عورت کا استحصال صنفی یا معاشرتی
خواتین کے حالات میں بہتری کی امید جب ہی کی جاسکتی ہے جب معاشرے سے جہالت اور طاقت کا قانون ختم ہو۔
انسان آزاد پیدا ہوا ہے یہ ایک پرانی بحث ہے، شاید دنیا میں اس سے لمبی اور طویل العمر بحث کوئی اور نہ ہو، اس بحث کا آغاز بھی یقینا حضرت انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی ہوا ہوگا۔ کیا انسان واقعی آزاد پیدا ہوا ہے یا آزاد ہے؟ ایسا قطعی طور پر نہیں ہے۔ کیا بھٹے میں پیدا ہونے والے قید کی زندگی کاٹنے والے اور وڈیروں کے ہاری آزاد ہیں؟ کیا اپنا صحیح ماضی الضمیر بیان کرنے والے قلمکار آزاد ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ نہ جسم آزاد ہیں، نہ سوچ آزاد ہے، نہ قلم آزاد ہے، نہ ضمیر آزاد ہیں۔ اعلیٰ ایوانوں میں متمکن طاقت کی علامت سمجھے جانے والے اراکین بھی ووٹ دکھاکر ڈالنے پر مجبور ہیں، بڑے بڑے شہروں میں عام انتخابات میں عام ووٹر تو دور کی بات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ سوجھ بوجھ اور سیاسی شعور رکھنے والا شخص بھی بعض مرتبہ اپنی رائے کا آزادانہ استعمال کرنے سے قاصر رہتا ہے۔
بے علمی، خوف، مصلحت، منافقت، مفادات ، خوشامد انسانی غلامی کی زنجیر کی مضبوط کڑیاں ہیں جس میں انسان بری طرح جکڑا ہوا ہے آج کا انسان پستی اور تباہی کی اس انتہا کو پہنچ چکا ہے کہ سچ سننے کا حوصلہ بھی کھوچکا ہے بلکہ اس کی بلاوجہ مخالفت کو فرض عین سمجھ بیٹھا ہے۔ کڑوے سچ کی جگہ میٹھا جھوٹ اس کی مرغوب غذا بن چکی ہے۔
دو تین روز قبل اخبار میں ہمارے دوست ابراہیم عزمی کا کالم ''عورتیں ہی عورتیں'' شایع ہوا اس خوبصورت اور معتدل طرز تحریر میں عزمی نے خواتین سے متعلق چھ منظر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق میں عورت کو زر اور زمین سمجھ لیاہے اور مغرب نے اسے دولت اور شراب کے ساتھ ملاکر www (یعنی Wealth, Wine of Women) کا محاورہ ایجاد کرلیا ہے۔ موضوع بڑا حساس اور جذباتی ہے اس پر قلم کشائی کرتے ہوئے کئی فکرات دامن گیر ہوتی ہیں ۔علامہ اقبال کی آزادی نسواں سے متعلق یہ نظم ذہن میں تازہ ہوجاتی ہے:
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے' وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت کرے فاش
مجبور ہیں' معذور ہیں' مردان خردمند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند؟
پچھلے ماہ وجاہت علی عباسی کے کالم ''ایک رشتہ آیا ہے'' میں ایک انکشاف سامنے آیا تھا کہ چین میں ایک شوہر نے اپنی بیوی پر بدصورت بچہ پیدا کرنے کا مقدمہ دائر کیا باپ کا دعویٰ تھا کہ اتنی بدصورت بچی اس کی نہیں ہوسکتی، عدالت نے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا، رپورٹ آئی کہ بچی اسی شخص کی ہے، مزید تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ اس شخص کی بیوی نے شادی سے پہلے ایک لاکھ ڈالر میں چہرے کی پلاسٹک سرجری کرائی تھی جس سے وہ بدصورت خوبصورت نظر آنے لگی تھی شوہر اس بات سے لاعلم تھا جب کہ نوزائیدہ بچی ماں کی اصل شکل پر گئی۔ عدالت نے شوہر کو جھوٹی شکل دکھا کر شادی کرنے کے اقدام پر فیصلہ سنایا کہ بیوی اپنے شوہر کو ایک لاکھ بیس ہزار ڈالر جرمانہ دے گی اور بچی خود پالے گی ۔ دھوکا دہی، ملاوٹ، فراڈ، غلط بیانی جیسی بیماریاں کاروباری لین دین اور دیگر معاشی و معاشرتی سرگرمیوں میں تو سرائیت کرچکی ہیں۔
یہ تمام برائیاں انسان بنیادی طور پر اپنی ذات اور خاندان کے لیے کرتا ہے لیکن اگر یہ برائیاں شادی بیاہ جیسے سماجی معاملات میں بھی شامل ہوجائیں تو اس کا نتیجہ معاشرے کی بربادی کے سوا کیا نکل سکتا ہے؟ میاں بیوی کا رشتہ دھاگے سے کمزور اور پہاڑ سے مضبوط سمجھا جاتا ہے جو دونوں کے درمیان ایک ہاں سے قائم اور ایک ناں سے ختم ہوجاتا ہے جس کے لیے بعض اوقات انسان اپنے بہن بھائیوں حتیٰ کہ ماں باپ سے بھی سرکشی اور دشمنی مول لے لیتا ہے۔ اگر اس رشتے کی بنیاد ہی جھوٹ، فریب، دھوکا اور غلط بیانی پر قائم کی جائے تو معاشرے کا یہ بنیادی یونٹ (خاندان) پورے معاشرے پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ طلاقوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجوہات ہی یہ ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کو عمر، تعلیم، کاروبار، آمدنی اور دیگر کوائف بتانے میں غلط بیانی کرتے ہیں۔
