مٹتے جنگل اور تباہی کی طرف جاتی زمین
جنگلات میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔
جنگلات میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے، خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں جہاں جنگلات بہت کم رقبے پر پائے جاتے ہیں، نجی شعبے کو اس جانب راغب کرکے انتہائی شان دار نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے پاکستان کے جنگلات انتہائی خطرات سے دوچار ہیں اور اس شعبے میں بدعنوانی اور لاقانونیت نے ساری حدوں کو پار کرلیا ہے، لیکن اس کے باوجود کچھ اچھی خبریں یا مثبت اقدامات بھی نظر آجاتے ہیں۔ اس پر بات کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے جنگلات کی اہمیت پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
کسی بھی ملک و قوم کی خوش بختی اور خوش حالی کا اندازہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر سے نہیں بل کہ اس کے قدرتی وسائل سے لگایا جاتا ہے۔ قدرتی وسائل ہی وہ اصل خزانہ ہیں جس سے اس ملک کے کھیت کھلیان سر سبز رہتے ہیں، دریاؤں میں پانی رواں دواں رہتا ہے اور لوگوں کے چہروں پر مسرت کے رنگ دمکتے ہیں۔
زمین پر زندگی کے تمام رنگ قدرتی وسائل کے مرہون منت ہیں۔ مالامال سمندر دریا، دنیا کے بلند پہاڑ ان کے دامن میں جھومتے بارشوں کو کھینچتے سیکڑوں سال قدیم درخت، زرخیز مٹی کے میدان، سرسبز کھیت کھلیان اور رنگ برنگا حیاتی تنوع ہی ہماری اصل دولت ہے۔ انسان دراصل دو گھروں کا مکین ہے، ایک اس کا گھر اور دوسرا کرۂ ارض۔ ہمیں دونوں گھروں کا یکساں تحفظ کرنا ہے، لیکن ہم نے اپنی عاقبت نااندیشی سے اپنے ان دونوں گھروں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
فطرت کی زبان سمجھنے والے بے آب و گیاہ دھول اڑاتے میدانوں اور خشک جھاڑیوں پر لکھی یہ تحریر پڑھ لیتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے قدرت کے مکمل اور متوازن ماحول کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ زمینی وسائل کے استعمال اور قدرتی ماحول کے درمیان ایک نہایت مضبوط تعلق موجود ہے اور انسانی سرگرمیاں جب قدرتی ماحول میں خلل ڈالتی ہیں تو ہرے بھرے مناظر کو صحراؤں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔
درخت یا جنگلات بظاہر ہمارے لیے ایک عام سے وسائل ہیں، لیکن زمین کا تمام تر فطری ماحولیاتی نظام ان ہی کے گرد گھومتا ہے۔ یہی موسموں کے جن کو قابو میں رکھتے ہیں۔ جنگلات کو اگر ماحول کا نگہبان کہیں تو غلط نہ ہوگا۔ یہ بڑے پیمانے پر فضا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتے ہیں، درجۂ حرارت اور بارش کو قابو میں رکھتے ہیں۔ ان کی جڑیں زمین کو مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں۔ بے شمار جانور اور پرندوں کے لیے فطری مساکن اور لاکھوں افراد کے لیے وطن کا کام کرتے ہیں۔
نباتات اور حیوانات کی یہ رنگارنگی خوراک کی زبردست دولت اور انسانی صحت کے لیے بیش بہا دوائیں فراہم کرتی ہے۔ جنگلات سے ایندھن اور تعمیرات کے لیے لکڑی، حیوانات کے لیے چارا، پھل، شہد، پروٹین ، دواؤں کے عرق اور دوسری بہت سی خام اشیا مثلاً گوند ، موم اور سریش وغیرہ حاصل ہوتے ہیں۔ جنگلات کروڑوں مویشیوں، بکریوں، بھیڑوں اور اونٹوں کے لیے چارے کی ضروریات بھی پوری کرتے ہیں۔
