دیکھا تیرا امریکا تیرہویں قسط

یہ دنیا کا مشہورترین دیوقامت مجسمہ ہےلیکن بےجان بت کوئی کتنی دیردیکھ سکتا ہے؟اور اسکے سحر میں کتنی دیر اسیررہ سکتا ہے؟

مجسمہِ آزادی کو دیکھنے سے پہلے جامہ تلاشی ہوئی، بیگ تلاشی سے بوٹ تک اتروالئے گئے، بس کتوں سے سنگھوانا رہ گیا تھا۔ یہاں مجھے کہنے دیجیے مجسمہِ آزادی کو قریب سے دیکھنے کے چکر میں اپنی تو آزادی کا بینڈ بج گیا۔

 

مجسمہِ آزادی اور امریکہ کا گیٹ وے


چھٹی کیا ہوتی ہے اور اِس سے لطف اندوز کیسے ہوا جاتا ہے یہ کوئی امریکیوں سے پوچھے۔ میں نے کہیں ذکر کیا تھا کہ یہ لوگ پانچ روز سر جھکا کر کام کرتے ہیں لیکن ہفتہ اور اتوار کچھ اِس طریقے سے گزارتے ہیں کہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ اِن جیسا عیاش شاید ہی دنیا میں کوئی اور ہو۔

عدیل کو امریکہ میں رہتے ہوئے پانچ سال ہوگئے ہیں اور وہ بھی عادتوں کے اعتبار سے آدھا امریکی ہوچکا ہے۔ آج کل ہمیں سیر کرانے کے لئے اُس نے پوری ایک ہفتہ کی چھٹیاں لی تھیں تاکہ نیویارک کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے۔ اب وہ سات دن خود بھی گھومنا چاہتا تھا اور ہمیں بھی گھمانا چاہتا تھا، یہی وجہ ہے کہ وہ ایک ایک لمحے کا پورا پورا استعمال کررہا تھا۔

آج ہم شعیب پیرزادہ کے گھر پہنچے تھے، شعیب ہماری بیگم کے کزن ہیں اور برکلین میں برائیٹن بیچ کے قریب رہائش پذیر ہیں۔ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ عدیل کہنے لگا ٹائم ضائع نہیں کرنا ہے، بس تیار ہوجائیں آج ہم مجسمہِ آزادی دیکھنے چلیں گے۔

یار دم تو لے لینے دو،چلتے ہیں، میں نے جواب دیا

لیکن جواب ملا کہ اگر زیادہ آرام کیا تو وقت ضائع ہوسکتا ہے۔

دیکھا تیرا امریکا (پہلی قسط)
دیکھا تیرا امریکا (دوسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)

تو اِس لیے اب ہم مین ہاٹن جا رہے تھے، نجانے نیویارک کہاں تھا، یہاں مین ہاٹن تھا، برکلین تھا، کوئینز تھا، بروکس اور اسٹیٹن تھا، نہیں تھا تو نیویارک نام کا کوئی شہر نہیں تھا۔ نیویارک ریاست انہی پانچ شہروں پر مشتمل ہے۔ امریکہ میں جب نیویارک سٹی کا ذکر ہوتا ہے تو مین ہاٹن کو ہی نیویارک کہا جاتا ہے۔

ہم باتیں کرتے ہوئے ایک سر سبز علاقے میں پہنچ گئے تھے۔ عدیل نے بتایا کہ یہ بیٹری پارک ہے جو ایک وسیع و عریض سیر گاہ ہے۔ یہاں سے دور سمندری جزیرے پر کھڑا مجسمہ آزادی نظر آتا ہے۔ درمیان میں سمندر کا پتن حائل تھا، اس لئے فیری سے جانا ضروری ہوگیا تھا۔

ہم اس وقت بحرا وقیانوس کے ساحل پر کھڑے تھے۔ یہاں لوگوں کا جمِ غفیر تھا، فیریاں آ اور جا رہی تھیں، لیکن ہمارے اور فیری کے درمیاں امریکی سماج حائل تھا۔ ایک طویل قطار ہمارے آگے موجود تھی جو دھیرے دھیرے آگے کھسک رہی تھی اور ساحل کے ساتھ بنی ایک عمارت میں داخل ہو رہی تھی۔ جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو ایسا لگا کہ ہم ابوظہبی کے ہوائی اڈے کے پری کلیرنس روم میں داخل ہوگئے ہوں۔ بلکہ وہاں بھی اتنی تلاشی نہیں لی گئی تھی جو یہاں لی گئی۔ جامہ تلاشی ہوئی، بیگ تلاشی اور پھر جیب تلاشی ہوئی۔ پینٹ کی بیلٹ اتروئی گئی، بوٹ اتروالئے گئے، اسکینر سے گزارا گیا، بس اب یہاں کتوں سے سنگھوانا رہ گیا تھا۔ اِس موقع پر بس میں یہی کہنا چاہوں گا کہ آزادی کے مجسمے کو قریب سے دیکھنے کے چکر میں اپنی تو آزادی کا بینڈ بج گیا۔

