پاکستان کرکٹ کے لیے چند نام ہی ناگزیر کیوں
مزید رسوائیوں سے بچنے کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔
میں محمد حفیظ کا سب سے بڑا سپورٹر ہوں، 2009ء میں پی سی بی کی سلیکشن کمیٹی کے سربراہ نے محمدحفیظ اور یاسر حمید میں سے کسی ایک کو قومی اے کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا کر آسٹریلیا بجھوانے کے حوالے سے میری رائے طلب کی تو میرا ووٹ محمد حفیظ کے حق میں ہی تھا، پھر میں نے ایک گھنٹے سے بھی زائد دورانیہ میں منطق اور دلائل کے ساتھ حفیظ اور یاسر حمید کے درمیان موازنہ کیا تو چیف سلیکٹر نے بھی میری رائے پر مہر ثبت کر دی۔
محمد حفیظ کپتان بنا کر آسٹریلیا بجھوا دیئے گئے، پھر وقت نے ثابت بھی کیا کہ یہ فیصلہ کسی طور پر بھی غلط نہ تھا، ماضی میں قومی ٹیم میں متعدد بار ان آؤٹ ہونے والے محمد حفیظ کینگروز کے دیس میں اے ٹیم کی قیادت کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو گرین شرٹس کی ضرورت بن گئے، حفیظ نے اپنی آل راؤنڈر پرفارمنس سے اتنی کارنامے سرانجام دیئے کہ نہ صرف قومی ٹیم کے کپتان بنا دیئے گئے بلکہ آئی سی سی کی رینکنگ میں ان کا نام ٹاپ آل راؤنڈرز میں بھی شمار کیا جانے لگا، وقت وقت کی بات ہے اور وہ وقت شاید اب محمد حفیظ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اس لئے وہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اپنی پرفارمنس پر کم اور اثرورسوخ استعمال کرنے پر زیادہ دھیان دے رہے ہیں۔
میرا سلیکشن کمیٹی سے بس ایک سوال ہے کہ جب محمد حفیظ نے فٹنس مسائل کوجواز بنا کر کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کرنے سے معذرت کر لی تھی تو فٹنس اور کارکردگی کو پرکھے بغیر انہیں دورئہ انگلینڈ کے لئے قومی ٹیم میں کیسے شامل کر لیا گیا اور جب گوروں کے دیس میں آخری ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صرف 2رنز بنانے اور آسٹریلیا سے پہلے اپنے آخری ایک روزہ میچ میں محض11 سکور بنانے والے اوپنر کو ناقص کارکردگی کی بنا پر یو اے ای میں شیڈول ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں ڈراپ کر دیا گیا تھا توکوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دینے کے باوجود ان کو کیسے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز میں گرین شرٹس کا حصہ بنا لیا گیا۔
پی سی بی کے زیر اہتمام ڈومیسٹک کرکٹ میں محمد حفیظ کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کا نام ون ڈے کپ اور قائد اعظم ٹرافی کے ٹاپ 50بیٹسمینوں میں بھی نظر نہیں آتا، میری طرح شائقین کے ذہنوں میں سینکٹروں سوالات ابھرتے ہیں کہ محمد حفیظ کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ وہ کچھ کئے بغیر بھی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنے رہتے ہیں۔
اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ سلمان بٹ کو بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کے صلہ میں قومی ٹیم میں واپس لئے جانے کا گرین سگنل دیا جا رہا ہے، بلاشبہ وہ قائد اعظم ٹرافی کے دوران 741 رنز بنا کر چھٹے نمبر پر رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم ٹرافی میں کامران اکمل بھی 1035رنز کے ساتھ سرفہرست رہے، آصف ذاکر 853 رنز کے ساتھ دوسرے، امام الحق 848 رنز کے ساتھ تیسرے، عثمان صلاح الدین 839 رنز کے ساتھ چوتھے، عبدالرحمن مزمل 749 رنز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے۔ اگر ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کسی کھلاڑی کو قومی ٹیم میں لینے کا طریقہ کار ہے تو اس فارمولے اور تھیوری پر تو کامران اکمل، آصف ذاکر، امام الحق، عثمان صلاح الدین اور عبدالرحمن پورا اترتے ہیں، آخر ان کھلاڑیوں کا کیا قصور ہے،ان پر قومی ٹیم کے دروازے کیوں بند ہیں؟
