ہتھیاروں کا دھندا اسلحے کے عالمی بیوپاریوں کے لیے ہر قانون مکڑی کا جالا ہے
امریکا میں ہتھیاروں کے بڑے بڑے تاجروں میں بڑا نام خود امریکی حکومت کا ہے۔
ISLAMABAD:
آپ کو شاید اس سوچ یا تصور پر معاف کیا جاسکتا ہے کہ قوانین کوئی اہم چیز ہیں اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں ہر شخص کو کئی برس سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑسکتے ہیں، لیکن اگر آپ امریکا میں سرگرم اسلحہ ڈیلروں کی بات کریں تو یہ سب سچ نہیں ہے۔ امریکا میں ہتھیاروں کے سوداگر اپنی من مانیاں کررہے ہیں اور ان کا کاروبار چمک رہا ہے۔
ایک امریکی لکھاری ڈیوڈ سوانسن(David Swanson) نے اپنے مضمون میں امریکا میں ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے استحکام اور قوانین کی کم زوری پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون کی کچھ تفصیلات نذر قارئین ہیں، تاکہ انھیں پتا چلے کہ حالات ہر جگہ خراب ہیں۔ عام آدمی اور پر امن شہریوں کے لیے زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں۔
٭ڈیوڈ سوانسن کے مطابق اسلحے کی تجارت کے معاہدے
Arms Trade Treaty کے بننے کے 2 سال بعد اب یہ خبریں گرم ہیں کہ یہ معاہدہ یمن میں ناکام ہورہا ہے، مجھے اس خبر کے سننے کے بعد تعجب یہ ہورہا ہے کہ اب تک یہ معاہدہ ہر جگہ ہی ناکام کیوں نہیں ہوگیا۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے تو سمجھ لیں کہ ہتھیاروں کے تاجر اربوں کھربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں پر امن طریقے سے مصروف ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں۔
ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''کوئی ریاست یا حکم راں جماعت روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اگر اس قسم کی منظوری کے وقت علم ہوجائے کہ یہ ہتھیار کسی بھی ذات، مسلک یا قوم کے قتل عام میں استعمال ہوں گے، انسانیت کے خلاف جرائم کا ذریعہ بنیں گے تو اس کی روک تھام کی جائے گی۔ 1949 کے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزیوں، جن کے شواہد موجود ہیں اور دیگر عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کا سدباب کیا جائے گا'' (عالمی معاہدے کے متن کا کچھ حصہ امریکی سی آئی اے کے تحت چلنے والی تنظیم کی دستاویزات سے حاصل کیا گیا ہے)
امریکا میں ہتھیاروں کے بڑے بڑے تاجروں میں بڑا نام خود امریکی حکومت کا ہے، جو عالی معاہدے پر عمل در آمد میں ناکام رہی ہے اور اس نے معاہدوں پر عمل درآمد کی کوشش بھی نہیں کی۔ موت کے اوزاروں کی خریدوفروخت کا دوسرا بڑا ڈیلر روس ہے۔ چین اور روس نے بھی اس عالمی معاہدے کی تا حال توثیق نہیں کی۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ ان ملکوں میں شامل ہیں جنھوں نے ہتھیاروں کی تجارت کے عالمی معاہدے کی توثیق کی ہے تاہم انھیں بھی اس حوالے سے بعض مشکلات کا سامنا ہے۔
کلسٹر بموں کے حوالے سے تو انھوں نے معاہدے کی توثیق کی لیکن اگر برطانیہ ہی کی بات ہے تو پتا چلتا ہے کہ برطانوی حکم راں قانون یا معاہدے کی مکمل طور پر منظوری کے حوالے سے کسی جھجک کا شکار ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا نے کلسٹر بموں کی فروخت پر فی الحال عارضی طور پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن اس نے عالمی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔
دنیا بھر میں یوں تو 87 ممالک نے ہتھیاروں کے عالمی تجارتی معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے، تاہم اگر سب سے بڑے تاجروں کی فہرست مرتب کی جائے تو معاہدے کی توثیق کرنے والے ملکوں میں کوئی بھی اسلحے کی تجارت میں سر فہرست 6 ملکوں میں شامل نہیں، لیکن تمام چھوٹے بڑے ملک کسی نہ کسی سطح پر عالمی معاہدے کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں یا اس قانون کو نظرانداز کررہے ہیں۔
ہتھیاروں کی روک تھام اور ممانعت کے حوالے سے امریکا میں بھی بعض قوانین بہت عرصے سے موجود ہیں، لیکن ان قوانین کو نظرانداز کرنا، ان کی خلاف ورزی کرنا اور ان سے بچنے کے طریقوں سے فائدہ اٹھانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں امریکا کا پہلا نمبر ہے۔ امریکا سب سے زیادہ ہتھیار بیچ رہا ہے۔ ہتھیار تیار کررہا ہے، مختلف ملکوں کو فراہم کررہا ہے، غریب ملکوں کو اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار بیچنے اور فروخت کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ امریکا بلا امتیاز تمام اقوام اور ملکوں کو ہتھیار بیچ بھی رہا ہے اور دے بھی رہا ہے۔
آئیے ہتھیاروں کی خریدوفروخت کی روک تھام کے حوالے سے کچھ امریکی قوانین پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ وہ قوانین ہیں جنھیں فریم کرکے دیوار پر آویزاں کیا جاسکتا ہے، مگر ان پر عمل نہیں ہوتا:
٭اگر اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ کوئی ملک یا ریاست انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے، تو آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت اسے کسی قسم کی معاونت فراہم نہیں کی جائے گی۔
٭اگر وزارت دفاع کے پاس فنڈز موجود ہوں تب بھی وہ فنڈ یا ہتھیار کسی ایسے ملک کو نہیں دیے جائیں گے جس کے بارے میں تصدیق ہوجائے کہ وہاں انسانیت کے خلاف کارروائیاں عام ہیں۔
اور امریکی قانون کی یہ بات زیادہ قابل غور ہے:
٭اگر وزیرخارجہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ کوئی ملک عالمی دہشت گردی میں معاونت کا مرتکب رہا ہے تو اس ملک یا ریاست پر ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیاں عاید کی جائیں گی۔
اور اس قانون کا بھی متن پڑھیں:
کسی بھی ملک کو ہتھیار اس وقت تک فراہم نہیں کیے جائیں گے جب تک امریکی صدر کو اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ ملک یا عالمی تنظیم عالمی امن بالخصوص امریکا کی سیکیوریٹی میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔
ہوسکتا ہے کہ یہ خبریں آپ کے لیے انتہائی پریشان کن ہوں، لیکن اس میں حقیقت ہے کہ عالمی تاریخ میں امریکا اور دیگر ملکوں کی جانب سے ہتھیاروں کی فروخت نے عالمی امن کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے اس خطرناک کاروبار نے دنیا بھر میں دہشت گردی کو ختم نہیں کیا بل کہ اس کاروبار سے عالمی سطح پر دہشت گردی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ سب ہتھیاروں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اسلحے کی بڑے پیمانے پر فروخت کے وقت بھی بیچنے والوں کو پتا تھا کہ ان کے ذریعے عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں بھی ہوں گی اور ان مہلک ہتھیاروں کو عام شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا، لیکن پھر بھی یہ کاروبار جاری رہا۔
آئیے ایک نظر کچھ عالمی قوانین پر ڈالتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں:
٭ہیگ کنونشن 1899 (Hague Convention): اس معاہدے پر دست خط کرنے والی طاقتیں عالمی تنازعات کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کریں گی اور اگر کبھی کوئی تنازع اتنا شدید ہوجائے کہ جنگ کی نوبت آجائے تو معاہدے کے رکن ملک آخری حد تک مصالحت و ثالثی کے لیے اقدامات کریں گے۔ اس میں کسی نہ کسی دوست ملک کا تعاون ہی حاصل کیا جائے گا تاکہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔
٭کیلاگ بریانڈ پیکٹ (1928) Kellogg Briand Pact: تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی تصادم، تنازعے یا اختلافات کو چاہے ان کی نوعیت کیسی بھی ہو جامع انداز میں پُرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔
٭اقوام متحدہ کا چارٹر: تمام رکن ممالک اپنے درمیان موجود تنازعات کو پر امن طریقے سے اس طرح حل کریں گے جس کے ذریعے عالمی امن و استحکام کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ تمام ملک اپنے تعلقات کو کسی ملک یا سیاست کی سالمیت اور آزادی کے خلاف طاقت یا ہتھیاروں کے استعمال کے لیے بروئے کار نہیں لائیں گے۔
اقوام متحدہ نے عاضی طور پر سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ روکا ہوا ہے۔ تاہم سعودی سرحد سے منسلک یمن میں جنگ و جدل کا بازار گرم کرنے کے لیے اقدامات زور شور سے جاری ہیں۔ یہ بھی کم و بیش اسی طرح عالمی قوانین کی خلاف ورزی یا انھیں نظر انداز کرنے کے مترادف ہے جس طرح عراق اور جنوبی کوریا کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت یا امریکا کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار بطور تحفہ دینے کے اقدامات کیے گئے۔ ڈھٹائی سے کیے گئے ان اقدامات کے وقت ''دہشت گردی'' کے سدباب کا خیال آیا نہ ہی ''انسانی حقوق'' کی پاس داری کا معاملہ اٹھا۔
یہ بھی المیے سے کم نہیں کہ دکانوں پر چوری کرنے والے جیل جاتے ہیں جب کہ مہلک ہتھیاروں کو بیچنے والے آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی بھی ہتھیار فروخت کرنے والے ملک نے عالمی مسئلے کو پُرامن انداز میں حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ منشیات کی طرح ہتھیاروں کا کاروبار اور ان کا استعمال بھی زور و شور سے جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی عدالت جرائم(International Criminal Court) دنیا کی بڑی طاقتیں، جو سب سے بڑی اسلحہ ساز اور ہتھیار فروخت کرنے والی ہیں، کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے قاصر ہے۔ یہ عالمی عدالت اتنی مجبور ہے کہ اپنے کسی رکن ملک کے خلاف بھی ہونے والی کارروائی پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتی، جس کی مثال اوباما حکومت کی جانب سے فلپائن پر ڈرون حملے ہیں، لیکن اس پر بھی عالمی عدالتِ جرائم خاموش رہی اور پھر ایک اور رکن ملک افغانستان کے حوالے سے بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے اسے ایک نہ ایک دن عالمی عدالتِ جرائم میں لانا پڑے گا۔
اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں انصاف اور قانون کی حکم رانی کے نعرے بلند کرنے والے خود قانون شکن بنے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں امن و سکون کا پیغام دینے والے ہر خطے میں مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس مشکل صورت حال کا حل یہ ہے کہ عالمی عدالت جرائم تمام مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور قوانین کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کی جائے۔ ہتھیاروں کے سودا گروں سے مکمل قطع تعلق اور ان کی حوصلہ شکنی کا ماحول بنایا جائے۔ نئے امریکی صدر کو واضح طور پر بتادیا جائے کہ اب ہم کسی جنگ کے لیے تیار نہیں۔ جنگ کے بجائے پُرامن رویوں کی تحریک چلائی جائے۔