اِس وقت اچانک میرے کانوں میں ڈاکٹر مارٹن لوتھر کنگ کے الفاظ گونجنے لگے جو انہوں نے اپنے شہرہ آفاق خطاب میں کہے تھے
'میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب یہ قوم اُٹھ کھڑی ہوگی اور اپنی تشخیص کو صحیح معنوں میں پہچاننے اور اِس آئینی حقیقت کا خود ثبوت بنے گی کہ دنیا کے تمام انسانوں کو برابری کی بنیاد پر پیدا کیا گیا۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آئے گا جب جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر غلام کسانوں کے بیٹے اور غلاموں کے آقائوں کے بیٹے بھائی چارے کی فضاء میں ایک میز پر بیٹھنے کے قابل ہوجائیں گے۔ میرا ایک خواب ہے کہ ایک دن آزادی اور انصاف کے لئے ترسی ہوئی مسی سیپی MISSISSIPPI جیسی صحرائی ریاست بھی آزادی اور انصاف کے نخلستان میں تبدیل ہوجائے گی۔ میرا ایک خواب ہے کہ میرے چار بچے ایک دن ایک ایسی قوم میں زندگی بسر کریں گے جہاں انہیں رنگ و نسل کی بجائے ان کے کردار کی بنا پر پرکھا جائے گا۔'

ڈاکٹر لوتھر کنگ نے امریکہ کی آزادی اور مجسمہِ آزادی کی تنصیب کے بہت بعد جب واشگٹن ڈی سی میں ایک مارچ کے درمیان یہ خطاب کیا تھا تو شاید آزادی ملنے کے باوجود کالوں سے ایسا ہی ہتک آمیز سلوک روا رکھا جاتا ہوگا جیسا صرف آزادی کے مجسمے کو دیکھنے کے لئے جانے والے میرے جیسے تمام افراد سے روا رکھا گیا تھا۔

یہ آزادی کا کون سا رخ تھا میں نہیں سمجھ پایا، شاید ڈاکٹر لوتھر سمجھ گئے تھے۔ میں فیری میں بیٹھا، مجسمہ ِآزادی کو قریب آتا محسوس کرکے یہی سوچ رہا تھا۔

فیری میں داخلے کے بعد ہم اوپری منزل عرشے پر پہنچ کر ریلنگ کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے۔ چاروں طرف پانی، ٹھاٹھیں مارتا غراتا لہراتا بحرا قیانوس اور دوسری جانب نیویارک کی اونچی اونچی پر شکوہ عمارتیں کا نظارہ قابلِ دید تھا۔


فیری ایک جھٹکے سے آئرلینڈ کے بنے ہوئے ڈیک کے ساتھ لگا دی گئی اور ہم آزادی کے مجسمے کی ملکیت جزیرے کی سرزمین پر اتر گئے۔ یعنی ہم نے بالآخر پتن کراس کر ہی لیا تھا۔

سن 1820ء اور سن 1920ء کے درمیان اندازاََ 34 ملین افراد امریکہ میں داخل ہوئے جس میں سے تین چوتھائی وہاں مستقل رہائش کے لئے آئے۔ اِن نئے آنے والوں کے لئے امریکہ کی پہلی جھلک یہی مجسمہِ آزادی تھا۔

یہ مجسمہ ساز فیڈرک آگسٹی بر تھولڈی کا سوچا ہوا خیال، فرانس کی طرف سے دوستی کا تحفہ اور دو قوموں کے درمیان آزادی کیلئے کمٹمنٹ کا نشان ہے۔ یہ ایک پر شکوہ وجود ہے جو نیلے آسمان میں بلند ہوتا چلا گیا ہے اور اِس کے شاندار ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ یہ مجسمہ ایک عورت کا ہے۔ اِسے شروع میں دنیا کی آزادی کی روشنی کا مجسمہ کہا جاتا تھا۔ سن 1924ء میں اِس جزیرے اور مجسمہِ آزادی کو قومی یادگار بنا دیا گیا۔ اِس کا لباس لہراتے چغے اور چادروں سے مشابہ ہے، اس کے سر پر تاج ہے۔ دائیں ہاتھ میں مشعل اور بائیں ہاتھ میں کتاب ہے، جس پر 4 جولائی 1776ء لکھا ہوا ہے جو امریکہ کی آزادی کی تاریخ ہے۔ مجسمے کے پیروں میں پڑی زنجیریں ٹوٹی ہوئی ہیں جو اِس بات کی علامت ہیں کہ ظلم اور جھوٹ کو روند ڈالا گیا ہے۔

اِس مجسمے کی اونچائی نچلے پیڈسٹل سے اوپر ٹارچ تک تقریباََ 305 فٹ ایک انچ ہے، لیکن مجسمے کی بذاتِ خود پاوں سے لیکر سر کی چوٹی تک اونچائی 151 فٹ ایک انچ ہے، جبکہ جس پیڈسٹل پر یہ استادہ ہے اُس کی اونچائی 89 فٹ ہے۔ فرانس نے اِس دیوقامت مجسمے کے لئے چار لاکھ ڈالر مہیا کئے جبکہ 89 فٹ اونچے پیڈسٹل پر خرچ ہونے والی تقریباََ دو لاکھ ستر ہزار ڈالر کی رقم کے لئے ایک مہم چلائی گئی۔ امریکی شاعرہ ایما لیزارس نے مجسمہ آزادی کو دنیا کے لئے راہبر مینارہِ نور قرار دیا۔ ایک نظم جو اُس نے پیڈسٹل کی تعمیر میں رقم اکھٹی کرنے کے لئے تخلیق کی تھی وہ آج بھی مجسمہِ آزادی کے پیڈسٹل پر کندہ ہے۔

The New Colossus
by Emma Lazarus

,Not like the brazen giant of Greek fame
;With conquering limbs astride from land to land
Here at our sea-washed, sunset gates shall stand
,A mighty woman with a torch
whose flame
Is the imprisoned lightning, and
.her name Mother of Exiles
From her beacon-hand
Glows world-wide welcome; her mild eyes command
.The air-bridged harbor that twin cities frame
Keep, ancient lands, your storied pomp!" cries she"
,With silent lips. "Give me your tired, your poor
,Your huddled masses yearning to breathe free
.The wretched refuse of your teeming shore
,Send these, the homeless, tempest-tost to me
I lift my lamp beside the golden door!

اِس نظم نے مجسمہِ آزادی کو بھرپور معنٰی عطا کردئیے۔

مشہوراور دیوقامت تو کئی اور مجسمے بھی ہیں جیسے روم میں نیرو کا دیوقامت مجسمہ، بدھا کا مجسمہ عقیدت اور بلندی کے لحاظ سے قابلِ ذکر ہے۔ شہرت کے اعتبار سے تو ابوالہول کا مجسمہ بھی کسی سے کم نہیں ہے، خوف اور ڈر کا نشان لیکن عورت کی شباہت کے اِس مجسمے کو میں کیا کہوں؟ اگر یہ آزادی کا مجسمہ ہے تو ڈاکٹر لوتھر کو 1963ء میں رنگ و نسل کے تعصب سے آزادی کے خواب کیوں دیکھنے پڑے۔

فیری سے اتر کر جب ہم مجسمہِ آزادی کی تلاش میں آگے کو چلے تو سامنے ایک ریستوران نظر آگیا۔ عنایہ کو اب بھوک ستا رہی تھی اِس لئے وہ کچھ کھانے کے لئے شور مچانے لگی۔ عدیل ریستوران سے کچھ لینے چلا گیا۔ میں نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹوائلٹ کا رخ کیا۔ کیا کروں شوگر کی بناء پر بار بار حاجت ہوتی ہے۔ اتنی بارونق جگہ پر میرا خیال تھا کہ مشکل ہے کہ ٹوائلٹ صاف ملیں۔ لیکن کمال کی بات ہے ٹوائلٹ اتنے صاف و شفاف تھے بلکہ چمک رہے تھے ایسے جیسے کبھی استعمال ہی نہ ہوئے ہوں۔ ٹشو پیپر کے سیٹ کورز ایک طرف لٹک رہے تھے۔ رول دوسری طرف، ہاتھ دھونے کیلئے بیسن تھے، آٹومیٹک ٹیگ جن کو دبانے سے لیکوڈ سوپ نکل آتا ہے۔ اوپر ہوا سے ہاتھ سکھانے والی مشین۔ واہ کیا انتظام تھا اور وہ بھی پبلک مقام پر۔

