افسانہ نہیں حقیقت
بہرحال زندگی کے ساتھ ساتھ سوچیں شاید بدلی نہیں، اندر کی تلخی اور فطرت نے زہرہ کی زہرہ ہی رہنے دیا۔۔۔
KARACHI:
زہرہ نے تسبیح گھماتے ہوئے اپنے گھر میں کام کرنے والی رشیدہ کو گھورا اور سختی سے بولی، اتنی دیر سے آئی ہو، صبح کہاں مرگئی تھی۔ رشیدہ نے دھیمی آواز نکالی اور بولی، باجی میرا بیٹا گر گیا تھا، پیر میں چوٹ لگ گئی، ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تھی۔ زہرہ نے تسبیح کو تیز گھمانا شروع کردیا اور اس کے ہونٹ بھی تیزی سے چل رہے تھے، گھور کر رشیدہ کو دیکھا اور تسبیح روک کر بولی، ارے کمبخت، اتنے بچے کیوں پیدا کرتی ہو، کوئی گر رہا ہے، کوئی مر رہا ہے، تم لوگوں کے تو یہ روز کے مسئلے ہیں، ہم کیوں پریشانی اٹھائیں؟ اپنا دوپٹہ کس کر سر پر جمایا اور بولی جلدی سے کام نمٹا، ندا کالج سے آنے والی ہے، کھانے میں دیر ہوگئی تو گھر سر پر اٹھا لے گی۔ زہرہ بڑبڑاتے ہوئے اندر کمرے کی طرف چل دی اور رشیدہ نے کچن کی راہ لی۔
زہرہ نے باہر سے پڑھائی کی ڈگری تو لے لی تھی مگر انسانی رویے پر اپنے آپ کو سنوارنا بھول گئی تھی یا پھر بہت عالم و فاضل ہوگئی تھی۔ بچے بڑے ہونے کے بعد فارغ اوقات کی بہتات نے پریشان کر دیا۔ میاں اپنے کاموں میں مصروف اور بچے اپنی دنیا میں مگن ہوگئے۔ ماڈرن زندگی نے موڑ لیا اور تسبیح و وظائف بھی شروع کردیے، دوستوں کے ساتھ مل کر ایک گروپ بھی بن گیا اور اسلامی درس کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا sleeveless سے پوری آستین اور حجاب کا سفر بھی شروع ہوگیا، خاندانی شادیوں کے سلسلے میں بندھی زہرہ کو لگتا تھا کہ میاں کی صورت میں اللہ نے اس کو کسی جرم کی سزا دی ہے، ورنہ وہ اپنے یونیورسٹی Fellow کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنا چاہتی تھی۔
بہرحال زندگی کے ساتھ ساتھ سوچیں شاید بدلی نہیں، اندر کی تلخی اور فطرت نے زہرہ کی زہرہ ہی رہنے دیا۔
اب کیونکہ درس، حجاب شروع ہوچکا تھا، اس لیے عالم و فاضل ہونے کا شرف بھی حاصل ہو رہا تھا، ندا نے کالج سے آکر ماں سے پوچھا مما کھانے میں کیا ہے؟ زہرہ نے رشیدہ کو آواز لگائی، رشیدہ کھانا لگاؤ، بی بی کو بھوک لگی ہے، جلدی کر، مر مر کر کام نہ کیا کر، بڑی سخت آواز میں زہرہ نے اونچی آواز لگائی۔
رشیدہ نے ڈائننگ ٹیبل پر کھانا لگایا اور بیگم صاحبہ کو اطلاع کردی، زہرہ اور ندا دونوں کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئیں، ندا نے ایک ڈھیلی ڈھالی ٹی شرٹ اور پاجامہ پہنا ہوا تھا، زہرہ نے ندا کو دیکھا اور بولی، یہ تم نے اتنی ڈھیلی قمیض کیوں پہنی ہے، سارا جسم پھیل جائے گا، Fitted ٹی شرٹ پہنا کرو، ندا تم کو کتنی مرتبہ سکھایا جاتا ہے تم سمجھتی کیوں نہیں؟ جی مما! ندا نے جواب دیا، اور کھانا پلیٹ میں نکالنا شروع کردیا۔ دو تین نوالے کھانے کے بعد ہی زہرہ نے رشیدہ کو آواز لگائی۔ رشیدہ! آج مرچیں بہت تیز کردیں، کمبخت تیری عقل کام نہیں کرتی کیا؟ بری شکل بناکر سخت آواز میں زہرہ، رشیدہ پر چڑھ دوڑی۔ ابھی کھانا چل ہی رہا تھا کہ میاں صاحب کی بھی انٹری ہوگئی، زہرہ نے سخت نظروں سے میاں کو دیکھا اور بولی، آج تم گھر پر لنچ کرو گے کیا؟
ہاں کھانا لگوا دو جلدی سے۔ میاں نے آہستہ سے کہا۔ زہرہ نے ایک اور آواز لگائی۔ رشیدہ! کھانا دو صاحب کو۔ میری ظہر کی نماز کو دیر ہو رہی ہے۔ زہرہ نے کرسی کھسکائی اور کمرے کی طرف چل پڑی۔ باپ بیٹی ڈائننگ ٹیبل پر رشیدہ کے رحم و کرم پر کھانا کھانے لگے، پاپا ! یہ فون پرانا ہوگیا ہے میرا، آج نیا فون لینا ہے مجھے۔ ندا نے باپ سے کہا۔ اچھا لے لو۔ پھر غور سے بیٹی کی طرف دیکھا عجیب دو تین طرح کے رنگ اس کے بالوں پر نظر آئے۔ یہ بالوں کے ساتھ کیا کیا ہے تم نے؟
