شکستوں نے مکی کو دکھی کر دیا
بہترین ٹیم وہ ہے جو اپنے ملک سے باہر جیتے، کوچ آرتھر۔
LONDON:
دورئہ آسٹریلیا تاحال پاکستانی ٹیم کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے، تینوں ٹیسٹ کے بعد اب پہلے ون ڈے میں بھی شکست سمجھ سے باہر ہے۔
میں برسبین اسٹیڈیم میں ہی تھا جب آسٹریلوی ٹیم 78 رنز پر 5 وکٹوں سے محروم ہو چکی تھی، اس وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ اب جلد باقی وکٹیں حاصل کرکے آسانی سے ہدف حاصل کر لیں گے مگر پھر روایتی انداز سے کھیل کر جیت کا سنہری موقع گنوا دیا،میچ ختم ہونے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوچ مکی آرتھر پریس کانفرنس کے لیے آئے۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ پاکستانی ٹیم یو اے ای میں بہت اچھا کھیل کر آئی لیکن نیوزی لینڈ اور اب آسٹریلیا آتے ہی ایک دم کیا ہو گیا کہ ناکامیوں کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا،آخر وجوہات کیا ہیں، کوچ کا چہرہ واضح طور پر بجھا ہوا تھا، شکستوں کے اثرات ان پر پڑنے لگے ہیں۔
آرتھر نے کہا کہ بہترین ٹیم وہ ہے جو اپنے ملک سے باہر جیتے، ہم نے یاسر شاہ ہر بہت انحصار کیا لیکن یہاں کی کنڈیشنز اس کے لیے سازگار نہیں تھی،یہ انٹرنیشنل کرکٹ میں عام رجحان ہے، ہر ٹیم اپنی کنڈیشنز میں زیادہ اچھا پرفارم کرتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ انگلینڈ کا بھارت، آسٹریلیا کا سری لنکا، سری لنکا کا جنوبی افریقہ میں برا ہی حال ہوا، ہم خود متحدہ عرب امارات میں کھیلتے رہے اور اب آسٹریلیا میں کھیل رہے ہیں۔
برصغیر کے مقابلے میں پلیئرز کیلیے یہاں عمدہ پرفارم کرنا مشکل ہوتا ہے، میری اس بات کو غلط نہ سمجھا جائے کیونکہ ٹیمیں ہمیشہ دل سے جیتنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر مجھے ڈر ہے کہ یہ خلا زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے، بہرحال ہمیں اچھا سے اچھا کھیلنا ہو گا تا کہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
کوچ کی باتیں سن کر میں واپس روانہ ہونے لگا، واضح طورپر شکستوں نے مکی کو بھی دکھی کر دیا ہے،اب ان پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، شائقین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بطور کوچ ان کی کیا کارکردگی ہے، ہر میچ کے بعد وہ نئی وضاحتوں کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں، ایسا کب تک چلے گا؟
پہلے ون ڈے کو ہی دیکھ لیں، اچھا خاصا سب چل رہا تھا اچانک میچ پر گرفت کھو دی، ایسا لگتا ہے کہ کھلاڑیوں کو بھی خود پر یقین نہیں رہا، انھیں نہیں لگتا کہ وہ آسٹریلیا کو ہرا سکتے ہیں، اسی لیے مواقع ضائع کر دیتے ہیں، برسبین کی پچ بیٹنگ کیلیے بہترین تھی، وہاں ہمیں آسانی سے ہدف حاصل کرنا چاہیے تھا مگر بیٹسمین روایتی دفاعی خول سے باہر نہ آ سکے۔
