آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں سپریم کورٹ کا وزیراعظم کے وکیل سے مکالمہ
برطانوی عدالت نےایک فیصلےمیں کہاکہ کرپشن کوپارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں،جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ریمارکس
پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے وکیل کے دلائل پر مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ آرٹیکل 19 اظہار رائے کا حق دیتا ہے لیکن آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے چوہدری ظہورالٰہی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ صدر، وزیراعظم اور گورنرز کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، وزیراعظم کو استثنیٰ امور مملکت چلانے پرہوتا ہے۔ آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کوئی غلط بیانی نہیں کی، وزیراعظم اپنی تقریر پر نا اہل نہیں ہوسکتے۔
وزیراعظم کے وکیل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم کی تقریرکو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں عدالتی فیصلوں کے کئی حوالے موجود ہیں، اگر وزیراعظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو 248 کے تحت استثنیٰ مانگیں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ برطانوی عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں اور پارلیمنٹ میں تقریرارکان کے خلاف بطورثبوت استعمال ہوسکتی ہے۔ ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریراسمبلی میں نہیں کی تھی ۔ آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں، آرٹیکل 19 اظہار رائے کا حق دیتا ہے، آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدالت کے روبرو استحقاق کا سوال نہیں ہے، عدالت ایک معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے درباریوں کا کام صرف صفائیاں دینا ہے جب کہ یہ سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ باہر آکر صفائیاں پیش کرتے ہیں جب کہ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں جو تقریر کی اس کو استثنیٰ ہے لہذا اس پر بات نہ کی جائے، اس کا مطلب ہے نواز شریف نے اسمبلی میں جھوٹ بولا جب کہ وزیراعظم نے خود اسمبلی میں کہا تھا کہ ان کے پاس سب کچھ موجود ہے لیکن یہ پھنس چکے ہیں کیونکہ اسمبلی میں تقریر نواز شریف نے ہمیں چپ کرانے کے لیے کی تھی، ان کا خیال نہیں تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آئے گا اور انہیں دستاویزات جمع کرانا پڑیں گی اس لیے وہ مشکل میں آگئے ہیں۔
دوسری جانب خواجہ سعد رفیق نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں جتنے رنگ اور موقف عمران خان نے بدلے ہیں اتنے کسی نے نہیں بدلے، یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت پر بار بار حملہ کیا، عمران خان جیسی غیر سنجیدگی کبھی نہیں دیکھی، گالی دینا، لوگوں کی بے عزتی کرنا اور جھوٹ بولنے کے سوا ان لوگوں کو کچھ نہیں آتا، وہ اتنی اونچی آواز میں جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ وہ عدالتوں کو اور اداروں کو روز اول سے دباؤ میں لانے کی سازش کرنے میں شریک رہے ہیں ، ان کا ایک ہی دھندا ہے جھوٹ بولو، دھرنا دو اور جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرو، انہوں نے ہر بار عدالتوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی لارجر بینچ نے پاناما کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وزیراعظم نوازشریف کے وکیل نے چوہدری ظہورالٰہی کیس کا حوالہ دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ صدر، وزیراعظم اور گورنرز کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، وزیراعظم کو استثنیٰ امور مملکت چلانے پرہوتا ہے۔ آرٹیکل 19 کے تحت ہر شخص کو اظہار رائے کی آزادی حاصل ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کوئی غلط بیانی نہیں کی، وزیراعظم اپنی تقریر پر نا اہل نہیں ہوسکتے۔
وزیراعظم کے وکیل کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ وزیراعظم کی تقریرکو بطور شہادت پیش نہیں کیا جا سکتا، اس سلسلے میں عدالتی فیصلوں کے کئی حوالے موجود ہیں، اگر وزیراعظم پارلیمنٹ سے باہر تقریر کریں تو 248 کے تحت استثنیٰ مانگیں گے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ برطانوی عدالت نے ایک فیصلے میں کہا کہ کرپشن کو پارلیمانی استثنیٰ حاصل نہیں اور پارلیمنٹ میں تقریرارکان کے خلاف بطورثبوت استعمال ہوسکتی ہے۔ ظہور الٰہی کیس میں وزیراعظم نے تقریراسمبلی میں نہیں کی تھی ۔ آپ حق نہیں استثنیٰ مانگ رہے ہیں، آرٹیکل 19 اظہار رائے کا حق دیتا ہے، آپ کا کیس آرٹیکل 19 کے زمرے میں نہیں آتا۔ عدالت کے روبرو استحقاق کا سوال نہیں ہے، عدالت ایک معاملے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے چیرمین تحریک انصاف عمران خان کا کہنا تھا کہ شریف خاندان کے درباریوں کا کام صرف صفائیاں دینا ہے جب کہ یہ سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ باہر آکر صفائیاں پیش کرتے ہیں جب کہ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزیراعظم نے اسمبلی میں جو تقریر کی اس کو استثنیٰ ہے لہذا اس پر بات نہ کی جائے، اس کا مطلب ہے نواز شریف نے اسمبلی میں جھوٹ بولا جب کہ وزیراعظم نے خود اسمبلی میں کہا تھا کہ ان کے پاس سب کچھ موجود ہے لیکن یہ پھنس چکے ہیں کیونکہ اسمبلی میں تقریر نواز شریف نے ہمیں چپ کرانے کے لیے کی تھی، ان کا خیال نہیں تھا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آئے گا اور انہیں دستاویزات جمع کرانا پڑیں گی اس لیے وہ مشکل میں آگئے ہیں۔
دوسری جانب خواجہ سعد رفیق نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سیاست میں جتنے رنگ اور موقف عمران خان نے بدلے ہیں اتنے کسی نے نہیں بدلے، یہ وہی شخص ہے جس نے پاکستان میں جمہوریت پر بار بار حملہ کیا، عمران خان جیسی غیر سنجیدگی کبھی نہیں دیکھی، گالی دینا، لوگوں کی بے عزتی کرنا اور جھوٹ بولنے کے سوا ان لوگوں کو کچھ نہیں آتا، وہ اتنی اونچی آواز میں جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے۔ وہ عدالتوں کو اور اداروں کو روز اول سے دباؤ میں لانے کی سازش کرنے میں شریک رہے ہیں ، ان کا ایک ہی دھندا ہے جھوٹ بولو، دھرنا دو اور جھوٹ کو سچ میں تبدیل کرو، انہوں نے ہر بار عدالتوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی ہے۔