دوزخ خالی شیطان زمین پر
آج بھی تمام اسلامی ممالک کادرد ہمارے دلوں میں لہرے مارتا پھررہا ہے۔
PESHAWAR:
انگریزی کے مشہور ادیب میتیھوآرنلڈ نے انیسویں صد ی کے دوسرے نصف میں اپنے دورکے انتشار تذبذب اور بے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا ''ہم لوگ اس وقت دو دنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مرچکی ہے اور دوسری بے سکت ہے۔'' یہ اب سے کم وبیش سوسال پہلے کی آواز ہے، اس وقت زندگی کی نئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی قدروں اور اقدار کا صرف ایک مبہم احساس شروع ہوا تھا اس وقت دنیا مجموعی طورپر قناعت اور اطمینان میں زندگی گزار رہی تھی جو محض بے حسی کی علامتیں ہیں۔
آج فکر وعمل کے ہر شعبے میں جس طرح جان پرکھیل کر انقلابی کوشش کی جارہی ہیں ان کا تصور بیسویں صدی سے پہلے کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ لیوکریشیں کہتا تھا کہ ''اس دنیا کے سوا دوزخ اورکہیں نہیں'' جب کہ شیکسپیئرکہتا ہے، دوزخ خالی پڑی ہے، سارے شیطان زمین پر ہیں۔ تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کاسب سے اہم واقعہ تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کی گئی اس تقسیم نے اتنے مسائل کوحل نہیں کیے، جتنے نئے مسائل کو جنم دیا۔ایک کروڑ افراد اپنے صدیوں پرانے گھر و شہر چھوڑکر اجنبی دیاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، مذہب کے نام لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، عورتوں کی بے حرمتی، بچے زندہ جلا دیے گئے، گھروں کو شعلوں کی نذرکردیاگیا، تقسیم نے اپنوں کو بیگانہ کردیا، آدمی سے اس کی انسانیت چھین لی، قتل وغارت و فسادات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، جہالت ، تعصب اور نفرت کے شکار لوگ مذہبی جنون میں ایک دوسرے کے خون سے دامن رنگتے رہے، فسادات میں انسان نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اس کی دوسری مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
قرۃ العین حیدرکا شاہکار ناول آگ کا دریا ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ناول ٹی ایس ایلیٹ کی نظم The Waste Land سے شروع ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وقت ایک آگ کا دریا ہے جس کے آگے انسان ایک بس تنکے کی طرح ہے۔ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ کی مایوسی، شکست خوردگی ،انسان کی بے وقعتی اور بے سمتی کی عکاس ہے۔ ایلیٹ کے خیال میں اب انسان ایسی بنجر جگہ پر پہنچ چکا ہے جہاں نشوونما کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ یہ دور بڑے پیمانے پر اقدارکے خاتمے کا دور تھا جن کو فلسفیوں اور مذاہب نے تشکیل دیا جن میں جذبے کی بے لوثی اور روحانیت تھی۔ امکانات سے مایوسی کا یہی کرب آگ کا دریا کا بنیادی موضوع ہے۔ مصنفہ کے سامنے انسان کے ماضی کی طویل ترین تاریخ ہے۔ وقت نے انسان سے ہر دور میں خراج لیاہے۔ انھوں نے صرف آج کے انسان کو نہیں بلکہ Total Human کو پیش کیا ہے۔
ان کا انسان مجموعی طورپر برا نہیں ہے چونکہ ماضی کے تجربات تلخ ہیں اس لیے ناول میں مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت موجود ہے انھوں نے مذہبی، تاریخی، فلسفی، عیش پرست، جنگجو ہرطرح کے قالب میں انسان کو دیکھا ہے اورایسا انسان پیش کیا ہے جو صدیاں گزارکرآرہا ہے جوکہ تاریخ ہے اور صدیوں پر محیط وقت کااحاطہ کرتی ہے۔ آگ کا دریا تین تہذیبی ادوار میں تقسیم ہے جو ویدک دور سے شروع ہوکر موریہ خاندان کے دورحکومت، مغلوں کے عہد، سامراجی دور اورآخر میں ملک کی تقسیم کی واقعات کے تاریخی پس منظرکو پیش کرتا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں ''ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی قومی تعمیر نوکاکام تیزی سے شروع ہوچکا تھا نئے نئے خود کفیل ادارے قائم کیے جارہے تھے۔
مہاجرین کو بسانے کے منصوبے لاگوکیے جارہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے وظائف بانٹے جارہے تھے نئے معاشرے میں دولت اور خوش حالی ہی اعلیٰ نسبی کا معیار تھی چنانچہ ہر شخص جھوٹے سچے کلیم داخل کرکے کوٹھیاں، زمینیں و کارخانے ہتھیانے میں لگا تھا کیونکہ اس معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے ہندوستان پوری کوشش کر کے یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ تقسیم غلط ہے اور ملک دراصل ایک ہے اور اس کی تہذیب ناقابل تقسیم، پاکستان ثابت کرنے پر بضد ہے کہ تقسیم بالکل صحیح تھی اور یہاں کا کلچر بے حد مختلف ہے اور اسی علیحدہ قومیت کی بنا پر یہ ملک حاصل کیاگیا۔ مجموعی طورپر نئے پاکستان کی سوسائٹی ریکٹس کی سوسائٹی ہے سیاست،ادب، تاریخ اور مذہب کے ریکٹ نئے پاکستان میں چلائے جارہے ہیں۔
ان میں سب سے جاندار ریکٹ اسلام کا ہے۔'' ''اسلام'' اس لفظ کی جوگت بنی ہے (کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم ہارنے لگے تو سمجھو اسلام خطرے میں ہے)دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آکر اسی لفظ پر ٹوٹتی ہے دوسرے مسلمان ملک اس بات پر خوب چڑتے ہیں کہ ساری دنیا کی طرف سے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پرتنگ نظری کا غلاف چڑھاہوا ہے موسیقی، آرٹ، تہذیب ،علم و ادب سب کو ملا کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اسلام جو ایک چڑھتے ہوئے دریا کی طرح انگنت معاون ندی نالوں کو اپنے دھارے میں لپیٹ کر ایک عظیم آبشار کی صورت میں رواں تھا اب وہ سمٹ کر ایک مٹیالے نالے میں تبدیل کیاجارہا ہے لطیفہ یہ کہ اسلام کانعرہ لگانے والوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سوسال عیسائی اسپین پر حکومت کی ایک ہزار سال تک ہندوبھارت پر حکمرانی کی عثمانیوں نے 5صدیوں تک مشرقی یورپ کو تابع رکھا امپیریلزم کے علاوہ اسلام کی جو عظیم انسان پرستی کی روایات ہیں ان کا تذکرہ نہیں کیاجاتا۔'' قرۃ العین حیدر نے یہ ناول 1957ء میں لکھا آج ہم جب 2017ء میں پاکستانی سماج پر نظر دوڑاتے ہیں تو کم و بیش اسی صورتحال کا آج بھی ہمیں سامنا ہے جس صورتحال کا اس ناول میں ذکر ہے ہم سالوں بعد بھی اسی مقام پرکھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔
آج بھی روپیہ، پیسہ ہمارے سماج میں عزت واحترام کا سب سے بڑاپیمانہ ہے۔ آج بھی لوگ جائز وناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں، آج بھی معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے آج بھی چند لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کی زندگی جہنم سے زیادہ بدترہوچکی ہے۔ دنیا نے اپنے آپ کو بالکل بدل لیا ہے لیکن ہم بالکل نہیں بدلے آج بھی ذرہ ذرہ سی بات پر اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے اگر اپنے فائد ے کی بات ہو تو ہر بات حلال ہے اور وہی بات دوسرے کی ہوتو حرام ہے۔
آج بھی تمام اسلامی ممالک کادرد ہمارے دلوں میں لہرے مارتا پھررہا ہے، بس کسی اسلامی ملک میں کوئی نا خوشگوار واقعہ تو ہوجائے ہم ان سے پہلے مظاہرے،احتجاج اور ہڑتالیں شروع کردیتے ہیں پوری دنیا میں اسلام کا ہم سے بڑا ٹھیکیدار کوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہوسکتاہے۔ ہمیں اپنے بدترین حالات سے کوئی سروکار اوردلچسپی نہیں اور نہ ہی ہم انھیں صحیح کرنے کی فکر میں ہیں لیکن ہم تمام اسلامی ممالک کے اندرونی حالات پر دور بین لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے ہمیں چڑ ہے، سوچنے سے حد درجہ نفرت ہے، اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے کی بات پر ہمارا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کوکفر واسلام کی روشنی میں دیکھنے کی عادت پڑگئی ہے یقینا میتھیوآرنلڈ نے یہ بات کہ ''ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مرچکی ہے اور دوسری اتنی بے سکت ہے کہ کسی طرح پیدا نہیں ہوپاتی'' ہمارے لیے ہی کہی ہے۔
انگریزی کے مشہور ادیب میتیھوآرنلڈ نے انیسویں صد ی کے دوسرے نصف میں اپنے دورکے انتشار تذبذب اور بے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا ''ہم لوگ اس وقت دو دنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مرچکی ہے اور دوسری بے سکت ہے۔'' یہ اب سے کم وبیش سوسال پہلے کی آواز ہے، اس وقت زندگی کی نئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی قدروں اور اقدار کا صرف ایک مبہم احساس شروع ہوا تھا اس وقت دنیا مجموعی طورپر قناعت اور اطمینان میں زندگی گزار رہی تھی جو محض بے حسی کی علامتیں ہیں۔
آج فکر وعمل کے ہر شعبے میں جس طرح جان پرکھیل کر انقلابی کوشش کی جارہی ہیں ان کا تصور بیسویں صدی سے پہلے کیا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ لیوکریشیں کہتا تھا کہ ''اس دنیا کے سوا دوزخ اورکہیں نہیں'' جب کہ شیکسپیئرکہتا ہے، دوزخ خالی پڑی ہے، سارے شیطان زمین پر ہیں۔ تقسیم ہند برصغیر کی تاریخ کاسب سے اہم واقعہ تھا۔ دو قومی نظریے کی بنیاد پر کی گئی اس تقسیم نے اتنے مسائل کوحل نہیں کیے، جتنے نئے مسائل کو جنم دیا۔ایک کروڑ افراد اپنے صدیوں پرانے گھر و شہر چھوڑکر اجنبی دیاروں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے، مذہب کے نام لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، عورتوں کی بے حرمتی، بچے زندہ جلا دیے گئے، گھروں کو شعلوں کی نذرکردیاگیا، تقسیم نے اپنوں کو بیگانہ کردیا، آدمی سے اس کی انسانیت چھین لی، قتل وغارت و فسادات کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا، جہالت ، تعصب اور نفرت کے شکار لوگ مذہبی جنون میں ایک دوسرے کے خون سے دامن رنگتے رہے، فسادات میں انسان نے جس بربریت کا مظاہرہ کیا اس کی دوسری مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
قرۃ العین حیدرکا شاہکار ناول آگ کا دریا ہندوستان کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو سمیٹے ہوئے ہے۔ ناول ٹی ایس ایلیٹ کی نظم The Waste Land سے شروع ہوتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وقت ایک آگ کا دریا ہے جس کے آگے انسان ایک بس تنکے کی طرح ہے۔ یہ نظم پہلی جنگ عظیم کے بعد یورپ کی مایوسی، شکست خوردگی ،انسان کی بے وقعتی اور بے سمتی کی عکاس ہے۔ ایلیٹ کے خیال میں اب انسان ایسی بنجر جگہ پر پہنچ چکا ہے جہاں نشوونما کے امکانات ختم ہوچکے ہیں۔ یہ دور بڑے پیمانے پر اقدارکے خاتمے کا دور تھا جن کو فلسفیوں اور مذاہب نے تشکیل دیا جن میں جذبے کی بے لوثی اور روحانیت تھی۔ امکانات سے مایوسی کا یہی کرب آگ کا دریا کا بنیادی موضوع ہے۔ مصنفہ کے سامنے انسان کے ماضی کی طویل ترین تاریخ ہے۔ وقت نے انسان سے ہر دور میں خراج لیاہے۔ انھوں نے صرف آج کے انسان کو نہیں بلکہ Total Human کو پیش کیا ہے۔
ان کا انسان مجموعی طورپر برا نہیں ہے چونکہ ماضی کے تجربات تلخ ہیں اس لیے ناول میں مایوسی اور ناامیدی کی کیفیت موجود ہے انھوں نے مذہبی، تاریخی، فلسفی، عیش پرست، جنگجو ہرطرح کے قالب میں انسان کو دیکھا ہے اورایسا انسان پیش کیا ہے جو صدیاں گزارکرآرہا ہے جوکہ تاریخ ہے اور صدیوں پر محیط وقت کااحاطہ کرتی ہے۔ آگ کا دریا تین تہذیبی ادوار میں تقسیم ہے جو ویدک دور سے شروع ہوکر موریہ خاندان کے دورحکومت، مغلوں کے عہد، سامراجی دور اورآخر میں ملک کی تقسیم کی واقعات کے تاریخی پس منظرکو پیش کرتا ہے ۔ وہ لکھتی ہیں ''ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی قومی تعمیر نوکاکام تیزی سے شروع ہوچکا تھا نئے نئے خود کفیل ادارے قائم کیے جارہے تھے۔
