پاناما کیس میں وزیراعظم کے وکیل کو جج صاحبان کے سخت سوالات کا سامنا
آپ کہتے ہیں وزیر اعظم نے جھوٹ نہیں بولا اور استثنی بھی مانگ رہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا وزیر اعظم کے وکیل سے استفسار
KARACHI:
پاناما کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے وزیر اعظم کے وکیل سے سخت سوالات کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ ایک جانب کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ نہیں بولا اور دوسری جانب دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے نااہلی سے متعلق دلائل دیئے، ان کا کہنا تھا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجا پرویزاشرف کے خلاف آبزرویشن دی لیکن نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا، تقریر،ٹیکس اور مریم کا زیر کفالت ہونا 3 مختلف معاملات ہیں،جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، آئین کی دفعہ 62 (1) ف اور 63 (1) کے اطلاق کا طریقہ کار مختلف ہے۔ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔
جسٹس شیخ عظمت شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کی دفعہ 184 (3) کے تحت عدالت تصدیق شدہ حقائق ہی سن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بھی ایک عدالت ہےاور کئی کیسز میں ڈکلیریشن دے چکی ہے، جن مقدمات کا حوالہ دیا جارہا ہے ان سے ثابت ہوتا ہےکہ کیس سنناعدالت کے اختیارات میں ہے۔ ایشو یہ نہیں ہے کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ 184 (3) کے تحت کیا وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ استثنی اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کی دفعہ 62 (1) کے حوالے سے کوئی طے شدہ طریقہ واضح نہیں، ممکن ہے کہ اس حوالے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔ وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں، عدالت میں ان کی تقریر پر ہی انحصار کیا جارہا ہے اور اس سے معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے تقریر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں، پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی،اب کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار رائے الگ ہے اور تقریر کو عدالتی کارروائی میں شامل کرنا الگ ہے،اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اسے کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے، آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پرعدالتی فیصلےموجود ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62بھی آئین کا ہی حصہ ہے، کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیر مین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ 2016 تک نواز شریف نے لندن کے فلیٹس کی ملکیت تسلیم نہیں کی جب کہ ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور ان کی تلاشی ہوگی لیکن پاناما نے ان کو بے نقاب کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے کہا جاتا تھا یوٹرن لیتا ہوں لیکن آج نواز شریف نے تاریخ کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا ہے، نوازشریف پارلیمنٹ میں کچھ اور باہر کچھ کہتے ہیں، انہوں نے اسمبلی میں کہا کہ احتساب کے لیے تیار ہیں اور وہ کوئی آئینی استثنا نہیں لیں گے، ہمارے پاس سارے دستاویزات ہیں لیکن آج کہہ رہے ہیں جھوٹ بولنے کا استثنیٰ حاصل ہے اور ہمارے پاس کوئی دستاویز نہیں۔
پاناما کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج صاحبان نے وزیر اعظم کے وکیل سے سخت سوالات کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ کہ ایک جانب کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں جھوٹ نہیں بولا اور دوسری جانب دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزاراحمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ پاناما کیس کی سماعت کررہا ہے۔
سماعت کے دوران وزیر اعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے نااہلی سے متعلق دلائل دیئے، ان کا کہنا تھا کہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجا پرویزاشرف کے خلاف آبزرویشن دی لیکن نا اہلی کا فیصلہ نہیں دیا، تقریر،ٹیکس اور مریم کا زیر کفالت ہونا 3 مختلف معاملات ہیں،جہاں ریکارڈ متنازع ہو وہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی، آئین کی دفعہ 62 (1) ف اور 63 (1) کے اطلاق کا طریقہ کار مختلف ہے۔ آرٹیکل 66 کے تحت اسمبلی کی کارروائی کو عدالت میں نہیں لایا جاسکتا۔
جسٹس شیخ عظمت شیخ نے ریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کی دفعہ 184 (3) کے تحت عدالت تصدیق شدہ حقائق ہی سن سکتی ہے۔ سپریم کورٹ بھی ایک عدالت ہےاور کئی کیسز میں ڈکلیریشن دے چکی ہے، جن مقدمات کا حوالہ دیا جارہا ہے ان سے ثابت ہوتا ہےکہ کیس سنناعدالت کے اختیارات میں ہے۔ ایشو یہ نہیں ہے کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ 184 (3) کے تحت کیا وزیر اعظم کو نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔ استثنی اور استحقاق میں کچھ تو فرق ہوتا ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آئین کی دفعہ 62 (1) کے حوالے سے کوئی طے شدہ طریقہ واضح نہیں، ممکن ہے کہ اس حوالے آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔ وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں، عدالت میں ان کی تقریر پر ہی انحصار کیا جارہا ہے اور اس سے معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کیونکہ انہوں نے تقریر اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کی تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے مخدوم علی خان کے دلائل پر ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولا دوسری طرف استثنی بھی مانگ رہے ہیں، پہلے آپ نے کہا کہ کوئی غلط بیانی نہیں کی،اب کہہ رہے ہیں کہ اگر غلط بیانی کی بھی ہے تو اس کو استثنی حاصل ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 66 آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار رائے الگ ہے اور تقریر کو عدالتی کارروائی میں شامل کرنا الگ ہے،اسمبلی میں تقریر کو استثنی حاصل ہے تو کیا اسے کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے۔
وزیر اعظم کے وکیل نے کہا کہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیا جا سکتا ہے، آئین کے مطابق جائزہ لینے کے معاملے پرعدالتی فیصلےموجود ہیں، جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62بھی آئین کا ہی حصہ ہے، کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پر آرٹیکل 62 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیر مین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ 2016 تک نواز شریف نے لندن کے فلیٹس کی ملکیت تسلیم نہیں کی جب کہ ان کے وہم وگمان میں نہیں تھا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں چلا جائے گا اور ان کی تلاشی ہوگی لیکن پاناما نے ان کو بے نقاب کردیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے لیے کہا جاتا تھا یوٹرن لیتا ہوں لیکن آج نواز شریف نے تاریخ کا سب سے بڑا یو ٹرن لیا ہے، نوازشریف پارلیمنٹ میں کچھ اور باہر کچھ کہتے ہیں، انہوں نے اسمبلی میں کہا کہ احتساب کے لیے تیار ہیں اور وہ کوئی آئینی استثنا نہیں لیں گے، ہمارے پاس سارے دستاویزات ہیں لیکن آج کہہ رہے ہیں جھوٹ بولنے کا استثنیٰ حاصل ہے اور ہمارے پاس کوئی دستاویز نہیں۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ پاناما کیس سے وزیراعظم نواز شریف کا کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود عمران خان ملک کے منتخب وزیراعظم سے ان کے والد کا 1937 کا حساب مانگ رہے ہیں جو عدالت میں جمع بھی کرایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران وہ ویڈیو گیم کھیل رہے تھے، میرے خیال میں تو عمران خان ساڑھے 3 سال سے ویڈیو گیم کھیل رہے ہیں اور پاناما کیس کے بعد 2018 تک وہ ویڈیو گیم ہی کھیلتے رہیں گے۔