داستان کا لطف تو سامنے بیٹھ کر سننے ہی میں ہے
اردو سے دور ہونے والے سامعین بھی قدیم اسلوب کی چاشنی پر جھوم اٹھتے ہیں
یوں تو اِبلاغ عامّہ کے باب میں قصّے، کہانیوں اور داستانوں کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ پرانے وقتوں میں بھی لوگوں کے ایک منچ کے گرد جمع ہو کر بیتے واقعات اور داستانیں سننے کی روایات ملتی ہیں، کچھ فن کاروں نے اس ضمن میں تمثیل کا رنگ بھی بھرا اور لوگوں کے لیے تفریح کا سامان کیا۔ اس کے علاوہ بچوں کا اپنی نانی اور دادی کے گرد جمگھٹا لگا کر کہانیاں سننے کا رواج بھی کچھ زیادہ پرانا نہیں۔۔۔پھر یہ سلسلہ تحریری اور صوتی شکل میں بھی پڑھا اور سنا جاتا رہا ہے۔
اسی کہانی کی ایک شکل 'داستان گوئی' بھی ہے، جو روایتی طور پر دنیا کے مختلف ممالک میں رائج رہی ہے۔ پاک وہند میں اسے ریاست اودھ کا خاصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اردو کے نام وَر داستان گو میر باقر علی کو اس صنف میں اپنی طرز کا آخری کلاکار کہا جاتا ہے۔ یوں اردو زبان میں اس صنف کا باب 1928ء میں میر باقر علی کے دنیا سے جاتے ہی بند ہوگیا۔
پھر کافی عرصے بعد شمس الرحمن فاروقی نے داستان امیر حمزہ پر ایک معرکۃ الآرا کتاب ''ساحری، شاہی صاحبقرانی'' لکھ کر اس متروک صنف کو جلا بخشنے کی کوشش کی اور اسی کے نتیجے میں محمود فاروقی نے اس محفل کو دوبارہ سجانا شروع کیا۔ محمود فاروقی، معروف ادیب اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے رشتے کے بھتیجے ہیں۔
14 دسمبر 2011ء کو ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمود فاروقی نے بتایا کہ 5 مئی 2005ء کو انہوں نے دلی میں پہلی بار 'طلسم ہوش رُبا' کے کچھ ٹکڑے سنائے، تو توقع سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی اور نام وَر اداکار نصیرالدین شاہ سمیت دیگر کئی لوگوں نے بھی اس سمت طبع آزمائی کی۔ پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں جب داستان کی رِیت ختم ہوئی، تو اُس وقت ایک داستان گو ہی حاضرین کے روبرو ہوتا تھا، جب کہ محمود فاروقی نے یہ ذمہ داری دو افراد میں تقسیم کی، پہلے ہما نشوتیاگی ان کے ساتھی تھے، تو بعد میں دانش حسین نے ان کی جگہ ساجھے داری نبھائی۔ اس سے داستان پر تھیٹر کی جھلک بھی نظر آئی۔ سنانے والوں کو سہولت ہوئی، تو سامعین کو بھی بھلا معلوم ہوا۔ محمود فاروقی کے مطابق وہ اردو میں ایک سے زائد افراد کے مل کر داستان سنانے کے آغاز کار ہیں۔
محمود فاروقی اور دانش حسین اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے پاکستان بھی آئے اور انہوں نے یہاں کے لوگوں کو بھی اس سے بے پناہ متاثر کیا، جس کے نتیجے میں 'ناپا' (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ) کے طالب علم فواد خان نے ان کی پیروی کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح سرحد کے اِس پار بھی داستان گوئی کی قدیم روایت کو گویا نئی زندگی ملنے لگی۔ محمود اور دانش دو تھے، تو یہاں داستان گو کی بانی ٹیم تین ارکان فواد خان، نذر الحسن اور میثم نقوی کی صورت میں تین افراد پر مشتمل تھی۔ انہیں اب اس دشت کی سیّاحی کرتے ہوئے تیسرا برس ہونے کو ہے۔ گذشتہ دنوں ہم ان کی داستان گوئی سے نہ صرف مستفید ہوئے، بل کہ 'ایکسپریس' کے لیے خصوصی طور پر ان سے گفتگو کا اہتمام بھی کیا، جس کا دل چسپ احوال قارئین کی نذر ہے۔
اس کام کی شروعات کے حوالے سے نذرالحسن بتاتے ہیں کہ فواد خان کے کہنے پر جب انہوں نے 'طلسم ہوش رُبا' پڑھی تو اس میں برتے جانے والے استعارے، مترادفات اور جملوں کی بُنت نے انہیں اپنی طرف کھینچا۔ داستان گو ٹیم کے تیسرے رکن میثم نقوی داستان گوئی کی طرف اپنی رغبت کا سہرا ضیا محی الدین کے سر باندھتے ہیں، جن کے شستہ اور خوب صورت لہجے میں پڑھت کا ایک زمانہ دیوانہ ہے۔ کہتے ہیں کہ داستان گوئی میں طویل دورانیے، مشکل زبان کو اس کے درست تلفظ اور خوب صورتی سے ادائی کو ایک چیلینج کے طور پر قبول کیا ہے۔
فواد خان کو جب 'لیڈر' کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب برابری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ تھیٹر کے میدان میں تو پہلے ہی موجود تھے، جب کہ 'داستان گوئی' کی طرف رخ بعد میں کیا، کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سوچ کر کام شروع نہیں کیا کہ کوئی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ کہانی تو تھیٹر میں بھی ہوتی ہی تھی، بس داستان گوئی میں اس کہانی کا ڈھب ذرا مختلف ہے۔ فواد خان اور ان کے رفقا اب تک مختلف جامعات میں 'داستان گوئی' کر چکے ہیں، جن میں جامعہ کراچی، لمز، آغاخان یونیورسٹی، زیبسٹ، حبیب یونیورسٹی اور سادات امروہہ اکادمی نمایاں ہیں۔ کراچی اور لاہور کے علاوہ اسلام آباد اور فیصل آباد میں بھی شائقین ان کے فن سے محظوظ ہوچکے ہیں۔ ہندوستان میں تھیٹر کیا، لیکن داستان گوئی کا موقع نہ مل سکا۔
داستان گوئی سے منسلک تینوں اراکین کا تعلق کراچی سے ہے۔ اِن کے والدین بھی یہیں پیدا ہوئے، لیکن پُرکھوں کا تعلق سرحد کے اُس پار سے ہے۔ نذرالحسن لکھنؤ، میثم نقوی امروہہ، جب کہ فواد خان علی گڑھ کے قبیل سے ہیں، جب کہ ان کے ننھیال کا تعلق بدایوں سے ہے۔ نذر الحسن کے گھر میں انگریزی سے مرعوبیت نہیں تھی اور اچھی اردو کا چلن تھا۔ بچپن میں وہ محلے کی لائبریری سے کتابیں مستعار لے کر مطالعے کا شوق پورا کرتے تھے۔
میثم نقوی کا ماننا ہے کہ ہمارے گھرانوں کی نشست وبرخاست کا اثر ہماری بول چال اور زبان وبیان پر ضرور پڑتا ہے۔ اِن کے والد ظاہر نقوی شاعر تھے، اس وسیلے سے میثم کا بھی مشاعروں میں آنا جانا رہا، والد کی کتابوں سے استفادہ بھی کیا۔ 'ہمدرد نونہال' کے علاوہ اخبار میں بچوں کے صفحے پڑھے، عمران سیریز پڑھنا شروع کی تو والد نے راہ نمائی کی کہ اگر اصل عمران سیریز پڑھنی ہے تو ابن صفی کی پڑھو، یوں ان کے ہاں زبان کا معیار بلند رہا۔ فواد خان کو ساتویں، آٹھویں کلاس میں مطالعے کا شوق چَرایا۔
پہلے گھر میں اگرچہ دادا کی کچھ کتب تھیں، مگر وہ چوری ہوگئیں، گھر کے ایک کونے میں دیوان غالب پڑا ہوا تھا، اور بقول فواد 'واقعی پڑا ہوا تھا، کیوں کہ رکھا ہوا تو وہ ہوتا ہے، جسے پڑھا جائے۔ یوں دیوان غالب سے باقاعدہ مطالعے کی شروعات ہوئی۔ اسکول میں ولیم شیکسپئر سے متعارف ہوئے، ڈراموں کی کتاب ٹین ٹیل فرام شیکسپئر (Ten Tales from Shakespeare) پڑھی، جب یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ڈراما ہوتا کیا ہے۔ بس پھر چل سو چل، مطالعے کا سلسلہ جاری ہوا۔
٭کہانی کا چناؤ