میں باہر آیا تو عنایہ آلو کے فرائز کھا رہی تھی۔ ایک آلو کا چپس اُس نے میری جانب بھی بڑھا دیا۔ ساتھ ہی عدیل نے لیموں پانی کا ایک کنگ سائز گلاس یہ کہتے ہوئے پکڑا دیا کہ یہاں کھانے کو تو بہت کچھ ہے لیکن شاید ہم نہ کھا سکیں۔ یہ لیموں پانی بہرطور حلال ہے۔

یہ دنیا کا مشہور ترین دیوقامت مجسمہ ہے لیکن بے جان بت کوئی کتنی دیر دیکھ سکتا ہے؟ اور اِس کے سحر میں کتنی دیر اسیر رہ سکتا ہے؟ آپ یہاں آتے ہیں کچھ سیر کرتے ہیں، تھوڑی دیر مجسمے کو سر اُٹھا کر دیکھتے ہیں، اُس کے گرد حیرت زدہ آنکھوں کے ساتھ پھرتے ہیں، لیموں پانی کا گلاس ختم کرتے ہیں، دوچار سیلفیاں بناتے ہیں اور اگر کوئی ساتھ ہے تو اُسے تصویر کھینچنے کے لئے کہتے ہیں۔ بس پھر واپسی کے لئے فیری میں آ بیٹھتے ہیں۔ اتنا سا ہے مجسمہِ آزادی کے جزیرے کا سفر۔

اب دل یہ چاہ رہا تھا کہ فیری بس چل پڑے اور ہمیں نیویارک پہنچا دے تاکہ کچھ پیٹ پوجا کی جاسکے لیکن شاید ابھی کچھ اور دیر ہمیں بھوک برداشت کرنی تھی۔ فیری لبرٹی آئی لینڈ سے تو ہمیں لے کر رخصت ہوگئی تھی لیکن سیدھی مین ہاٹن نہیں گئی تھی بلکہ ذرا رخ بدل کر ایک اور جزیرے پر جا رکی۔ یہ ایلس آئی لینڈ ہے، وہ جزیرہ جہاں کسی زمانے میں امریکہ میں مستقل رہائش کے لئے آنے والوں کا پہلا پڑاو ہوتا تھا یعنی اِسے گیٹ وے ٹو امریکہ کہا جاسکتا ہے۔ تارکینِ وطن کی کشتیاں اور بحری جہاز یہیں لنگر انداز ہوتے تھے۔ مہینوں کا دشوار گزار سفر اسی ایلس آئی لینڈ پر ہوتا تھا لیکن یہ اُن کا عارضی پڑاو ہوتا تھا۔ فیری اسی جزیرے پر دس منٹ کے لئے رکی تھی۔ سامنے ہی ایک معمولی سی عمارت تھی جس میں فیری سے اترنے والے سیاح ذوق و شوق سے جارہے تھے مجھے یہ عمارت پسند نہیں آئی تھی بالکل اسی طرح جیسے مجھے وائٹ ہاوس کی معمولی سی عمارت پسند نہیں آئی تھی جس میں دنیا کا طاقتور ترین شخص رہتا تھا۔ اُس کی اِس رہائش گاہ سے تو مجھے باغِ جناح کی جناح لائبریری زیادہ پسند ہے۔



ویسے میرے پسند یا نا پسند کرنے سے کیا ہوتا ہے؟ یہ وہ عمارت تھی جہاں تارکینِ وطن کی شناخت ہوتی تھی، امریکہ میں داخلے اور قیام کے سرکاری کاغذات تیار کئے جاتے تھے اور اُن کی تیاری میں جتنا وقت لگتا تھا اتنے وقت کے لئے یہ تارکینِ وطن کا عارضی پڑاو ہوتا تھا۔ فیری میں بھی اور یہاں بھی عہدِ رفتہ کی بلیک اینڈ وائٹ فلمیں دکھائی جا رہی تھیں۔ دنیا بھر سے آزاد زندگی گزارنے کے نام پر غلاموں کے تازہ دم دستے یہاں ہر وقت پہنچتے رہتے ہیں۔ میں امریکہ کے اِس گیٹ وے پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر واپس فیری میں آگیا جہاں بچے میرا انتظار کر رہے تھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں
Load Next Story