دہشت گرد کون
ریاست کے وجود میں آنے سے طبقات پیدا ہوئے اور پھر طبقاتی استحصال تاحال جاری و ساری ہے
ریاست کے وجود میں آنے سے طبقات پیدا ہوئے اور پھر طبقاتی استحصال تاحال جاری و ساری ہے۔ قدرتی وسائل یعنی جنگلات، آبی وسائل، مویشی، معدنیات، صنعت اور زمین پر قبضہ کرکے دوسروں کی محنت پر پلنا اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنا ہی استحصال کے مقاصد ہیں۔ دور قدیم میں جو کام آقا، قبائلی سردار، بادشاہ اور جاگیردار کرتے تھے، آج سرمایہ دار کرتا ہے۔ سرمایہ داروں نے اپنی حکومت، پارٹیاں، فوج، نوکرشاہی، اسمبلیاں، عدالتیں اور میڈیا تشکیل دے رکھے ہیں۔ مردو زن سب اس دولت کی دیوی کے سامنے سر بسجود ہیں۔ یوں کہنا غلط نہ ہوگا کہ ''میرے آقا حکم کریں''۔
دور جدید کے عالمی سامراج ابتدا میں اسپین، پرتگال، نیدرلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کی شکل میں ساری دنیا کے وسائل پر قابض تھے، بعد میں سب کو شکست دے کر برطانوی سامراج، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب عالمی سامراج امریکا ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جس نے جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن کی قیادت میں غلامانہ نظام کا خاتمہ کیا اور برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی۔ اب وہی امریکا عالمی سامراج کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یورپ سے لے کر جنوبی کوریا تک اور افریقہ سے لے کر کولمبیا تک اور اسرائیل سے لے کر بحرین تک اپنی لاکھوں فوجیوں کو ان ملکوں میں تعینات کر رکھا ہے۔ ترکی اور جاپان میں تو آئے روز ان فوجی اڈوں کے خلاف عوام احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
امریکا کی اس وقت سب سے زیادہ فوج اسرائیل، سعودی عرب، کویت، بحرین، اردن، امارات، مصر، ترکی اور اومان وغیرہ میں ہے۔ سمندروں میں 68 امریکی بحری بیڑے لنگر انداز ہیں۔ اس عالمی سامراجی لوٹ، فوجی اڈوں اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو قوتیں نبرد آزما ہیں، ان کے خلاف یہ ساری رکاوٹیں، جبر و ظلم کا انتظام رکھا گیا ہے۔ 23 سال تک امریکا، ویت نام پر بم برساتا رہا۔ تین سال تک کوریا پر بم برسائے، کمبوڈیا اور لاؤس پر پندرہ سال تک بمباری کی۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج دہائیوں تک جنوبی افریقہ، موزمبیق، نمیبیا، انگولا اور الجزائر کے عوام کا قتل عام کرتے رہے۔ کیا یہ اقدامات دہشت گردی نہیں ہیں؟ اس وقت بھی عالمی سامراج دنیا بھر میں اپنی افواج بھیج کر، فوجی اڈے قائم کرکے عوام کا قتل عام کررہا ہے۔
عراق، شام، افغانستان، لیبیا، مصر، صومالیہ، سوڈان اور کولمبیا میں تقریباً پچاس لاکھ سے زائد عوام کا قتل کرچکا ہے اور کررہا ہے۔ یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ افغانستان میں اگر طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا تو کرنے دیتے، جب عوام بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آجاتے تو خود طالبان کا تختہ پلٹ دیتے۔ اسی طالبان کو افغانستان میں سامراج مخالف نور محمد ترکئی اور ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا جب ڈالر جہاد کے طور پہ استعمال کرتا رہا تو وہ مجاہد کہلاتے تھے اور اب دہشت گرد ہیں۔ اس وقت پاکستان اور ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین دربدر پھر رہے ہیں۔ عراق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ صدام حسین پر الزام تھا کہ اس نے مہلک ہتھیار جمع کر رکھے ہیں۔