اوہ پاپا! فیشن ہے یہ آپ کو کیا پتہ۔ اور وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔
رشیدہ اپنے صاحب کے لیے کھانا لگاتی رہی اور صاحب کھانا کھاتے رہے۔ صاحب میرے بیٹے کو چوٹ لگ گئی ہے، بیگم صاحبہ سے پیسوں کے لیے بولوں گی تو ناراض ہو جائیں گی اگر ہزار روپے آپ دے دیں تو آسانی ہو جائے گی۔
صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ پرس نکالا اور چپ چاپ رشیدہ کو 1000 کا نوٹ تھما دیا، مگر شاید رشیدہ کی قسمت خراب تھی اسی لمحے سر پر دوپٹہ جمائے زہرہ ٹیبل پر آگئی۔ سخت نظروں سے میاں کو گھورا۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تم اس کو پیسے کیوں دے رہے ہو؟
رشیدہ فوراً بولی بیگم صاحبہ بیٹے کے علاج کے لیے ہیں۔ رشیدہ کا جواب سن کر زہرہ کا غصہ اوپر چلا گیا، اس نے میاں کے سامنے سے کھانے کی پلیٹ کھینچی اور بولی، تم کیوں گھر کے معاملات میں دخل اندازی کرتے ہو۔ بہت پیسے ہیں تمہارے پاس تو گھر سے باہر ہی بانٹ آیا کرو، میری تمام نماز غارت کردی تم دونوں نے۔ اور پھر زور زور سے زہرہ نے چیخنا شروع کردیا۔ میاں نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور چپ چاپ باہر کی طرف نکل گیا۔
ذرا سوچئے تو سہی یہ کون سا حجاب، کون سا درس اور کون سا دین ہمیں اس طرح کے درشت رویے سکھاتا ہے۔
خواتین اپنے فارغ اوقات کو اگر اس طرح درس کی محفلوں میں جانے پر صرف کریں گی اور اصل اخلاقیات، دین کو نہیں اپنائیں گی تو نہ وہ خود سکون سے رہیں گی اور نہ گھر والوں کو رہنے دیں گی، دکھاوے، لنچ و ڈنر، اپنی حکمرانی تو جاہلوں کے کام ہیں اگر اللہ نے علم عطا کیا ہے تو خوش نصیبی سمجھیں۔
بے شمار خاندانی شادیوں میں مرد بیویوں سے عمر میں چھوٹے ہوتے ہیں، جن کو یہ خواتین گھر کی ملا بن کر ایسے پیروں تلے رکھتی ہیں کہ اللہ معافی۔ گھر کی جوان اولاد تمام فیشن سے لبریز ہوتی ہیں، خود درس میں جاتی ہیں مگر اپنی بیٹی کو کبھی عالمہ بنانے کے بارے میں نہیں کہتی ہیں۔ اس کی خواہش ہے کہ کوئی باہر سے رشتہ آجائے، بچے شادی کے بعد باہر ممالک میں سیٹ ہوجائیں، اگر ساس سسر موجود ہیں تو وہ صاف صاف اپنے میاں کو بتا دیتی ہے کہ یہ اس کی ذمے داری نہیں۔ تم ان کا انتظام کردو۔ اپنے کھانے، سونے اور جاگنے کے اوقات اچھے سے گھر والوں کو بتا دیتی ہے کہ اس کی نمازیں نہ ڈسٹرب ہوں، پر اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بیٹی کو بھی مکمل تربیت دیتی رہتی ہے کہ میاں کو کیسے کنٹرول میں رکھا جائے، خوبصورت کپڑے اور زیورات کے بارے میں اس کو پورا علم ہوتا ہے۔
بس بے چاری لاعلمی میں اپنی صحیح روح سے لاعلم ہے۔ تعلیم و تربیت سے، ڈگری تو لے لی مگر اللہ کے احکامات کو granted لینے والی عورت آج اس مقام پر کھڑی ہے کہ صرف ایک Objective بن کر رہ گئی ہے۔ حکمرانی کا شوق، من مانی اس کے لیے ایسے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں کہ وہ خود اپنے فیملی ممبرز کے لیے مشکل بنی ہوئی ہے۔ نہ زبان پر کنٹرول نہ ادب نہ رشتوں کی پہچان، تمام معیار بس پیسے کی فراوانی پر جاکر ختم ہوجاتے ہیں۔ بیٹا بیٹی کو بھی اسی طرح کے رویوں میں الجھا کر نہ صرف وہ ان کی صحیح تعلیم و تربیت سے فارغ ہے بلکہ نہ جانے کتنے لوگوں کا حق غصب کر رہی ہے۔
کیا فائدہ ایسے حجاب اور درس کا جہاں سے کچھ سیکھا نہیں، کچھ حاصل نہیں کیا۔