صفائی نصف ایمان

پاکیزگی اور صفائی کی اسلام میں خاص اہمیت کے پیش نظر ہی صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔۔۔

h.sethi@hotmail.com

ہمارے ایک دوست کو بچپن سے عادت تھی کہ وہ گلا صاف کرنے کے لیے کھانستا اور پھر جو بھی مواد منہ میں جمع ہوتا نزدیک ترین خالی جگہ پا کر وہاں تھوک دیتا۔ دوست احباب اس کی اس عادت کو پسند نہ کرتے اور کبھی کبھار ٹوک بھی دیتے، وہ اس کا برا تو نہ مناتا لیکن اپنی اس حرکت کو ترک بھی نہ کرتا۔ وقت گزرتا گیا اور وہ بڑا ہو کر شادی کے بعد ایک بچی کا باپ بھی بن گیا۔

بچی ذرا بڑی ہوئی تو وہ اسے اپنی کار میں اسکول چھوڑنے جاتا، ایک روز اس نے گلا صاف کرنے والی آواز نکال کر کار کا شیشہ نیچے کیا تو کمسن بیٹی نے اسے ڈبے سے ٹشو پیپر پکڑا دیا اور پھر باپ کے منہ سے نکلی رطوبت والا وہ ٹشو پیپر دوبارہ پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھائے رکھا۔ باپ نے وہ ٹشو پیپر بیٹی کو پکڑا تو دیا لیکن گم سم ہو گیا کیونکہ بیٹی نے وہ ٹشو پیپر ایک اور ٹشو پیپر میں لپیٹ کر اپنے اسکول بیگ کے ایک کونے میں رکھ لیا تھا۔

اس دوران نہ تو اس کی بیٹی نے کچھ کہا نہ ہی وہ بولا لیکن اس نے بیٹی کو اسکول کے گیٹ پر ڈراپ کرنے سے پہلے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا ''بیٹی تھینک یو'' اس دن کے بعد سے وہ صفائی سے بے پرواہ باپ نہ صرف ہر جگہ تھوکنے کی عادت سے تائب ہو گیا جہاں بھی اٹھا کر کوڑے دان میں ٹھکانے لگانے والی چیز پڑی دیکھتا اسے اٹھا لیتا اور قریبی ڈسٹ بن میں پھینک دیتا بلکہ کسی کو گندگی پھیلاتے دیکھتا تو شائستگی سے سمجھانے کی کوشش بھی کرتا۔

دوست اور عزیز جو اس کی بد عادات کو اب ناقابل اصلاح سمجھ چکے تھے، حیران تو ضرور تھے لیکن بہرحال جانتے تھے کہ ہر انسان میں بہتری کی گنجائش تو ہمیشہ ہوتی ہے، اس لیے کسی نے خاص تجسس نہ کیا لیکن موصوف نے ایک روز جب ازخود اپنی گندی عادات کو ترک کرنے کا محرک اپنی کمسن بیٹی کے ایک اشارے کو ٹھہرا کر اسے دوستوں سے Share کیا تو سب نے سبحان اللہ کہہ کر تسلیم کیا کہ بعض اوقات خاموشی کی زبان وہ اثر دکھا جاتی ہے جو وعظ و نصیحت اور ڈانٹ ڈپٹ پر بھاری ہوتی ہے۔

جن لوگوں نے پاکستان سے باہر یورپ امریکا انگلستان ترکی چین جیسے ممالک کا سفر کیا ہے ضرور شرمندگی محسوس کرتے ہوں گے کہ صفائی کو نصف ایمان کہنے کا دعویٰ تو ہمارا ہے لیکن گندگی بدبو اور غلاظت پھیلانے میں ہم سب سے آگے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ نیویارک میں گھومتے ہوئے ایک دوست نے کہا کہ یہاں مین ہیٹن میں ایک پاکستانی کے ریستوران کا کھانا بے حد لذیذ ہوتا ہے۔ وہ ہمیں اس ریستوران میں لے گیا اور کھانا کھایا تو واقعی مزہ آ گیا، گپ شپ کے بعد میں ریستوران کے ٹائیلٹ میں گیا تو سارا مزہ کرکرا ہو گیا۔ ٹائیلٹ نہ صرف بدبودار تھا بلکہ اس کا فرش بے حد غلیظ تھا اور اوپر لگی ٹینکی میں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ کھانا اگرچہ لذیذ تھا لیکن اب خیال آیا کہ جہاں اس کی تیاری ہوئی تھی اس کچن کی حالت نہ معلوم کیسی ہو گی۔


