سال 2012 میں ایف آئی اے کی کارکردگی مایوس کن رہی

انسانی اسمگلنگ، بینکنگ فراڈز اور سائبر کرائم جیسے جرائم سے وابستہ افراد اور گروہوں کیخلاف کریک ڈائون میں ناکام رہی.


Adil Jawad December 31, 2012
سپریم کورٹ کا ایف آئی اے پر عدم اعتماد کا اظہار،سربراہان اور اعلیٰ افسران کی کارکردگی پر عدالت عظمیٰ نے متعدد بارشدید تنقید کی۔ فوٹو: فائل

سال 2012 فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے)کی کارکردگی کے حوالے سے انتہائی مایوس کن رہا۔

رشوت ستانی، قیمتی زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی، انسانی اسمگلنگ، بینکنگ فراڈز اور سائبر کرائم جیسے منظم جرائم سے وابستہ افراد اور گروہوں کے خلاف موثر کریک ڈائون کرنے میں ناکام رہی، سپریم کورٹ نے ایف آئی اے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اربوں روپے کی کرپشن کے اہم مقدمات کی تحقیقات نیب کو منتقل کرنے کی ہدایات جاری کیں اور متعدد مرتبہ ایف آئی اے کے سربراہان اور اعلیٰ افسران کی کارکردگی پر شدید تنقید کی۔

تفصیلات کے مطابق انسداد رشوت ستانی، انسانی اسمگلنگ اور دیگر اہم جرائم کے خلاف بنائے گئے اہم ترین ملکی ادارہ ایف آئی اے سال 2012 کے دوران کارکردگی کے آئینے میں انتہائی مایوس کن رہا، موجودہ حکومت کے قیام کے بعد ایف آئی اے کو ایک مرتبہ انسداد رشوت ستانی کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے، نیب کے قیام کے بعد چھینے گئے اختیارات واپس ملنے کے بعد ایف آئی اے سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کیلیے ماضی کی طرح اہم قومی اداروں میں رشوت کے بڑھتے ہوئے ناسور کے خلاف موثر کارروائی کرے گی۔

سپریم کورٹ کی جانب سے اسٹیل مل، این آئی سی ایل اور حج کے موقع پر ہونے والی اربوں روپے کی بدعنوانیوں کے معاملات ایف آئی اے کے سپرد کیے گئے، تاہم ایف آئی اے کی جانب سے بااثر ملزمان کو مسلسل تحفظ فراہم کرنے اور ان کے نام درج کیے جانے والے مقدمات سے خارج کیے جانے کے سبب سال 2012 میں سپریم کورٹ نے ایف آئی اے پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیل مل میں ہونے والی کرپشن کے خلاف درج کیے جانے والے تمام 10 مقدمات کی تفتیش قومی احتساب بیورو کے سپرد کردی، ایف آئی اے کے موجودہ اور سابق افسران نے اس واقعے کو ایف آئی اے کے تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ قرار دیا، این آئی سی ایل کرپشن کیسز میں بھی ایف آئی اے کی کارکردگی پر سپریم کورٹ متعدد مرتبہ شدید تنقید کرچکی ہے تاہم ان مقدمات کی تفتیش میں بھی پیشرفت نہیں ہوسکی اور ایف آئی اے بااثر ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے انھیں بچانے میں سرگرم ہے۔

08

وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار کے خلاف کریک ڈائون اور ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کو کنٹرول کرنے کی ذمے داری ایف آئی اے کو سپرد کی تھی تاہم ایف آئی اے 4سالوں کے دوران اس میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی اور سال 2012 امریکی ڈالر کی قیمت تقریباً 100 روپے تک پہنچ چکی ہے اور حوالہ اور ہنڈی کے ذریعے قیمتی زرمبادلہ کی بیرون ملک منتقلی کا کام زوروشور سے جاری ہے، قومی اور نجی بینکوں میں ہونے والی اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کے خلاف بھی ایف آئی اے موثر کارروائی دکھانے میں ناکام رہی جبکہ اس سلسلے میں جاری تحقیقات اور مقدمات بھی سرد خانے کی نذر کردیے گئے ہیں جن کا فائدہ اٹھاکر ملزمان تاحال قانون کی گرفت سے دور ہیں۔

انسداد انسانی اسمگلنگ میں ایف آئی اے سندھ زون کی کارکردگی صرف انسانی اسمگلنگ کے متاثرہ افراد کے خلاف کارروائی تک محدود ہے، سال بھر کے دوران انسانی اسمگلنگ کے منظم کاروبار سے وابستہ افراد اور گروہوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا، سائبر کرائم کے قوانین معطل ہونے کی وجہ سے گذشتہ تین سال سے ایف آئی اے کے پاس اس شعبے میں کارکردگی کا مظاہرہ نہ کرنے کا جواز موجود ہے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے حکام مکمل طور پر بااثر افراد کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے اہم نوعیت کے مقدمات میں غیرجانبدار تحقیقات نہیں کرپاتے اور زیادہ تر افسران پرکشش تعیناتیاں حاصل کرنے کیلیے بااثر افراد کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کرنے کیلیے تیار رہتے ہیں۔

جبکہ اچھی شہرت کے حامل دیانتدار افسران کو عمومی طور پر اہم تعیناتیوں سے محروم رکھا جاتا ہے، ماضی کی سیاسی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی بڑی تعداد میں ایف آئی اے میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں کی ہیں اور سیاسی بنیادوں پر بھرتی ہونے والے افسران کسی بھی صورت اپنے سیاسی آقائوں کی خواہشات سے انحراف نہیں کرسکتے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں