احمد فرازؔ کے ساتھ ایک یادگار نشست

یہ وسط مارچ کی شام تھی، بہار کے موسم نے محفل کے حسن اور لطف و سرور کو بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔


[email protected]

کل احمد فرازؔ کی سالگرہ کی خبر پر نظر پڑی تو ان کے ساتھ منائی گئی ایک محفل یاد آگئی ۔بلاشبہ معاشرے کا توازن برقرار رکھنے میں شعر و ادب کا بڑا اہم کردار ہے۔ ڈی آئی جی کے طور پر میری کوہاٹ میں تعیناتی ہوئی تو وہاں امن و امان سے متعلقہ افراد کے علاوہ اہلِ فکر ودانش سے بھی ملاقاتیں ہونے لگیں، وہ ڈیرہ اسمٰعیل خان میں گومل تھنکرز فورم کے قیام اور ایک بھرپور قومی مشاعرے کے انعقاد کی خبریں سن چکے تھے۔

راقم نے انھیں کوہاٹ میں علمی اورادبی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے کام کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ'' ملک کے مقبول ترین شاعر احمد فراز کا تعلق کوہاٹ سے ہے آپ کسی مشاعرے یا مجلسِ سخن میں انھیں بھی مدعو کریں'' اس پر انھوں نے بتایا کہ فراؔز صاحب کوہاٹ سے سخت ناراض ہیں اور انھوں نے یہاں کبھی نہ آنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ میں نے سبب پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ضلع ناظم نے شہر میں واقع لائبریری کو گرا کر پلازہ تعمیر کروا دیا ہے اس پر فراز صاحب نے کہہ دیا ہے کہ'' جس شہرمیں ادبی ورثوں کو گرا کر پلازے تعمیر کرا دیے جائیں وہاں میں کبھی نہیں آؤنگا بلکہ مجھے وہاں دفن بھی نہ کیا جائے''

پھر ایک روز یوں ہوا کہ میں اپنے دفتر پہنچا ہی تھا کہ ایک کارڈ موصول ہوا،جس پر نام لکھا تھا ''سعدی فراز''۔ ملاقاتی ریٹائرڈ کرنل تھے اور اسوقت غالباً OGDCمیں کام کرتے تھے، تعارف کے دوران انھوں نے بتایا کہ وہ احمد فراز ؔصاحب کے بیٹے ہیں، انھوں نے کام بتایا تو میں نے کہا آپ کا کام ہوجائیگا مگر آپ کو اس کے بدلے کچھ ''کمیشن'' دینا ہوگا، وہ چونک پڑے اوردائیں بائیں دیکھنے لگے جہاں چند اور ملاقاتی بھی بیٹھے تھے پھر جھجکتے ہوئے پوچھنے لگے ''سر وہ کیا؟'' میں نے کہا ''آپ نے فراز صاحب کو کوہاٹ لے کر آنا ہے''۔ انھوں نے حامی بھرلی اور پھر فریقین نے اپنا اپنا وعدہ پورا کردکھایا۔ اُسوقت کے صوبۂ سرحد کے نیک نام آئی جی محمد شریف ورک صاحب ریٹائر ہورہے تھے۔ ہم نے ٹو اِن ون کا پروگرام ترتیب دیا۔

رات کو ورک صاحب کے اعزاز میں الوداعی عشائیہ ہوا اور اس کے بعد ڈی آئی جی ہاؤس کے لان میں فرازؔ صاحب کے ساتھ ایک ایسی یادگار محفل منعقد ہوئی جسکی بازگشت کوہاٹ کے علمی اور ادبی حلقوں میں اب بھی سنائی دیتی ہے۔یہ ایک بھرپور تقریب تھی جس کے لیے ہم نے صاحبانِ ادب و دانش اور اعلیٰ سول اور ملٹری افسران کے علاوہ بڑی تعداد میں کوہاٹ یونیورسٹی کے طلباء و طالبات کو بھی مدعو کیا تھا، اسٹیج سیکرِٹری بلند پایہ مقرّر اور ماہرِ تعلیم پروفیسر محمد اقبال تھے، جو اپنے خاص اسلوب اور اندازِ بیان سے محفلوں میں جان ڈال دینے کا ملکہ رکھتے ہیں۔

یہ وسط مارچ کی شام تھی، بہار کے موسم نے محفل کے حسن اور لطف و سرور کو بامِ عروج تک پہنچا دیا تھا۔ پروفیسرصاحب نے آغاز کرتے ہوئے کہا ہمارے لیے یہ بات باعثِ مسرّت و افتخار ہے کہ فرازؔ صاحب اپنی ناراضگی فراموش کرکے آج ہمارے درمیان کوہاٹ میں موجود ہیں۔ اس کا جواب فراز صاحب نے یوں دیا کہ ''میں نے تو واقعی کوہاٹ نہ آنے کی قسم کھا رکھی تھی مگر جب ڈی آئی جی کوہاٹ پولیس لے کر میرے پیچھے چڑھ گئے تو مجھے ہتھیار پھینکنا پڑے ، دیکھیں اسٹیج پر بھی پولیس نے مجھے حصار میں لے رکھا ہے ''(اسٹیج پر فراز صاحب کی نشست میرے اور آئی جی صاحب کے درمیان تھی)۔

کوہاٹ کے ایک صاحبِ قلم عبدالسمیع پراچہ، پروفیسر اقبال اور کئی دیگر حضرات نے اخبارات کے لیے اس تقریب کی روداد لکھی تھی اُسوقت کی تحریر کردہ منظر کشی کئی سالوں بعد نظر سے گزری تو یادوں کے دریچے کھل گئے۔ وہ لکھتے ہیں ''ڈی آئی جی کوہاٹ سے ملاقات ہوئی تو محسوس ہوا کہ پیشے کے اعتبار سے سخت گیر ہیں مگر اندر سے انتہائی حساس انسان! کہ ان کے ذوقِ لطیف اور ادب و شعر سے لگاؤ نے دل کی سنگینی کو پگھلا دیا ہے۔ ڈی آئی خان کی طرح کوہاٹ میں بھی انھوں نے ایک یادگار شعری محفل کا اہتمام کردکھایا جس کے لیے احمد فرازؔ کو منا کر لے آنا بھی انھی کا کارنامہ ہے۔ اس تقریب کے لیے ڈی آئی جی ہاؤس کے وسیع و عریض سبزہ زار کو قناتوں شامیانوں اور برقی قمقوں سے سجایا گیا۔

محفل میں نوجوانوں کے علاوہ کوہاٹ کے باذوق اور ادب نواز حضرات کی کثیر تعداد حاضری اور حضوری کی لذّتیں سمیٹنے کے لیے موجود تھی۔ کوئی چار پانچ سو کا مجمع تھا۔ احمد فرازؔ پر یونانی دیویe The Mus عاشق تھی اس لیے اشعار اُن پر برستے تھے انھوں نے اس رات مجمعے اور محفل کو لوٹ لیا ''۔

فرازؔ صاحب کے ہر شعر اور ہر مصرعے پر سامعین بے پناہ داد دے رہے تھے۔ اپنے آبائی شہر میں اتنی خوبصورت محفل ، بہار کا دلفریب موسم ، اور اس پر انتہائی جاندار اور پرجوش سامعین ۔فراز صاحب خود بھی ماحول کے سحر میں پوری طرح کھو کر لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اناسی سالہ احمد فرازؔ شعر سناتے ہوئے جہاں اٹک جاتے وہاں پروفیسر اقبال یا دوسرے شعر شناس فوراً لقمہ دے دیتے۔ کئی غزلوں کے بعد سامعین کی طرف سے فرمائش ہوئی کہ''حضور وہ غزل سنائیں جس کے بارے میں ہندوستان کے چوٹی کے شعراء نے اعتراف کیا ہے کہ ہمارے ہاں گزشتہ پچاس برسوں میں ایسی غزل نہیں کہی گئی''۔ ذرا اس غزل کے تیور بھی دیکھئے اور پھر بزبانِ فرازؔ سننے کا لطف تو لفظوں میں بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھَڑتے ہیں
یہ بات ہے تو چلو بات کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے اس کے شبستاں سے متّصل ہے بہشت
مکیں اُدھر کے بھی جلوے اِدھرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے ربط ہے اسکو خراب حالوں سے
سو اپنے آپکو برباد کرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے دن میں اسے تتلیاں ستاتی ہیں
سنا ہے رات کو جگنو ٹھہرکے دیکھتے ہیں
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
ستارے بامِ فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
فرمائشوں کی جھڑی لگ گئی تھی ، جہاں فرمائشوں کی برسات تھی وہاں داد کی بھی افراط تھی:۔
؎ مجھے دیکھ قبضۂ تیغ پر ابھی میرے کف کی گرفت ہے
بڑا منتقم ہے مرا لہو یہ مرے نسب کی سرشت ہے
؎فرازؔ اب کوئی سودا کوئی جنوں بھی نہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
فرازؔ جیسے کوئی ''دیا'' قربتِ ہوا چاہے
وہ پاس آئے تو ممکن ہے میں رہوں بھی نہیں

ملک پر ایک ڈکٹیٹر جنرل مشّرف کا راج تھا جسکے خلاف تحریک میں فرازؔ صاحب بھی شامل تھے۔ کئی خواتین و حضرات نے ان کے ایک پیشرو کے دور میں کہی گئی معرکتہ الآرا نظم 'محاصرہ' سنانے کی فرمائش کی جو فراز صاحب نے سامنے بیٹھے ہوئے نصف درجن فوجی افسران کی موجودگی میں پورے ترنگ، لَے اور جذبے سے سنائی ۔ موجودہ دور کے صحافیوں اور اینکرز کو یہ نظم ہر روز پڑھنی چاہیے۔

مرے غنیم نے مجھ کو پیام بھیجا ہے
کہ حلقہ زَن ہیں مرے گِرد لشکری اُس کے
سبھی دریدہ دہن اب بدن دریدہ ہوئے
سُپردِ دار و رسن سارے سر کشیدہ ہوئے
تمام صوفی و سالک سبھی شیوخ و امام
امیدِ لُطف پہ ایوانِ کج کلاہ میں ہیں
معززینِ عدالت بھی حلف اُٹھانے کو
مثالِ سائلِ مبرم نِشستہ راہ میں ہیں
تم اہلِ حرف کے پندار کے ثنا گر تھے
وہ آسمانِ ہُنر کے نُجوم سامنے ہیں
بس اِک مصاحبِ دربار کے اشارے پر
گداگرانِ سخن کے ہجوم سامنے ہیں
سو شرط یہ ہے جو جاں کی امان چاہتے ہو
تو اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو
یہ شرط نامہ جو دیکھا تو ایلچی سے کہا
اُسے خبر نہیں تاریخ کیا سکھاتی ہے
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح اِک نیا سورج تراش لاتی ہے
سو یہ جواب ہے میرا مرے عَدُو کے لیے
کہ مجھ کو حرصِ کرم ہے نہ خوفِ خمیازہ
اُسے ہے سطوت و شمشیر پہ گھمنڈ بہت
اُسے شکوہِ قلم کا نہیں ہے اندازہ
مرا قلم نہیں کردار اُس محافظ کا
جو اپنے شہر کو محصور کرکے ناز کرے
مرا قلم نہیں کاسہ کسی گداگر کا
جو غاصبوں کو قصیدوں سے سرفراز کرے
مرا قلم نہیں میزان ایسے عادل کی
جو اپنے چہرے پہ دُہرا نقاب رکھتا ہے
مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی
مرا قلم تو عدالت مرے ضمیر کی ہے

ہر طرف سے واہ واہ ہورہی تھی۔ اسی واہ واہ کی بوچھاڑ میں رات بھیگ چکی تھی۔ واہ کیا رات تھی۔ رات بھی پورے چاند کی اور چاند بھی تھا چیت کا۔ اُس پر احمد فرازؔ کا جمال بھی اور اس کی ادائیگی کا کمال بھی۔ آخر تین بجے کے قریب مجلس ِ سخن اختتام پذیر ہوئی۔

بعد میں ان کے صاحبزادے نے بتایا کہ کوہاٹ کی یہ تقریب ان کی زندگی کی آخری بڑی تقریب تھی اس کے فوراً بعد وہ صاحبِ فراش ہوگئے۔ مرض نے شدتّ اختیار کی تو انھیں بیرونِ ملک لے جایا گیا جہاں وہ اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اﷲتعالیٰ ان کی خطائیں معاف کرکے مغفرت فرمائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں