عروسی ملبوسات جدت کی راہ پر
قدیم رواج بھی جدید صورت میں سامنے آرہے ہیں
یوں تو ہر لڑکی ہی سب سے الگ اور منفرد نظر آنا چاہتی ہے، لیکن جب موقع ہو اُس کی شادی کا تو یہ خواہش صرف لڑکی کی نہیں، بلکہ سب ہی کی ہوتی ہے۔ شادی کسی کی بھی زندگی کا یادگار ترین لمحہ ہوتا ہے۔
تقریب کو یادگار بنانے کے لیے عروسی لباس کا انتخا ب ایک بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جس کے لیے خریداری سے سلائی تک، سب ہی کاموں کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کی بُنت سے رنگوں کے امتزاج اور تراش خراش تک ہر چیز اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
ہماری ہاں لڑکی کے جہیز اور بری کے لیے ایک ایک جوڑے کا انتخاب کسی ماہرِ جوہری کی طرح کیا جاتا ہے۔ بالخصوص بارات اور ولیمے کے لیے لباس کا انتخاب سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے ڈیزائنرز بھی اس میدان میںاپنے قدم جمانے میں کام یاب ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کی بدولت خواتین کی اس مشکل کو آسان کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ خواتین اپنی پسند سے تیار کردہ ڈیزائن پہننا پسند کرتی ہیں، جب کہ کچھ خواتین تیار کردہ جوڑے کو فوقیت دیتی ہیں۔ ہر ڈیزائینر کا کام دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان فیشن شوز کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان میں نت نئے تجربات سے اچھے رجحاناتمتعارف کرائے جاتے ہیں۔
ملبوسات میں رنگوں اور ڈیزائینز کی قید نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی مرضی سے دلہن کا جوڑا کسی بھی رنگ اور تراش خراش کا بنا سکتی ہیں۔ جدید فیشن کے مطابق وزن میں ہلکا اور دیکھنے میں بھرا بھرا اور نفاست سے کیا ہوا کام کسی بھی اچھے جوڑے کی بنیادی خصوصیات سمجھی جاتی ہے۔ دلہن کے لباس میں گوٹا کناری اور ستاروں کا کام معدوم ہو گیا ہے، جب کہ اس کی جگہ دبکہ اور تلے کا کام خاصا عام ہے۔ ریشم دھاگے کاکام آج بھی اپنے اندر انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔
آج کے عروسی ملبوس ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکے ہیں۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج جو فیشن ہے، یقیناً کچھ وقت بعد اس میں بھی تبدیلیاں رونما ہوں گی، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض رواج واپس بھی آجاتے ہیں۔
آج سے چالیس سال پہلے لگے بندھے اور روایتی طرز کے سرخ عروسی ملبوسات ہی پہنے جاتے تھے اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔ اس کے بعد اس رواج میں تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگی۔ دبکہ، ریشم اور شیشے کا کام بڑھا، اس کے بعد دبکہ، ستارہ، وسلی (باریک تار کا کام) متضاد رنگ (کلر کنٹراس) اور مختلف قسم کی موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے۔ اسی زمانے میں نگینے کا کام بھی شروع ہوا۔
آج موتی، دھاگا، دبکہ، کٹ دانہ، ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے۔ آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں، ایک روایتی اور دوسرا گاؤن اور میکسی وغیرہ۔ روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن، جب کہ میکسی اور گاؤن ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے۔ آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی، دبکہ اور بڑے موتیوں، جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔ یہی کام آج کل دوبارہ سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔
جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے، تو پہلے وقتوں میں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیار ہوتا تھا ،اب تو بارات کے دن سرخ، فیروزی، ہلکا ہرا، گلابی، نیلا اور بھی دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں۔ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی قمیصوں کا فیشن چل رہا ہے۔ قمیصوں کے علاوہ بڑے گھیرے کے فراکس، کونوں والی قمیصیں اور اسکرٹس بھی لہنگوں کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔ شوخ و چنچل اور دو سے زائد رنگوں کے ساتھ ڈیزائیننگ بھی مقبول ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ قمیصوں پر جالی کے ٹکڑے بطور ڈیزائن بھی استعمال کیے جارہے ہیں، جو بے حد دل کش لگتا ہے۔ قمیصوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیصوں کے گھیرے، گلئے بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جاتی ہیں۔ مختلف رنگوں میں دست یاب یہ پٹیاں عروسی ملبوسات پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن یہ پٹیاں زیادہ تر وہ لوگ لگاتے ہیں، جن کا بجٹ کم ہوتا ہے۔
آج کل جالی کے دوپٹے، غرارے، چھوٹی اور لمبی قمیصیں حتی کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصا مقبول ہے۔ مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیصوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلا شبہ ایک نیا تجربہ ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاؤن اور اس پر خوب صورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔
رنگ کوئی بھی ہو، عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں، لیکن اس حوالے سے جب مختلف لوگوں کی رائے لی گئی، تو زیادہ تر خواتین کا یہی کہنا تھا کہ سرخ رنگ کا کوئی جواب نہیں۔ دلہن پر سرخ رنگ ہی سب سے زیادہ سجتا ہے۔ سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوب صورتی کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن لباس کی زمین لال رنگ کی ہی ہونی چاہیے، کیوں کہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے، تو اسے ایسے رنگوں کا انتخاب بھی ایسا کرنا چاہیے، جس کو دیکھ کر اسے خوشیوں کا احساس ہو۔
تقریب کو یادگار بنانے کے لیے عروسی لباس کا انتخا ب ایک بہت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ جس کے لیے خریداری سے سلائی تک، سب ہی کاموں کا خصوصی طور پر خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کی بُنت سے رنگوں کے امتزاج اور تراش خراش تک ہر چیز اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
ہماری ہاں لڑکی کے جہیز اور بری کے لیے ایک ایک جوڑے کا انتخاب کسی ماہرِ جوہری کی طرح کیا جاتا ہے۔ بالخصوص بارات اور ولیمے کے لیے لباس کا انتخاب سب سے اہم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے ڈیزائنرز بھی اس میدان میںاپنے قدم جمانے میں کام یاب ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی ماہرانہ صلاحیتوں کی بدولت خواتین کی اس مشکل کو آسان کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔کچھ خواتین اپنی پسند سے تیار کردہ ڈیزائن پہننا پسند کرتی ہیں، جب کہ کچھ خواتین تیار کردہ جوڑے کو فوقیت دیتی ہیں۔ ہر ڈیزائینر کا کام دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ ان فیشن شوز کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ ان میں نت نئے تجربات سے اچھے رجحاناتمتعارف کرائے جاتے ہیں۔