'داستان گوئی' کی ابتدا تو 'طلسم ہوش رُبا' سنانے سے کی گئی، لیکن داستانوں کے علاوہ بہت سی دیگر کہانیوں کو بھی اسی ڈھب پر پڑھ کر سنایا جا رہا ہے۔ دیگر کہانیوں کا انتخاب کرنے کے لیے وہ یہ تصور کر کے پڑھتے ہیں کہ یہ دوسروں کو سنا رہے ہیں، اس طرح وہ یہ پرکھ لیتے ہیں کہ یہ داستان یا کہانی لوگوں کو لطف دے گی یا نہیں، لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ کتاب میں تو تحریر کافی بے باک ہوگئی ہے، لیکن مجمع کے سامنے یہ سب پڑھنا تو بہت عجیب یا غیرمناسب معلوم ہوگا، اس کا ڈر یا جھجک کبھی محسوس نہیں کی۔
نذر الحسن کے بقول یہ تھیٹر کی تربیت ہے کہ 'ہم تحریر کو پڑھ کر یہ جانچ لیتے ہیں کہ کہاں لوگوں کی توجہ حاصل ہو سکتی ہے، کہاں جاکر سنے والوں پر بوجھل مرحلہ آئے گا اور کس تحریر کو عام لوگوں کی قوت سماعت سہہ سکتی ہے، لہٰذا ایک حد تک ہی سخت، سیدھی یا خشک زبان روا رکھی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ کہاں روانی سے بات کو کہنا ہے اور کہاں ذرا توقف کرنا ہے اور لفظوں کو دھیرے دھیرے کہنا ہے، یا کوئی بات کہتے ہوئے لہجے کو کس ڈھب پر رکھنا ہے۔'
٭کہانی کی 'ترتیب نو' بھی کرنا پڑتی ہے
لکھی ہوئی تحریر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ کہیں پُرپیچ بات ہو یا منظر زیادہ گنجلک اور الجھا ہوا ہوجائے اور بات سمجھ میں نہ آئے، تو قاری ورق الٹاکر اسے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر سمجھ لیتا ہے، لیکن جب اسے سنانا مقصود ہو تو گویا ایک ہی بار میں سامعین تک بات واضح کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے داستان سناتے ہوئے ایسی کہانیوں کو سہل کرنے کے واسطے مختلف ٹکڑوں کو تقدیم و تاخیر سے پڑھا جاتا ہے، تاکہ سناتے ہوئے لوگوں تک ایک ہی بار کہہ کر اس کا ایک واضح اِبلاغ ہوجائے۔
مشتاق احمد یوسفی کی کہانی 'حویلی' سنائی تو اس میں ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے اور بعد کے واقعات کی ترتیب بھی کچھ آگے پیچھے تھی، اسے انہوں نے زمانی اعتبار سے استوار کیا۔ عصمت چغتائی کی بہت سی کہانیاں گنجلک ہیں، کہیں رشتوں کا تانا بانا بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ایک پڑھت میں سمجھنا مشکل ہوتا ہے، دوسری اور تیسری بار پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ اس لیے ایسی چیزوں کو جب سنانے کے لیے چنتے ہیں تو پھر ان کا اِبلاغ سہل کرنے کے واسطے ان کی 'ترتیب نو' کرنی پڑتی ہے۔
٭مشکل زبان کی پڑھت
فواد خان کہتے ہیں کہ داستان سناتے ہوئے ان کے روبرو جہاں زبان کے جاننے والے زیادہ ہوتے ہیں، وہاں پذیرائی بھی زیادہ ملتی ہے، مگر زبان نہ جاننے والوں کی سماعت پر بھی لفظوں کی چاشنی ضرور رس گھولتی ہے۔ بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جو اردو بھول کر انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں، لیکن جب وہ ہماری داستان سنتے ہیں تو جھوم اٹھتے ہیں اور داد دیے بنا نہیں رہتے۔ 'طلسم ہوش رُبا' کے مشکل اسلوب کے حوالے سے میثم نقوی بتاتے ہیں کہ ہم اسے کچھ یوں پیش کرتے ہیں کہ سامعین کو چاہے بہت سے ثقیل الفاظ کے معنی معلوم نہ ہوں، لیکن اس کا مفہوم ان تک پہنچ جاتا ہے۔ نذر الحسن اس ہنر کو 'ناپا' اکادمی کی تربیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کہ ایک داستان میں کس طرح لہجے، لفظوں کی ادائی اور چہرے کے تاثرات سے لے کر پوری بدن بولی کے ذریعے کسی بھی متن کو دیکھنے اور سننے والوں تک اِبلاغ کیا جاتا ہے۔
٭ 'بدن بولی' سے اِبلاغ مکمل ہوتا ہے
داستان گوئی کی محافل میں قدیم اسلوب کی ثقیل اور مشکل زبان پڑھ تو دیتے ہیں، لیکن اس کے اِبلاغ لوگوں تک کیسے ہوتا ہے۔ اس پر فواد خان نے بتایا کہ داستان کا انداز اور پیش کش ایسی ہوتی ہے کہ اس میں ہماری نشست وبرخاست، حرکات وسکنات داستان کے اِبلاغ میں آنے والی کمی کو رفع کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے، جیسے ''زرتوزی باندھ کر دوپٹا شبنم کا اوڑھا، آنکھوں میں سرمہ دیا، لبوں کو مسّی آلود کیا'' اب اس سے سننے والے کو چاہے مسّی کا مطلب نہیں پتا ہو، لیکن وہ یہ ضرور سمجھ لے گا کہ ہونٹوں پر آرائش کے لیے ہی کوئی چیز لگائی۔ اردو داستان کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے، آج کے لندن میں ولیم شیکسپئر کے کھیل کا بھی ایک، ایک لفظ تو لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا ، لیکن وہ کہی گئی باتوں کا مفہوم اخذ کرلیتے ہیں۔
٭منچ کی غلطی ساجھی ہوتی ہے
دوران کارکردگی غلطیوں کا تذکرہ ہوا تو فواد خان نے کہا تھیٹر کا اصول ہے کہ اگر کوئی ایک فرد بھی مجمع کے سامنے کہیں کچھ غلطی کرجائے یا بھول جائے اور سننے والوں کو اس کی خبر بھی ہوگئی، تو وہ غلطی پھر ایک فرد کی غلطی نہیں رہتی، بل کہ اسٹیج پر موجود تمام فن کار اس کے ذمہ دار بن جاتے ہیں۔ براہ راست کام کرتے ہوئے کام رک تو نہیں سکتا، منچ پر کام اگرچہ تقسیم ہوتا ہے، مگر سب کو ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ مکمل داستان یاد کرتے ہیں، تاکہ کہیں سہو ہو تو اس کا بروقت ازالہ ممکن ہو سکے۔ نذرالحسن نے بتایا کہ ایک بار حبیب یونیورسٹی میں جب ان کے بولنے کی باری آئی، تو ان سے چُوک ہوئی اور وہ سنائی جانے والی داستان کا درمیانی حصہ ادا کرنا بھول گئے۔
اس موقع پر ان کے ساتھی میثم نقوی نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صورت حال کو سنبھالا اور سامعین کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ اسی طرح میثم نقوی باغِ جناح لاہور میں اپنی باری پر کہنے والے مکالمے یاد نہ رکھ سکے، بقول اِن کے ان کے حافظے نے یک لخت ساتھ چھوڑ دیا اور بالکل سپاٹ ہو گیا کہ اور انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ کیا بولنا تھا، ایسے میں انہوں نے فی البدیہہ مکالمہ بناتے ہوئے کہا 'اور اس نے کہا سنبھالیں یہاں سے۔۔۔!'' اس بین السطور پیغام کو بروقت بھانپتے ہوئے نذر الحسن نے اُن کا چُھٹا ہوا حصہ بھی پیش کیا اور حاضرین کو پتا بھی نہ چلا کہ یہ ماجرا ہوا ہے۔ نذرالحسن کہتے ہیں کہ 'طلسم ہوش رُبا' کی زبان میں اپنے طور پر کوئی مکالمہ یا جملہ بنانا مشکل ہوتا ہے، اس لیے ایسے اسلوب پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
٭مصنف کے سامنے اُسی کی کہانی
گزشتہ سال 'عالمی اردو کانفرنس' میں پہلا موقع تھا کہ جب انہوں نے کہانی 'حویلی' پیش کی اور اس کے مصنف مشتاق احمد یوسفی نے بیٹھ کر اسے سنا۔ فواد خان اور ان کے رفقا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یوسفی صاحب اس نشست کا حصہ ہوں گے، میثم نقوی نے اسے اپنے فن کا اصل امتحان قرار دیا، کیوں کہ تین سال کے عرصے میں ایسا پہلی بار ہوا کہ وہ جس کہانی کو پیش کر رہے ہیں، اس کا مصنف روبرو موجود ہے۔ اس سے قبل شمس الرحمن فاروقی اور انتظار حسین کے سامنے بھی داستان پیش کرنے کا اعزاز سمیٹ چکے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی داستان گوئی کے اسرار ورموز سے واقف اور اس کے احیا کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ انتظار حسین 'طلسم ہوش رُبا' سے متاثر ہو کر اسی اسلوب پر ایک کہانی ''وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کاغذ آباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادوگر'' لکھ چکے ہیں۔ وہ انتظار حسین کی یہ کہانی حبیب یونیورسٹی کے منچ پر پیش کر چکے ہیں، مگر اس محفل میں انتظار حسین موجود نہ تھے۔ داستان گوئی کے حوالے سے انتظار حسین نے ان کے کام کا تذکرہ کیا، نذرالحسن کے بقول اگرچہ انہوں نے ہمارا نام نہیں لیا، لیکن اس کے باوجود ہمارے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔
٭ مشکلات کا کچھ بیان ہوجائے
مشکلات کے ذکر پر انہوں نے پروگرام کے دوران حاضرین کے موبائل فون بجنے اور تصویر کھینچتے ہوئے روشنی کی چمک کی شکایت کی، کہ لوگ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود غفلت کرتے ہیں۔ نذرالحسن کہتے ہیں اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی جیسی جگہ پر کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ معالجین اور طب کے طلبا کے اس نظم وضبط نے انہیں بہت متاثر کیا۔ اس کے علاوہ داستان گوئی کے ادب سے ناواقف حاضرین بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں، بعض اوقات اس قدر تالیاں بجاتے ہیں کہ داستان کا تسلسل متاثر ہونے لگتا ہے۔ فواد کہتے ہیں لطف اندوز ہونا لوگوں کا حق ہے، مگر داد دیتے ہوئے یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ابھی کہانی کو آگے بھی بڑھنا ہے۔
٭ حاضرین رعب میں آجاتے ہیں
'داستان گوئی' چوں کہ براہ راست لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے، اس لیے اس پر ردعمل بھی ہاتھ کے ہاتھ ہی مل جاتا ہے اور منچ پر فن کا مظاہرہ کرنے والوں کا اکثر مختلف قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ چناں چہ ہم نے پوچھا کہ کہانی سنانے کے دوران کبھی کسی نے کوئی جملہ تو نہیں کسا؟ تو فواد کا کہنا تھا کہ سامعین تو داستان کی مرصع اور چاشنی سے بھرپور زبان کے رعب میں آجاتے ہیں۔ مثال کے لیے انہوں نے 'طلسم ہوش رُبا' کا پہلا جملہ سنایا جو کچھ یوں تھا:
''ساقیانِ خُمخانۂ اَسمارو جرعۂ نوشانِ جامِ اَفکار، بادۂ ارغوانی شنجرفِ تحریر سے ساغرِ قرطاس کو اس طرح مملو کرتے ہیں کہ۔۔۔''
فواد کے بقول اُس داستان میں اتنے ثقیل اور گاڑھے الفاظ کا استعمال ہی لوگوں پر رعب ڈالنے کے واسطے ہے۔
٭ہر مہینے دو، تین محافل کرلیتے ہیں
فواد خان اور ان کے رفقا کو اس دشت کی سیّاحی میں تین برس ہو چکے ہیں، اس لیے طویل داستان یاد کرلینا اب کوئی مسئلہ نہیں۔ فن کاری کی تربیت، تھیٹر اور عملی کام کی مشق اس حوالے سے خاصی معاون ثابت ہوئی ہے۔ میثم نقوی کہتے ہیں لوگوں کا پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ آپ نے یاد کیسے کیا۔ فواد خان کا ماننا ہے کہ اﷲ نے انسانی حافظے کو بے پناہ صلاحیت دی ہے، یہ ان عضلات کی مانند ہوتا ہے، جسے مشق کے ذریعے جتنا بڑھاتے چلے جائیں یہ اُتنا وسیع ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی مشق کریں گے، نتائج اتنے ہی بہتر ہوں گے۔ نذرالحسن کہتے ہیں ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر ہم فطری صلاحیت استعمال کرتے ہیں تو حافظے کے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
ساتھ ہی بہ آسانی کہانی یا داستان کی پڑھت تقسیم کر لیتے ہیں کہ کس کو کون سے حصے پڑھنے ہیں، اور کہاں سے خواندگی کس کے حصے میں آئے گی، لیکن اسے یاد سب کو کرنا ہوتا ہے، تاکہ کوئی چُوک ہو تو صورت حال کو سنبھالا جا سکے۔ سوا گھنٹے کی سماعت پر محیط مشتاق احمد یوسفی کی کہانی حویلی دو سے تین ہفتے میں ازبر کی۔ اس کے بعد پندرہ، سولہ دفعہ اس کی ریہرسل کی۔ فواد نے بتایا کہ ہم پیش کاری کے بعد بھی تبدیلیاں اور بہتری کرتے رہتے ہیں۔ کہیں مزید ضرورت محسوس ہوتی ہے تو لہجے کے اتار چڑھاؤ اور جسمانی حرکات وسکنات کو لفظوں کے نشیب وفراز سے ہم آہنگ کرنا ہو تو اسے بھی ٹھیک کرتے رہتے ہیں۔
٭ڈھائی گھنٹے طویل محفل بھی سجائی!
'داستان گوئی' کے لیے بھی اس کی طوالت کو خاص طور پر مدنظر رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ زیادہ دیر تک لوگوں کا مسلسل کسی ایک چیز کے لیے جم کے بیٹھے رہنا ممکن نہیں رہتا۔ نذرالحسن اس حوالے سے گویا ہوتے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک 'طلسم ہوش رُبا' کی نشست پون گھنٹے سے زیادہ طویل نہیں کی۔ مشتاق احمد یوسفی کی 'حویلی' سنانے کا دورانیہ سوا گھنٹے پر محیط رہا۔ فواد خان کہتے ہیں زیادہ تر محافل میں وہ آدھے گھنٹے کی 'طلسم ہوش رُبا' کے بعد مشتاق احمد یوسفی کو پڑھتے ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں مسلسل ڈھائی گھنٹے تک بھی منچ سجائے رکھا، جس میں میر باقر علی، مشتاق یوسفی اور 'طلسم ہوش رُبا' تینوں شامل تھے۔
٭بلامعاوضہ بھی داستانیں سنانی پڑتی ہیں
پیشہ ورانہ طور پر داستان گوئی اختیار کرنے کا تذکرہ چِھڑا، تو انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر تو وہ اداکار ہیں، اور اسی مناسبت سے جہاں انہوں نے مختلف وسیلوں اور اصناف میں حصہ لیا ہے، وہیں داستان گوئی کی 'کلا' بھی اختیار کی، لیکن فقط داستان گوئی کو کل وقتی طور پر ابھی اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اُس وقت ہی ممکن ہے کہ جب کام اس قدر ملے کہ جس سے تین بندوں کا گزارا ہو سکے۔
لگے ہاتھوں ہم نے معاوضے کا نازک سوال بھی اٹھایا تو انہوں نے بتایا کہ یوں تو انہیں کئی جگہوں پر بلامعاوضہ بھی محفل سجانا پڑتی ہے، لیکن معاوضے کی رقم 30 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہوتی ہے، فواد کہتے ہیں کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ صاحب استطاعت اداروں سے زیادہ معاوضہ حاصل کریں، تاکہ کہیں بلامعاوضہ کام کرنا پڑتے، تو یہ گراں نہ گزرے۔ جامعہ کراچی کے حوالے سے فواد خان نے غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے طلبا میں بے حد خوف کی فضا کا مشاہدہ کیا، تب ہی انہوں نے وہاں کے طلبا کے لیے نہایت کم معاوضے میں داستان پیش کی۔ فواد خان نے بچوں کے لیے اردو میں کہانیوں کی ویب سائٹ 'ٹافی ٹی وی' کے پروگراموں کے لیے بھی داستان گوئی کی۔ کبھی پیسے ملتے اور کبھی نہیں مل پاتے، کیوں کہ اکثر یہ پروگرام بلامعاوضہ ہی منعقد ہوتے۔ بچوں کے لیے ویسے بھی کوئی پروگرام نہیں ہوتے، اس لیے بچوں کو رغبت دلانے کے لیے اس میں حصہ لیا۔
٭ 'داستان' کے مستقبل سے تشویش ہے!
'داستان گوئی کا مستقبل تشویش ناک ہے۔' کہتے ہیں کہ دنیا بھر کی زبانیں ختم ہو رہی ہیں اور ان پر انگریزی حاوی ہو رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی زبان کے لیے خاطرخواہ اقدام نہ کیے، تو زبان کو کافی سنگین خطرات لاحق ہیں۔
اگر زبان خطرے میں ہے، تو داستان گوئی بھی خودبخود مخدوش ہوجاتی ہے۔ ہمارے خطے کی زبانیں مر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زبانیں نہیں آتیں، ہماری تو خواہش ہے کہ ہمیں اتنی زبان آئے کہ ہم پنجابی زبان میں 'ہیر' پیش کریں۔ فواد خان اس دگرگوں صورت حال کی وجہ اردو کے دفتری زبان نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں کہ اسی بنا پر یہاں تراجم نہیں ہو رہے۔ لوگ اسی زبان کی طرف جاتے ہیں، جس سے روزگار جُڑا ہوا ہو۔ میڈیکل کی تدریس کے لیے انگریزی کا علیحدہ کورس کرایا جاتا ہے، کیوں کہ اردو میں طب کی کتب موجود نہیں۔
میثم نقوی اس حوالے سے والدین اور ادبا کو بھی دوش دیتے ہیں کہ زبان کا فہم رکھنے والی بہت سی شخصیات ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہ بنیں، لیکن انہوں نے اردو کے حوالے سے اپنا خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا۔ میثم نقوی سمجھتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں اپنی زبان سے محبت پیدا کرنی چاہیے، بدقسمتی سے اردو کی تدریس سے وابستہ افراد زبان سے محبت نہیں سکھا رہے، ہمیں قواعد وانشا کی تعریفیں رٹوانے کے بہ جائے ضیا محی الدین جیسے اساتذہ کی ضرورت ہے، جنہیں سن لینے سے زبان سے عشق ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب تک ہم زبان کو نہیں سنیں، سمجھ نہیں سکتے۔ والدین کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے میثم نقوی نے کہا کہ اگر میں اپنی بچی کو انگریزی اسکول میں پڑھاؤں اور انگریزی رنگ میں ڈھالوں، تو ایسے میں اردو کی جگہ کہاں بنے گی؟
٭ داستان گوئی، زبان کے فروغ کی موثر راہ
کسی بھی زبان کے خزانے میں تحریری طور پر چاہے کتنا ہی بڑا ذخیرہ کیوں نہ موجود ہو، اس کا فروغ کا بہت زیادہ انحصار اس کی بول چال پر ہی رہتا ہے۔ بولتے ہوئے کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، جُڑے ہوئے کس حرف کی آواز خفیف ہوگی اور کس حرف پر زور دے کر کہنا ہے۔ اگرچہ تحریر میں بُہتیری وضاحت کردی جائے، لیکن زبان سے ادا ہو کر سماعت کے راستے اس کا ہماری یادداشت میں محفوظ ہونا بے حد اہم ہوتا ہے۔ یہی کہی اور سنی ہوئی گفتگو ہی تو زبان میں لفظوں کے رواج پانے یا متروک ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
زبانی بیانیہ میں لفظوں کے برتاؤ کا ان کے اِبلاغ اور معنی سے روشناس کرانے میں بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں کیا 'سمعی ذرایع اِبلاغ' اور کیا 'سمعی وبصری ذرایع اِبلاغ' ہر جگہ محدود سے ذخیرہ الفاظ کی ایک سپاٹ سی زبان کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ گہرے اور تاثر پیدا کرنے والے الفاظ کے بہ جائے سطحی سے یک ساں الفاظ کی تکرار سے زبان اپنے تاریخی اور روایتی ورثے اور ذخیرے سے پرے ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں داستان گوئی کی محافل اردو زبان کے لیے کسی خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہیں، جن کے ذریعے زبان کے ذخیرۂ الفاظ اور اس کے درست تلفظ سے اس کے برتاؤ تک پیدا ہونے والی غفلت کا ازالہ کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
٭ 'پَشّا سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی'
آغا خان یونیورسٹی میں داستان سنائی، تو وہاں کی زبان فہمی نے خوش گوار حیرت میں مبتلا کیا۔ داستان یا کہانی سناتے ہوئے انہیں بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سامعین تک سنائے جانے والے متن میں سے کتنا پہنچا اور کتنا ان کے سر پر سے گزر گیا۔ آغاخان یونیورسٹی میں مشتاق احمد یوسفی کی کہانی 'حویلی' سناتے سمے جب انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ ؎
پَشّا سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی
جب قصد خوں کو آئے تو پہلے پکار دے
اس پر وہاں کے سامعین نے صحیح معنوں میں لطف اٹھایا، جب کہ عموماً لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ 'پَشّا' مچھر کو کہتے ہیں اور مصرع ثانی میں 'پکارنے' سے مراد اس کا کان میں بھنبھنانا مراد ہے۔ اس کے علاوہ شگفتہ بیانی کے باب میں بھی کچھ مندرجات کا پس منظر ایسا ہوتا ہے کہ اگر اسے جانا جائے، تو مسکراہٹ تو درکنار، مارے درد کی شدت کے آنسو نکل پڑیں، مگر لوگ فقط لفظوں کو سن کر ہنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
٭یوم محبت کا 'تحفہ'
ایک بار یوں ہوا کہ 14 فروری (یوم محبت) کے لیے ایک خاتون نے ان سے فرمائش کی کہ وہ اس دن اپنے شوہر کو تحفے کے طور پر داستان 'طلسم ہوش رُبا' سنوانا چاہتی ہیں۔ یوں انہوں نے معاوضہ لے کر خاتون کے گھر میں تیس، چالیس کے قریب مہمانوں کے روبرو داستان پیش کی اور لوگوں کو خوب محظوظ کیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس محفل میں بچے، بوڑھے اور نوجوان ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔
٭داستان گوئی ایک زبانی بیانیہ ہے
داستان گوئی کی ویڈیو تیار کرنے کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ فیس بک پر 'داستان گو' کے نام سے ایک گروپ موجود ہے، وہاں اگرچہ کچھ ویڈیوز موجود ہیں، مگر داستان گوئی دراصل براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے والا فن ہی ہے، آپ اس کی ویڈیو دیکھیں، لیکن یہ آپ کو وہ لطف نہیں دے گا، جو روبرو داستان سنتے ہوئے آتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں داستان گوئی تھیٹر کی طرح براہ راست پیش کیا جانے والا فن ہے۔ جس طرح مختلف ذرایع اور آلات کے باوجود منچ پر پیش کیے ہوئے کھیل کی بھی اپنی ہی اہمیت ہے اور اسی لیے وہ اس کے باوجود بھی جاری ہے۔
داستان بھی ایک زبانی بیانیہ ہے، اگر یہ تحریری صورت میں بھی ہو، تب بھی یہ سنائے جانے کے لیے ہی ہے، جیسے تمثیل (ڈراما) یا مرثیہ لکھا ہوا بھی ہو تو، بنیادی طور پر وہ پیش کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے، تحریری طور پر داستان کو بے شک پڑھ لیا جائے، لیکن دراصل یہ محفل میں سنانے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داستان گوئی کی کچھ 'ڈی وی ڈی' موجود ہیں، مگر انہیں بازار میں متعارف کرنے کا ارادہ نہیں۔
اسی کہانی کی ایک شکل 'داستان گوئی' بھی ہے، جو روایتی طور پر دنیا کے مختلف ممالک میں رائج رہی ہے۔ پاک وہند میں اسے ریاست اودھ کا خاصہ قرار دیا جاتا ہے۔ اردو کے نام وَر داستان گو میر باقر علی کو اس صنف میں اپنی طرز کا آخری کلاکار کہا جاتا ہے۔ یوں اردو زبان میں اس صنف کا باب 1928ء میں میر باقر علی کے دنیا سے جاتے ہی بند ہوگیا۔
پھر کافی عرصے بعد شمس الرحمن فاروقی نے داستان امیر حمزہ پر ایک معرکۃ الآرا کتاب ''ساحری، شاہی صاحبقرانی'' لکھ کر اس متروک صنف کو جلا بخشنے کی کوشش کی اور اسی کے نتیجے میں محمود فاروقی نے اس محفل کو دوبارہ سجانا شروع کیا۔ محمود فاروقی، معروف ادیب اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کے رشتے کے بھتیجے ہیں۔
14 دسمبر 2011ء کو ایکسپریس کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمود فاروقی نے بتایا کہ 5 مئی 2005ء کو انہوں نے دلی میں پہلی بار 'طلسم ہوش رُبا' کے کچھ ٹکڑے سنائے، تو توقع سے کہیں زیادہ پذیرائی ملی اور نام وَر اداکار نصیرالدین شاہ سمیت دیگر کئی لوگوں نے بھی اس سمت طبع آزمائی کی۔ پچھلی صدی کی تیسری دہائی میں جب داستان کی رِیت ختم ہوئی، تو اُس وقت ایک داستان گو ہی حاضرین کے روبرو ہوتا تھا، جب کہ محمود فاروقی نے یہ ذمہ داری دو افراد میں تقسیم کی، پہلے ہما نشوتیاگی ان کے ساتھی تھے، تو بعد میں دانش حسین نے ان کی جگہ ساجھے داری نبھائی۔ اس سے داستان پر تھیٹر کی جھلک بھی نظر آئی۔ سنانے والوں کو سہولت ہوئی، تو سامعین کو بھی بھلا معلوم ہوا۔ محمود فاروقی کے مطابق وہ اردو میں ایک سے زائد افراد کے مل کر داستان سنانے کے آغاز کار ہیں۔
محمود فاروقی اور دانش حسین اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے لیے پاکستان بھی آئے اور انہوں نے یہاں کے لوگوں کو بھی اس سے بے پناہ متاثر کیا، جس کے نتیجے میں 'ناپا' (نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹ) کے طالب علم فواد خان نے ان کی پیروی کرنے کی ٹھانی۔ اس طرح سرحد کے اِس پار بھی داستان گوئی کی قدیم روایت کو گویا نئی زندگی ملنے لگی۔ محمود اور دانش دو تھے، تو یہاں داستان گو کی بانی ٹیم تین ارکان فواد خان، نذر الحسن اور میثم نقوی کی صورت میں تین افراد پر مشتمل تھی۔ انہیں اب اس دشت کی سیّاحی کرتے ہوئے تیسرا برس ہونے کو ہے۔ گذشتہ دنوں ہم ان کی داستان گوئی سے نہ صرف مستفید ہوئے، بل کہ 'ایکسپریس' کے لیے خصوصی طور پر ان سے گفتگو کا اہتمام بھی کیا، جس کا دل چسپ احوال قارئین کی نذر ہے۔
اس کام کی شروعات کے حوالے سے نذرالحسن بتاتے ہیں کہ فواد خان کے کہنے پر جب انہوں نے 'طلسم ہوش رُبا' پڑھی تو اس میں برتے جانے والے استعارے، مترادفات اور جملوں کی بُنت نے انہیں اپنی طرف کھینچا۔ داستان گو ٹیم کے تیسرے رکن میثم نقوی داستان گوئی کی طرف اپنی رغبت کا سہرا ضیا محی الدین کے سر باندھتے ہیں، جن کے شستہ اور خوب صورت لہجے میں پڑھت کا ایک زمانہ دیوانہ ہے۔ کہتے ہیں کہ داستان گوئی میں طویل دورانیے، مشکل زبان کو اس کے درست تلفظ اور خوب صورتی سے ادائی کو ایک چیلینج کے طور پر قبول کیا ہے۔
فواد خان کو جب 'لیڈر' کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب برابری کی بنیاد پر کام کرتے ہیں۔ تھیٹر کے میدان میں تو پہلے ہی موجود تھے، جب کہ 'داستان گوئی' کی طرف رخ بعد میں کیا، کہتے ہیں کہ ہم نے یہ سوچ کر کام شروع نہیں کیا کہ کوئی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ کہانی تو تھیٹر میں بھی ہوتی ہی تھی، بس داستان گوئی میں اس کہانی کا ڈھب ذرا مختلف ہے۔ فواد خان اور ان کے رفقا اب تک مختلف جامعات میں 'داستان گوئی' کر چکے ہیں، جن میں جامعہ کراچی، لمز، آغاخان یونیورسٹی، زیبسٹ، حبیب یونیورسٹی اور سادات امروہہ اکادمی نمایاں ہیں۔ کراچی اور لاہور کے علاوہ اسلام آباد اور فیصل آباد میں بھی شائقین ان کے فن سے محظوظ ہوچکے ہیں۔ ہندوستان میں تھیٹر کیا، لیکن داستان گوئی کا موقع نہ مل سکا۔
داستان گوئی سے منسلک تینوں اراکین کا تعلق کراچی سے ہے۔ اِن کے والدین بھی یہیں پیدا ہوئے، لیکن پُرکھوں کا تعلق سرحد کے اُس پار سے ہے۔ نذرالحسن لکھنؤ، میثم نقوی امروہہ، جب کہ فواد خان علی گڑھ کے قبیل سے ہیں، جب کہ ان کے ننھیال کا تعلق بدایوں سے ہے۔ نذر الحسن کے گھر میں انگریزی سے مرعوبیت نہیں تھی اور اچھی اردو کا چلن تھا۔ بچپن میں وہ محلے کی لائبریری سے کتابیں مستعار لے کر مطالعے کا شوق پورا کرتے تھے۔
میثم نقوی کا ماننا ہے کہ ہمارے گھرانوں کی نشست وبرخاست کا اثر ہماری بول چال اور زبان وبیان پر ضرور پڑتا ہے۔ اِن کے والد ظاہر نقوی شاعر تھے، اس وسیلے سے میثم کا بھی مشاعروں میں آنا جانا رہا، والد کی کتابوں سے استفادہ بھی کیا۔ 'ہمدرد نونہال' کے علاوہ اخبار میں بچوں کے صفحے پڑھے، عمران سیریز پڑھنا شروع کی تو والد نے راہ نمائی کی کہ اگر اصل عمران سیریز پڑھنی ہے تو ابن صفی کی پڑھو، یوں ان کے ہاں زبان کا معیار بلند رہا۔ فواد خان کو ساتویں، آٹھویں کلاس میں مطالعے کا شوق چَرایا۔
پہلے گھر میں اگرچہ دادا کی کچھ کتب تھیں، مگر وہ چوری ہوگئیں، گھر کے ایک کونے میں دیوان غالب پڑا ہوا تھا، اور بقول فواد 'واقعی پڑا ہوا تھا، کیوں کہ رکھا ہوا تو وہ ہوتا ہے، جسے پڑھا جائے۔ یوں دیوان غالب سے باقاعدہ مطالعے کی شروعات ہوئی۔ اسکول میں ولیم شیکسپئر سے متعارف ہوئے، ڈراموں کی کتاب ٹین ٹیل فرام شیکسپئر (Ten Tales from Shakespeare) پڑھی، جب یہ بھی نہیں پتا تھا کہ ڈراما ہوتا کیا ہے۔ بس پھر چل سو چل، مطالعے کا سلسلہ جاری ہوا۔
٭کہانی کا چناؤ
'داستان گوئی' کی ابتدا تو 'طلسم ہوش رُبا' سنانے سے کی گئی، لیکن داستانوں کے علاوہ بہت سی دیگر کہانیوں کو بھی اسی ڈھب پر پڑھ کر سنایا جا رہا ہے۔ دیگر کہانیوں کا انتخاب کرنے کے لیے وہ یہ تصور کر کے پڑھتے ہیں کہ یہ دوسروں کو سنا رہے ہیں، اس طرح وہ یہ پرکھ لیتے ہیں کہ یہ داستان یا کہانی لوگوں کو لطف دے گی یا نہیں، لیکن یہ کبھی نہیں سوچا کہ کتاب میں تو تحریر کافی بے باک ہوگئی ہے، لیکن مجمع کے سامنے یہ سب پڑھنا تو بہت عجیب یا غیرمناسب معلوم ہوگا، اس کا ڈر یا جھجک کبھی محسوس نہیں کی۔
نذر الحسن کے بقول یہ تھیٹر کی تربیت ہے کہ 'ہم تحریر کو پڑھ کر یہ جانچ لیتے ہیں کہ کہاں لوگوں کی توجہ حاصل ہو سکتی ہے، کہاں جاکر سنے والوں پر بوجھل مرحلہ آئے گا اور کس تحریر کو عام لوگوں کی قوت سماعت سہہ سکتی ہے، لہٰذا ایک حد تک ہی سخت، سیدھی یا خشک زبان روا رکھی جا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ امر بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں کہ کہاں روانی سے بات کو کہنا ہے اور کہاں ذرا توقف کرنا ہے اور لفظوں کو دھیرے دھیرے کہنا ہے، یا کوئی بات کہتے ہوئے لہجے کو کس ڈھب پر رکھنا ہے۔'
٭کہانی کی 'ترتیب نو' بھی کرنا پڑتی ہے
لکھی ہوئی تحریر کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ کہیں پُرپیچ بات ہو یا منظر زیادہ گنجلک اور الجھا ہوا ہوجائے اور بات سمجھ میں نہ آئے، تو قاری ورق الٹاکر اسے دوبارہ یا سہ بارہ پڑھ کر سمجھ لیتا ہے، لیکن جب اسے سنانا مقصود ہو تو گویا ایک ہی بار میں سامعین تک بات واضح کرنا ہوتی ہے۔ اس لیے داستان سناتے ہوئے ایسی کہانیوں کو سہل کرنے کے واسطے مختلف ٹکڑوں کو تقدیم و تاخیر سے پڑھا جاتا ہے، تاکہ سناتے ہوئے لوگوں تک ایک ہی بار کہہ کر اس کا ایک واضح اِبلاغ ہوجائے۔
مشتاق احمد یوسفی کی کہانی 'حویلی' سنائی تو اس میں ہندوستان کے بٹوارے سے پہلے اور بعد کے واقعات کی ترتیب بھی کچھ آگے پیچھے تھی، اسے انہوں نے زمانی اعتبار سے استوار کیا۔ عصمت چغتائی کی بہت سی کہانیاں گنجلک ہیں، کہیں رشتوں کا تانا بانا بہت پیچیدہ ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں ایک پڑھت میں سمجھنا مشکل ہوتا ہے، دوسری اور تیسری بار پڑھ کر سمجھ میں آتا ہے۔ اس لیے ایسی چیزوں کو جب سنانے کے لیے چنتے ہیں تو پھر ان کا اِبلاغ سہل کرنے کے واسطے ان کی 'ترتیب نو' کرنی پڑتی ہے۔
٭مشکل زبان کی پڑھت
فواد خان کہتے ہیں کہ داستان سناتے ہوئے ان کے روبرو جہاں زبان کے جاننے والے زیادہ ہوتے ہیں، وہاں پذیرائی بھی زیادہ ملتی ہے، مگر زبان نہ جاننے والوں کی سماعت پر بھی لفظوں کی چاشنی ضرور رس گھولتی ہے۔ بہت سے گھرانے ایسے بھی ہیں جو اردو بھول کر انگریزی کو اوڑھنا بچھونا بنا چکے ہیں، لیکن جب وہ ہماری داستان سنتے ہیں تو جھوم اٹھتے ہیں اور داد دیے بنا نہیں رہتے۔ 'طلسم ہوش رُبا' کے مشکل اسلوب کے حوالے سے میثم نقوی بتاتے ہیں کہ ہم اسے کچھ یوں پیش کرتے ہیں کہ سامعین کو چاہے بہت سے ثقیل الفاظ کے معنی معلوم نہ ہوں، لیکن اس کا مفہوم ان تک پہنچ جاتا ہے۔ نذر الحسن اس ہنر کو 'ناپا' اکادمی کی تربیت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کہ ایک داستان میں کس طرح لہجے، لفظوں کی ادائی اور چہرے کے تاثرات سے لے کر پوری بدن بولی کے ذریعے کسی بھی متن کو دیکھنے اور سننے والوں تک اِبلاغ کیا جاتا ہے۔
٭ 'بدن بولی' سے اِبلاغ مکمل ہوتا ہے
داستان گوئی کی محافل میں قدیم اسلوب کی ثقیل اور مشکل زبان پڑھ تو دیتے ہیں، لیکن اس کے اِبلاغ لوگوں تک کیسے ہوتا ہے۔ اس پر فواد خان نے بتایا کہ داستان کا انداز اور پیش کش ایسی ہوتی ہے کہ اس میں ہماری نشست وبرخاست، حرکات وسکنات داستان کے اِبلاغ میں آنے والی کمی کو رفع کر دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مفہوم بھی واضح ہو جاتا ہے، جیسے ''زرتوزی باندھ کر دوپٹا شبنم کا اوڑھا، آنکھوں میں سرمہ دیا، لبوں کو مسّی آلود کیا'' اب اس سے سننے والے کو چاہے مسّی کا مطلب نہیں پتا ہو، لیکن وہ یہ ضرور سمجھ لے گا کہ ہونٹوں پر آرائش کے لیے ہی کوئی چیز لگائی۔ اردو داستان کے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے، آج کے لندن میں ولیم شیکسپئر کے کھیل کا بھی ایک، ایک لفظ تو لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتا ، لیکن وہ کہی گئی باتوں کا مفہوم اخذ کرلیتے ہیں۔
٭منچ کی غلطی ساجھی ہوتی ہے
دوران کارکردگی غلطیوں کا تذکرہ ہوا تو فواد خان نے کہا تھیٹر کا اصول ہے کہ اگر کوئی ایک فرد بھی مجمع کے سامنے کہیں کچھ غلطی کرجائے یا بھول جائے اور سننے والوں کو اس کی خبر بھی ہوگئی، تو وہ غلطی پھر ایک فرد کی غلطی نہیں رہتی، بل کہ اسٹیج پر موجود تمام فن کار اس کے ذمہ دار بن جاتے ہیں۔ براہ راست کام کرتے ہوئے کام رک تو نہیں سکتا، منچ پر کام اگرچہ تقسیم ہوتا ہے، مگر سب کو ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ لوگ مکمل داستان یاد کرتے ہیں، تاکہ کہیں سہو ہو تو اس کا بروقت ازالہ ممکن ہو سکے۔ نذرالحسن نے بتایا کہ ایک بار حبیب یونیورسٹی میں جب ان کے بولنے کی باری آئی، تو ان سے چُوک ہوئی اور وہ سنائی جانے والی داستان کا درمیانی حصہ ادا کرنا بھول گئے۔
اس موقع پر ان کے ساتھی میثم نقوی نے مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صورت حال کو سنبھالا اور سامعین کو اس کی ہوا بھی نہ لگنے دی۔ اسی طرح میثم نقوی باغِ جناح لاہور میں اپنی باری پر کہنے والے مکالمے یاد نہ رکھ سکے، بقول اِن کے ان کے حافظے نے یک لخت ساتھ چھوڑ دیا اور بالکل سپاٹ ہو گیا کہ اور انہیں یاد ہی نہیں رہا کہ کیا بولنا تھا، ایسے میں انہوں نے فی البدیہہ مکالمہ بناتے ہوئے کہا 'اور اس نے کہا سنبھالیں یہاں سے۔۔۔!'' اس بین السطور پیغام کو بروقت بھانپتے ہوئے نذر الحسن نے اُن کا چُھٹا ہوا حصہ بھی پیش کیا اور حاضرین کو پتا بھی نہ چلا کہ یہ ماجرا ہوا ہے۔ نذرالحسن کہتے ہیں کہ 'طلسم ہوش رُبا' کی زبان میں اپنے طور پر کوئی مکالمہ یا جملہ بنانا مشکل ہوتا ہے، اس لیے ایسے اسلوب پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
٭مصنف کے سامنے اُسی کی کہانی
گزشتہ سال 'عالمی اردو کانفرنس' میں پہلا موقع تھا کہ جب انہوں نے کہانی 'حویلی' پیش کی اور اس کے مصنف مشتاق احمد یوسفی نے بیٹھ کر اسے سنا۔ فواد خان اور ان کے رفقا کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یوسفی صاحب اس نشست کا حصہ ہوں گے، میثم نقوی نے اسے اپنے فن کا اصل امتحان قرار دیا، کیوں کہ تین سال کے عرصے میں ایسا پہلی بار ہوا کہ وہ جس کہانی کو پیش کر رہے ہیں، اس کا مصنف روبرو موجود ہے۔ اس سے قبل شمس الرحمن فاروقی اور انتظار حسین کے سامنے بھی داستان پیش کرنے کا اعزاز سمیٹ چکے ہیں۔
شمس الرحمن فاروقی داستان گوئی کے اسرار ورموز سے واقف اور اس کے احیا کے لیے کوشاں ہیں، جب کہ انتظار حسین 'طلسم ہوش رُبا' سے متاثر ہو کر اسی اسلوب پر ایک کہانی ''وارد ہونا شہزادہ تورج کا شہر کاغذ آباد میں اور عاشق ہونا ملکہ قرطاس جادوگر'' لکھ چکے ہیں۔ وہ انتظار حسین کی یہ کہانی حبیب یونیورسٹی کے منچ پر پیش کر چکے ہیں، مگر اس محفل میں انتظار حسین موجود نہ تھے۔ داستان گوئی کے حوالے سے انتظار حسین نے ان کے کام کا تذکرہ کیا، نذرالحسن کے بقول اگرچہ انہوں نے ہمارا نام نہیں لیا، لیکن اس کے باوجود ہمارے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے۔
٭ مشکلات کا کچھ بیان ہوجائے
مشکلات کے ذکر پر انہوں نے پروگرام کے دوران حاضرین کے موبائل فون بجنے اور تصویر کھینچتے ہوئے روشنی کی چمک کی شکایت کی، کہ لوگ بار بار کی یاد دہانی کے باوجود غفلت کرتے ہیں۔ نذرالحسن کہتے ہیں اس حوالے سے آغا خان یونیورسٹی جیسی جگہ پر کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ معالجین اور طب کے طلبا کے اس نظم وضبط نے انہیں بہت متاثر کیا۔ اس کے علاوہ داستان گوئی کے ادب سے ناواقف حاضرین بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں، بعض اوقات اس قدر تالیاں بجاتے ہیں کہ داستان کا تسلسل متاثر ہونے لگتا ہے۔ فواد کہتے ہیں لطف اندوز ہونا لوگوں کا حق ہے، مگر داد دیتے ہوئے یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ابھی کہانی کو آگے بھی بڑھنا ہے۔
٭ حاضرین رعب میں آجاتے ہیں
'داستان گوئی' چوں کہ براہ راست لوگوں کے سامنے کی جاتی ہے، اس لیے اس پر ردعمل بھی ہاتھ کے ہاتھ ہی مل جاتا ہے اور منچ پر فن کا مظاہرہ کرنے والوں کا اکثر مختلف قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ چناں چہ ہم نے پوچھا کہ کہانی سنانے کے دوران کبھی کسی نے کوئی جملہ تو نہیں کسا؟ تو فواد کا کہنا تھا کہ سامعین تو داستان کی مرصع اور چاشنی سے بھرپور زبان کے رعب میں آجاتے ہیں۔ مثال کے لیے انہوں نے 'طلسم ہوش رُبا' کا پہلا جملہ سنایا جو کچھ یوں تھا:
''ساقیانِ خُمخانۂ اَسمارو جرعۂ نوشانِ جامِ اَفکار، بادۂ ارغوانی شنجرفِ تحریر سے ساغرِ قرطاس کو اس طرح مملو کرتے ہیں کہ۔۔۔''
فواد کے بقول اُس داستان میں اتنے ثقیل اور گاڑھے الفاظ کا استعمال ہی لوگوں پر رعب ڈالنے کے واسطے ہے۔
٭ہر مہینے دو، تین محافل کرلیتے ہیں
فواد خان اور ان کے رفقا کو اس دشت کی سیّاحی میں تین برس ہو چکے ہیں، اس لیے طویل داستان یاد کرلینا اب کوئی مسئلہ نہیں۔ فن کاری کی تربیت، تھیٹر اور عملی کام کی مشق اس حوالے سے خاصی معاون ثابت ہوئی ہے۔ میثم نقوی کہتے ہیں لوگوں کا پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ آپ نے یاد کیسے کیا۔ فواد خان کا ماننا ہے کہ اﷲ نے انسانی حافظے کو بے پناہ صلاحیت دی ہے، یہ ان عضلات کی مانند ہوتا ہے، جسے مشق کے ذریعے جتنا بڑھاتے چلے جائیں یہ اُتنا وسیع ہوتا چلا جائے گا۔ جتنی مشق کریں گے، نتائج اتنے ہی بہتر ہوں گے۔ نذرالحسن کہتے ہیں ٹیکنالوجی کی مدد کے بغیر ہم فطری صلاحیت استعمال کرتے ہیں تو حافظے کے بہتر نتائج سامنے آتے ہیں۔
ساتھ ہی بہ آسانی کہانی یا داستان کی پڑھت تقسیم کر لیتے ہیں کہ کس کو کون سے حصے پڑھنے ہیں، اور کہاں سے خواندگی کس کے حصے میں آئے گی، لیکن اسے یاد سب کو کرنا ہوتا ہے، تاکہ کوئی چُوک ہو تو صورت حال کو سنبھالا جا سکے۔ سوا گھنٹے کی سماعت پر محیط مشتاق احمد یوسفی کی کہانی حویلی دو سے تین ہفتے میں ازبر کی۔ اس کے بعد پندرہ، سولہ دفعہ اس کی ریہرسل کی۔ فواد نے بتایا کہ ہم پیش کاری کے بعد بھی تبدیلیاں اور بہتری کرتے رہتے ہیں۔ کہیں مزید ضرورت محسوس ہوتی ہے تو لہجے کے اتار چڑھاؤ اور جسمانی حرکات وسکنات کو لفظوں کے نشیب وفراز سے ہم آہنگ کرنا ہو تو اسے بھی ٹھیک کرتے رہتے ہیں۔
٭ڈھائی گھنٹے طویل محفل بھی سجائی!
'داستان گوئی' کے لیے بھی اس کی طوالت کو خاص طور پر مدنظر رکھنا پڑتا ہے، کیوں کہ زیادہ دیر تک لوگوں کا مسلسل کسی ایک چیز کے لیے جم کے بیٹھے رہنا ممکن نہیں رہتا۔ نذرالحسن اس حوالے سے گویا ہوتے ہیں کہ انہوں نے ابھی تک 'طلسم ہوش رُبا' کی نشست پون گھنٹے سے زیادہ طویل نہیں کی۔ مشتاق احمد یوسفی کی 'حویلی' سنانے کا دورانیہ سوا گھنٹے پر محیط رہا۔ فواد خان کہتے ہیں زیادہ تر محافل میں وہ آدھے گھنٹے کی 'طلسم ہوش رُبا' کے بعد مشتاق احمد یوسفی کو پڑھتے ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس میں مسلسل ڈھائی گھنٹے تک بھی منچ سجائے رکھا، جس میں میر باقر علی، مشتاق یوسفی اور 'طلسم ہوش رُبا' تینوں شامل تھے۔
٭بلامعاوضہ بھی داستانیں سنانی پڑتی ہیں
پیشہ ورانہ طور پر داستان گوئی اختیار کرنے کا تذکرہ چِھڑا، تو انہوں نے بتایا کہ بنیادی طور پر تو وہ اداکار ہیں، اور اسی مناسبت سے جہاں انہوں نے مختلف وسیلوں اور اصناف میں حصہ لیا ہے، وہیں داستان گوئی کی 'کلا' بھی اختیار کی، لیکن فقط داستان گوئی کو کل وقتی طور پر ابھی اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اُس وقت ہی ممکن ہے کہ جب کام اس قدر ملے کہ جس سے تین بندوں کا گزارا ہو سکے۔
لگے ہاتھوں ہم نے معاوضے کا نازک سوال بھی اٹھایا تو انہوں نے بتایا کہ یوں تو انہیں کئی جگہوں پر بلامعاوضہ بھی محفل سجانا پڑتی ہے، لیکن معاوضے کی رقم 30 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان ہوتی ہے، فواد کہتے ہیں کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ صاحب استطاعت اداروں سے زیادہ معاوضہ حاصل کریں، تاکہ کہیں بلامعاوضہ کام کرنا پڑتے، تو یہ گراں نہ گزرے۔ جامعہ کراچی کے حوالے سے فواد خان نے غیرنصابی سرگرمیوں کے لیے طلبا میں بے حد خوف کی فضا کا مشاہدہ کیا، تب ہی انہوں نے وہاں کے طلبا کے لیے نہایت کم معاوضے میں داستان پیش کی۔ فواد خان نے بچوں کے لیے اردو میں کہانیوں کی ویب سائٹ 'ٹافی ٹی وی' کے پروگراموں کے لیے بھی داستان گوئی کی۔ کبھی پیسے ملتے اور کبھی نہیں مل پاتے، کیوں کہ اکثر یہ پروگرام بلامعاوضہ ہی منعقد ہوتے۔ بچوں کے لیے ویسے بھی کوئی پروگرام نہیں ہوتے، اس لیے بچوں کو رغبت دلانے کے لیے اس میں حصہ لیا۔
٭ 'داستان' کے مستقبل سے تشویش ہے!
'داستان گوئی کا مستقبل تشویش ناک ہے۔' کہتے ہیں کہ دنیا بھر کی زبانیں ختم ہو رہی ہیں اور ان پر انگریزی حاوی ہو رہی ہے۔ اگر ہم نے اپنی زبان کے لیے خاطرخواہ اقدام نہ کیے، تو زبان کو کافی سنگین خطرات لاحق ہیں۔
اگر زبان خطرے میں ہے، تو داستان گوئی بھی خودبخود مخدوش ہوجاتی ہے۔ ہمارے خطے کی زبانیں مر رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں اپنی زبانیں نہیں آتیں، ہماری تو خواہش ہے کہ ہمیں اتنی زبان آئے کہ ہم پنجابی زبان میں 'ہیر' پیش کریں۔ فواد خان اس دگرگوں صورت حال کی وجہ اردو کے دفتری زبان نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں کہ اسی بنا پر یہاں تراجم نہیں ہو رہے۔ لوگ اسی زبان کی طرف جاتے ہیں، جس سے روزگار جُڑا ہوا ہو۔ میڈیکل کی تدریس کے لیے انگریزی کا علیحدہ کورس کرایا جاتا ہے، کیوں کہ اردو میں طب کی کتب موجود نہیں۔
میثم نقوی اس حوالے سے والدین اور ادبا کو بھی دوش دیتے ہیں کہ زبان کا فہم رکھنے والی بہت سی شخصیات ہمارے تعلیمی اداروں کے سربراہ بنیں، لیکن انہوں نے اردو کے حوالے سے اپنا خاطرخواہ کردار ادا نہیں کیا۔ میثم نقوی سمجھتے ہیں کہ پہلے لوگوں میں اپنی زبان سے محبت پیدا کرنی چاہیے، بدقسمتی سے اردو کی تدریس سے وابستہ افراد زبان سے محبت نہیں سکھا رہے، ہمیں قواعد وانشا کی تعریفیں رٹوانے کے بہ جائے ضیا محی الدین جیسے اساتذہ کی ضرورت ہے، جنہیں سن لینے سے زبان سے عشق ہوجاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جب تک ہم زبان کو نہیں سنیں، سمجھ نہیں سکتے۔ والدین کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے میثم نقوی نے کہا کہ اگر میں اپنی بچی کو انگریزی اسکول میں پڑھاؤں اور انگریزی رنگ میں ڈھالوں، تو ایسے میں اردو کی جگہ کہاں بنے گی؟
٭ داستان گوئی، زبان کے فروغ کی موثر راہ
کسی بھی زبان کے خزانے میں تحریری طور پر چاہے کتنا ہی بڑا ذخیرہ کیوں نہ موجود ہو، اس کا فروغ کا بہت زیادہ انحصار اس کی بول چال پر ہی رہتا ہے۔ بولتے ہوئے کس لفظ کو کس طرح ادا کرنا ہے، جُڑے ہوئے کس حرف کی آواز خفیف ہوگی اور کس حرف پر زور دے کر کہنا ہے۔ اگرچہ تحریر میں بُہتیری وضاحت کردی جائے، لیکن زبان سے ادا ہو کر سماعت کے راستے اس کا ہماری یادداشت میں محفوظ ہونا بے حد اہم ہوتا ہے۔ یہی کہی اور سنی ہوئی گفتگو ہی تو زبان میں لفظوں کے رواج پانے یا متروک ہونے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
زبانی بیانیہ میں لفظوں کے برتاؤ کا ان کے اِبلاغ اور معنی سے روشناس کرانے میں بھی ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں کیا 'سمعی ذرایع اِبلاغ' اور کیا 'سمعی وبصری ذرایع اِبلاغ' ہر جگہ محدود سے ذخیرہ الفاظ کی ایک سپاٹ سی زبان کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔ گہرے اور تاثر پیدا کرنے والے الفاظ کے بہ جائے سطحی سے یک ساں الفاظ کی تکرار سے زبان اپنے تاریخی اور روایتی ورثے اور ذخیرے سے پرے ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے میں داستان گوئی کی محافل اردو زبان کے لیے کسی خوش گوار ہوا کے جھونکے کی مانند محسوس ہوتی ہیں، جن کے ذریعے زبان کے ذخیرۂ الفاظ اور اس کے درست تلفظ سے اس کے برتاؤ تک پیدا ہونے والی غفلت کا ازالہ کرنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔
٭ 'پَشّا سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی'
آغا خان یونیورسٹی میں داستان سنائی، تو وہاں کی زبان فہمی نے خوش گوار حیرت میں مبتلا کیا۔ داستان یا کہانی سناتے ہوئے انہیں بہ خوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ سامعین تک سنائے جانے والے متن میں سے کتنا پہنچا اور کتنا ان کے سر پر سے گزر گیا۔ آغاخان یونیورسٹی میں مشتاق احمد یوسفی کی کہانی 'حویلی' سناتے سمے جب انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ ؎
پَشّا سے سیکھے شیوۂ مردانگی کوئی
جب قصد خوں کو آئے تو پہلے پکار دے
اس پر وہاں کے سامعین نے صحیح معنوں میں لطف اٹھایا، جب کہ عموماً لوگ نہیں سمجھ پاتے کہ 'پَشّا' مچھر کو کہتے ہیں اور مصرع ثانی میں 'پکارنے' سے مراد اس کا کان میں بھنبھنانا مراد ہے۔ اس کے علاوہ شگفتہ بیانی کے باب میں بھی کچھ مندرجات کا پس منظر ایسا ہوتا ہے کہ اگر اسے جانا جائے، تو مسکراہٹ تو درکنار، مارے درد کی شدت کے آنسو نکل پڑیں، مگر لوگ فقط لفظوں کو سن کر ہنستے ہی چلے جاتے ہیں۔
٭یوم محبت کا 'تحفہ'
ایک بار یوں ہوا کہ 14 فروری (یوم محبت) کے لیے ایک خاتون نے ان سے فرمائش کی کہ وہ اس دن اپنے شوہر کو تحفے کے طور پر داستان 'طلسم ہوش رُبا' سنوانا چاہتی ہیں۔ یوں انہوں نے معاوضہ لے کر خاتون کے گھر میں تیس، چالیس کے قریب مہمانوں کے روبرو داستان پیش کی اور لوگوں کو خوب محظوظ کیا۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ اس محفل میں بچے، بوڑھے اور نوجوان ہر عمر کے لوگ شامل تھے۔
٭داستان گوئی ایک زبانی بیانیہ ہے
داستان گوئی کی ویڈیو تیار کرنے کا تذکرہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ فیس بک پر 'داستان گو' کے نام سے ایک گروپ موجود ہے، وہاں اگرچہ کچھ ویڈیوز موجود ہیں، مگر داستان گوئی دراصل براہ راست لوگوں کے سامنے پیش کیا جانے والا فن ہی ہے، آپ اس کی ویڈیو دیکھیں، لیکن یہ آپ کو وہ لطف نہیں دے گا، جو روبرو داستان سنتے ہوئے آتا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں داستان گوئی تھیٹر کی طرح براہ راست پیش کیا جانے والا فن ہے۔ جس طرح مختلف ذرایع اور آلات کے باوجود منچ پر پیش کیے ہوئے کھیل کی بھی اپنی ہی اہمیت ہے اور اسی لیے وہ اس کے باوجود بھی جاری ہے۔
داستان بھی ایک زبانی بیانیہ ہے، اگر یہ تحریری صورت میں بھی ہو، تب بھی یہ سنائے جانے کے لیے ہی ہے، جیسے تمثیل (ڈراما) یا مرثیہ لکھا ہوا بھی ہو تو، بنیادی طور پر وہ پیش کرنے کے لیے ہی ہوتا ہے، تحریری طور پر داستان کو بے شک پڑھ لیا جائے، لیکن دراصل یہ محفل میں سنانے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ داستان گوئی کی کچھ 'ڈی وی ڈی' موجود ہیں، مگر انہیں بازار میں متعارف کرنے کا ارادہ نہیں۔