میاں بیوی کو گاڑی کے دو پہیے کہا جاتا ہے جو ایک اٹل حقیقت ہے۔ دونوں کے اپنے اپنے دائرہ اختیار ہیں، بیوی کی فطرت میں ایثار، وفا، لطافت ہے جب کہ مرد کی فطرت میں وجاہت، جفاکشی اور جدوجہد ہے۔ مرد اگر سمندر کی تہہ، پہاڑوں کی چوٹی، کانوں کے اندر ٹاور اور کرینوں کی بلندی پر کام کرتا ہے تو یہ اس کا فرض منصبی ہے جسے ظلم و زیادتی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر گھر میں اس سے برتن دھلوائے جارہے ہوںتو ظلم یا زیادتی کہلائے گی اسی طرح اگر کوئی عورت اپنی بند کار کو دھکا لگائے تو ظلم و زیادتی کہلائے گی۔ اصل میں خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جہاں مرد یا عورت اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز کریں۔ عورت و مرد میں مسئلہ کسی کے چھوٹے بڑے حقیر یا کمتر ہونے کا نہیں ہے بلکہ قانون، اصول اور اخلاقیات کو تابع کرنے کی بجائے اپنی زندگیاں ان کے تابع کرنے کا ہے۔ قانون اور شریعت خواتین کو بہت سے حقوق دیتے ہیں مثلاً مہر کی رقم، نان نفقہ، وراثت میں حصہ، طلاق کی صورت میں بچوں کی تحویل اور ان کے اخراجات حاصل کرنے کا حق وغیرہ۔
خواتین اور ان کی حقیقی تنظیموں کی جدوجہد حق کے حصول اور قانون کے اطلاق کے لیے ہونا چاہیے، خواتین کی برابری یا آزادی نسواں کا نعرہ بہت سے ابہام اور قباحتوں کا سبب بنتا ہے کیا مساوی دورانیہ تعلیم کے حامل ڈاکٹر اور انجینئر مساوی یا ایک جیسے ہوسکتے ہیں؟ قطعی نہیں، دونوں کے اپنے اپنے دائرہ کار ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی فیلڈ کے لیے صفر ہیں۔ مساوات کے اصول کے تحت مارچ 2011 میں دہلی ہائیکورٹ کا فیصلہ سنیل سیٹھی بنام رانی سیٹھی میں سنایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کا مقصد شریک حیات کی معاونت و مدد کرنا ہے جس کی ذاتی ذرایع آمدنی نہ ہو جو اپنی ضروریات واخراجات کے متحمل نہ ہوسکتے ہوں۔ شریک حیات میں سے کوئی ایک جو آمدن نہ ہونے کی وجہ سے وہ معیار زندگی نہ گزار سکے جو شادی سے پہلے یا ازدواجی تعلق کے دوران گزار رہا تھا تو لازمی ہے اسے وہ معیار مہیا کیا جائے تاکہ مساوات رہے۔ عدالت نے بیوی کو حکم دیا کہ وہ شوہر کو 20 ہزار روپے ماہانہ نان نفقہ اور مقدمات کے اخراجات کے علاوہ ایک Zen Car بھی دے۔
عورت بحیثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی خاندان کی عزت کا محور وگہوارہ سمجھی جاتی ہے۔ بیٹا باپ سے زیادہ ماں کو چاہتا ہے تو بھائی سے زیادہ بہن کے قریب ہوتا ہے ، باپ کو بھی بیٹی بیٹے سے زیادہ عزیز ہوتی ہے، لیکن جہالت اور معاشی مصائب کی وجہ سے کچھ لوگوں کا یہ رویہ ضرور ہوتا ہے کہ وہ کمانے یا نسل چلانے کے لیے لڑکوں کو فوقیت دیتے ہیں، محنت مزدوری کرنے اورکمانے کی خاطر بیٹوں کو خوراک وغیرہ میں ترجیح دیتے ہیں۔ مگر شادی بیاہ و دیگر تہواروں پر خواتین کی ضروریات کو مقدم رکھا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف جسمانی و ذہنی تشدد کی وجہ معاشرتی جہالت کے علاوہ ان کا جسمانی طور پر کمزور ہونا ہے۔
جہالت اور مجرمانہ ذہنیت کی وجہ سے خواتین کی جانب سے آشناؤں کے ساتھ مل کر شوہروں کو قتل کرنے، زہر دینے، سوتے ہوئے ماردینے کے دیرینہ جرائم کے ساتھ ساتھ توا سر پر مار کر ہلاک کردینے اور شوہر کو قتل کرکے اس کا گوشت پکانے جیسے واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ جن کو منفی جرائم نہیں بلکہ جہالت اور مجرمانہ ذہنیت سے ہی تعبیر کیا جاسکتا ہے جو ہر طاقتور کمزور کے ساتھ کر رہا ہے۔ خواتین کے حالات میں بہتری کی امید جبھی کی جاسکتی ہے جب معاشرے سے جہالت اور طاقت کا قانون ختم ہو، اس کے لیے خواتین اور ان کی حقیقی تنظیموں کو حقیقت حال کا ادراک کرکے محض نعرے، نمائشوں کے بجائے اخلاص نیت سے خواتین کے حقوق کے حصول کے لیے حقیقی و عملی جدوجہد کرنا ہوگی ورنہ خواتین کے نام پر بھی روٹیاں اور سیاست سیدھی کی جاتی رہے گی۔