ملک کے بڑے بڑے آب گیر علاقوں (واٹر شیڈز) میں اُگنے والا یہ حفاظتی پردہ نہ صرف ماحولیاتی نظاموں کو برقرار رکھتا ہے بل کہ مٹی کو اپنی جگہ قائم رکھ کر سیلابوں کے مقابلے میں رکاوٹ کا کام بھی دیتا ہے۔
شجر کاری کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کی صاف اور صریح ہدایات موجود ہیں، جن میں مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر شجرکاری کی ترغیب دی گئی ہے۔ اسلام نے درخت لگانے اور نباتات کی حفاظت کرنے کو کار ثواب (صدقہ) قرار دے کر نہ صرف دنیاوی فوائد کا حامل بل کہ آخرت کے لیے سعادت کے حصول کا ذریعہ بھی قرار دیا ہے۔
لیکن ان جنگلات سے کیا سلوک کیا جاتا ہے ذرا دیکھیے تو:
کہا جاتا ہے کہ 30 فٹ بال گراؤنڈ کے مساوی جنگل کا رقبہ ہر ایک منٹ میں کاٹا جاتا ہے۔ گذشتہ کئی سال سے جنگلات کا خاتمہ یعنی دیسی جنگلوں اور لکڑی کے ذخائر کی مستقل تباہی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ پہلے ہی قدیم اور خالص جنگلات کا ایک تہائی حصہ صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے اور اب دنیا کے قدیم جنگلوں کا صرف40 فی صد حصہ ہی باقی بچا ہے۔ جنگلوں کا دو تہائی حصہ بنیادی طور پر بدل چکا ہے۔ اس ضمن میں زیادہ تر نقصان پچھلے 45 سال میں ہوا ہے۔ ایشیا میں منطقے کے 42 اصلی جنگل ختم ہوگئے ہیں۔ یورپ میں ابتدائی جنگلات کا صرف 1 فی صد حصہ باقی رہ گیا ہے۔ ہمالیہ کے دامن میں جو کبھی صنوبر، شاہ بلوط اور کنیر کے درختوں سے بھرا ہوتا تھا، اب اصلی جنگلوں کا 4 فی صد حصہ رہ گیا ہے۔
افریقہ میں سب سے بڑھ کر جنگلات کا خاتمہ عمل میں آیا ہے۔ مرکزی افریقہ کے بارانی جنگل کا آدھا حصہ صاف ہوچکا ہے۔ مغربی افریقہ جو کبھی منطقہ حارہ کی عمارتی لکڑی سے مالا مال ہوا کرتا تھا، تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ امیزون کے بارانی جنگل بھی تیزی سے گھٹتے جارہے ہیں۔ سائنس دانوں کے مطابق ان بارانی جنگلات کے رقبے میں کمی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار بڑھ رہی ہے اور جنگل میں لگنے والی آگ کی شرح بھی بڑھی ہے۔ برازیل کے علاقے میں واقع امیزون جنگل کی خلائی سیارے کی مدد سے لی گئی تصاویر اور جائزوں سے پتا چلا ہے کہ یہاں تقریباً ساڑھے پندرہ سو مربع کلو میٹر پر واقع درختوں کو سالانہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ یوں دنیا کے گھنے ترین بارانی جنگل کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے۔
پاکستان میں اس قیمتی قدرتی وسیلے سے مزید بد تر سلوک روا رکھا جاتا ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں دنیا میں سب سے کم جنگل پائے جاتے ہیں۔ یعنی اس کی خشکی کے مجموعی رقبے کا صرف 4.8 فی صد جنگلات پر محیط ہے جب کہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق یہ رقبہ 5 فی صد ہے۔ یہ محدود وسیلہ بھی کئی سال سے دباؤ کا شکار ہو رہا ہے۔
پاکستان کے ہر شعبے کی طرح جنگلات کے شعبے کو بھی کرپشن اور لاقانونیت کی دیمک چاٹ گئی ہے۔ خوراک اور زراعت کی عالمی تنظیم FAO کے مطابق 1990 سے 2015 تک اوسطاً2.1 فی صد سالانہ جنگلات کی کٹائی واقع ہوئی ہے، جو کہ پریشان کن ہے۔ لیکن اب منظرنامہ تھوڑا سا بدلتا نظر آرہا ہے۔ مثلاً جنگلات کی کٹائی سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخواہ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کی طرف سے بہت سے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