اگر عمدہ پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کی بجائے بار بار من پسند کھلاڑیوں یا پہلے سے چلے ہوئے کارتوسوں کو ہی قومی سکواڈز میں شامل کرنا ہے تو میری رائے میں ڈومیسٹک کرکٹ کو بند کردینا چاہیے، اس طرح بورڈ کا ہر سال خرچ ہونے والا کروڑوں روپیہ بھی بچے گا اور میچوں کے دوران رنز کے انبار لگانے اور وکٹوں پر وکٹیں لینے والے نوجوان کرکٹرز کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوگی۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق صاحب! یہ آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ جب ڈومیسٹک کرکٹ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے کے باوجود کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے،ان کے بڑا کرکٹر بننے کے سنہری خواب کس طرح چکنا چور ہوتے ہیں،گھروالوں اور عزیز واقارب سے کس کس طرح کے طعنے سننے کو ملتے ہیں، 1990 کے ابتدائی عشرے میں مشاق احمد کی مدد سے آپ عمران خان کی نظروں میں نہ آتے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں سالہا سال کی شاندار کارکردگی کے باوجود شاید آپ بھی آج اووروں کی طرح گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے، وقت کا تقاضا ہے کہ چلے ہوئے کارتوسوں پر زیادہ انحصار نہ کیا جائے۔
آپ کو باصلاحیت کرکٹرز صرف بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے اور محل نما گھروں میں رہنے والوں میں نہیں بلکہ نان چھولے بیچنے، محنت مزدوری کرنے، سکیورٹی گارڈ، مکینک اور چپڑاسی کا کام کرنے اور ایک، دو مرلہ کے گھروں میں رہنے والوں کے بچوں میں بھی ملیں گے، یاد رکھیں وقت کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا، شخصیات آتی اور چلی جاتی ہیں، اس دنیا اور اس کائنات میں وہی لوگ یاد رکھے جاتے ہیں جن کے پاس کارنامے ہوتے ہیں، آپ بطور ٹیسٹ کرکٹر اپنا نام تاریخ میں لکھوا چکے، شاید اس کارنامے کے صلہ میںہی آپ کو چیف سلیکٹرز کا عہدہ طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے،اب دیکھنایہ ہے کہ آپ اپنے اس عہدے کے ساتھ کس طرح انصاف کرتے ہیں، اپنا نام کامیاب چیف سلیکٹر کی فہرست میں بھی لکھوانے کے لئے آپ کو بڑے اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کلب کرکٹ سے ڈومیسٹک سطح اور بعد میں اے ٹیم تک کا کامیابی سے سفر کرنے والوں نے ہی اپنے غیر معمولی کھیل سے انٹرنیشنل سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کیا،ظہیر عباس، جاوید میانداد، وسیم اکرم، عبدالقادر یہاں تک کہ انضمام الحق سمیت نہ جانے کتنے نام ہیں جن کے سنہری کارناموں پر دنیا آج بھی ان کی مداح ہے، 6 جون 2009ء کو آسٹریلیا جانے والی قومی اے ٹیم ہی کی مثال لے لیں، اس سکواڈ کا حصہ بن کر کینگروز کے دیس جانے والے قومی ایک روزہ ٹیم کے موجودہ کپتان اظہر علی اور ٹوئنٹی20 ٹیم کے قائد سرفراز احمد، محمد حفیظ، وہاب ریاض، خالد لطیف، عمر اکمل اور عبدالرحمن سمیت متعدد کھلاڑی بعد میں سپر اسٹارز بنے۔
کھلاڑیوں کی اسی فہرست میں اس وقت کے چیف سلیکٹر عبدالقادر کے صاحبزادے عثمان قادرکا نام بھی تھا، چیئرمین بورڈ اعجاز بٹ کے بھر پور اصرار کے باوجود گگلی ماسٹر نے اپنے بیٹے کو ٹیم کا حصہ بنانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس پریکٹس سے میرے صاف اور شفاف کردار پر داغ لگتا ہے، اپنی ذات کی بجائے قوم کے وسیع تر مفاد میں اس طرح کے بڑے فیصلے کرنے والوں کو ہی قدرت بڑے اعزازات سے نوازتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ عبدالقادر ملکی کرکٹ ٹیم کی تاریخ کے پہلے عمل طور پر چیف سلیکٹر تھے جن کی منتخب کی ہوئی ٹیم نے ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ایک وقت تھا کہ لاہور اور کراچی ہی ملکی کرکٹ کے2 بڑے سنٹرزتھے، قومی ٹیم کا انتخاب زیادہ تر انہیں ریجنز میں سے ہوتا تھا،پھر ان ریجنز کا سنہری دور ماضی کا حصہ بن گیا، اب کراچی نے تو گرنے کے بعد بحالی کا سفر شروع کر دیا ہے، گورننگ بورڈ میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا ہے، روشنیوں کے شہر میں کرکٹ کی تاریکیوں کو دوبارہ اجالوں میں لے جانے کا بڑا کریڈٹ کے سی سی اے کے صدر پروفیسر اعجاز فاروقی کو جاتا ہے اور شاید ایل سی سی اے کو اعجاز فاروقی جیسے دور اندیش اور جرات مند شخص کی خدمات نہیں ہیں، اس لئے تو لاہور کی کرکٹ کا کوئی پرسان حال نہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ پی سی بی کے زیر اہتمام قومی ایونٹس میں لاہور ریجن کی منتخب ٹیمیں آخری نمبروں پر دکھائی دیتی ہیں، راولپنڈی اسلام آباد میں جاری ریجنل قومی ون ڈے کپ کو ہی دیکھ لیں، لاہور کی دونوں ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل میں سب سے آخر میں ہیں، قومی ایونٹس میں زیادہ تر وہی کھلاڑی لاہور کی ٹیموں کا حصہ بننے میں کامیاب رہتے ہیں جن کے چاچے، مامے، تائے لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز یا زونز میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں، عام اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا کرکٹر تو ان ٹیموں کا حصہ بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، اور تو اور ٹیموں کا انتخاب کرنے کے بعد ان کی پریس ریلیز اس لئے بھی جاری نہیں کی جاتی، کیونکہ لاہور کرکٹ کے ارباب اختیار بخوبی سمجھتے ہیں کہ اخبارات میں نام آنے کے بعد شور مچے گا اور پھر انہیں اپنی مانیوں اور اپنے عزیز واقارب کے بچوں کو شامل کرنے کی وضاحتیں دینا پڑے گی۔
عہدیداروں کے بچوں کا ٹیموں میں شامل ہونے کے بعد کتنا اثرورسوخ ہوتا ہے اس کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے،کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے زیر اہتمام شیڈول ایک قومی ایونٹ میں ایل سی سی اے اعلی عہدیدار کا بیٹا بیٹنگ میں ناکامی کے بعد ڈریسنگ روم پہنچا، پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک سینئر کھلاڑی اُس ٹیم کا کپتان تھا ، اس کے بس استفسار پر ہی وہ اس پر برس پڑا، بات یہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ایل سی سی اے میں موجود اعلی عہدیدار نے اپنے بیٹے کی شکایت پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو خط بھی لکھ دیا اور ڈسپلن کا بہانہ بنا کر اپنے ہی بنائے ہوئے کپتان کے خلاف تادیبی کاروائی کا بھی مطالبہ کر دیا، پہلے سے زیر عتاب وہ کھلاڑی بورڈ کی نظروں میں مزید گر گیا اور قومی ٹیم میں دوبارہ واپس آنا اس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوگیا، آج کی موجودہ کرکٹ میں ہم بڑا کرکٹر پیدا کرنے کی بجائے کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں، گورننگ بورڈ کے ارکان اور ریجنل عہدیداروں کو خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
جب ہماری اپنی ہی نیتوں میں فتور ہوگا اور ہم ابھرتے ہوئے باصلاحیت کرکٹرز کو چانس دینے کی بجائے وہی پرانے چہروں پر بار بار انحصار کریں گے تو ہماری قومی ٹیم ویسٹ انڈیز جیسی کمزور ٹیم سے ٹیسٹ بھی ہارے گی، نیوزی لینڈ والے بھی ہمیں عبرت کا نشان بنائیں گے، کینگروز بھی ٹیسٹ میچوں میں ہمارے گلوں میں شکستوں کا طوق ڈالنے کے بعد ایک روزہ مقابلے میں بھی 92 رنز کے بڑے مارجن سے ہمیں زیر کریں گے۔
محمد حفیظ کپتان بنا کر آسٹریلیا بجھوا دیئے گئے، پھر وقت نے ثابت بھی کیا کہ یہ فیصلہ کسی طور پر بھی غلط نہ تھا، ماضی میں قومی ٹیم میں متعدد بار ان آؤٹ ہونے والے محمد حفیظ کینگروز کے دیس میں اے ٹیم کی قیادت کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو گرین شرٹس کی ضرورت بن گئے، حفیظ نے اپنی آل راؤنڈر پرفارمنس سے اتنی کارنامے سرانجام دیئے کہ نہ صرف قومی ٹیم کے کپتان بنا دیئے گئے بلکہ آئی سی سی کی رینکنگ میں ان کا نام ٹاپ آل راؤنڈرز میں بھی شمار کیا جانے لگا، وقت وقت کی بات ہے اور وہ وقت شاید اب محمد حفیظ کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، اس لئے وہ گزشتہ کچھ عرصہ سے اپنی پرفارمنس پر کم اور اثرورسوخ استعمال کرنے پر زیادہ دھیان دے رہے ہیں۔
میرا سلیکشن کمیٹی سے بس ایک سوال ہے کہ جب محمد حفیظ نے فٹنس مسائل کوجواز بنا کر کاکول اکیڈمی میں ٹریننگ کرنے سے معذرت کر لی تھی تو فٹنس اور کارکردگی کو پرکھے بغیر انہیں دورئہ انگلینڈ کے لئے قومی ٹیم میں کیسے شامل کر لیا گیا اور جب گوروں کے دیس میں آخری ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں صرف 2رنز بنانے اور آسٹریلیا سے پہلے اپنے آخری ایک روزہ میچ میں محض11 سکور بنانے والے اوپنر کو ناقص کارکردگی کی بنا پر یو اے ای میں شیڈول ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز اور نیوزی لینڈ کے خلاف ہونے والی ٹیسٹ سیریز میں ڈراپ کر دیا گیا تھا توکوئی بڑا کارنامہ انجام نہ دینے کے باوجود ان کو کیسے آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ سیریز میں گرین شرٹس کا حصہ بنا لیا گیا۔
پی سی بی کے زیر اہتمام ڈومیسٹک کرکٹ میں محمد حفیظ کی حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کا نام ون ڈے کپ اور قائد اعظم ٹرافی کے ٹاپ 50بیٹسمینوں میں بھی نظر نہیں آتا، میری طرح شائقین کے ذہنوں میں سینکٹروں سوالات ابھرتے ہیں کہ محمد حفیظ کے پاس وہ کون سی گیڈر سنگھی ہے کہ وہ کچھ کئے بغیر بھی سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی آنکھوں کا تارا بنے رہتے ہیں۔
اسپاٹ فکسنگ کیس میں سزا یافتہ سلمان بٹ کو بھی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کے صلہ میں قومی ٹیم میں واپس لئے جانے کا گرین سگنل دیا جا رہا ہے، بلاشبہ وہ قائد اعظم ٹرافی کے دوران 741 رنز بنا کر چھٹے نمبر پر رہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قائد اعظم ٹرافی میں کامران اکمل بھی 1035رنز کے ساتھ سرفہرست رہے، آصف ذاکر 853 رنز کے ساتھ دوسرے، امام الحق 848 رنز کے ساتھ تیسرے، عثمان صلاح الدین 839 رنز کے ساتھ چوتھے، عبدالرحمن مزمل 749 رنز کے ساتھ پانچویں نمبر پر رہے۔ اگر ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی کسی کھلاڑی کو قومی ٹیم میں لینے کا طریقہ کار ہے تو اس فارمولے اور تھیوری پر تو کامران اکمل، آصف ذاکر، امام الحق، عثمان صلاح الدین اور عبدالرحمن پورا اترتے ہیں، آخر ان کھلاڑیوں کا کیا قصور ہے،ان پر قومی ٹیم کے دروازے کیوں بند ہیں؟
اگر عمدہ پرفارم کرنے والے کھلاڑیوں کی بجائے بار بار من پسند کھلاڑیوں یا پہلے سے چلے ہوئے کارتوسوں کو ہی قومی سکواڈز میں شامل کرنا ہے تو میری رائے میں ڈومیسٹک کرکٹ کو بند کردینا چاہیے، اس طرح بورڈ کا ہر سال خرچ ہونے والا کروڑوں روپیہ بھی بچے گا اور میچوں کے دوران رنز کے انبار لگانے اور وکٹوں پر وکٹیں لینے والے نوجوان کرکٹرز کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوگی۔
چیف سلیکٹر انضمام الحق صاحب! یہ آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے کہ جب ڈومیسٹک کرکٹ میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے کے باوجود کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہے،ان کے بڑا کرکٹر بننے کے سنہری خواب کس طرح چکنا چور ہوتے ہیں،گھروالوں اور عزیز واقارب سے کس کس طرح کے طعنے سننے کو ملتے ہیں، 1990 کے ابتدائی عشرے میں مشاق احمد کی مدد سے آپ عمران خان کی نظروں میں نہ آتے تو ڈومیسٹک کرکٹ میں سالہا سال کی شاندار کارکردگی کے باوجود شاید آپ بھی آج اووروں کی طرح گمنامی کی زندگی گزار رہے ہوتے، وقت کا تقاضا ہے کہ چلے ہوئے کارتوسوں پر زیادہ انحصار نہ کیا جائے۔
آپ کو باصلاحیت کرکٹرز صرف بڑی بڑی گاڑیوں میں پھرنے اور محل نما گھروں میں رہنے والوں میں نہیں بلکہ نان چھولے بیچنے، محنت مزدوری کرنے، سکیورٹی گارڈ، مکینک اور چپڑاسی کا کام کرنے اور ایک، دو مرلہ کے گھروں میں رہنے والوں کے بچوں میں بھی ملیں گے، یاد رکھیں وقت کا پہیہ بڑا ظالم ہوتا ہے جو کسی کو معاف نہیں کرتا، شخصیات آتی اور چلی جاتی ہیں، اس دنیا اور اس کائنات میں وہی لوگ یاد رکھے جاتے ہیں جن کے پاس کارنامے ہوتے ہیں، آپ بطور ٹیسٹ کرکٹر اپنا نام تاریخ میں لکھوا چکے، شاید اس کارنامے کے صلہ میںہی آپ کو چیف سلیکٹرز کا عہدہ طشتری میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے،اب دیکھنایہ ہے کہ آپ اپنے اس عہدے کے ساتھ کس طرح انصاف کرتے ہیں، اپنا نام کامیاب چیف سلیکٹر کی فہرست میں بھی لکھوانے کے لئے آپ کو بڑے اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے ہوں گے۔
تاریخ شاہد ہے کہ کلب کرکٹ سے ڈومیسٹک سطح اور بعد میں اے ٹیم تک کا کامیابی سے سفر کرنے والوں نے ہی اپنے غیر معمولی کھیل سے انٹرنیشنل سطح پر ملک وقوم کا نام روشن کیا،ظہیر عباس، جاوید میانداد، وسیم اکرم، عبدالقادر یہاں تک کہ انضمام الحق سمیت نہ جانے کتنے نام ہیں جن کے سنہری کارناموں پر دنیا آج بھی ان کی مداح ہے، 6 جون 2009ء کو آسٹریلیا جانے والی قومی اے ٹیم ہی کی مثال لے لیں، اس سکواڈ کا حصہ بن کر کینگروز کے دیس جانے والے قومی ایک روزہ ٹیم کے موجودہ کپتان اظہر علی اور ٹوئنٹی20 ٹیم کے قائد سرفراز احمد، محمد حفیظ، وہاب ریاض، خالد لطیف، عمر اکمل اور عبدالرحمن سمیت متعدد کھلاڑی بعد میں سپر اسٹارز بنے۔
کھلاڑیوں کی اسی فہرست میں اس وقت کے چیف سلیکٹر عبدالقادر کے صاحبزادے عثمان قادرکا نام بھی تھا، چیئرمین بورڈ اعجاز بٹ کے بھر پور اصرار کے باوجود گگلی ماسٹر نے اپنے بیٹے کو ٹیم کا حصہ بنانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اس پریکٹس سے میرے صاف اور شفاف کردار پر داغ لگتا ہے، اپنی ذات کی بجائے قوم کے وسیع تر مفاد میں اس طرح کے بڑے فیصلے کرنے والوں کو ہی قدرت بڑے اعزازات سے نوازتی ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ عبدالقادر ملکی کرکٹ ٹیم کی تاریخ کے پہلے عمل طور پر چیف سلیکٹر تھے جن کی منتخب کی ہوئی ٹیم نے ٹوئنٹی20 ورلڈ کپ کا ٹائٹل اپنے نام کیا۔
ایک وقت تھا کہ لاہور اور کراچی ہی ملکی کرکٹ کے2 بڑے سنٹرزتھے، قومی ٹیم کا انتخاب زیادہ تر انہیں ریجنز میں سے ہوتا تھا،پھر ان ریجنز کا سنہری دور ماضی کا حصہ بن گیا، اب کراچی نے تو گرنے کے بعد بحالی کا سفر شروع کر دیا ہے، گورننگ بورڈ میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کر لیا ہے، روشنیوں کے شہر میں کرکٹ کی تاریکیوں کو دوبارہ اجالوں میں لے جانے کا بڑا کریڈٹ کے سی سی اے کے صدر پروفیسر اعجاز فاروقی کو جاتا ہے اور شاید ایل سی سی اے کو اعجاز فاروقی جیسے دور اندیش اور جرات مند شخص کی خدمات نہیں ہیں، اس لئے تو لاہور کی کرکٹ کا کوئی پرسان حال نہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ پی سی بی کے زیر اہتمام قومی ایونٹس میں لاہور ریجن کی منتخب ٹیمیں آخری نمبروں پر دکھائی دیتی ہیں، راولپنڈی اسلام آباد میں جاری ریجنل قومی ون ڈے کپ کو ہی دیکھ لیں، لاہور کی دونوں ٹیمیں پوائنٹس ٹیبل میں سب سے آخر میں ہیں، قومی ایونٹس میں زیادہ تر وہی کھلاڑی لاہور کی ٹیموں کا حصہ بننے میں کامیاب رہتے ہیں جن کے چاچے، مامے، تائے لاہور سٹی کرکٹ ایسوسی ایشنز یا زونز میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں، عام اور غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا کرکٹر تو ان ٹیموں کا حصہ بننے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا، اور تو اور ٹیموں کا انتخاب کرنے کے بعد ان کی پریس ریلیز اس لئے بھی جاری نہیں کی جاتی، کیونکہ لاہور کرکٹ کے ارباب اختیار بخوبی سمجھتے ہیں کہ اخبارات میں نام آنے کے بعد شور مچے گا اور پھر انہیں اپنی مانیوں اور اپنے عزیز واقارب کے بچوں کو شامل کرنے کی وضاحتیں دینا پڑے گی۔
عہدیداروں کے بچوں کا ٹیموں میں شامل ہونے کے بعد کتنا اثرورسوخ ہوتا ہے اس کے لئے ایک مثال ہی کافی ہے،کچھ عرصہ قبل پی سی بی کے زیر اہتمام شیڈول ایک قومی ایونٹ میں ایل سی سی اے اعلی عہدیدار کا بیٹا بیٹنگ میں ناکامی کے بعد ڈریسنگ روم پہنچا، پاکستان کرکٹ ٹیم کا ایک سینئر کھلاڑی اُس ٹیم کا کپتان تھا ، اس کے بس استفسار پر ہی وہ اس پر برس پڑا، بات یہی پر ختم نہیں ہوئی بلکہ ایل سی سی اے میں موجود اعلی عہدیدار نے اپنے بیٹے کی شکایت پر پاکستان کرکٹ بورڈ کو خط بھی لکھ دیا اور ڈسپلن کا بہانہ بنا کر اپنے ہی بنائے ہوئے کپتان کے خلاف تادیبی کاروائی کا بھی مطالبہ کر دیا، پہلے سے زیر عتاب وہ کھلاڑی بورڈ کی نظروں میں مزید گر گیا اور قومی ٹیم میں دوبارہ واپس آنا اس کے لئے مشکل سے مشکل تر ہوگیا، آج کی موجودہ کرکٹ میں ہم بڑا کرکٹر پیدا کرنے کی بجائے کرکٹ بورڈ کے عہدیداروں، گورننگ بورڈ کے ارکان اور ریجنل عہدیداروں کو خوش کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
جب ہماری اپنی ہی نیتوں میں فتور ہوگا اور ہم ابھرتے ہوئے باصلاحیت کرکٹرز کو چانس دینے کی بجائے وہی پرانے چہروں پر بار بار انحصار کریں گے تو ہماری قومی ٹیم ویسٹ انڈیز جیسی کمزور ٹیم سے ٹیسٹ بھی ہارے گی، نیوزی لینڈ والے بھی ہمیں عبرت کا نشان بنائیں گے، کینگروز بھی ٹیسٹ میچوں میں ہمارے گلوں میں شکستوں کا طوق ڈالنے کے بعد ایک روزہ مقابلے میں بھی 92 رنز کے بڑے مارجن سے ہمیں زیر کریں گے۔