شرجیل خان کا یہ حال ہے کہ چند میچز بعد ایک اچھی اننگز کھیل کر پھر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، بھاری جسامت بھی ان کا بڑا مسئلہ ہے، جدید کرکٹ میں ایسے کھلاڑی کم ہی کامیاب رہ سکتے ہیں، انھیں اپنا وزن جلد کم کرنا ہو گا، محمد حفیظ کو زور لگا کر آسٹریلیا بلا تو لیا گیا مگر اب انھیں پرفارم کرنا ہو گا، بطور سینئر ویسے ہی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پہلے میچ میں حفیظ کی آف اسپن بولنگ کا جادونہ چل سکا، انھوں نے کیچ ڈراپ کیا اور بیٹنگ میں بھی پرفارم نہ کر سکے، اس سے ان کیلیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، اظہر علی کے فٹنس مسائل نے بھی ٹیم کیلیے مشکلات پیدا کیں، وہ پہلے ون ڈے میں انجرڈ ہو کر ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ گئے جس سے باقی بیٹسمینوں پر دباؤ بڑھا، بعض دیگر کھلاڑی بھی مکمل فٹ دکھائی نہ دیے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کی پہلے ہی نشاندہی ہو چکی۔
بعض رپورٹس کے مطابق ون ڈے اسپیشلسٹ کرکٹرز جب آسٹریلیا پہنچے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خوب ٹریننگ کرائی مگراتنی جلدی اس کا کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟ کھلاڑیوں کو خود سوچنا چاہیے انھیں کرکٹ کی وجہ سے کروڑوں روپوں کی آمدنی ہوتی ہے، غیر ملکی دورے و دیگر آسائشیں بھی اسی کی مرہون منت ہیں، ایسے میں آف سیزن میں بھی فٹنس برقرار رکھیں تاکہ وقت پڑنے پر مسئلہ نہ ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا۔
سابق کپتان رمیز راجہ نے بھی ابھی اسی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کھلاڑی قورمے، بریانی کھانے سے باز نہیں آتے اس لیے موٹاپے کی جانب مائل ہیں، بورڈ کو اس جانب توجہ دینا ہو گی، جو کھلاڑی فٹنس کا معیار برقرار نہ رکھے اس پر جرمانہ عائد کیا جائے شاید اس سے کوئی بہتری آ جائے۔
ان دنوں دنیا کے بیشتر حصے میں سردی مگر آسٹریلیا میں سخت گرمی ہے، مجھے تو پاکستان اور یو اے ای کے موسم کی عادت ہے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا لیکن مقامی لوگ خاصے تنگ نظر آتے ہیں،ویسے یہاں کرکٹ دیکھنے کا الگ ہی مزا ہے، آسٹریلوی کھیل سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے ہیں، چاہے ان کی ٹیم ہو یا پاکستانی سائیڈ اچھی کارکردگی پر سب کو دل کھول کر داد ملتی ہے، کھیلوں کی سہولتوں کے لحاظ سے بھی یہ ملک بہت آگے ہے، یہاں اسپورٹس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
برسبین کے گابا اسٹیڈیم میں ننھے ننھے بچے بھی کرکٹ کھیلتے دکھائی دیے، اسپورٹس کلچر کی وجہ سے ہی آج آسٹریلیا ہر کھیل میں نمایاں مقام رکھتا ہے، میں یہی سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسا وقت کب آئے گا، مگر پھر ذہن میں خیال آتا ہے کہ جہاں عوام کو بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر نہیں وہاں کھیلوں میں کیسے ایسا ہو سکتا ہے، البتہ جس دن ہم نے اسپورٹس کلچر اپنا لیا دیکھیں کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔
بدقسمتی سے اس وقت اسپورٹس میں ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں، کرکٹ ٹیم نہیں جیت رہی، فٹبال فیڈریشن تباہ ہو چکی، ہاکی والے بس سب سے سے پیسے ہی مانگتے رہتے ہیں، اسنوکر پلیئرز کو انعامی رقم کی فکر لگی رہتی ہے، ملک کیلیے سوچنا کم کر دیا گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ اب کوئی عالمی ٹائٹل ہمارے پاس موجود نہیں ہے، مثبت سوچ ہی ماضی کا دور واپس لا سکتی ہے۔
دورئہ آسٹریلیا تاحال پاکستانی ٹیم کیلئے ڈراؤنا خواب ثابت ہوا ہے، تینوں ٹیسٹ کے بعد اب پہلے ون ڈے میں بھی شکست سمجھ سے باہر ہے۔
میں برسبین اسٹیڈیم میں ہی تھا جب آسٹریلوی ٹیم 78 رنز پر 5 وکٹوں سے محروم ہو چکی تھی، اس وقت مجھے ایسا لگتا تھا کہ اب جلد باقی وکٹیں حاصل کرکے آسانی سے ہدف حاصل کر لیں گے مگر پھر روایتی انداز سے کھیل کر جیت کا سنہری موقع گنوا دیا،میچ ختم ہونے کے بعد پاکستان کی طرف سے کوچ مکی آرتھر پریس کانفرنس کے لیے آئے۔
میں نے ان سے سوال کیا کہ پاکستانی ٹیم یو اے ای میں بہت اچھا کھیل کر آئی لیکن نیوزی لینڈ اور اب آسٹریلیا آتے ہی ایک دم کیا ہو گیا کہ ناکامیوں کا سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آ رہا،آخر وجوہات کیا ہیں، کوچ کا چہرہ واضح طور پر بجھا ہوا تھا، شکستوں کے اثرات ان پر پڑنے لگے ہیں۔
آرتھر نے کہا کہ بہترین ٹیم وہ ہے جو اپنے ملک سے باہر جیتے، ہم نے یاسر شاہ ہر بہت انحصار کیا لیکن یہاں کی کنڈیشنز اس کے لیے سازگار نہیں تھی،یہ انٹرنیشنل کرکٹ میں عام رجحان ہے، ہر ٹیم اپنی کنڈیشنز میں زیادہ اچھا پرفارم کرتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ انگلینڈ کا بھارت، آسٹریلیا کا سری لنکا، سری لنکا کا جنوبی افریقہ میں برا ہی حال ہوا، ہم خود متحدہ عرب امارات میں کھیلتے رہے اور اب آسٹریلیا میں کھیل رہے ہیں۔
برصغیر کے مقابلے میں پلیئرز کیلیے یہاں عمدہ پرفارم کرنا مشکل ہوتا ہے، میری اس بات کو غلط نہ سمجھا جائے کیونکہ ٹیمیں ہمیشہ دل سے جیتنے کی کوشش کرتی ہیں، مگر مجھے ڈر ہے کہ یہ خلا زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے، بہرحال ہمیں اچھا سے اچھا کھیلنا ہو گا تا کہ جیت کو یقینی بنایا جا سکے۔
کوچ کی باتیں سن کر میں واپس روانہ ہونے لگا، واضح طورپر شکستوں نے مکی کو بھی دکھی کر دیا ہے،اب ان پر بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں، شائقین یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بطور کوچ ان کی کیا کارکردگی ہے، ہر میچ کے بعد وہ نئی وضاحتوں کے ساتھ سامنے آ جاتے ہیں، ایسا کب تک چلے گا؟
پہلے ون ڈے کو ہی دیکھ لیں، اچھا خاصا سب چل رہا تھا اچانک میچ پر گرفت کھو دی، ایسا لگتا ہے کہ کھلاڑیوں کو بھی خود پر یقین نہیں رہا، انھیں نہیں لگتا کہ وہ آسٹریلیا کو ہرا سکتے ہیں، اسی لیے مواقع ضائع کر دیتے ہیں، برسبین کی پچ بیٹنگ کیلیے بہترین تھی، وہاں ہمیں آسانی سے ہدف حاصل کرنا چاہیے تھا مگر بیٹسمین روایتی دفاعی خول سے باہر نہ آ سکے۔
شرجیل خان کا یہ حال ہے کہ چند میچز بعد ایک اچھی اننگز کھیل کر پھر ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں، بھاری جسامت بھی ان کا بڑا مسئلہ ہے، جدید کرکٹ میں ایسے کھلاڑی کم ہی کامیاب رہ سکتے ہیں، انھیں اپنا وزن جلد کم کرنا ہو گا، محمد حفیظ کو زور لگا کر آسٹریلیا بلا تو لیا گیا مگر اب انھیں پرفارم کرنا ہو گا، بطور سینئر ویسے ہی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، پہلے میچ میں حفیظ کی آف اسپن بولنگ کا جادونہ چل سکا، انھوں نے کیچ ڈراپ کیا اور بیٹنگ میں بھی پرفارم نہ کر سکے، اس سے ان کیلیے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، اظہر علی کے فٹنس مسائل نے بھی ٹیم کیلیے مشکلات پیدا کیں، وہ پہلے ون ڈے میں انجرڈ ہو کر ٹیم کو بیچ منجھدار میں چھوڑ گئے جس سے باقی بیٹسمینوں پر دباؤ بڑھا، بعض دیگر کھلاڑی بھی مکمل فٹ دکھائی نہ دیے، یہ وہ مسئلہ ہے جس کی پہلے ہی نشاندہی ہو چکی۔
بعض رپورٹس کے مطابق ون ڈے اسپیشلسٹ کرکٹرز جب آسٹریلیا پہنچے تو ٹیم مینجمنٹ نے انھیں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے خوب ٹریننگ کرائی مگراتنی جلدی اس کا کیسے فائدہ ہو سکتا ہے؟ کھلاڑیوں کو خود سوچنا چاہیے انھیں کرکٹ کی وجہ سے کروڑوں روپوں کی آمدنی ہوتی ہے، غیر ملکی دورے و دیگر آسائشیں بھی اسی کی مرہون منت ہیں، ایسے میں آف سیزن میں بھی فٹنس برقرار رکھیں تاکہ وقت پڑنے پر مسئلہ نہ ہو مگر افسوس ایسا نہیں ہوتا۔
سابق کپتان رمیز راجہ نے بھی ابھی اسی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ کھلاڑی قورمے، بریانی کھانے سے باز نہیں آتے اس لیے موٹاپے کی جانب مائل ہیں، بورڈ کو اس جانب توجہ دینا ہو گی، جو کھلاڑی فٹنس کا معیار برقرار نہ رکھے اس پر جرمانہ عائد کیا جائے شاید اس سے کوئی بہتری آ جائے۔
ان دنوں دنیا کے بیشتر حصے میں سردی مگر آسٹریلیا میں سخت گرمی ہے، مجھے تو پاکستان اور یو اے ای کے موسم کی عادت ہے اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہو رہا لیکن مقامی لوگ خاصے تنگ نظر آتے ہیں،ویسے یہاں کرکٹ دیکھنے کا الگ ہی مزا ہے، آسٹریلوی کھیل سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوتے ہیں، چاہے ان کی ٹیم ہو یا پاکستانی سائیڈ اچھی کارکردگی پر سب کو دل کھول کر داد ملتی ہے، کھیلوں کی سہولتوں کے لحاظ سے بھی یہ ملک بہت آگے ہے، یہاں اسپورٹس کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
برسبین کے گابا اسٹیڈیم میں ننھے ننھے بچے بھی کرکٹ کھیلتے دکھائی دیے، اسپورٹس کلچر کی وجہ سے ہی آج آسٹریلیا ہر کھیل میں نمایاں مقام رکھتا ہے، میں یہی سوچتا ہوں کہ ہمارے ملک میں ایسا وقت کب آئے گا، مگر پھر ذہن میں خیال آتا ہے کہ جہاں عوام کو بجلی اور پانی جیسی بنیادی سہولتیں آسانی سے میسر نہیں وہاں کھیلوں میں کیسے ایسا ہو سکتا ہے، البتہ جس دن ہم نے اسپورٹس کلچر اپنا لیا دیکھیں کہاں سے کہاں پہنچ جائیں گے۔
بدقسمتی سے اس وقت اسپورٹس میں ہم بہت پیچھے جا چکے ہیں، کرکٹ ٹیم نہیں جیت رہی، فٹبال فیڈریشن تباہ ہو چکی، ہاکی والے بس سب سے سے پیسے ہی مانگتے رہتے ہیں، اسنوکر پلیئرز کو انعامی رقم کی فکر لگی رہتی ہے، ملک کیلیے سوچنا کم کر دیا گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ اب کوئی عالمی ٹائٹل ہمارے پاس موجود نہیں ہے، مثبت سوچ ہی ماضی کا دور واپس لا سکتی ہے۔