ہمارے شہر میں جو لذیذ خوراک کی شہرت رکھتا ہے یہاں ایک فوڈ اتھارٹی کچھ عرصہ سے قائم ہے اور اس کی کارکردگی کا ذکر اخبارات میں پڑھنے کو ملتا ہے اور ٹیلیویژن پر اس کی کاوشوں کی تصاویر دیکھی جا سکتی ہیں، اس اتھارٹی کی پہلی نگران عائشہ نے شہر کے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے کچنز اور باتھ رومز پر ریڈ کیے تو دیکھنے والوں پر عجب انکشاف ہوئے، مہمانوں کو پکوان کھلانے والے ہوٹلوں اور ریستورانوں کے کیچنز میں تیار کی جانے والی خوراک کے ساتھ ساتھ وہاں چوہوں، کا کروچز، مکھیوں، کیڑوں مکوڑوں کو آزادانہ خوراک چگتے برتنوں میں گھومتے پھرتے دوڑتے بھاگتے دیکھا گیا اور جس جگہ برتنوں اور خوراک کی صفائی ستھرائی ہوتی تھی وہاں غلاظت دیکھی جا سکتی تھی، محترمہ عائشہ نے ایسی تمام گندگی اور غلاظت کا نوٹس لیتے ہوئے جرمانے کیے اور ایسی غیر صحت مند اور باسی خوراک کو تلف کرنے کے علاوہ قفل بندی کے احکامات بھی دیے لیکن یہاں اس نے بعض بااختیار شخصیات کے خلاف بھی تادیبی کارروائی بھی کر دی جس پر اسے اپنی اس کارروائی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔

کھانے پینے کی جگہوں پر گندگی اور غلاظت تو ناقابل معافی ٹھہری لیکن Posh اور معروف ترین شاپنگ ایریاز کے عقب میں بھی کوڑے کچرے کے ڈھیر دیکھے جا سکتے ہیں، اس میں اگر حکومتی محکموں کی غفلت نااہلی اور عدم دلچسپی قابل مواخذہ ہے تو موقع پر موجود کاروباری حضرات بھی برابر کے مجرم ہیں جو اس گندگی اور کوڑ کباڑ کی صفائی میں اپنی مدد آپ کرنے میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔

پاکیزگی اور صفائی کی اسلام میں خاص اہمیت کے پیش نظر ہی صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے لیکن گھروں کے باورچی خانے ہوں یا ٹائیلٹ ، گلیاں ہوں یا محلے' سڑکیں ہوں یا مارکیٹیں لوگوں کے جسم ہوں یا لباس یہاں تک کہ عبادت گاہوں کے غسل خانے تک صاف ستھرے نہیں ہوتے۔ بڑے شہروں کی وہ مارکیٹیں جہاں لاکھوں کروڑوں کی خریداری ہوتی ہے گندگی اور بدبو سے اٹی ملتی ہیں اور اس گندگی میں جراثیم پلتے اور بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ ہماری بعض معروف جگہوں کی دیواروں پر یہ لکھا ہوا بھی ملتا ہے کہ ''یہاں پیشاب کرنا منع ہے'' اور آپ اس تحریر کے قریب سے ناک پر رومال رکھے بغیر نہیں گزر سکتے۔

پاکستان میں ایک انوکھا تجربہ پنجاب کے دارالحکومت میں ہو رہا ہے جس کی تقلید صوبہ سندھ کے دارالحکومت میں عنقریب ہونے کو ہے۔ یہ ہر دو صوبائی حکمرانوں کے لییلمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ لاہور میں صفائی کا ٹھیکہ ایک دوست ملک کی فرم کو دیا جا چکا ہے جب کہ کراچی کی صفائی کا ٹھیکہ ایک دوسرے دوست ملک کے کنٹریکٹر کو دے دیا گیا ہے۔ ہم کس قدر نااہل اور نالائق ہیں کہ اپنے ملک کے دو بڑے شہروں کی غلاظت اور گندگی کی صفائی بھی خود کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ کیا اب کوئی ایسٹ انڈیا کمپنی نئے نام کے ساتھ ہمیں ٹھیکے پر لینے آ رہی ہے؟

میرا سر تو یہ سوچ کر ہی گھٹنوں سے آ لگا ہے لیکن صفائی کا جو ابتر حال بیرون ملک ماہرین کو ٹھیکہ دیے جانے کے باوجود شہری روزانہ دیکھ رہے ہیں، ان کا تجزیہ ہے کہ مقامی Sub contractor ہی سے کام لینا تھا تو زرمبادلہ ضایع کرنے میں کیا مصلحت تھی۔
Load Next Story