں سے بالکل مختلف سمت رواں ہونے کے اشارے دے رہاہے۔یہ بات بالکل واضح ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے اور9/11کے بعد عالمی سوچ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔عالمی سطح پر اب کھل کر کہا جارہاہے کہ پہلی عالمی جنگ کے بعد دنیاکے مختلف ممالک کے نقشوں میں جو تبدیلیاں رونما ہوئی تھیں اوردوسری عالمی جنگ کے بعد وہ ریاستیںجو کسی خاص مقصداورنظریے کے تحت وجود میں لائی گئی تھیں،اب ان کی افادیت ختم ہوچکی ہے۔یہی سبب ہے کہ دنیا کے کئی خطوں میں تبدیلیوں کی تند وتیز لہریں اٹھ رہی ہیں، جنھیں مختلف عالمی ایکٹروں کی پس پردہ سرپرستی حاصل ہے۔ یہ تبدیلیاں عوامی مفادات کے بھیس میں ایک نئے عالمی تصور(World Order)کی عکاسی کررہی ہیں۔

یہ بھی کہا جارہاہے کہ سرد جنگ کے بعد سوویت یونین سمیت کئی غیر فطری سلطنتیں اپنے انجام کو پہنچیں ۔لیکن سابقہ یوگوسلاویہ میں ہونے والے کشت وخون اور اس کے عالمی سیاست پر پڑنے والے اثرات نے عالمی منصوبہ سازوں کواپنی حکمت عملیاں تبدیل کرنے اور ریاستوں میں ٹوٹ پھوٹ کے عمل کی حوصلہ شکنی پر مجبورکیا۔دنیا کے ہر خطے میں ترقی اور مسابقت کا عمل تیزی کے ساتھ جاری ہے،اس لیے کوئی بھی ملک نہیں چاہتا کہ اس کے پڑوس میں واقع کسی ملک کا شیرازہ بکھرے۔ کیونکہ اس طرح خطے میں نئے مسائل کے پیدا ہونے اورطاقت کاتوازن بگڑنے کے قوی امکانات ہوتے ہیں۔ان ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے کسی ملک کوجواپنی حالت تبدیل کرنے پر آمادہ نہیں ہے اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے مسلسل مشکلات پیداکرنے کاسبب بن رہاہے، اس حد تک غیر فعال کردیا جائے کہ وہ پڑوسی ممالک کی ترقی میں رکاوٹ نہ بن سکے۔ اس کے علاوہ عالمی کارپوریٹ سیکٹر بھی ایسے ملک سے اپنا سرمایہ نکال کر اسے معاشی بے بسی کاشکار کرکے عالمی مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور کررہاہے۔اس تناظرمیںپاکستان کے موجودہ حالات کو سمجھنے کے لیے ماضی قریب کی تاریخ کا اجمالی جائزہ لینا ضروری ہے، تاکہ ذہنوں میں موجود وہ ابہام دور ہوسکیں جو اس صورتحال کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔

سرد جنگ کے پورے دور میں عالمی ایکٹروں نے کمیونزم کے پھیلاؤ اورسوویت یونین کو گرم پانیوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے مقامی ایکٹروں کی مددسے پاکستان کواستعمال کیا۔اس مقصد کے حصول کی خاطر پاکستان کو ایک قومی ریاست کی شکل اختیار کرنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔اس منصوبہ کے لیے سول وملٹری اسٹبلشمنٹ کے علاوہ بعض سیاسی جماعتوں کو بھی استعمال کیاگیا،جنہوں نے جمہوریت کی بیخ کنی کے ساتھ وفاقیت کے تصور کو نقصان پہنچانے میں کوئی دقیقی فروگذاشت نہیں کیا۔ان 65برسوں کے دوران ایک ایسی مقتدر اشرافیہ تشکیل دی گئی جو سویلین ادوارمیں بھی عالمی ایکٹروں کے مفادات کی نگہبانی کرسکے۔پاکستان کے ان حکمرانوں نے قومی ترقی کی ترجیحات طے کرنے اورملک کے تعلیمی نظام میں بہتری لانے کے بجائے امور سلطنت چلانے کے لیے امریکی امداد پر انحصار کیا اور سیٹو اور سینٹو کا رکن بن کر مکمل طورپر امریکا اور اس کے حلیفوں کا دست نگر بن گیا۔

پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے کبھی اس پہلو پر توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ عالمی حالات تغیر پذیر ہیں اور ان میں تبدیلیاںرونما ہوکر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔مثال کے طورپر 1962ء میں جب امریکا نے میزائل ٹیکنالوجی میں سوویت یونین پر برتری حاصل کرلی اور روس اور چین میں نظریاتی اختلافات ناقابل واپسی ہوگئے، تومغربی منصوبہ سازوں کی نظر میں مشرقی پاکستان کی پاکستان کے ساتھ رہنے کی افادیت بھی ختم ہوگئی۔اس لیے وہاں علیحدگی پسندی کی تحاریک کی کھل کر سرپرستی شروع کردی گئی اور1962ء ہی میںمشرقی پاکستان کی علیحدگی کے منصوبے کوحتمی شکل دے دی گئی۔نوبرسوں کے دوران ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ بنگلہ دیش کا قیام یقینی ہوجائے۔جن احباب کو اس بات پر یقین نہ آئے وہ رچرڈ نکس اور ہنری کسنجرکی سوانح پڑھ لیں۔مگر پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے امریکی حکام کے ذہنوں میں پیداہونے والی اس تبدیلی کوسمجھنے اور ملک کو بچانے کی ایک متبادل پالیسی تیار کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں