ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی سوانح حیات

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ایک نامور ماہر تعلیم بھی تھے۔

اکادمی ادبیات پاکستان نے اپنے کتابی سلسلے ''پاکستانی ادب کے معمار'' کے لیے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پر کتاب لکھوانے کا فیصلہ کیا تو خود ڈاکٹر صاحب سے پوچھا یہ کتاب کس سے لکھوائی جائے۔ ڈاکٹر بلوچ نے محمد راشد شیخ کا نام پیش کردیا۔ 2007ء میں یہ کتاب چھپ گئی، یہ ایک مختصر سی کتاب تھی۔ راشد شیخ اس سے مطمئن نہ تھے۔ وہ ڈاکٹر نبی بخش کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات پر تفصیل سے لکھنا چاہتے تھے۔

سو انھوں نے 'ڈاکٹر نبی بخش بلوچ... سوانح حیات اور خدمات'' کے عنوان سے پانچ سو سے زیادہ صفحات کی ایک کتاب لکھی جو حکومت سندھ کے محکمہ ثقافت کی طرف سے شایع ہوئی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں راشد شیخ لکھتے ہیں ''یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے مسلسل محنت، عزم، حوصلے اور مستقل مزاجی سے کام لے کر تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود بڑے بڑے علمی منصوبوں کا آغاز کیا اور عمدگی سے انھیں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کا بچپن غربت کے ماحول میں گزرا لیکن ان کی شخصیت کا یہ نہایت روشن پہلو ہے کہ زندگی میں مشکل حالات سے انھوں نے کبھی ہار نہیں مانی اور تمام مشکلات کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔''

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے نوشہرو فیروز اسکول سے میٹرک کیا، جوناگڑھ کے بہاؤالدین کالج سے بی اے آنرز اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے عربی میں ایم اے کیا اور فرسٹ پوزیشن حاصل کی، یہیں ان کا تعلق شعبہ عربی کے اور اپنے استاد علامہ عبدالعزیز میمن سے قائم ہوا، جو زندگی بھر قائم رہا۔ ڈاکٹریٹ انھوں نے نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی سے حاصل کی اور درس و تدریس کو اپنی عملی زندگی کا محور بنایا۔ سندھ یونیورسٹی کے وہ پہلے پروفیسر اور شعبہ تعلیم کے سربراہ ہوئے پھر 1973ء میں اس کے وائس چانسلر۔ وہ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر بھی تھے۔

سندھ یونیورسٹی میں قیام کے دوران ڈاکٹر بلوچ نے سندھی زبان کے چار عظیم منصوبوں کا خاکہ بنایا اور ان پر کام شروع کیا۔ سندھ لوک ادب کا تحفظ، جامع سندھی لغات، سندھی اساسی شعرا کے کلام کی جمع آوری اور کتابی شکل میں اس کا تحفظ اور تاریخ سندھ کے ماخذ کی تدوین۔

راشد شیخ لکھتے ہیں ''سندھی لوک ادب کی جمع آوری اور 42 بڑی جلدوں میں اس کا محفوظ کرنا ایک ایسا کارنامہ ہے کہ اگر ڈاکٹر بلوچ صرف یہی ایک کام کرلیتے تو بھی ان کا نام تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جاتا۔''

ڈاکٹر بلوچ جانتے تھے کہ لوک ادب میں عوام کے خیالوں اور جذبوں کا فطری اظہار ہوتا ہے جس کے خالق بھی عوام ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی یہی کرتے ہیں۔ راشد شیخ بتاتے ہیں ''ڈاکٹر صاحب نے لوک ادب کی جمع آوری کے لیے سخت محنت کی۔ سندھی لوک ادب کا چونکہ محور گاؤں اور دیہات ہیں، اس لیے انھوں نے جنگلوں، بیابانوں، ریگستانوں اور پتھریلے راستوں کے پیدل سفر کیے، منزلوں پر منزلیں عبور کرکے سیلانیوں اور سنیاسیوں سے فکر کا فقیر بن کر اور لوگوں کے اوطاقوں اور دریاؤں میں بیٹھ کر سالکوں سے ان کے سینوں میں محفوظ لوک ادب کے ایک ایک نکتے کو نکلوا کر ان موتیوں کو کتابی صورت میں پیش کیا۔''


