گاؤں سے لے کر شہر تک
برصغیر میں کوئی قوم یا نسل ایسی نہیں جس کی بنیاد اس ملک میں نہ ہو اور وہ باہر کی ہو۔
لاہور میں سردی کی اس ظالمانہ لہر سے پہلے میں گاؤں میں تھا۔ پہاڑی گاؤں میں سردیوں کے پورے موسم میں ایسی ہی جان لیوا لہر چلا کرتی ہے جس کی آمد کوئی خبر نہیں ہوتی، جسموں پر کپکپی طاری ہوتی ہے اگر باہر کھلی جگہ پر جانا پڑ جائے تو ہاتھ پاؤں سن ہو جاتے ہیں اور ان کی حرارت بحال کرنے کے لیے بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ محنت میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ سردی کا مقابلہ کرنے کا سامان بہت محدود ہوتا ہے اور بڑی احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا ہوتا ہے اس کی بچت بھی لازم ہے۔
اس دفعہ گاؤں میں مجھے ایک اور پریشانی بھی لاحق ہوئی اور معلوم ہوا کہ گاؤں کے گرد پھیلے ہوئے جنگلوں کی لکڑیاں کچھ تو جلا دی گئی ہیں اور کچھ اونٹوں کے بار برداروں نے بیچ دی ہیں۔ مجھے یہ بات سن کر سندھ کے زرداری قبیلہ کے لوگ یاد آئے جن کا پیشہ اونٹوں کی بار برداری ہے، اگرچہ اب ان کا پیشہ بدل چکا ہے اور وہ حکمرانی کرتے ہیں لیکن مجھے کوئی ایسا سندھی نہ مل سکا جو زرداری قبیلہ کے پیشے میں تبدیلی کی اطلاع دے سکے اور یہ بتا سکے کہ وہ حکمرانی کے ساتھ ساتھ اب شتر بانی بھی کرتے ہیں یا انھوں نے پیشہ بدل لیا ہے۔
مجھے ایک سندھی بزرگ نے بتایا کہ ہمارے ہاں اگر اونٹ خریدنا یا بیچنا ہو تو اس کی بہترین مارکیٹ زرداری قبیلہ ہے جس کے ہاں دنیا کا بہترین اونٹ پایا جاتا ہے یا سمجھا یہی جاتا ہے کہ اونٹ خریدنا ہو تو کسی زرداری کی منڈی یا میلے سے رجوع کیا جائے جہاں ہر نسل کے اونٹوں کی بہتات پائی جاتی ہے اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہے۔ زرداری قبیلہ شتر پروری میں بہت مشہور ہے لیکن اس قبیلے سے کچھ لوگ سیاست میں آ گئے اور انھوں نے سیاست پروری شروع کر دی اور کامیاب رہے یہانتک کہ پاکستان کی حکومت بھی ان کے ہاتھ میں چلی گئی اور وہ کامیاب حکمران ثابت ہوئے، اس قدر کامیاب کہ لوگ ان کے آبائی پیشہ شتر بانی کو بھول گئے اور حکمرانی یاد رہی۔ ان کا بڑا شہر کراچی تھا اور ان کے نوجوان کراچی میں 'شکار' کرتے تھے۔
انھیں اسی شکار میں ایک ایسا شکار بھی مل گیا جس کو خدا نے پاکستان کی حکمرانی دی اور زرداری قبیلہ ایک خاندان بن گیا جس کے پاس اونٹوں کی جگہ قوم کی حکمرانی آ گئی اور شتربانی کی طرح اس قبیلے نے حکمرانی بھی خوب کی جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے اور پاکستانی عوام اس قبیلے کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس نے پاکستانی انداز میں حکمرانی کا سلسلہ جاری کیا اور کامیابی کے ساتھ۔ پاکستانی قوم میں ایک خوبی ہے کہ اس میں قبائلی تعصب بہت کم ہے اور سندھ کے شتر بانوں کی حکمرانی بھی قبول کر لیتی ہے اور جب تک کسی حکمران میں اچھی حکومت کے اوصاف رہیں یا وہ قابل برداشت رہے اسے چھیڑا نہیں جاتا کیونکہ جو بھی پاکستانی ہے اس میں حکمرانی کے اوصاف موجود ہوتے ہیں اور وہ ان اوصاف کی مدد سے ملک پر حکمرانی کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کسی تعصب کے بغیر کسی کی حکمرانی کو بھی قبول کرتے ہیں۔