خیبرپختونخوا میں بلین ٹری سونامی افورسٹیشن پروجیکٹ کا آغاز کیا گیا ہے، جس کے تحت ایک ارب درخت لگانے کا عزم کیا گیا ہے۔ اس کام کو بین الاقوامی سطح پر بہت پزیرائی ملی ہے۔ صوبہ پنجاب میں حکومت نے اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر جنگلات میں نجی شعبے کی جانب سے سرمایہ کاری کا آغاز کردیا ہے۔ پنجاب میں صوبائی حکومت کی طرف سے جنگلات کی کٹائی اور جنگلات کے پائے دار انتظام کو فروغ دینے کے لیے ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی (SPFC) کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔
ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی(SPFC) '' پنجاب فارسٹ اور وائلڈ لائف ایکٹ'' کے تحت قائم کردہ ایک ادارہ ہے، جسے فارسٹ ترمیمی ایکٹ 2016 کی حمایت حاصل ہے اور یہ ایک خود مختار بورڈ کی زیرنگرانی کام کرتا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 134,995ایکڑ زمین مہیا کی گئی ہے، جو جنوبی پنجاب کے چھے اضلاع میں الاٹ ہے، جن میں بہاولپور، بہاول نگر، رحیم یار خان، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور مظفر گڑھ شامل ہیں۔
پنجاب میں جنگلات کی کمی کی وجوہات میں بڑھتی ہوئی صنعت کاری، آبادی میں اضافہ، ایندھن کے لیے بڑھتی ہوئی مانگ، زرعی مقاصد کے لیے زمین میں تبدیلی، لکڑی کی بنیاد پر خام مال اور گورننس کے مسائل شامل ہیں۔
پاکستان میں پائے دار معیشت میں جنگلات ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے رکن قومی اسمبلی اور چیئرپرسن خارجہ امور قائمہ کمیٹی سردار اویس احمد خان لغاری کا کہنا ہے کہ جنگلات کے پائے دار انتظام میں سرمایہ کاری پنجاب کے موجودہ جنگلات کو بچانے کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ لکڑی کی صنعت اور ترقی پسند کسانوں کے ساتھ نجی سرمایہ کاری، دیہی علاقوں میں روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے میں اور صنعت کو برقرار لکڑی کی بنیاد پر خام مال کی فراہمی میں مدد کرسکتا ہے۔
کمپنی آرڈیننس1989 کی دفعہ 42 کے تحت سرکاری شعبے کی کمپنی کے طور پر سرمایہ کاری اور نجی شعبے کی سرمایہ کاری کو مُنَظّم کرنے کے لیے پنجاب میں جنگلات کی کٹائی کو کم کرنے اور پائے دار اقتصادی ترقی کے ساتھ جنگلات کے تحفظ پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی(SPFC) اثاثوں میں سرمایہ کاری سے قائم اور منظم کیا جاسکتی ہے۔ کمپنی کی زمین کے لیے بنیاد ی طور پر بارانی جنگلات اور وائلڈ لائف اینڈ فشریز ڈپارٹمنٹ کے 134,995 ایکڑ کا ایک خالی علاقہ تفویض کیا گیا ہے۔
ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کے کاروباری فلسفے کے ستونوں میں سماجی اور ماحولیاتی پائے داری، لکڑی کا حصول، ایندھن کے لیے متوازن استعمال اور قیمت اور معیار کے مسابقتی منصوبے شامل ہیں۔
کمپنی کے سربراہ طاہر رشید کے مطابق کمپنی کے زیرنگرانی جنگلات کے انتظامی شعبے میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے لکڑی کی صنعت کو شامل کیا گیا ہے۔ طاہر رشید نے مزید کہا کہ اس اقدام سے صرف لکڑی، چارا، فائبر، کاغذ اور گوند وغیرہ کی پائے دار فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا اور جنگلات کی بنیاد پر صنعت کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی کام کیا جائے گا۔ اس سے ملک کی درآمدی بل کم کرنے اور جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں کو ملازمتوں کے مواقع اور سبز سرمایہ کاری کو فروع ملے گا۔ کمپنی، ماحولیاتی خدشات کو حل کرنے کے لیے اہم اسٹیک ہولڈرز اور خاص طور پر ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے گی۔
جنگلاتی انتظامات کو مستحکم کرنے کے لیے حال اور آنے والی نسلوں کے لیے، منظم طریقے سے جنگلات کی پائے داری بڑھانے کے کئی فوائد ہیں، جن میں سرفہرست لکڑی ، خوراک اور معاشرے کی دیگر ضروریات پوری ہونا شامل ہیں۔
اعجاز نظامانی چیف کنزرویٹر جنگلات سندھ کے مطابق،''ملک کی زرخیز زمین ایک اثاثہ ہے اور پائے دار انتظام کے مقاصد کے لیے سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اہم ہے۔ ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کا قیام ایک خوش آئند اقدام ہے اور اسے مناسب طریقے سے چلایا جانا چاہیے۔ فارسٹ آفیسروں کے روایتی کردار بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم چیلینج اب بھی وہی ہے کہ روایتی سوچ رکھنے والے لوگ تبدیل ہونا نہیں چاہتے۔ اس لیے فارسٹ مینیجمنٹ کو اس بات کی ترغیب دینی ہوگی۔
اعجاز نظامانی نے مزید کہا کہ ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کی کام یابی پالیسی اور مقامی کمیونیٹیز کے تعاون پر منحصر ہے۔ اس لیے انہیں اس میں شامل کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہیے اور مینیجمنٹ کو چاہیے کہ کہ وہ احتیاط کے ساتھ پالیسی پر عمل درآمد کرے، تاکہ اس حوالے سے کوئی تنازعہ جنم نہ لے۔ مزید یہ کہ فارسٹ آفیسر کو بااختیار بنانا چاہیے، تاکہ ان کو بھی اس عمل میں شامل کیا جائے۔ ان کی شرکت بڑھے گی اور سب ایک ہی مقصد کے لیے کوشش کریں گے۔
اعجازنظامانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ 15 سال سے اسی خیال کو سندھ میں عملی شکل میں ڈھالنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، لیکن ابھی تک کام یاب نہیں ہوسکے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے لیے متعلقہ حکام کو لکھا ہے، مگر کوئی جواب نہیں آیا بظاہر لگتا ہے کہ ان کے پاس جواب دینے کا وقت بھی نہیں ہے۔
ساؤتھ پنجاب فارسٹ کمپنی کے قیام کو ماہرین جنگلات خوش امیدی سے دیکھتے ہیں اور وہ اس کے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ یہ جنگلات کے فروغ کے حوالے سے مقاصد کو پورا کرنے میں اہم قدم ہوگا۔ شرط یہ ہے کہ یہ ادارہ سیاسی مداخلت سے دور رہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ کے حوالے سے کام کرنے والی ایک ویب سائٹ نے اپنا تجزیہ(CO2 foot print)پیش کیا ہے کہ ایک فرد جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتا ہے اسے 5 درخت لگا کر جذب کیا جاسکتا ہے ، گویا ہر فرد پانچ درخت لگاکر فضا سے اپنے حصے کی کاربن ڈائی آکسائیڈ صاف کرسکتا ہے۔ چلیے پانچ نہ سہی لیکن20 کروڑ عوام ایک ایک درخت تو لگا ہی سکتے ہیں۔
کینیا کی امن کا نوبیل انعام پانے والی ونگاری ماتھائی نے تیس سال کے عرصے میں کینیا میں تیس کروڑ درخت لگائے۔ شاید پاکستان کو بھی ایک ونگاری ماتھائی کی ضرورت ہے۔