سندھ کی لوک شاعری میں لوک گیتوں کا بڑا حصہ ہے جس نے شاعری کو نہ صرف زندہ رکھا بلکہ اس کے اکٹھا کرنے میں بھی آسانی پیدا کی۔ ڈاکٹر بلوچ نے ان گیتوں کی مشہور اقسام کو لوک ادب کی متعلقہ کتابوں میں سے بڑی تلاش اور تحقیق کے بعد جمع کیا ہے۔ نثر کے ذخیرے میں لوک کہانیوں، عشقیہ داستانوں کے موضوعات پر بھی ڈاکٹر صاحب نے بڑا کام کیا ہے۔ اس سلسلے میں سندھی لوک کہانیوں کی سات جلدیں مرتب کی گئی ہیں۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی تحقیقی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے راشد شیخ کہتے ہیں کہ انھوں نے جس موضوع پر بھی کتاب لکھی اس میں تحقیق کا حق ادا کیا۔ ان کی اردو کتابوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کی ایک مثال ''سندھ میں اردو شاعری'' کے عنوان سے ان کی کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے 1658ء سے 1935ء تک کے سندھ کے 71 شعرا کے حالات زندگی اور کلام کا انتخاب پیش کیا ہے۔

ڈاکٹر نبی بخش بلوچ ایک نامور ماہر تعلیم بھی تھے۔ ان کا مقولہ تھا کہ تعلیم ہی کسی قوم کا اصل ہتھیار ہوتا ہے۔ انھوں نے سندھ یونیورسٹی میں پہلا تعلیمی میوزیم قائم کیا اور توسیعی لیکچروں کا اہتمام کیا۔ ان ہی کی کوششوں سے سندھ یونیورسٹی میں اشاعتی سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ انھوں نے تعلیم کے موضوع پر مختلف ادوار میں مفید علمی اور تحقیقی کتابیں بھی لکھیں۔ یہ سندھی، اردو اور انگریزی میں شایع ہوئیں۔

راشد شیخ نے ڈاکٹر بلوچ کی خاکہ نگاری کا بھی ذکر کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ باقاعدہ خاکوں پر مشتمل تو کوئی کتاب انھوں نے نہیں لکھی لیکن ان کی بہت سی تحریروں میں خاکہ نگاری کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے بیرون ملک جو سفر کیے ان کا احوال بھی انھوں نے لکھا ہے۔ ان سفر ناموں میں بہت سی معلومات محفوظ ہیں۔ مثلاً تاریخی مقامات، اہم کتابیں، محاورے اور حکایات، ادبیات اور موسیقی۔

راشد شیخ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''انھوں نے ساری زندگی علم اور کتاب سے محبت کی ہے۔ وہ ایک نادر اور قیمتی کتب خانے کے مالک تھے۔ ہمہ وقت لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتے تھے''۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ خدیجہ بلوچ نے ان کی دلچسپیوں کا ذکر کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ لکھتے وقت دو چیزیں ضروری ہوتی تھیں، ایک چائے اور دوسری سگریٹ۔ سگریٹ بعد میں چھوڑ دی تھی۔ شکار ان کا دلچسپ مشغلہ تھا۔ آرٹ کے وہ دلدادہ تھے، موسیقی سے بھی ان کو کافی لگاؤ تھا۔

موسیقی پر انھوں نے تحقیق بھی کی ہے۔ سندھ کے موسیقاروں اور سازوں پر ان کی ایک چھوٹی سی انگریزی میں کتاب مشہور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ڈاکٹر نبی بخش بہت سادہ طبیعت کے انسان تھے۔ بے جا تکلفات سے دور رہتے تھے، نہ بڑھیا کھانوں کا شوق تھا، نہ مہنگے لباس کا۔ دنیاوی شان و شوکت اور بڑائی سے کوئی لگاؤ نہیں تھا۔ ترکی گئے تو اپنے میزبان سے کہہ دیا کہ کسی کو نہ بتانا کہ میں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہوں۔

ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی حمیدہ بلوچ اپنے والد کے اوقات زندگی بیان کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں ''والد محترم اپنے سارے کام ٹائم ٹیبل کے مطابق انجام دیتے تھے۔ رات کو سونے سے پہلے اگلے دن کے کام نوٹ کرلیتے تھے۔ روزانہ نماز فجر کے بعد تلاوت قرآن پاک اور پھر چہل قدمی ان کا معمول تھا۔ ناشتے کے بعد 8 بجے لکھنے پڑھنے کا کام شروع کرتے تو دو بجے ختم کرتے۔ پھر اخبار کا مطالعہ ہوتا۔ روزانہ ڈائری لکھنا بھی ان کا معمول تھا۔ ان سے وابستہ یادیں بھلائی نہیں جاسکتیں۔
Load Next Story