آئے کچھ ابر انقلابِ آئے ۔۔۔…
اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہوش کے ناخن لینے میں ہی ہم سب کی بقا ہے۔ یاد رکھیں یہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ورنہ
December 31, 2012
عوام اس حقیقت سے باخوبی واقف ہیں 4 سال 9 ماہ قبل موجودہ جمہوری حکومتی نمایندگان مختلف ٹاک شوز میں یہ کہتے نظر آیا کرتے تھے، جناب ہمیں وقت دیجیے ہم عوام کی اُمیدوں واُمنگوں پر پورا ثابت ہونگے اِسی گردان میں انتخابات کا وقت نزدیک آگیا اور عوام کی اُمیدوں کا حال کچھ یوںہوا ۔۔۔۔۔ آج بجلی ہے نہ پانی، نہ گیس نہ سی این جی ملک بھر میں محتاط اندازے کے مطابق مائوں کے 40 ہزار ارمان خاک میں ملا دیے گئے۔ صرف شہر کراچی میں 8 ہزارسے زائد اُمنگوں کو سپرد خاک کردیا گیا ۔
یہ کس قسم کا بدلہ ہے صاحب فکر سمجھنے سے قاصر ہے ہر ذی شعور اس حقیقت سے واقف ہے کسی بھی ملک کی ترقی مذکورہ بالا بنیادی ضروریات کی فراہمی کے ساتھ انکم ٹیکس کی باقاعدہ ادائیگی پر بھی مبنی ہے۔ پاکستان کے 18کروڑ عوام میں سے 7لاکھ 63 ہزار افراد انکم ٹیکس کی باقاعدہ ادائیگی کرتے ہیں وہ بھی حالت مجبوری کے پیش نظر کیونکہ اِن افراد میںسے تقریبا آدھی تعداد ملازمت پیشہ افراد کی ہے لہٰذا اُن کی تنخواہ میں سے ٹیکس کاٹ لیا جاتا ہے اگر میں اس حقیقت سے بے خبر ہوتی (جو رقم کرنے جا رہی ہوں)تویقینا میں عوام کو انکم ٹیکس کی ادائیگی نہ کرنے پر مورد الزام گردانتی مگر صاحب یہاں تو عوامی نمایندوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
ذرا ملاحظہ فرمایئے قومی اسمبلی اورسینیٹ کے 446 اِرکان میںصرف 126 ممبران نے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروائے عوام کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرنے والے اس ملک وقوم کے ہر طرح سے مقروض ہیں۔ آج کل سیاست عمران خان کی صورت میں پاکستان کی گلیوںاور سڑکوں میں کبھی ہلکی اور کبھی تیز چہل قدمی کرتی نظر آرہی ہے کبھی ہلکی اور کبھی تیزکے الفاظ میں نے وقتا فوقتاIRI اور سوشل ویب سائٹس کے سروے اور الیکشن کو مدنظر رکھ کر رقم کیے جہاں تک سوشل ویب سائٹس سروے کا تعلق ہے ناچیز اُس سروے کو قابل تصدیق نہیں سمجھتی کیونکہ سوشل ویب سائٹس پر ہمیں یہ نہیں پتہ چل سکتا کہ آیا ایک User کی کتنی id ہیں اور اِن سائٹس پرہونے والے الیکشن میں Participateکرنے والوں میں سے کتنے افراد شناختی کارڈ کے حامل ہیں۔
لہٰذا اس تیزی سے اوپر نیچے جاتی شہرت کی مکمل حقیقت تو میرے محدود علم کے مطابق آیندہ ہونے والے انتخابات میں ہی سامنے آئیگی مگر حالیہ پنجاب میں منعقدہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی بھاری کامیابی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ آیندہ ہونے والے عام انتخابات کے لیے بہت پُر اعتماد ہیں یہ صورتحال یقینا 'سونامی' کے لیے قبل از عام انتخابات ایک بڑا چیلنج ہے۔ ناقدین کی رائے کے مطابق خان صاحب کا دامن 'کرپشن' سے پاک ہے جس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ ابھی تک اقتدار اعلیٰ یا حکومت کے کسی بھی عہدے پر فائز نہیں ہوئے ہیں۔ سب جانتے ہیں خان صاحب کو نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد پسند کرتی ہے اگر ہم ماضی کے جھروکوں میں جھانکیں اور 20 سے 25سال پیچھے کی جانب جائیں تو ہماری ملاقات' مہاجر قومی موومنٹ' نامی تنظیم کے دیوانے نوجوانوں سے ہوتی ہے جو اپنے قائد کے اس قدر وفادار ساتھی تھے کہ اُن کے ایک اشارے پراپنی جان قربان کرنے کے نہ صرف نعرے لگاتے بلکہ اس پر عمل کرتے بھی نظر آتے۔
یہ نوجوان بھی اپنے تابندہ مستقبل کے مشتاق اور حقوق کے حصول کے خواہاں تھے۔ اب حالیہ صورتحال ملاحظہ فرمایئے یہ نوجوان اب 45 سے 50 سال کی عمروں میں داخل ہوگئے ہیں مگر بد قسمتی سے اُن کے مسائل آج بھی 20 سے 25سال پہلے جیسے بلکہ اور زیادہ طوالت اختیار کرچکے ہیں جب کہ اُن کی پسندیدہ جماعت ' مہاجر قومی موومنٹ' سے ' متحدہ قومی موومنٹ' میں تبدیل ہوچکی ہے۔ جس شہر کو Own کرتے ہیں وہ شہر تباہی کے قریب ہے مگر ماضی کے ' مہاجر' آج کے 'متحد' خاموش ۔ ایسا کیوںہے ؟ میں ان سب کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتی مگر بحیثیت پاکستانی عوام سے یہ گزارش کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں آیندہ ہونے والے عام انتخابات میں ہر طریقے سے ماضی اور حال کا جائزہ لیتے ہوئے اپنے مستقبل کا فیصلہ کیجیے گا ۔ آیئے اب آگے بڑھتے ہیں ۔
اب ذرا میں میاں صاحب کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ورنہ تشنگی رہ جائے گی یوں تو موصوف کا مشن دوسروں کے ادھورے مشن کولے کر چلنا اور پھردرمیان میں یہ بھول جانا کہ مشن کیا تھا۔ آجکل متوقع عام انتخابات کے سلسلے میںدل جمعی سے متحرک ہیں موجودہ دنوں میں جب سیاست دانوں نے عوام کی نظر میںاپنا وقار خاک میں ملا دیا ہے اتنی کثیر تعداد میں ووٹ حاصل کرنا یقینا قابل تعریف اچیومنٹ ہے ۔ نوازشریف کا اتحاد اُن پارٹیوں سے ہے جو وطن عزیز کے وجود سے ہی انکاری ہیں، یہ کس قسم کا الائنس ہے اس اتحاد میں پاکستان کی سربلندی اور وقار کہاں ہے میاں صاحب ذرا اس کنفوژن کو دور کیجیے ۔
اگر بات کی جائے حکمران جماعت کی تو اُن کے اعتماد کو دیکھ کر حیرت، حیرت اور حیرت ہی ہوتی ہے بدعنوانی کے الزامات میں گھری حکمران جماعت متوقع عام انتخابات میں بھی اس پر پُر اُمید نظر آتی ہے کہ عوام دوبارہ ان ہی کو اپنے پر پھر مسلط کرنے کے لیے منتخب کریںگے قبل از وقت کہنامناسب نہیں مگر یہ تو ملک کے عوام جانتے ہی ہیں پیپلزپارٹی ماضی میں بھٹو کارڈ اور اب اس کارڈکے ساتھ ' بی بی کارڈ ' پر بھاری مینڈیٹ حاصل کرتی آئی ہے۔ لہٰذا اس بنیاد پر ہی وہ اب بھی پُرامید ہیں۔اِن اُمیدوں کے چراغوں میں کتنا تیل ہے اس کا علم متوقع عام انتخابات میںہی عمل میںآئے گا۔ اب بات کی جائے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی تو وہاں کے حالات بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ بلوچستان میں آئینی بحران جاری ہے دوسری طرف حقوق نہ ملنے کے باعث ملک کو علیحدگی کاچیلنج درپیش ہے۔KPK کی صورتحال بھی الگ پریشان کن ہے ۔
حالیہ غیر ملکی حملہ آوروں کا ائیرپورٹ پر حملے کی خبریں ہر پاکستانی کے لیے باعث تشویش ہے اس کے ساتھ ہی حالیہ صوبائی وزیر خیبر پختون خوا اور اے این پی کے رہنما بشیر بلورکی شہادت کا افسوسناک واقعہ۔ وہ بھی موجودہ حالات میں جب ملک الیکشن کی جانب گامزن ہے عوام کی سوچ کومنتشرکر رہا ہے۔کراچی کی دن بدن ٹارگٹ کلنگ نے پہلے ہی الیکشن کو مشکوک بنا کے رکھا ہوا ہے اُس پر اس قسم کے واقعات مزید قیاس آرائیوں کو تقویت دیتے نظر آرہے ہیں۔ موجودہ حکومت کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اُنھوں نے ملک کی معاشی صورتحال کو اس قدر ابتر کیا جس کے نتیجے میںآج پاکستان کی 40 فیصدIndustries بنگلہ دیش شفٹ ہوچکی ہیں ، بنیادی ضروریات کا فقدان ، بھتوں خوروں کا عروج ، سی این جی کے حصول کے خاطر قطاردر قطار منتظر معصوم و مظلوم عوام غرض کہ ہر عنوان میں مصائب کا عنصر ہے۔
اس وقت میرے وطن کی حالت اُس شخص کی سی ہے جو 10 منزلہ عمارت سے گر کر معجزاتی طور پر بچ تو گیا ہو مگر اُس کا ایک ایک عضو متاثر ضرور ہوا ۔ یقیناً یہ رب ِ حقیقی کا کرم ہی ہے کہ ان پُرہول حالات میں بھی پاکستان قائم ہے اور انشاء اللہ رہتی دنیا تک رہے گا مگر یاد رکھیں تقدیر کے ساتھ تدبیر کا بھی بہت عمل دخل ہوتا ہے پروردگار حرکت کرنے والے کو ہی برکت دیتا ہے۔ وطن عزیز کو درپیش مسائل سے ہم (عوام) نے فوج، عدلیہ، میڈیا، مذہبی وسیاسی جماعتوں کے ساتھ ملکر اپنی اولین ذمے داری سمجھتے ہوئے باہر نکالنا ہوگا۔
یاد رکھیں ان سب میں عوام کا کردار سب سے اہم ہے اس ملک کے عوام کوقوم کی تاریخ کے مطالعے کی بہت ضرورت ہے۔ مت بھولیں 'انقلاب' ہمیشہ عوام لاتے ہیں اگر لیڈر کی ہی ضرورت ہے تو اپنے رہنما خودکیوں نہیں بن جاتے۔ اپنی 'کرنی' کا الزام دوسرے پر عائد کرنے کے بجائے اپنی ذمے داری کو سمجھنا ہی عقلمندی ہے۔ ملک میں جس ڈھٹائی سےAllegational Politics"'' فروغ پارہی ہے اُس سے اندازہ ہوتا ہے۔ ہم واقعی کتنے 'زندہ عوام' ہیں ۔معذرت کے ساتھ کہوں گی میرا پیارا ملک سانس لیتے انسانوں کا قبرستان بنتا جارہا ہے اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے ہوش کے ناخن لینے میں ہی ہم سب کی بقا ہے۔ یاد رکھیں یہ پاکستان ہے تو ہم سب ہیں ورنہ ۔۔۔۔۔!
کالم کا اختتام منظر بھوپالی کے اس فکر انگیز شعر سے کرنا چاہونگی ۔۔
فضول آپ پر الزام قتل ہے صاحب
جو مر چکا ہے دوبارہ وہ مر نہیں سکتا