کمشنری نظام کی مکمل بحالی

سندھ، بلوچستان اور کے پی کے، کے بعد آخر پنجاب حکومت نے بھی کمشنری نظام بحال کردیا ہے

DI KHAN:
سندھ، بلوچستان اور کے پی کے، کے بعد آخر پنجاب حکومت نے بھی کمشنری نظام بحال کردیا ہے اور پنجاب کے تمام ڈی سی اوز کو ڈپٹی کمشنر مقرر کردیا ہے جس کے بعد چاروں صوبوں میں خود کو جمہوری کہلانے والی عوامی حکومتوں نے انگریز دور کا غلامانہ کمشنری نظام دوبارہ مسلط کردیا ہے جو 2001 میں آمر کہلانے والے ملک کے چوتھے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے ضلعی حکومتوں کے قیام سے ختم کردیا تھا اور ملک کو پہلی بار انگریزوں کے غلامانہ دور کی یادگار سے نجات دلادی تھی اور ملک تقریباً نو سال تک کمشنری نظام کے عذاب سے محفوظ رہا اور ضلعی سطح تک قائم ضلعی حکومتیں کسی ڈپٹی کمشنر کے بجائے ضلعی ناظمین کے ماتحت عوام کی خدمت کرتی رہیں اور ان ضلعی حکومتوں کے دور میں جو ترقیاتی کام اور عوامی مسائل کے حل کے اقدامات ہوئے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں مل سکتی۔

2008ء کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، ایم کیو ایم، اے این پی، جے یو آئی ملکی سطح پر بھاری تعداد میں اپنے اپنے امیدوار کامیاب کرانے میں کامیاب رہی تھیں جس کے بعد پنجاب میں ن لیگ اور ق لیگ کے منحرفین کی، سندھ میں پیپلزپارٹی اور متحدہ کی، کے پی کے میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کی دیگر چھوٹی جماعتوں پر مشتمل ایک بڑی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی۔ جے یو آئی اور جماعت اسلامی جیسی ملک گیر جماعتیں کسی حکومت میں شامل نہیں ہوئی تھیں، جب کہ مسلم لیگ ق پہلے بلوچستان میں اور بعد میں وفاقی حکومت کا حصہ بنی تھی۔ آصف زرداری نے صدر بننے سے پہلے ق لیگ کو قاتل لیگ قرار دیا تھا اور اپنی حکومت کے آخری دور میں نہ صرف حکومت میں شامل کیا بلکہ آئین کے برعکس ق لیگ کے پرویزالٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم بھی بنادیا تھا۔ متحدہ آخری دور میں پی پی کی وفاقی اور سندھ حکومت سے الگ ہوگئی تھی۔

2008ء میں قائم ہونے والی ان جمہوریت کی دعویدار چاروں صوبائی حکومتوں نے پہلا وار ہی بنیادی جمہوریت کے اصول پر قائم ضلعی حکومتوں پر کیا جن کے سربراہ نچلی سطح پر منتخب ہونے والے ناظمین تھے جن کی ماتحتی میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، صوبائی سیکریٹری اور اسسٹنٹ کمشنر تھے اور ملک کی تاریخ میں پہلی بار فوجی صدر نے عوام کے منتخب نمائندوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دے کر اور بیوروکریٹس کو ان کا ماتحت بنادیا تھا اور عوام کو بھی پہلی بار کمشنری نظام سے نجات دلائی تھی۔

جس سے عوام بہت خوش تھے مگر سیاسی پارٹیوں پی پی، ن لیگ اور اے این پی کو عوام کی یہ خوشی اور آزادی پسند نہ آئی اور عوام کو دوبارہ غلامی دور کے کمشنری نظام کے عذاب میں پھنسانے کے لیے چاروں صوبائی اسمبلیوں نے محض جنرل پرویز کی مخالفت اور جنرل ضیا الحق کی محبت میں ارکان نے کمشنری نظام کی بحالی کا فیصلہ دیا۔ سندھ، بلوچستان اور کے پی کے میں مکمل کمشنری نظام بحال کرکے کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنروں کا تقرر کرکے عوام کے نچلی سطح کے بااختیار بلدیاتی نمائندوں کو ان کے ماتحت کردیا جب کہ پنجاب میں ضلعی حکومتیں برقرار رکھ کر ضلعی ناظمین کے ماتحت تمام ڈی سی اوز کو ضلعی حکومتوں کا سربراہ بنادیا اور کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر مقرر کردیے مگر ڈپٹی کمشنروں کا تقرر نہیں کیا تھا۔