کیا امریکا کے پاس اس وقت جو سات ہزار ایک سو ایٹمی وار ہیڈ ہیں، یہ مہلک نہیں؟ بعد ازاں اوباما کا کہنا تھا کہ ہمیں خفیہ اداروں نے غلط اطلاع دی تھی۔ غلط اطلاع دی بھی تھی تو امریکا کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ لاکھوں عراقیوں کو قتل کرے اور صدام حسین کو شہید کرے۔ یہی صورتحال لیبیا کی ہے۔ امریکا نے لیبیا کے خلاف سازش کے ذریعے وہاں کے نظام اور عوامی یکجہتی کو تہس نہس کیا اور کرنل قذافی کو شہید کیا۔ آج لیبیا میں لوگ برادری اور قبائلوں میں تقسیم ہوکر خانہ جنگی کے شکار ہیں۔ شام میں بھی یہی صورتحال بنی ہے۔ شام میں جب عوامی تحریک چلی تو اسے امریکی سامراج نے خانہ جنگی میں تبدیل کردیا اور سامراجی پٹھو نام نہاد حزب اختلاف بنا کر اسے اسلحہ اور کمک دے کر قتل گاہ بنا دیا کہ آج دو کروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ مہاجر بن چکے ہیں اور دربدر ہوگئے ہیں۔
یمن کسی زمانے میں خوش باش ملک کہلاتا تھا۔ اس لیے کہ وہاں لہبان اور صندل کے درختوں کی بھرمار تھی، ساحل سمندر سے ماہی گیری ہوتی تھی، کاشت کاری ہوتی تھی اور وہاں کے عوام خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ آج اسے بھی سامراجیوں نے اپنے آلہ کار اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلسل بمباری کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ سوڈان میں عیسائی اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا گیا، پھر جنوبی سوڈان (عیسائی اکثریتی آبادی) کو الگ کیا گیا اور وہاں عیسائیوں کے دو دھڑے آپس میں ہی جنگ و جدل میں نبرد آزما ہیں۔ وہاں کے معاشی اور سماجی حالات عراق، شام اور افغانستان سے بھی برے ہیں۔ جنوبی سوڈان کو غذائی اجناس یوگنڈا اور ایتھوپیا سے آتے ہیں مگر اب امریکا کو عیسائی یاد نہیں آتے۔
اسی طرح ڈاکٹر سوئیکارنو کے انڈونیشیا میں لاکھوں انڈونیشین کمیونسٹوں کو امریکی سی آئی اے نے جنرل سوہارتو اور ایک مذہبی جماعت کی مدد سے 1962 میں قتل عام کیا تھا، جس میں عیسائی اکثریتی جزیرہ تیمور بھی شامل تھا۔ تقریباً تیس سال بعد اسی تیمور کو انڈونیشیا سے علیحدہ کیا گیا۔ اب جب وہاں بھوک، افلاس اور غربت عروج پر ہے تو کوئی پوچھ نہیں رہا ہے۔ صومالیہ کی ترقی پسند حکومت کے خلاف مذہبی انتہاپسندوں کو امریکا نے اکسا کر مسند اقتدار پر بیٹھایا اور اب اسی کے خلاف ہے۔ جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں بائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی تھی، جہاں اب امریکی حمایت یافتہ فوجی آمر اقتدار پر قابض ہے، جس نے ایک عرصے سے امریکی مدد سے کولمبین عوام کا قتل کیا۔ حال ہی میں کولمبین حکومت اور فارک کمیونسٹ باغیوں کے مابین امن سمجھوتہ ہوا ہے۔