برصغیر میں کوئی قوم یا نسل ایسی نہیں جس کی بنیاد اس ملک میں نہ ہو اور وہ باہر کی ہو۔ پاکستانی اچھے لوگوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ خود اچھے لوگ ہیں۔ بلاتعصب حکمرانی کرتے ہیں۔ اگر کسی حکمران میں تعصب دکھائی دے اور وہ کسی خاص رجحان کے زیراثر ہو تو پھر اس کی حکمرانی زیادہ دیر نہیں چلتی مگر اچھے حکمران کو کوئی پریشان بھی نہیں کرتا۔ اونٹوں کا کاروبار کرنے والے ہوں یا عام مزدور وہ سب پاکستان میں کسی بھی عہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے ہاں ہر پیشے اور قبیلے سے متعلق لوگ دیکھے ہیں جو پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور ان کی حکمرانی کو قبول کیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں ہر قبیلے کے لوگ موجود ہیں اور یہ سب اپنے اپنے وقت میں عوام کے ووٹ لے کر بھی آتے ہیں اور سب کو قوم نے قبول کیا ہے۔ یہ قوم تو اس حد تک بھی جا سکتی ہے کہ جمہوریت اور آزادی کے اس زمانے میں اگر کوئی فوجی بھی وردی سمیت حکمرانی حاصل کر لے تو اسے برداشت کر لیا جاتا ہے، اگر کسی سیاسی جماعت اور گروہ کو ملک میں قبولیت نہیں ملتی تو یہ اس کی کوئی غلط پالیسی کا نتیجہ ہو سکتا ہے اس میں عوام کا تعصب نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قوم میں تنگ دلی ہرگز نہیں ہے۔
یہ ایک کھلے دل کی مالک قوم ہے اور اس کی مختصر سی تاریخ میں تنگ نظری دکھائی نہیں دیتی شاید یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے قدیمی دشمنوں کے درمیان زندہ ہے اور اپنی آزادی کو قائم رکھے ہوئے ہے، اس قوم کو اگرکبھی نقصان پہنچا ہے تو اس کے اندر سے ایسا ہوا ہے۔ اگر پاکستانی قوم نے اپنی غیرت اور اتحاد کو سنبھال کر رکھا تو اسے کہیں سے کوئی نقصان نہ ہو گا۔ ایسی فراخدل قوم مغلوب نہیں ہو سکتی۔
اس دفعہ گاؤں میں مجھے ایک اور پریشانی بھی لاحق ہوئی اور معلوم ہوا کہ گاؤں کے گرد پھیلے ہوئے جنگلوں کی لکڑیاں کچھ تو جلا دی گئی ہیں اور کچھ اونٹوں کے بار برداروں نے بیچ دی ہیں۔ مجھے یہ بات سن کر سندھ کے زرداری قبیلہ کے لوگ یاد آئے جن کا پیشہ اونٹوں کی بار برداری ہے، اگرچہ اب ان کا پیشہ بدل چکا ہے اور وہ حکمرانی کرتے ہیں لیکن مجھے کوئی ایسا سندھی نہ مل سکا جو زرداری قبیلہ کے پیشے میں تبدیلی کی اطلاع دے سکے اور یہ بتا سکے کہ وہ حکمرانی کے ساتھ ساتھ اب شتر بانی بھی کرتے ہیں یا انھوں نے پیشہ بدل لیا ہے۔
مجھے ایک سندھی بزرگ نے بتایا کہ ہمارے ہاں اگر اونٹ خریدنا یا بیچنا ہو تو اس کی بہترین مارکیٹ زرداری قبیلہ ہے جس کے ہاں دنیا کا بہترین اونٹ پایا جاتا ہے یا سمجھا یہی جاتا ہے کہ اونٹ خریدنا ہو تو کسی زرداری کی منڈی یا میلے سے رجوع کیا جائے جہاں ہر نسل کے اونٹوں کی بہتات پائی جاتی ہے اور قیمت بھی مناسب ہوتی ہے۔ زرداری قبیلہ شتر پروری میں بہت مشہور ہے لیکن اس قبیلے سے کچھ لوگ سیاست میں آ گئے اور انھوں نے سیاست پروری شروع کر دی اور کامیاب رہے یہانتک کہ پاکستان کی حکومت بھی ان کے ہاتھ میں چلی گئی اور وہ کامیاب حکمران ثابت ہوئے، اس قدر کامیاب کہ لوگ ان کے آبائی پیشہ شتر بانی کو بھول گئے اور حکمرانی یاد رہی۔ ان کا بڑا شہر کراچی تھا اور ان کے نوجوان کراچی میں 'شکار' کرتے تھے۔