تیرہ ماہ کی تاخیر سے گزشتہ سال 24 دسمبر کو پنجاب میں میئروں اور چیئرمینوں کے انتخابات ہوئے جس کے بعد ڈی سی اوز کو ڈپٹی کمشنر مقرر کردیا اور دو جنوری سے پنجاب میں مکمل کمشنری نظام بحال کرکے نو منتخب میئروں اور چیئرمینوں کو کام شروع کرنے دے دیا ہے جو کمشنری نظام کے تحت محدود اختیارات کے تحت کام کریںگے اور کمشنری نظام کے ماتحت ہوںگے۔

چاروں صوبوں میں جنرل ضیا الحق کا قائم کردہ 1979کا بلدیاتی نظام ملک بھر میں بحال کردیا گیا ہے اور ہر صوبے نے اپنی اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام انتہائی محدود اور بے اختیار کرکے نافذ کردیا ہے جس سے بیورو کریسی بہت خوش اور بااختیار ہوگئی ہے جن کی ماتحتی میں چاروں صوبوں میں ایک محکوم بلدیاتی نظام قائم ہوگیا ہے اور نچلی سطح پر بلدیاتی نظام کی جنرل پرویز نے جو آزادی دلائی تھی وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے منتخب ارکان نے ختم کرادی ہے اور اب پورے ملک میں بے اختیار اور محکوم بلدیاتی ادارے کمشنری نظام کے تحت کرادیے ہیں اور نچلی سطح کے بااختیار بلدیاتی نمائندوں کو بے اختیار کرنے کا یہ جمہوری کارنامہ عوام ہی کے منتخب نمائندوں نے انجام دیا ہے جو ان کی کمشنری نظام سے محبت، غلامی کا ایک واضح ثبوت ہے اور عوام اپنے ہی منتخب کردہ ارکان اسمبلی کے ہاتھوں کمشنری نظام کی غلامی میں آگئے ہیں۔

آمر حکومتوں میں اسمبلیاں نہیں ہوتیں تو آمر حکومتیں بلدیاتی نظام بحال کرکے بلدیاتی اداروں کے عوامی نمائندوں کی حمایت حاصل کرلیتی ہیں اور انھیں فنڈ بھی دیتی ہیں جو حکومت کا احسان نہیں فرض ہوتا ہے دنیا بھر میں بلدیاتی نظام موجود ہے جہاں ہر دور میں ان اداروں کے مقررہ وقت پر انتخابات ہوتے ہیں جب کہ وہاں بھی مختلف ناموں سے اسمبلیاں ہوتی ہیں اور پارلیمانی نظام میں یہ اسمبلی ہی وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ منتخب کرتی آرہی ہیں اور حکومتیں ارکان اسمبلی کے ساتھ کام کرتی ہیں اور ان حکومتوں کے بنائے گئے بلدیاتی ادارے اپنا کام کرتے ہیں اور وہاں اسمبلیوں کے ارکان اور بلدیاتی اداروں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوتا اور آئین کے مطابق دونوں اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں پاکستان میں بدقسمتی سے ارکان اسمبلی نچلی سطح پر منتخب ہونے والے بلدیاتی اداروں کے سربراہوں کو اپنا حریف بلکہ دشمن سمجھتے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ یہ بلدیاتی ادارے منتخب کونسلروں اور میئرز و چیئرمینوں کی سربراہی میں کام کریں۔ پاکستان میں 2015 سے پہلے کبھی جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور سرکاری افسروں کے ذریعے انھیں اپنی من مانی اور مرضی سے چلایا۔ 2015 کے بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے حکم پر کرائے گئے تھے جنھیں بے حد تاخیر سے کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔

حکومتیں سیاسی رشوت اور کرپشن کا موقع دینے کے لیے ارکان اسمبلی کو غیر قانونی طور پر ترقیاتی فنڈ دیتی ہے جو بلدیاتی اداروں کا حق ہے، جن سے ارکان اسمبلی کا کوئی تعلق نہیں ہوتا اور یہی فنڈ ارکان اسمبلی اور بلدیاتی اداروں میں اختلاف کا باعث ہے اور ارکان اسمبلی بلدیاتی اداروں کو اپنا ماتحت رکھنے کے لیے بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیتے اور ڈپٹی کمشنروں کے حامی ہیں، جن کی مدد سے وہ من مانی کرتے ہیں اور نچلی سطح کے منتخب بلدیاتی نمائندہ اکثریت میں ہوکر بھی اپنی مرضی سے کام نہیں کرسکتے اور ڈپٹی کمشنرز ارکان اسمبلی کو خوش رکھنے کے لیے بلدیاتی عہدیداروں کو کام نہیں کرنے دیتے اور اپنے حکم ان پر مسلط رکھتے ہیں۔
Load Next Story