ان تمام حالات اور واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی سامراج اور اس کی سی آئی اے دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کا قتل کرچکی ہے اور یہی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ اگر آج امریکا دنیا بھر سے اپنے فوجی اڈے ختم کرلے اور اپنی افواج کو اپنے ملک واپس بلا لے تو دنیا سے جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کا بڑی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ امریکی سامراج ہی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے، جہاں جائیداد، ملکیت، سرمایہ داری، جاگیرداری، اسمبلیاں، افواج، میڈیا، ادارے، خاندان اور غلامی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ دنیا کی ساری دولت اور وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔
دور جدید کے عالمی سامراج ابتدا میں اسپین، پرتگال، نیدرلینڈ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان کی شکل میں ساری دنیا کے وسائل پر قابض تھے، بعد میں سب کو شکست دے کر برطانوی سامراج، جس کی سلطنت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اور اب عالمی سامراج امریکا ہے۔ یہ وہی امریکا ہے جس نے جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن کی قیادت میں غلامانہ نظام کا خاتمہ کیا اور برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کی۔ اب وہی امریکا عالمی سامراج کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ یورپ سے لے کر جنوبی کوریا تک اور افریقہ سے لے کر کولمبیا تک اور اسرائیل سے لے کر بحرین تک اپنی لاکھوں فوجیوں کو ان ملکوں میں تعینات کر رکھا ہے۔ ترکی اور جاپان میں تو آئے روز ان فوجی اڈوں کے خلاف عوام احتجاج کرتے رہتے ہیں۔
امریکا کی اس وقت سب سے زیادہ فوج اسرائیل، سعودی عرب، کویت، بحرین، اردن، امارات، مصر، ترکی اور اومان وغیرہ میں ہے۔ سمندروں میں 68 امریکی بحری بیڑے لنگر انداز ہیں۔ اس عالمی سامراجی لوٹ، فوجی اڈوں اور عالمی سرمایہ داری کے خلاف جو قوتیں نبرد آزما ہیں، ان کے خلاف یہ ساری رکاوٹیں، جبر و ظلم کا انتظام رکھا گیا ہے۔ 23 سال تک امریکا، ویت نام پر بم برساتا رہا۔ تین سال تک کوریا پر بم برسائے، کمبوڈیا اور لاؤس پر پندرہ سال تک بمباری کی۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج دہائیوں تک جنوبی افریقہ، موزمبیق، نمیبیا، انگولا اور الجزائر کے عوام کا قتل عام کرتے رہے۔ کیا یہ اقدامات دہشت گردی نہیں ہیں؟ اس وقت بھی عالمی سامراج دنیا بھر میں اپنی افواج بھیج کر، فوجی اڈے قائم کرکے عوام کا قتل عام کررہا ہے۔
عراق، شام، افغانستان، لیبیا، مصر، صومالیہ، سوڈان اور کولمبیا میں تقریباً پچاس لاکھ سے زائد عوام کا قتل کرچکا ہے اور کررہا ہے۔ یہ کھلی دہشت گردی ہے۔ افغانستان میں اگر طالبان نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا تو کرنے دیتے، جب عوام بھوک، افلاس، مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آجاتے تو خود طالبان کا تختہ پلٹ دیتے۔ اسی طالبان کو افغانستان میں سامراج مخالف نور محمد ترکئی اور ڈاکٹر نجیب اﷲ کی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا جب ڈالر جہاد کے طور پہ استعمال کرتا رہا تو وہ مجاہد کہلاتے تھے اور اب دہشت گرد ہیں۔ اس وقت پاکستان اور ایران میں لاکھوں افغان مہاجرین دربدر پھر رہے ہیں۔ عراق میں بھی ایسا ہی ہوا۔ صدام حسین پر الزام تھا کہ اس نے مہلک ہتھیار جمع کر رکھے ہیں۔
کیا امریکا کے پاس اس وقت جو سات ہزار ایک سو ایٹمی وار ہیڈ ہیں، یہ مہلک نہیں؟ بعد ازاں اوباما کا کہنا تھا کہ ہمیں خفیہ اداروں نے غلط اطلاع دی تھی۔ غلط اطلاع دی بھی تھی تو امریکا کو کس نے یہ حق دیا کہ وہ لاکھوں عراقیوں کو قتل کرے اور صدام حسین کو شہید کرے۔ یہی صورتحال لیبیا کی ہے۔ امریکا نے لیبیا کے خلاف سازش کے ذریعے وہاں کے نظام اور عوامی یکجہتی کو تہس نہس کیا اور کرنل قذافی کو شہید کیا۔ آج لیبیا میں لوگ برادری اور قبائلوں میں تقسیم ہوکر خانہ جنگی کے شکار ہیں۔ شام میں بھی یہی صورتحال بنی ہے۔ شام میں جب عوامی تحریک چلی تو اسے امریکی سامراج نے خانہ جنگی میں تبدیل کردیا اور سامراجی پٹھو نام نہاد حزب اختلاف بنا کر اسے اسلحہ اور کمک دے کر قتل گاہ بنا دیا کہ آج دو کروڑ کی آبادی میں سے ایک کروڑ مہاجر بن چکے ہیں اور دربدر ہوگئے ہیں۔
یمن کسی زمانے میں خوش باش ملک کہلاتا تھا۔ اس لیے کہ وہاں لہبان اور صندل کے درختوں کی بھرمار تھی، ساحل سمندر سے ماہی گیری ہوتی تھی، کاشت کاری ہوتی تھی اور وہاں کے عوام خوشحال زندگی گزارتے تھے۔ آج اسے بھی سامراجیوں نے اپنے آلہ کار اتحادیوں کے ساتھ مل کر مسلسل بمباری کرکے کھنڈرات میں تبدیل کردیا ہے۔ سوڈان میں عیسائی اور مسلمانوں کو آپس میں لڑوایا گیا، پھر جنوبی سوڈان (عیسائی اکثریتی آبادی) کو الگ کیا گیا اور وہاں عیسائیوں کے دو دھڑے آپس میں ہی جنگ و جدل میں نبرد آزما ہیں۔ وہاں کے معاشی اور سماجی حالات عراق، شام اور افغانستان سے بھی برے ہیں۔ جنوبی سوڈان کو غذائی اجناس یوگنڈا اور ایتھوپیا سے آتے ہیں مگر اب امریکا کو عیسائی یاد نہیں آتے۔
اسی طرح ڈاکٹر سوئیکارنو کے انڈونیشیا میں لاکھوں انڈونیشین کمیونسٹوں کو امریکی سی آئی اے نے جنرل سوہارتو اور ایک مذہبی جماعت کی مدد سے 1962 میں قتل عام کیا تھا، جس میں عیسائی اکثریتی جزیرہ تیمور بھی شامل تھا۔ تقریباً تیس سال بعد اسی تیمور کو انڈونیشیا سے علیحدہ کیا گیا۔ اب جب وہاں بھوک، افلاس اور غربت عروج پر ہے تو کوئی پوچھ نہیں رہا ہے۔ صومالیہ کی ترقی پسند حکومت کے خلاف مذہبی انتہاپسندوں کو امریکا نے اکسا کر مسند اقتدار پر بیٹھایا اور اب اسی کے خلاف ہے۔ جنوبی امریکی ملک کولمبیا میں بائیں بازو کی حکومت قائم ہوئی تھی، جہاں اب امریکی حمایت یافتہ فوجی آمر اقتدار پر قابض ہے، جس نے ایک عرصے سے امریکی مدد سے کولمبین عوام کا قتل کیا۔ حال ہی میں کولمبین حکومت اور فارک کمیونسٹ باغیوں کے مابین امن سمجھوتہ ہوا ہے۔
ان تمام حالات اور واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امریکی سامراج اور اس کی سی آئی اے دنیا بھر میں کروڑوں انسانوں کا قتل کرچکی ہے اور یہی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ اگر آج امریکا دنیا بھر سے اپنے فوجی اڈے ختم کرلے اور اپنی افواج کو اپنے ملک واپس بلا لے تو دنیا سے جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کا بڑی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ امریکی سامراج ہی سب سے بڑا دہشت گرد ہے۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے، جہاں جائیداد، ملکیت، سرمایہ داری، جاگیرداری، اسمبلیاں، افواج، میڈیا، ادارے، خاندان اور غلامی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ہر ایک سب کا اور سب ہر ایک کا ہوگا۔ دنیا کی ساری دولت اور وسائل کے مالک سارے لوگ ہوں گے۔ کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔ ایک آسمان تلے ایک ہی خاندان ہوگا، کوئی طبقہ ہوگا اور نہ کوئی ریاست۔