انھیں اسی شکار میں ایک ایسا شکار بھی مل گیا جس کو خدا نے پاکستان کی حکمرانی دی اور زرداری قبیلہ ایک خاندان بن گیا جس کے پاس اونٹوں کی جگہ قوم کی حکمرانی آ گئی اور شتربانی کی طرح اس قبیلے نے حکمرانی بھی خوب کی جو کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے اور پاکستانی عوام اس قبیلے کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہیں کیونکہ اس نے پاکستانی انداز میں حکمرانی کا سلسلہ جاری کیا اور کامیابی کے ساتھ۔ پاکستانی قوم میں ایک خوبی ہے کہ اس میں قبائلی تعصب بہت کم ہے اور سندھ کے شتر بانوں کی حکمرانی بھی قبول کر لیتی ہے اور جب تک کسی حکمران میں اچھی حکومت کے اوصاف رہیں یا وہ قابل برداشت رہے اسے چھیڑا نہیں جاتا کیونکہ جو بھی پاکستانی ہے اس میں حکمرانی کے اوصاف موجود ہوتے ہیں اور وہ ان اوصاف کی مدد سے ملک پر حکمرانی کرتا ہے۔ پاکستانی عوام کسی تعصب کے بغیر کسی کی حکمرانی کو بھی قبول کرتے ہیں۔
برصغیر میں کوئی قوم یا نسل ایسی نہیں جس کی بنیاد اس ملک میں نہ ہو اور وہ باہر کی ہو۔ پاکستانی اچھے لوگوں کو قبول کرتے ہیں کیونکہ وہ خود اچھے لوگ ہیں۔ بلاتعصب حکمرانی کرتے ہیں۔ اگر کسی حکمران میں تعصب دکھائی دے اور وہ کسی خاص رجحان کے زیراثر ہو تو پھر اس کی حکمرانی زیادہ دیر نہیں چلتی مگر اچھے حکمران کو کوئی پریشان بھی نہیں کرتا۔ اونٹوں کا کاروبار کرنے والے ہوں یا عام مزدور وہ سب پاکستان میں کسی بھی عہدے تک پہنچ سکتے ہیں۔
ہم نے اپنے ہاں ہر پیشے اور قبیلے سے متعلق لوگ دیکھے ہیں جو پاکستان پر حکمرانی کرتے رہے ہیں اور ان کی حکمرانی کو قبول کیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں میں ہر قبیلے کے لوگ موجود ہیں اور یہ سب اپنے اپنے وقت میں عوام کے ووٹ لے کر بھی آتے ہیں اور سب کو قوم نے قبول کیا ہے۔ یہ قوم تو اس حد تک بھی جا سکتی ہے کہ جمہوریت اور آزادی کے اس زمانے میں اگر کوئی فوجی بھی وردی سمیت حکمرانی حاصل کر لے تو اسے برداشت کر لیا جاتا ہے، اگر کسی سیاسی جماعت اور گروہ کو ملک میں قبولیت نہیں ملتی تو یہ اس کی کوئی غلط پالیسی کا نتیجہ ہو سکتا ہے اس میں عوام کا تعصب نہیں ہوتا۔ کیونکہ پاکستان کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس قوم میں تنگ دلی ہرگز نہیں ہے۔
یہ ایک کھلے دل کی مالک قوم ہے اور اس کی مختصر سی تاریخ میں تنگ نظری دکھائی نہیں دیتی شاید یہی وجہ ہے کہ یہ اپنے قدیمی دشمنوں کے درمیان زندہ ہے اور اپنی آزادی کو قائم رکھے ہوئے ہے، اس قوم کو اگرکبھی نقصان پہنچا ہے تو اس کے اندر سے ایسا ہوا ہے۔ اگر پاکستانی قوم نے اپنی غیرت اور اتحاد کو سنبھال کر رکھا تو اسے کہیں سے کوئی نقصان نہ ہو گا۔ ایسی فراخدل قوم مغلوب نہیں ہو سکتی۔