ملبوسات میں رنگوں اور ڈیزائینز کی قید نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ اپنی مرضی سے دلہن کا جوڑا کسی بھی رنگ اور تراش خراش کا بنا سکتی ہیں۔ جدید فیشن کے مطابق وزن میں ہلکا اور دیکھنے میں بھرا بھرا اور نفاست سے کیا ہوا کام کسی بھی اچھے جوڑے کی بنیادی خصوصیات سمجھی جاتی ہے۔ دلہن کے لباس میں گوٹا کناری اور ستاروں کا کام معدوم ہو گیا ہے، جب کہ اس کی جگہ دبکہ اور تلے کا کام خاصا عام ہے۔ ریشم دھاگے کاکام آج بھی اپنے اندر انفرادیت قائم رکھے ہوئے ہے۔
آج کے عروسی ملبوس ماضی کے مقابلے میں خاصی جدت اختیار کر چکے ہیں۔ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ آج جو فیشن ہے، یقیناً کچھ وقت بعد اس میں بھی تبدیلیاں رونما ہوں گی، لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض رواج واپس بھی آجاتے ہیں۔
آج سے چالیس سال پہلے لگے بندھے اور روایتی طرز کے سرخ عروسی ملبوسات ہی پہنے جاتے تھے اور اس پر نقشی گوٹے اور ستارے کا کام ہوتا تھا۔ اس کے بعد اس رواج میں تبدیلی آئی اور عروسی جوڑے پر مختلف رنگوں کی پٹیاں سجائی جانے لگی۔ دبکہ، ریشم اور شیشے کا کام بڑھا، اس کے بعد دبکہ، ستارہ، وسلی (باریک تار کا کام) متضاد رنگ (کلر کنٹراس) اور مختلف قسم کی موتیوں کی مدد سے جوڑے تیار کرنا شروع کیے گئے۔ اسی زمانے میں نگینے کا کام بھی شروع ہوا۔
آج موتی، دھاگا، دبکہ، کٹ دانہ، ستارا اور اسٹونز اور دیگر چیزوں کی مدد سے دلہن کا عروسی جوڑا تیار کیا جاتا ہے۔ آج کل دو طرح کے عروسی ملبوسات بہت مقبول ہیں، ایک روایتی اور دوسرا گاؤن اور میکسی وغیرہ۔ روایتی عروسی لباس عموماً بارات والے دن، جب کہ میکسی اور گاؤن ولیمے پہ زیب تن کیا جاتا ہے۔ آج سے تیس سال قبل دلہن کے لباس میں نقشی، دبکہ اور بڑے موتیوں، جب کہ دوپٹے کے چاروں اطراف بھرا ہوا کام کیا جاتا تھا۔ یہی کام آج کل دوبارہ سے عروسی جوڑے کی زینت بنا ہوا ہے۔
جہاں تک برائیڈل ویئر میں رنگوں کی بات ہے، تو پہلے وقتوں میں عروسی جوڑا صرف سرخ رنگ کا ہی تیار ہوتا تھا ،اب تو بارات کے دن سرخ، فیروزی، ہلکا ہرا، گلابی، نیلا اور بھی دوسرے رنگوں کے ملبوسات بنائے جاتے ہیں۔ لمبی اور چھوٹی دونوں طرح کی قمیصوں کا فیشن چل رہا ہے۔ قمیصوں کے علاوہ بڑے گھیرے کے فراکس، کونوں والی قمیصیں اور اسکرٹس بھی لہنگوں کے ساتھ پسند کی جاتی ہیں۔ شوخ و چنچل اور دو سے زائد رنگوں کے ساتھ ڈیزائیننگ بھی مقبول ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ قمیصوں پر جالی کے ٹکڑے بطور ڈیزائن بھی استعمال کیے جارہے ہیں، جو بے حد دل کش لگتا ہے۔ قمیصوں کے پینل بھی قدرے کم اور ساٹن سلک کی پٹیاں قمیصوں کے گھیرے، گلئے بازو اور دوپٹے کے کناروں پر لگائی جاتی ہیں۔ مختلف رنگوں میں دست یاب یہ پٹیاں عروسی ملبوسات پر لگانے کے بعد کسی قسم کے کام کی ضرورت نہیں پڑتی، لیکن یہ پٹیاں زیادہ تر وہ لوگ لگاتے ہیں، جن کا بجٹ کم ہوتا ہے۔
آج کل جالی کے دوپٹے، غرارے، چھوٹی اور لمبی قمیصیں حتی کہ مون لائٹ بھی فیشن میں خاصا مقبول ہے۔ مغربی عروسی جوڑا یعنی میکسی سے ملتی جلتی قمیصوں کا استعمال لہنگوں شراروں کے ساتھ بلا شبہ ایک نیا تجربہ ہے۔ لہنگے اور غراروں کے ساتھ لمبے گاؤن اور اس پر خوب صورت کام بھی خواتین میں بے حد پسند کیا جا رہا ہے۔
رنگ کوئی بھی ہو، عروسی جوڑے میں سب ہی رنگ اچھے لگتے ہیں، لیکن اس حوالے سے جب مختلف لوگوں کی رائے لی گئی، تو زیادہ تر خواتین کا یہی کہنا تھا کہ سرخ رنگ کا کوئی جواب نہیں۔ دلہن پر سرخ رنگ ہی سب سے زیادہ سجتا ہے۔ سرخ رنگ میں دوسرے رنگ ملا کر جوڑے کی خوب صورتی کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن لباس کی زمین لال رنگ کی ہی ہونی چاہیے، کیوں کہ لال رنگ خوشی کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب ایک لڑکی اپنی نئی زندگی شروع کرتی ہے، تو اسے ایسے رنگوں کا انتخاب بھی ایسا کرنا چاہیے، جس کو دیکھ کر اسے خوشیوں کا احساس ہو۔