لبرل اور اسلامسٹ بیانیے فرسودگی عیاں ہونے کو ہے
اسلامسٹ اور لبرل کی بحث کلیشے کی شکل اختیار کر گئی ہے
DI KHAN:
یہ سفر نہیں ، ایک سماجی سروے ہے، جو آپ کا نقطۂ نظر بدل دے گا۔
آپ کراچی سے لاہورجائیں۔کچھ روز ادھر ٹھہریں، پھر اسلام آبادکا رخ کریں۔وہاں سے پشاور کے لیے رخت سفر باندھیں۔اِس دوران شہر کے مرکزی علاقوں تک خود کو محدودنہ رکھیں۔ مضافات میں جائیں۔ زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد سے گھلیں ملیں۔ تاجر سے تانگے والے تک،کلرک سے کچرا چننے والے، دکان دار سے دودھ والے تک، سب سے تبادلۂ خیال کریں۔اُن نظریات کے بارے میں پوچھیں، جنھیں وہ زندگی اور سماج کا جوہر سمجھتے ہیں، جن پر اُن کی شخصیت کی عمارت کھڑی ہے۔۔۔آپ اکثریت کو یکساں افکارکا حامل پائیں گے۔
وہ اشیاء، خیالات اور واقعات کو خیر اور شرکی خانوں میں رکھ کر سمجھنے اورپرکھنے کے عادی ہوں گے۔ وہ معاشرے کے لیے نیکی کی افادیت ، بدی کے مضمرات بیان کریں گے۔ مصلحین سے محبت، مجرموں سے نفرت کا اظہار کریں گے۔انھیں بزرگوں نے اچھے کام کرنے اور برائی سے دور رہنے کی نصیحت کی ہوگی اور یہی نصیحت وہ اپنی نئی نسل کوکریں گے۔ وہ'عمل کا دارومدار نیتوں پر ہے، نیکی کر دریا میں ڈال، جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے' جیسی ضرب المثال اور کہاوتوں پر یقین رکھتے ہوں گے۔۔۔ چاہے اُن کا تعلق اسلام کے کسی فرقے سے ہو، وہ اللہ تعالیٰ کوکائنات کا خالق ٹھہرائیں گے۔ اُس کی حمد بیان کریں گے۔ ختم نبوت کے قائل ہوں گے۔ رسول کریمﷺ کو رحمت اللعالمین قرار دیں گے۔قرآن چوم کرکھولیں گے، اِسے ہدایت اور نورٹھہرائیںگے۔ وہ زندگی کو فانی، موت کو اٹل حقیقت سمجھتے ہوں گے۔ قیامت اور یوم حساب پر اُنھیں مکمل یقین ہوگا۔
اب آپ اُن کے طرز زندگی پر غورکیجیے۔ چاہے مضافات میں بسنے والے ہوں یا شہرکے پوش علاقوں کے رہایشی، چاہے تعلق پہاڑی علاقوں سے ہو یا میدانی بستیوں سے، آپ انھیں اُن روایتی کھانوںاور مسالوںکا دل داد پائیں گے، جو ان کے اجداد کومرغوب تھے، مگر وہ نئے ذایقوں کے تجربے سے بھی نہیں گھبرائیں گے۔ لباس کا معاملہ بھی کم وبیش یہی۔ شہری اور دیہی طرز معاشرت کا فرق اور جغرافیائی اثرات لباس کے چناؤ پر اثرانداز ضرور ہوں گے، مگر یہ ثقافتی تنوع کہیں تفریق کا رنگ اختیار نہیں کرے گا۔ آپ انھیں بہ وقت ضرورت، بڑی سہولت سے تہبند کرتے سے شلوار قمیص، شلوار قمیص سے کوٹ پینٹ تک کا سفر کرتے دیکھیں گے۔۔۔اورآپ انھیں یکساں مسائل سے جوجھتا پائیں گے۔
وہ سب صحت کی سہولیات کے فقدان کا شکوہ کریں ہے۔ انھیں اسکولوں اور جامعات کی کمی کا دُکھ ہوگا۔وہ دہشت گردی اور عدم تحفظ کو ملک کا بنیادی مسئلہ ٹھہرائیں گے۔ بے روزگاری سے جڑی کرب ناک کہانیاں سنائیں گے۔ بیوروکریسی اور سیاست دانوں پر لعن طعن کرتے ہوئے کرپشن کے بداثرات بیان کریں گے۔ یہی کہیں گے کہ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں، مگر لیڈروں کو ملک کی بھلائی مقصود نہیں۔۔۔ سائنسی تحقیق اور ایجادات سے متعلق بھی آپ ان کے ردعمل کویکساں پائیں گے۔ پہلے پہل یہ شک کا اظہارکریں گے، جدید ٹیکنالوجی سے متنفر دکھائی دیں گے، مگر دھیرے دھیرے اِسے قبول کرلیں گے، جیسے چاندکے سفر، ٹی وی، کمپیوٹر، موبائل فون اور انٹرنیٹ کو قبول کرلیا گیا۔۔۔یہ سماجی سروے آپ کا نقطۂ نظر ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔
آپ پر انکشاف ہوگا کہ کراچی سے خبیر تک ، مختلف ثقافتوں سے تعلق کے باوجود، مختلف زبانیں بولنے والے پاکستان کے شہری ایک سی سوچ کے حامل ہیں۔اللہ، رسول اور قرآن کے ماننے والے۔ خیرکے حامی، شر سے متنفر۔ روایتی کھانوں، ملبوسات اور موسموں کے دلدادہ۔ ناخواندگی، بنیادی سہولیات سے محرومی، عدم تحفظ، بے روزگاری اورکرپشن جیسے یکساں مسائل سے دوچار۔ محب وطن، مخلص اور محنتی۔
اب حقیقت کی دنیا کو چھوڑ کرکچھ دیر کے لیے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ ذرا فیس بک، ٹوئٹر اورنیوز ویب سائٹس کا جائزہ لیجیے۔ آپ پر حیران کن انکشاف ہوگا کہ پاکستان منقسم ہے۔ دوگروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ایک گروہ لبرل ہے، دوسرا اسلامسٹ۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان سے مخلص اور سماجی ترقی کے خواہاں ہیں۔دونوں کے سرکردہ افراد میں رائے عامہ کے نمایندے(کالم نگار، اینکرپرسن اور بلاگرز) شامل۔ دونوں کا نعرہ دلیل۔ دونوںخود کو مکالمے کا علم بردار ٹھہراتے ہیں، مگر اُن کے دعویٰ کے برعکس حالات میں بہتری کے بجائے مسلسل بگاڑ آرہا ہے۔
خلیج ہے کہ بڑھتی جاتی ہے۔سچ تو یہ ہے کہ لبرل اور اسلامسٹ کی فکری تقسیم ابتدا ہی میں مکالمے کا دائرہ عبورکرکے پھبتیوں، الزام تراشی، بلکہ دشنام طرازی تک پہنچ گئی تھی۔ اب تو معاملہ فتوے بازی تک آگیا ہے۔سبب واضح ہے ۔ وہ مباحث جو علمیت، سنجیدگی، کشادگی اور تحقیق کے متقاضی ، بنا سوچے سمجھے سوشل میڈیا نامی چوراہے پر چھیڑ دیے گئے، وہ مذاکرے، جس کے لیے سوچ بچارکی عادت اور فکری تربیت درکار، فیس بک کی شاہراہ پرزور شور سے ہونے لگے۔ اور یوں ایک سے طرز حیات کا حامل، یکساں مسائل سے جوجھتا، ایک جیسے نظریات رکھنے والا متوسط طبقہ دو گروہوں میں بٹ گیا۔ ایدھی صاحب کا انتقال ہو، امجد صابری کا قتل، ممتاز قادری کی پھانسی یا بلاگزر کی گم شدگی۔۔۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ تقسیم واضح ہوتی گی۔
نئے ہزاریے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے وسیلے 80 اور 90 کی دہائیوں کا جمود ٹوٹا۔ مڈل کلاس کو، جو ترقی کے عمل میں کلید، اظہار کی نئی راہیں میسر آئیں۔اس نے واقعے کو ایشو بنانے کی قوت حاصل کی، مرکزی دھارے سے جڑ گیا، مگر اس سے قبل کہ وہ ملک کی ترقی و تبدیلی میں کوئی حقیقی کردار ادا کرتا، تقسیم کرو اور حکومت کرو کا کارگر نسخہ برتتے ہوئے اُسے لبرل اور اسلامسٹ میں تقسیم کر دیا گیا۔ جب رائے عامہ کے نمایندے قلم کا ہتھیار لیے سوشل میڈیا کے میدان میں کودے،تو یہ تقسیم کسی معتدی مرض کی طرح پھیلنے لگی۔ اس کے وسیلے ہمارے رائے عامہ کے نمایندوں کی شہرت کو چار چاند لگ گئے، انھیں پیروکار میسر آئے، مگر پڑھا لکھا مڈل کلاس، جسے ناخواندگی،بے روزگاری، عدم تحفظ، بنیادی سہولیات کے فقدان اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھائی چاہیے تھی، سماج کی بہتری میں کردار ادا کرنا چاہے تھا، ایک دوسرے سامنے ہتھیار بند ہو کر کھڑے ہوا اور اپنی اہمیت کھو بیٹھا۔
مگر جمود ہمیشہ نہیں رہتا۔ سطح پر جمی برف کے نیچے تبدیلی کا پانی بہ رہا ہے۔ اسلامسٹ اور لبرل کی بحث کلیشے کی شکل اختیار کر گئی ہے۔اس کا نقطۂ عروج ہی اِس کا زوال ثابت ہوگا۔اس کے گدی نشیں آج نہیں تو کل اپنے پیرکاروں سے محروم ہوجائیں گے۔ فرسودگی عیاں ہونے لگی ہے، ایک نئے سماجی بیانیے کی اہمیت ابھررہی ہے۔ ایک ایسا سماجی بیانیہ، جس کا براہ راست تعلق پاکستان کے اُس اکثریت سے ہوگا، جو مختلف ثقافتی ،لسانی اور جغرافیائی پس منظر کے باوجود یکساں مسائل سے دوچار ہے۔