آپ کو شاید اس سوچ یا تصور پر معاف کیا جاسکتا ہے کہ قوانین کوئی اہم چیز ہیں اور ان کی خلاف ورزی کی صورت میں ہر شخص کو کئی برس سلاخوں کے پیچھے گزارنا پڑسکتے ہیں، لیکن اگر آپ امریکا میں سرگرم اسلحہ ڈیلروں کی بات کریں تو یہ سب سچ نہیں ہے۔ امریکا میں ہتھیاروں کے سوداگر اپنی من مانیاں کررہے ہیں اور ان کا کاروبار چمک رہا ہے۔
ایک امریکی لکھاری ڈیوڈ سوانسن(David Swanson) نے اپنے مضمون میں امریکا میں ہتھیاروں کے بڑھتے ہوئے کاروبار کے استحکام اور قوانین کی کم زوری پر سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ اس مضمون کی کچھ تفصیلات نذر قارئین ہیں، تاکہ انھیں پتا چلے کہ حالات ہر جگہ خراب ہیں۔ عام آدمی اور پر امن شہریوں کے لیے زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں۔
٭ڈیوڈ سوانسن کے مطابق اسلحے کی تجارت کے معاہدے
Arms Trade Treaty کے بننے کے 2 سال بعد اب یہ خبریں گرم ہیں کہ یہ معاہدہ یمن میں ناکام ہورہا ہے، مجھے اس خبر کے سننے کے بعد تعجب یہ ہورہا ہے کہ اب تک یہ معاہدہ ہر جگہ ہی ناکام کیوں نہیں ہوگیا۔ اگر کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی ہے تو سمجھ لیں کہ ہتھیاروں کے تاجر اربوں کھربوں ڈالر کے ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں پر امن طریقے سے مصروف ہیں اور کوئی انھیں روکنے والا نہیں۔
ہتھیاروں کی تجارت کے معاہدے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ''کوئی ریاست یا حکم راں جماعت روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کی اجازت نہیں دے سکتی۔ اگر اس قسم کی منظوری کے وقت علم ہوجائے کہ یہ ہتھیار کسی بھی ذات، مسلک یا قوم کے قتل عام میں استعمال ہوں گے، انسانیت کے خلاف جرائم کا ذریعہ بنیں گے تو اس کی روک تھام کی جائے گی۔ 1949 کے جنیوا کنونشن کی بھی خلاف ورزیوں، جن کے شواہد موجود ہیں اور دیگر عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کا سدباب کیا جائے گا'' (عالمی معاہدے کے متن کا کچھ حصہ امریکی سی آئی اے کے تحت چلنے والی تنظیم کی دستاویزات سے حاصل کیا گیا ہے)
امریکا میں ہتھیاروں کے بڑے بڑے تاجروں میں بڑا نام خود امریکی حکومت کا ہے، جو عالی معاہدے پر عمل در آمد میں ناکام رہی ہے اور اس نے معاہدوں پر عمل درآمد کی کوشش بھی نہیں کی۔ موت کے اوزاروں کی خریدوفروخت کا دوسرا بڑا ڈیلر روس ہے۔ چین اور روس نے بھی اس عالمی معاہدے کی تا حال توثیق نہیں کی۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ ان ملکوں میں شامل ہیں جنھوں نے ہتھیاروں کی تجارت کے عالمی معاہدے کی توثیق کی ہے تاہم انھیں بھی اس حوالے سے بعض مشکلات کا سامنا ہے۔
کلسٹر بموں کے حوالے سے تو انھوں نے معاہدے کی توثیق کی لیکن اگر برطانیہ ہی کی بات ہے تو پتا چلتا ہے کہ برطانوی حکم راں قانون یا معاہدے کی مکمل طور پر منظوری کے حوالے سے کسی جھجک کا شکار ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امریکا نے کلسٹر بموں کی فروخت پر فی الحال عارضی طور پر پابندی لگائی ہوئی ہے لیکن اس نے عالمی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔
دنیا بھر میں یوں تو 87 ممالک نے ہتھیاروں کے عالمی تجارتی معاہدے کی توثیق کی ہوئی ہے، تاہم اگر سب سے بڑے تاجروں کی فہرست مرتب کی جائے تو معاہدے کی توثیق کرنے والے ملکوں میں کوئی بھی اسلحے کی تجارت میں سر فہرست 6 ملکوں میں شامل نہیں، لیکن تمام چھوٹے بڑے ملک کسی نہ کسی سطح پر عالمی معاہدے کی خلاف ورزیاں کررہے ہیں یا اس قانون کو نظرانداز کررہے ہیں۔
ہتھیاروں کی روک تھام اور ممانعت کے حوالے سے امریکا میں بھی بعض قوانین بہت عرصے سے موجود ہیں، لیکن ان قوانین کو نظرانداز کرنا، ان کی خلاف ورزی کرنا اور ان سے بچنے کے طریقوں سے فائدہ اٹھانا ایک معمول بن چکا ہے۔ یہ بات حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں ہتھیاروں کی خریدوفروخت میں امریکا کا پہلا نمبر ہے۔ امریکا سب سے زیادہ ہتھیار بیچ رہا ہے۔ ہتھیار تیار کررہا ہے، مختلف ملکوں کو فراہم کررہا ہے، غریب ملکوں کو اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار بیچنے اور فروخت کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ امریکا بلا امتیاز تمام اقوام اور ملکوں کو ہتھیار بیچ بھی رہا ہے اور دے بھی رہا ہے۔
آئیے ہتھیاروں کی خریدوفروخت کی روک تھام کے حوالے سے کچھ امریکی قوانین پر نظر ڈالتے ہیں۔ یہ وہ قوانین ہیں جنھیں فریم کرکے دیوار پر آویزاں کیا جاسکتا ہے، مگر ان پر عمل نہیں ہوتا:
٭اگر اس بات کی تصدیق ہوجائے کہ کوئی ملک یا ریاست انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی مرتکب ہورہی ہے، تو آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کے تحت اسے کسی قسم کی معاونت فراہم نہیں کی جائے گی۔
٭اگر وزارت دفاع کے پاس فنڈز موجود ہوں تب بھی وہ فنڈ یا ہتھیار کسی ایسے ملک کو نہیں دیے جائیں گے جس کے بارے میں تصدیق ہوجائے کہ وہاں انسانیت کے خلاف کارروائیاں عام ہیں۔
اور امریکی قانون کی یہ بات زیادہ قابل غور ہے:
٭اگر وزیرخارجہ اس بات کا ادراک کرلیں کہ کوئی ملک عالمی دہشت گردی میں معاونت کا مرتکب رہا ہے تو اس ملک یا ریاست پر ہتھیاروں کی فروخت پر پابندیاں عاید کی جائیں گی۔
اور اس قانون کا بھی متن پڑھیں:
کسی بھی ملک کو ہتھیار اس وقت تک فراہم نہیں کیے جائیں گے جب تک امریکی صدر کو اس بات کا یقین نہ ہوجائے کہ وہ ملک یا عالمی تنظیم عالمی امن بالخصوص امریکا کی سیکیوریٹی میں مزید اضافے کا سبب بنے گی۔
ہوسکتا ہے کہ یہ خبریں آپ کے لیے انتہائی پریشان کن ہوں، لیکن اس میں حقیقت ہے کہ عالمی تاریخ میں امریکا اور دیگر ملکوں کی جانب سے ہتھیاروں کی فروخت نے عالمی امن کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے اس خطرناک کاروبار نے دنیا بھر میں دہشت گردی کو ختم نہیں کیا بل کہ اس کاروبار سے عالمی سطح پر دہشت گردی میں اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ سب ہتھیاروں نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ اسلحے کی بڑے پیمانے پر فروخت کے وقت بھی بیچنے والوں کو پتا تھا کہ ان کے ذریعے عالمی قوانین کی خلاف ورزیاں بھی ہوں گی اور ان مہلک ہتھیاروں کو عام شہریوں کے خلاف بڑے پیمانے پر استعمال کیا جائے گا، لیکن پھر بھی یہ کاروبار جاری رہا۔
آئیے ایک نظر کچھ عالمی قوانین پر ڈالتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا کہتے ہیں:
٭ہیگ کنونشن 1899 (Hague Convention): اس معاہدے پر دست خط کرنے والی طاقتیں عالمی تنازعات کے حل کے لیے بھرپور کوششیں کریں گی اور اگر کبھی کوئی تنازع اتنا شدید ہوجائے کہ جنگ کی نوبت آجائے تو معاہدے کے رکن ملک آخری حد تک مصالحت و ثالثی کے لیے اقدامات کریں گے۔ اس میں کسی نہ کسی دوست ملک کا تعاون ہی حاصل کیا جائے گا تاکہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا جاسکے۔
٭کیلاگ بریانڈ پیکٹ (1928) Kellogg Briand Pact: تمام ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی تصادم، تنازعے یا اختلافات کو چاہے ان کی نوعیت کیسی بھی ہو جامع انداز میں پُرامن طریقے سے حل کیا جائے گا۔
٭اقوام متحدہ کا چارٹر: تمام رکن ممالک اپنے درمیان موجود تنازعات کو پر امن طریقے سے اس طرح حل کریں گے جس کے ذریعے عالمی امن و استحکام کو کسی بھی قسم کا نقصان نہ پہنچے۔ تمام ملک اپنے تعلقات کو کسی ملک یا سیاست کی سالمیت اور آزادی کے خلاف طاقت یا ہتھیاروں کے استعمال کے لیے بروئے کار نہیں لائیں گے۔
اقوام متحدہ نے عاضی طور پر سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت کا سلسلہ روکا ہوا ہے۔ تاہم سعودی سرحد سے منسلک یمن میں جنگ و جدل کا بازار گرم کرنے کے لیے اقدامات زور شور سے جاری ہیں۔ یہ بھی کم و بیش اسی طرح عالمی قوانین کی خلاف ورزی یا انھیں نظر انداز کرنے کے مترادف ہے جس طرح عراق اور جنوبی کوریا کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت یا امریکا کی جانب سے اسرائیل کو ہتھیار بطور تحفہ دینے کے اقدامات کیے گئے۔ ڈھٹائی سے کیے گئے ان اقدامات کے وقت ''دہشت گردی'' کے سدباب کا خیال آیا نہ ہی ''انسانی حقوق'' کی پاس داری کا معاملہ اٹھا۔
یہ بھی المیے سے کم نہیں کہ دکانوں پر چوری کرنے والے جیل جاتے ہیں جب کہ مہلک ہتھیاروں کو بیچنے والے آزادانہ گھوم پھر رہے ہیں۔ کسی بھی ہتھیار فروخت کرنے والے ملک نے عالمی مسئلے کو پُرامن انداز میں حل کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔ منشیات کی طرح ہتھیاروں کا کاروبار اور ان کا استعمال بھی زور و شور سے جاری ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ عالمی عدالت جرائم(International Criminal Court) دنیا کی بڑی طاقتیں، جو سب سے بڑی اسلحہ ساز اور ہتھیار فروخت کرنے والی ہیں، کے خلاف کسی بھی قسم کی تادیبی کارروائی سے قاصر ہے۔ یہ عالمی عدالت اتنی مجبور ہے کہ اپنے کسی رکن ملک کے خلاف بھی ہونے والی کارروائی پر کوئی ایکشن نہیں لے سکتی، جس کی مثال اوباما حکومت کی جانب سے فلپائن پر ڈرون حملے ہیں، لیکن اس پر بھی عالمی عدالتِ جرائم خاموش رہی اور پھر ایک اور رکن ملک افغانستان کے حوالے سے بھی خیال ظاہر کیا جارہا ہے کہ وہاں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے اسے ایک نہ ایک دن عالمی عدالتِ جرائم میں لانا پڑے گا۔
اس مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں انصاف اور قانون کی حکم رانی کے نعرے بلند کرنے والے خود قانون شکن بنے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر میں امن و سکون کا پیغام دینے والے ہر خطے میں مہلک ہتھیاروں کی فراہمی کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ اس مشکل صورت حال کا حل یہ ہے کہ عالمی عدالت جرائم تمام مجرموں کے ساتھ یکساں سلوک کرے اور قوانین کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کی جائے۔ ہتھیاروں کے سودا گروں سے مکمل قطع تعلق اور ان کی حوصلہ شکنی کا ماحول بنایا جائے۔ نئے امریکی صدر کو واضح طور پر بتادیا جائے کہ اب ہم کسی جنگ کے لیے تیار نہیں۔ جنگ کے بجائے پُرامن رویوں کی تحریک چلائی جائے۔