وطن عزیز کی سیاست
انگلستان کے بعد اس صنعتی انقلاب نے یورپ اور پھر اس کے بعد امریکا کا رخ کیا
لاہور:
انگریزی کے شہرۂ آفاق شاعر اولیور گولڈ اسمتھ کی شاہکار نظم ''دی ڈزرٹیڈ ولیج'' کو اگر انگلستان کے صنعتی انقلاب کا نوحہ کہا جائے تو شاید مبالغہ نہ ہوگا۔ اس پرسوز اور دل گداز نظم کو پڑھ کر آنکھوں میں بے اختیار آنسو آجاتے ہیں اور یہ حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
اس صنعتی انقلاب نے انگلستان کے معاشرتی نظام کو تہہ و بالا اور تلپٹ کرکے رکھ دیا، پھر اس صنعتی انقلاب نے دنیا کے جن جن ممالک کا رخ کیا وہاں بھی کم و بیش اس قسم کے اثرات مرتب کیے۔ کم سے کم اخراجات کے ساتھ زیادہ سے زیادہ پیداوار کا حصول اس صنعتی نظام کا بنیادی مقصد قرار پایا اور یہیں سے بندۂ مزدور کے استحصال کی کہانی کا آغاز ہوا اور اس کے اوقات تلخ ہونا شروع ہوئے۔ زیادہ سے زیادہ کمائی کے جنون نے سرمایہ دار کو انسان سے وحشی درندہ اور بے چارے مزدور کو دن رات چلنے والی مشین کا کل پرزہ بنادیا۔ مزدور کی مظلومیت کی دکھ بھری داستان سے مجبور ہوکر شاعر مشرق کو یہ کہنا پڑ:
اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر
انگلستان کے بعد اس صنعتی انقلاب نے یورپ اور پھر اس کے بعد امریکا کا رخ کیا اور وہاں بھی اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر معاشی سرگرمیاں شروع ہوئیں اور کام کی جگہوں اور کارخانوں میں مزدوروں کے زخمی اور ہلاک ہونے کے واقعات رونما ہونا شروع ہوگئے۔ مزدور انسانوں کے درجے سے گرکر کارخانوں کا ایندھن بن گئے اور ظلم و استحصال کا یہ انسانیت سوز سلسلہ عرصہ دراز تک بلا روک ٹوک شب و روز یوں ہی جاری رہتا آیا کہ مارٹن لوتھر کنگ کی شکل میں ایک فرشتہ صفت انسان دوست نجات دہندہ انصاف کا علم بلند کیے ہوئے نمودار ہوا۔ اس کا دل ہمدردی کے جذبات سے لبریز تھا اور اس نے بے کس اور بے بس مزدوروں کو ظلم و ستم کی چکی سے نجات دلانے کا عزم صمیم کر رکھا تھا۔
اسے احساس تھا کہ اگر ان بکھرے ہوئے مزدوروں کو کسی طرح سے متحد کردیا جائے تو یہ ایک بہت بڑی قوت بن کر بے رحم سرمایہ دار سے ٹکر لے سکتے ہیں اور اپنے حقوق کو منوانے اور حاصل کرنے کی جنگ میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ چنانچہ اسی مرکزی خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے انتہائی جرأت و ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مزدوروں کو اکٹھا کرکے 4 مئی 1886 کو امریکا کے مشہور شہر شکاگو میں اپنی ولولہ انگیز اور پر جوش قیادت میں ایک تاریخی ریلی نکال کر نہ صرف مزدوروں کی قوت کا زبردست عملی مظاہرہ کیا بلکہ استحصال اور ظلم کے خلاف پرچم احتجاج بھی بلند کردیا۔ دنیا بھر میں یکم مئی کو تمام مزدور ہر سال اس کی یاد کو تازہ کرنے کے لیے عالمی دن مناتے ہیں اور دعوت اتحاد دیتے ہیں۔
اس دن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مزدوروں کی اہمیت اور توقیر کے حوالے سے بیداری کی ریک لہر دوڑا دی جس کے نتیجے میں مزدوروں کے حقوق کے تحفظ، کام کی جگہوں پر ان کی حفاظت اور فلاح و بہبود کے اقدامات کی شروعات ہوگئی۔ مزدوروں کے کام کے اوقات کا قانونی تعین بھی اسی کا نتیجہ اور ثمر ہے ورنہ اس سے پہلے مزدوروں کے کام پر آنے کا وقت تو مقرر تھا لیکن کام کے ختم ہوکر گھر واپس جانے کا کوئی وقت مقرر نہیں تھا۔ کام کے مقررہ اوقات سے تجاوز کرکے کام کرنے کے عوض اوور ٹائم کی صورت میں اضافی معاوضے کی ادائیگی کا نظام بھی اسی جد وجہد کا ثمر ہے۔
مزدوروں کی صدائے احتجاج صدا بہ صحرا ثابت نہیں ہوئی اور بالآخر ان کا لہو رنگ لایا جس کے نتیجے میں پہلی عالمگیر جنگ کے ختم ہونے کے بعد 1919 میں اقوام متحدہ کے زیر سایہ عالمی ادارۂ محنت، آئی ایل او کا قیام عمل میں آیا اور مزدوروں کی جانب سے ان کے مالکان یا آجران کی غفلت، بے رخی اور عدم توجہی کا رجحان ختم ہونا شروع ہوا۔ اس کے نتیجے میں آجر و اجیر کے حقوق و فرائض کا تعین بھی ہوا اور آجر کو فیکٹری یا کارخانے یا کم کی کسی بھی جگہ پر کام کے دوران مزدور کی حفاظت کا ذمے دار بھی ٹھہرایا گیا ورنہ تو اس سے قبل امریکا میں بھی مزدورکی سیفٹی بھی اسی قدر خطرے میں ہوا کرتی تھی جس قدر آج وطن عزیز پاکستان میں ہے۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کی ہی ہدایات کی پابندی کرتے ہوئے یورپ اور امریکا میں مزدوروں کی جان کی حفاظت اور صحت کے تحفظ کے لیے قانون سازی کے سلسلے کی شروعات ہوئی اور مزدوروں سے متعلق قوانین پر عمل در آمد کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اداروں کا قیام عمل میں آیا جنھوں نے نہ صرف مختلف معیادات مقرر کیے بلکہ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت سے قواعد و ضوابط بھی ترتیب دیے صرف یہی نہیں بلکہ ان قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک مربوط نظام بھی وضع کیا گیا اور اس کی مانیٹرنگ کا اہتمام بھی کیا گیا۔
امریکا اور یورپ میں ہمیں آج لیبر سیفٹی کا جو عمدہ نظام کام کرتا ہوا نظر آرہاہے وہ برسوں کی محنت کا نتیجہ ہے اور اس کاوش میں مزدوروں کا مقدس اور انمول لہو بھی شامل ہے۔ برسبیل تذکرہ صرف اس قدر عرض ہے کہ امریکا کی مشہور زمانہ بلند و بالا عمارت امپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی تعمیر میں ہلاک ہونے والے دو چار دس بیس نہیں بلکہ سیکڑوں مزدوروں کا خون بھی شامل ہے، ان محنت کشوں کی جان جوکھوں میں ڈال کر ان سے جن غیر انسانی حالات میں کام لیا گیا تھا اس کی لرزہ خیز تصویریں آج بھی انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگرچہ دنیا کے صنعتی ترقی یافتہ ممالک میں مزدوروں کو ابھی تک وہ تمام سہولتیں اور مراعات حاصل نہیں ہیں جس کے وہ انسانیت اور انصاف کے ناتے بجا طور پر حق دار ہیں، تاہم پھر بھی ان کے حالات کار ماضی کی بہ نسبت بہت غنیمت ہیں اور وہاں کم از کم Dignity of Labour یا مزدوروں کے احترام کا تصور موجود ہے۔
ہمیں سب سے زیادہ دکھ اور افسوس وطن عزیز کے حالات پر ہوتا ہے جو کہلاتا تو اسلامی جمہوریہ ہے لیکن نہ جہاں اسلامی شعائر اور اصولوں کی پاس دار ہے اور نہ جمہوری روایات کا کوئی احترام ہے۔ دنیا بھر میں کام کی جگہوں پر ہونے والے حادثات اور جانی نقصانات کے باقاعدہ اعداد و شمار اکٹھے کیے جاتے ہیں تاکہ آئندہ کے لیے اس قسم کے واقعات کا سدباب کیا جاسکے۔ مگر وطن عزیز میں ایسا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے محض اندازے کی بنیاد پر یہ کہاجاتا ہے کہ ہمارے ملک میں ہر سال کم از کم دس ہزار افراد کام کی جگہوں پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جب کہ کام کے دوران شدید طور پر اپنے اعضا سے محروم ہوجانے والے بدقسمت کارکنوں کی تعداد پچاس ہزار سے بھی متجاوز ہے۔
اندیشہ لاحق ہے کہ اگر وطن عزیز میں غفلت اور عدم توجہی کا یہی سلسلہ جاری رہا اور صنعتی سیفٹی کے مسائل کی جانب فوری اور بھرپور توجہ نہ دی گئی تو صنعتوں، ہوٹلوں، عمارتوں، کارخانوں، فیکٹریوں اور کام کی دیگر جگہوں پر حادثات کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں خوفناک حد تک اضافہ ہوجائے گا۔ بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ امریکا، یورپ اور چین، جاپان کی طرح ہمارے ملک میں ہیلتھ اینڈ سیفٹی کا کوئی جامع نظام رائج نہیں جس کی وجہ سے بلدیہ فیکٹری کراچی اور گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں پے در پے ہلاکتوں کی واقعات رونما ہورہے ہیں اور غریب بے بس مزدور لقمہ اجل بن رہے ہیں صل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر جمہوریت کے نام پر سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور وڈیروں کی حکمرانی ہے جب کہ نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں کی قیادت کی باگ ڈور بھی کھاتے پیتے پیٹ بھروں کے ہاتھوں میں ہی ہے جنھیں غریب عوام سے نہیں بلکہ کرسی اقتدار تک کسی نہ کسی طرح رسائی حاصل کرنے سے دلچسپی اور غرض ہے۔