مہاجرین کو بسانے کے منصوبے لاگوکیے جارہے تھے۔ اعلیٰ تعلیم کے وظائف بانٹے جارہے تھے نئے معاشرے میں دولت اور خوش حالی ہی اعلیٰ نسبی کا معیار تھی چنانچہ ہر شخص جھوٹے سچے کلیم داخل کرکے کوٹھیاں، زمینیں و کارخانے ہتھیانے میں لگا تھا کیونکہ اس معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے ہندوستان پوری کوشش کر کے یہ ثابت کرنے میں مصروف ہے کہ تقسیم غلط ہے اور ملک دراصل ایک ہے اور اس کی تہذیب ناقابل تقسیم، پاکستان ثابت کرنے پر بضد ہے کہ تقسیم بالکل صحیح تھی اور یہاں کا کلچر بے حد مختلف ہے اور اسی علیحدہ قومیت کی بنا پر یہ ملک حاصل کیاگیا۔ مجموعی طورپر نئے پاکستان کی سوسائٹی ریکٹس کی سوسائٹی ہے سیاست،ادب، تاریخ اور مذہب کے ریکٹ نئے پاکستان میں چلائے جارہے ہیں۔
ان میں سب سے جاندار ریکٹ اسلام کا ہے۔'' ''اسلام'' اس لفظ کی جوگت بنی ہے (کرکٹ میچ میں پاکستانی ٹیم ہارنے لگے تو سمجھو اسلام خطرے میں ہے)دنیا کے ہر مسئلے کی تان آخر میں آکر اسی لفظ پر ٹوٹتی ہے دوسرے مسلمان ملک اس بات پر خوب چڑتے ہیں کہ ساری دنیا کی طرف سے اسلام کا ٹھیکہ اس وقت ان لوگوں نے لے رکھا ہے ہر چیز پرتنگ نظری کا غلاف چڑھاہوا ہے موسیقی، آرٹ، تہذیب ،علم و ادب سب کو ملا کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے اسلام جو ایک چڑھتے ہوئے دریا کی طرح انگنت معاون ندی نالوں کو اپنے دھارے میں لپیٹ کر ایک عظیم آبشار کی صورت میں رواں تھا اب وہ سمٹ کر ایک مٹیالے نالے میں تبدیل کیاجارہا ہے لطیفہ یہ کہ اسلام کانعرہ لگانے والوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ مسلمانوں نے آٹھ سوسال عیسائی اسپین پر حکومت کی ایک ہزار سال تک ہندوبھارت پر حکمرانی کی عثمانیوں نے 5صدیوں تک مشرقی یورپ کو تابع رکھا امپیریلزم کے علاوہ اسلام کی جو عظیم انسان پرستی کی روایات ہیں ان کا تذکرہ نہیں کیاجاتا۔'' قرۃ العین حیدر نے یہ ناول 1957ء میں لکھا آج ہم جب 2017ء میں پاکستانی سماج پر نظر دوڑاتے ہیں تو کم و بیش اسی صورتحال کا آج بھی ہمیں سامنا ہے جس صورتحال کا اس ناول میں ذکر ہے ہم سالوں بعد بھی اسی مقام پرکھڑے ہیں جہاں سے ہم نے سفر شروع کیا تھا۔
آج بھی روپیہ، پیسہ ہمارے سماج میں عزت واحترام کا سب سے بڑاپیمانہ ہے۔ آج بھی لوگ جائز وناجائز طریقے سے پیسے کمانے کی دوڑ میں شامل ہیں، آج بھی معاشرے کی بنیاد روپے پر قائم ہے آج بھی چند لوگوں کی ہوس کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کی زندگی جہنم سے زیادہ بدترہوچکی ہے۔ دنیا نے اپنے آپ کو بالکل بدل لیا ہے لیکن ہم بالکل نہیں بدلے آج بھی ذرہ ذرہ سی بات پر اسلام خطرے میں پڑجاتا ہے اگر اپنے فائد ے کی بات ہو تو ہر بات حلال ہے اور وہی بات دوسرے کی ہوتو حرام ہے۔
آج بھی تمام اسلامی ممالک کادرد ہمارے دلوں میں لہرے مارتا پھررہا ہے، بس کسی اسلامی ملک میں کوئی نا خوشگوار واقعہ تو ہوجائے ہم ان سے پہلے مظاہرے،احتجاج اور ہڑتالیں شروع کردیتے ہیں پوری دنیا میں اسلام کا ہم سے بڑا ٹھیکیدار کوئی ہے اور نہ ہی کوئی ہوسکتاہے۔ ہمیں اپنے بدترین حالات سے کوئی سروکار اوردلچسپی نہیں اور نہ ہی ہم انھیں صحیح کرنے کی فکر میں ہیں لیکن ہم تمام اسلامی ممالک کے اندرونی حالات پر دور بین لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے ہمیں چڑ ہے، سوچنے سے حد درجہ نفرت ہے، اسلام کی حقیقی روح کے مطابق عمل کرنے کی بات پر ہمارا چہرہ غصے سے لال پیلا ہوجاتا ہے۔ ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کوکفر واسلام کی روشنی میں دیکھنے کی عادت پڑگئی ہے یقینا میتھیوآرنلڈ نے یہ بات کہ ''ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں ایک تو مرچکی ہے اور دوسری اتنی بے سکت ہے کہ کسی طرح پیدا نہیں ہوپاتی'' ہمارے لیے ہی کہی ہے۔