کچھ ہارے ہوئے لوگ
دنیا میں 95 فیصد لوگ چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کے بعد زندگی سے ہار مان لیتے ہیں۔
زندگی بڑی مشکل ہے خصوصاً اس وقت جب آپ کو کسی بڑی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اسکول، کالج، ذاتی تعلقات، بزنس، نوکری کسی بھی موڑ پر زندگی آپ کو دھوکا دے سکتی ہے، کیا کرتے ہیں ہم ہارا ہوا محسوس کرنے کے بعد؟ دکھ، زندگی سے شکوہ، ایک لمبی اداسی جس کے بعد ہر چیز خود بخود ہی خراب ہوتی چلی جاتی ہے۔
آج ہم بات کریں گے کچھ ایسے لوگوں کی جو زندگی میں کبھی نہ کبھی ہارے ہوئے تھے، وہ ہار جس کے بعد کئی لوگ اس غم کی کیفیت میں چلے جاتے ہیں جس سے وہ کبھی باہر نہیں نکل پاتے۔
بل گیٹس کے نام سے کون واقف نہیں، پچھلے پندرہ سال سے دنیا کے سب سے امیر آدمی جنہوں نے کمپیوٹرز کے ذریعے دنیا بدل دی، نہ صرف کمپیوٹرز بلکہ کئی اور چیزوں میں بھی بل گیٹس بدلاؤ لائے ہیں، جیسے دنیا میں پولیو تقریباً ختم کرنے کا سہرا ''گیٹس فاؤنڈیشن'' کو جاتا ہے، لیکن کئی لوگ بل گیٹس کے بارے میں یہ نہیں جانتے کہ وہ کالج میں صرف ایک سیمسٹر لے پائے تھے جس میں برے نمبروں کی وجہ سے انھیں کالج سے نکال دیا گیا تھا۔ فیل ہونے کی شرمندگی جس کے بعد کئی لوگ شاید خود اپنی خوداعتمادی کھو دیں اس کو بل گیٹس نے ایک چیلنج کی طرح لیا اور اسے ایک کامیابی میں بدلا۔
ابراہم لنکن عام بچوں کے مقابلے میں ایک بہت بڑی چیز سے محروم تھے اور وہ تھی تعلیم۔ انھوں نے زندگی میں صرف پانچ سال فارمل تعلیم حاصل کی، نہ صرف یہ بلکہ سیاست سے وابستہ ہونے کے بعد انھیں بارہ مرتبہ ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا، لیکن اس کے باوجود بھی وہ امریکا کے صدر بنے اور آج تک یاد کیے جاتے ہیں۔
آئزک نیوٹن جنھیں عظیم ترین ریاضی داں مانا جاتا ہے، اسکول میں بہت ہی برے طالب علم تھے، اتنے برے کہ ٹیچرز نے ان کے والدین سے کہہ دیا تھا کہ ہم نہیں سمجھتے کہ اس بچے کے گریڈز کسی طرح بھی بہتر ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح آئن سٹائن چار سال کی عمر تک بولے نہیں تھے اور داخلے کے وقت اسکول والوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ بچہ دوسرے بچوں کی طرح اسکول کے لیے فٹ نہیں ہے۔ اسی لیے انھیں اسکول میں چار سال کی نہیں سات سال کی عمر میں داخل کیا گیا تھا لیکن البرٹ آئن اسٹائن نے کامیابی کی راہ میں اپنی اس کمزوری کو آڑے نہیں آنے دیا۔
ناکامی کی لسٹ میں بیتھوئین بھی پیچھے نہیں ہے، کئی سال کی محنت کے باوجود ان کے میوزک ٹیچرز نے کہا تھا کہ بطورکمپوزر یہ بالکل بیکار ہے، ساتھ ہی اپنے کیرئیر کے بیچ میں ہی وہ اپنی سننے کی قوت بھی کھو چکا تھا، اس کے باوجود وہ تاریخ کے سب سے کامیاب کمپوزر مانے جاتے ہیں۔
مائیکل جارڈن صرف ایک باسکٹ بال پلیئر نہیں ہیں بلکہ ایک لیجنڈ ہیں، وہ شخص جس کی اسپیڈ، طاقت اور منفرد انداز کو مثال مانا جاتا ہے، لیکن لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس کے پیچھے بھی ایک ''ناکامی'' کا ہاتھ ہے۔ مائیکل جارڈن اپنے اسکول کی باسکٹ بال کی ٹیم میں اس لیے نہیں منتخب ہوئے تھے کیونکہ کوچ نے کہا تھا کہ ان میں باسکٹ بال کھیلنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔
والٹر نامی شخص نے اپنے گیراج سے ایک کارٹون کمپنی شروع کی۔ کمپنی کو کامیاب بنانے کی کوشش ناکام رہی اور کمپنی بینک کرپٹ ہونے والی تھی اسی زمانے میں والٹر کے بارے میں ایک مشہور اخبار کے ایڈیٹر نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ والٹر اس لیے فیل ہوئے کہ ان کے پاس اچھے آئیڈیئے نہیں ہیں، والٹر اپنی کمپنی پر کام کرتے رہے اور ہار نہیں مانی، وہ کمپنی آج تیس بلین ڈالرز کا بزنس کرتی ہے اور اس کا نام ہے ''ڈزنی''۔
اسٹیون اسپیل برگ جنہوں نے ہالی ووڈ کی کئی مشہور فلمیں بنائی ہیں، اسکول کے زمانے میں کمزور دماغ بچوں کی کلاس میں ڈالے گئے تھے، جہاں وہ ایک مہینہ جانے کے بعد پھر کبھی اسکول نہیں گئے اور اپنی تعلیم مکمل نہیں کی۔ آج وہ دنیا کے سب سے کامیاب فلم میکر مانے جاتے ہیں۔
1947 میں میرلین منیرو کو ٹوئنٹیتھ20th سنچری فاکس نے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا تھا کہ وہ خوبصورت نہیں ہیں اور نہ ہی اداکاری کرسکتی ہیں، لیکن وہ ہمت نہیں ہاریں اور بار بار واپس آڈیشن پر جاتیں اور فیل ہوکر بھی مایوس نہیں ہوئیں، ٹوئنٹیتھ سنچری فاکس کی آج تک کی سب سے کامیاب اداکارہ کا نام ''میرلین منیرو'' ہی ہے۔
ہنری فورڈ کی دو بڑی کمپنیاں بری طرح فیل ہوئی تھیں جس کے بعد فورڈ کمپنی بنائی گئی جن سے ان کا خواب کہ ہر شخص کے پاس گاڑی ہو، پورا ہوا بلکہ اپنے وقت میں ہنری فورڈ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص تھے۔
جان گہام کے ناول کو سولہ ایجنٹس اور بارہ اشاعتی اداروں نے مسترد کیا، کوئی اور ہوتا تو لکھنا چھوڑ دیتا، لیکن جان لکھتے گئے اور بہترین ناولسٹ قرار دیے گئے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد Sochiro نامی جاپانی انجینئر کو ٹویوٹا موٹرز کے لیے جاب انٹرویو میں فیل کردیا گیا تھا اور نوکری نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے اپنے گیراج میں اسکوٹرز بنا بنا کر پڑوسیوں کو بیچنے شروع کردیے اور ایک کمپنی بنالی جس کا نام انھوں نے اپنے سَر نیم پر رکھا Honda ۔ آج ہنڈا دنیا کے بیشتر ملکوں میں گاڑیاں، انجن اور اسکوٹرز بناتی ہے۔
Akio بھی ایک جاپانی تھے جنھیں الیکٹرانکس کا شوق تھا، انھوں نے ایک رائس کوکر بنایا، وہ ابھی سو ہی بکے تھے کہ پروڈکٹ بری طرح فیل ہوگئی، کیوں کہ وہ چاول پکاتی نہیں جلاتی تھی، لیکن آکیو نے ہار نہیں مانی اور اپنی چھوٹی سی کمپنی Sony Corp کو دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بنادیا جو سال میں چھیاسٹھ(68) بلین بناتی ہے۔
اسٹیوجابس نے اپنی کمپنی ایپل(Apple) 1975 میں اپنے گیراج سے شروع کی تھی اور 1985 میں انھیں اپنی ہی کمپنی سے نکال دیا گیا تھا لیکن دس سال کی محنت کے بعد وہ پھر کمپنی کے سی ای او بنے اور آئی فون، میک کمپیوٹر اور آئی پیڈ سے دھوم مچادی۔
ناکامیاں ہم سب کی زندگی میں آتی ہیں لیکن ہار آپ اس وقت جاتے ہیں جب آپ ہار مان جاتے ہیں اور افسوس کہ دنیا میں 95% فیصد لوگ چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کے بعد زندگی سے ہار مان لیتے ہیں جب کہ شاید وہ ان ناکامیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھ کر مائیکل جارڈن بن سکتے تھے یا کوئی Sony یا ہنڈا کمپنی بناسکتے تھے، جن لوگوں کا ذکر ہوا وہ ہم جیسے عام لوگ ہیں، بس وہ ہار نہیں مانتے یہ مثالیں نہیں سبق ہے، وہ سب جسے آپ کو اس وقت یاد رکھنے کی ضرورت ہے جب آپ خود کو ہارا ہوا محسوس کریں۔