باچا خان اور خان عبدالولی خان کے افکار

قیام پاکستان سے قبل اور پھر پاکستان بننے کے بعد وہ تیس سال تک مختلف جیلوں میں قید بھی رہے۔۔۔

میں نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب پشاور سمیت سارے صوبے میں ہر ہفتے کسی شہید کی برسی منائی جائے گی ،کسی سیاسی راہ نما کو یاد کیا جائے گا یا پھر کسی اہم شخصیت کا ذکر ہو گا۔گذشتہ ماہ دسمبر سے برسیوں کی تقریبات کا آغاز ہوا ہے اور ہر دن یا ہر ہفتے ہم کسی نا کسی کو یاد کر رہے ہیں۔ سولہ دسمبر کے اے پی ایس شہداء کی ابھی برسی منائی ہی تھی کہ شہید بشیر احمد بلور کی برسی منائی گئی، بے نظیر بھٹو کی شہادت پر انھیں یاد رکھا گیا،ہنگو کے کم عمر شہید اعتزازکی برسی تھی، اب جنوری میں خان عبدالغفار خان اور عبدالولی خان کی برسی منائی جائے گی چند روز بعد شہید ملک سعد خان، شہید آصف باغی،شہید خان رازق اور ان کے کئی ساتھیوں کا یوم شہادت آئے گا۔گویا یوں دکھائی دیتا ہے کہ اب ہم شہیدوں اور انتقال کر جانے والوں کو یادکیاکریں گے،اب خبر ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے راہ نماؤں باچا خان اور ولی خان کی برسی مشترکہ طور پر منانے کا فیصلہ کیا ہے۔

خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان ،پشاور سے تقریبا تیس کلو میٹر دور ضلع چارسدہ کے گاؤں اتمانزئی میں 1890 میں پیدا ہوئے۔1921 میں انھوں نے سماجی تحریک کا آغاز کیا۔اس تحریک کا مقصد انسانوں کی خدمت اور ان میں محبت، ایثار، ہمدردی اور رواداری کا جذبہ ابھارنا تھا ۔جدوجہد آزادی میں بھی خان عبدالغفار خان کا نمایاں کردار رہا اور اگر یہ کہا جائے کہ انھوں نے پختون قوم کو امن کی راہ دکھائی تو قطعی غلط نہ ہو گا۔بقول بیگم نسیم ولی خان کہ" بابا "کے افکار, ہزاروں فرمودات اور ان کے سیاسی عقیدے کے مطابق یا ان کے مذہبی عقیدے کو بھی اس میں شامل کر لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک مذہبی شخصیت بھی تھے ۔

انھوں نے اسلام کی تعلیمات کے عین مطابق امن کے فلسفے کو آگے بڑھایا اور اگر آج دنیا کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ لگانا بھی مشکل نہیں کہ انھیں ہم سے جدا ہوئے 29 برس ہو چکے ہیں لیکن باچا خان نے جو بات کئی دہائیاں قبل کہی تھی وہ آج حرف بہ حرف صحیح ثابت ہو رہی ہے۔خان عبدالغفار خان باچا خان کے نام سے مشہور تھے ۔سیاست میں بھی ان کا خاصا اہم کردار رہا ،کانگریس سے دوستی کے پیش نظر انھیں متنازعہ سیاست دان بھی قرار دیا گیا ۔قیام پاکستان سے قبل اور پھر پاکستان بننے کے بعد وہ تیس سال تک مختلف جیلوں میں قید بھی رہے لیکن ان کے پیرو کار یہ ٹھیک کہتے ہیں کہ باچا خان کو متنازعہ قرار دینے والے یا پھر انھیں پاکستان مخالف کہنے والوں کو ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ وہی خان عبدالغفار خان تھے جو1947 میں سماجی انصاف اور دھرتی کو امن کا گہوارہ بنانے کا عزم لیے قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے تو انھوں نے استحکام پاکستان کی بات کی۔ پاکستان کو مضبوط کرنے کا ذکر کیا اور ایسے قوانین بنانے کی بات کی۔


جس سے شہریوں کو امن اور سکون ملے۔باچا خان کے پیروکا ر سمجھتے ہیں کہ انھوں نے ملک میں پختون قوم کو اتفاق و اتحاد کا درس دیا اور اس وقت کے صوبہ سرحد کو حقوق دینے کی بات کی اور جب اٹھارہویں ترمیم منظور ہوئی اور نہ صرف صوبہ سرحد کا نام بدلا بلکہ خیبر پختون خوا سمیت تمام صوبوں کو ان کے حقوق دیے گئے تو اس وقت بھی باچا خان کی یہ باتیں بہت یاد آئیں۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا جا رہا لیکن کم از کم صوبے بڑی حد تک خود مختار ضرور ہو چکے ہیں اور انھیں اپنے وسائل کے بدلے بہت کچھ مل رہا ہے۔ایک بات خان عبدالغفار خان کی جو نظروں سے اوجھل رہی یا بوجوہ ان کے مخالفین نے اس کا تذکرہ نہیں کیا تاہم جس طرح بیگم نسیم ولی خان نے بھی کہا کہ باچا خان ایک مذہبی شخصیت بھی تھے ان کا ماننا تھا کہ جب پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے تو اب نئی نسل کو اسلام سے واقفیت بھی ہونی چاہیے تاکہ وہ اسلام کے بتائے گئے اصولوں کے مطابق اس ملک کو ترقی کا ہمسفر بنا سکیں اور دنیاوی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی ہونی چاہیے چنانچہ انھوں نے صوبے میں سو کے قریب دینی مدارس قائم کیے بھلے کوئی مانے یا نہ مانے باچا خان کو چاہنے اور ماننے والے آج بھی خان عبدالغفار خان کو جدوجہد آزادی کا ہیرو اور پختون قوم کے راہ نما کی حیثیت سے یاد رکھے ہوئے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر اور ایک مخلص کارکن میاں افتخار حسین نے بھی خوب کہاہے کہ ان کی مخالفت کرنے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ باچا خان نے قانون ساز اسمبلی کا رکن بننے کے بعد پاکستان میں اور اسی منتخب اسمبلی کے فلور پر قائد اعظم محمد علی جناح کو یقین دلایا کہ پاکستان ہمارا ملک ہے اس کی ترقی کے لیے جتنی کوشش کرنی پڑی ہم کریں گے ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے کہ پاکستان کو خطے کا مثالی ملک بنایا جائے۔عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان بھی باچا خان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو سوچ امن کی باچا خان نے دی ،جس طرح امن کی بات کی،استحصال سے پاک معاشرے کی تشکیل کا ذکر کیا۔بھائی چارے کی بات کی اس سے بہتر سیاست کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

خان عبدالولی خان نے بھی باچا خان کی طرز سیاست کو آگے بڑھایا انھوں نے بھی امن کی بات کی انھوں نے بھی حقوق کی بات کی اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کی بجائے خود پر توجہ دینے پر زور دیا۔ولی خان قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ،آئین پاکستان پر بھی ان کے دست خط ثبت ہیں۔انھوں نے سیاست میں ایک طویل اننگ کھیلی، سیکولر اور ترقی پسند سیاست دان ہونے کے ناطے انھیں بھی متنازعہ کہا گیا بقول مرحوم ارشاد احمد حقانی کہ" خان عبدالولی خان ایک قوم پرست سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ اور سیاست کے ایک سنجیدہ طالب علم بھی تھے۔ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا خاص طور پر اپنی پسند کے موضوعات پر انھوں نے ہندوستان کی جدوجہد آزادی اوراس میں مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناح کے کردار پر کئی سال تک ریسرچ کی ،البتہ عوامی نیشنل پارٹی نے اپنے بانی راہ نماؤں کے افکار کو کس طرح سے آگے بڑھایا اور کس طرح سے اس پارٹی کو باچا خان اور خان عبدالولی خان کی پارٹی کے طورچلایا اس پر طویل بحث ہو سکتی ہے لیکن وقت کا تقاضا ہے کہ جو ان مرحوم راہ نماؤں نے سوچا اسے فراموش نہیں کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story