فوجی عدالتوں میں توسیع کیلیے پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس بے نتیجہ ختم

وزیرداخلہ کی عدم شرکت پر اپوزیشن کے تحفظات، نیشنل ایکشن پلان، مدارس، عدالتی اصلاحات کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب


News Agencies/Numainda Express January 18, 2017
حکومت بتائے اس نے کیا کیا،خورشید شاہ، ان کیمرا اجلاس بلا کر حساس اداروں سے بریفنگ لی جائے،شاہ محمود،31 جنوری کو آئندہ اجلاس میں جوابات دینگے،بیرسٹرظفراللہ فوٹو : فائل

حکومت اور اپوزیشن کے پارلیمانی رہنماؤں کے دوسرے اجلاس میں بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع پر اتفاق نہ ہو سکا اور اجلاس بے نتیجہ ختم ہو گیا، آئندہ اجلاس31 جنوری کو ہوگا۔

فوجی عدالتوں میں توسیع سے متعلق اجلاس اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ہوا جس میں وفاقی وزیر زاہد حامد، بیرسٹر ظفراللہ، خورشید شاہ، نوید قمر، شاہ محمود قریشی، شیریں مزاری، فضل الرحمن، اکرم درانی، محمود اچکزئی، غلام احمد بلور، اعجاز الحق، آفتاب شیرپاؤ، غوث بخش مہر، طارق بشیر چیمہ، شیخ رشید و دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔اجلاس میں حکومت نے تفصیلی بریفنگ دی لیکن اپوزیشن نے مزید سوالات اٹھا دیئے اور وزیر داخلہ کی عدم شرکت اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے بریفنگ نہ دینے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ تمام جماعتوں نے فوجی عدالتوں کو ریاستی معاملہ قرار دیتے ہوئے اس پر سیاست نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے نیشنل ایکشن پلان، مدارس و عدالتی اصلاحات اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیوں کے حوالے سے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں حکومتی اتحادی جماعتوں نے بھی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی شدید مخالفت کی ہے۔ فضل الرحمان اور محمود اچکزئی نے بھی واضح کر دیا کہ ان عدالتوںکی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ فضل الرحمن نے دینی جماعتوں کا بھی موقف بھی اجلاس میں پیش کردیا ہے کہ حکومت یکطرفہ طور پر اس معاملے میں ترمیم لائی تھی اوراس کے تحت ہونیوالی قانون سازی میں دہشت گردی و انتہاپسندی کو مذہب اور مسلک سے منسلک کردیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس امتیازی ترمیم کی حمایت نہیں کیا جا سکتی۔ اجلاس میں اپوزیشن ارکان نے موقف اختیار کیا کہ حکومت کالعدم تنظیموں کے حوالے سے پالیسی پر مطمئن نہیں کر سکی۔اجلاس کے بعد گفتگو کرتے ہوئے قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کی توسیع کا مسئلہ ریاست کا مسئلہ ہے یہ اپوزیشن یا حکومت کا مسئلہ نہیں، حکومت سے کچھ سوالات پوچھے ہیں،31 جنوری کو تفصیلات دی جائیں گی۔پارلیمنٹ کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت کی کارکردگی کیا ہے۔

سوالات ہم نے کردیے ہیں اب حکومت بھی تو بتائے کہ اس نے کیا کیا ہے، آج کی بریفنگ سے مطمئن ہونا نہ ہونا معنی نہیں رکھتا بلکہ اصل مسئلہ دہشت گردی کے چیلنج کو دیکھنا ہے۔اسپیکر ایاز صادق نے کہاکہ تمام پارلیمانی جماعتوں کا رویہ انتہائی مثبت ہے ، اپوزیشن جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے حکومت سے مزید سوالات کے جوابات مانگے ہیں جو فرقہ وارانہ و کالعدم تنظیموںکی سرگرمیوں، مدارس کے معاملات، نظام عدل میں مجوزہ اصلاحات اور دیگر اہم معاملات کے بارے میں ہے۔ ان سوالات کا جواب دیا جائیگا۔ جے یو آئی کے سربراہ فضل الرحمان نے کہاکہ اجلاس ان کیمرا تھا لہٰذا وہ تفصیلات نہیں بتا سکتے، ہم نے اجلاس میں اپنا نکتہ نظر پیش کردیا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ جب تک تمام جماعتیں اتفاق نہیں کرتیں تب تک کچھ نہیں کریں گے، اپوزیشن نے کچھ مزید سوالات کیے ہیں آئندہ اجلاس میں اس کے جوابات دیں گے، تمام جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس مسئلے پر سیاست نہیں کریں گے۔ پی ٹی آٹی کے رہنما شاہ محمود قریشی اور شیریں مزاری نے کہا کہ منگل کی بریفنگ نے کئی مزید سوالات کو جنم دیا ہے، حکومت دہشت گردی پر پارلیمنٹ کا ان کیمرا مشترکہ سیشن بلائے اور حساس ادارے اس میں بریفنگ دیں۔

قوم ضرب عضب کا اعتراف کرتی ہے تاہم معاملات حساس ہیں اس پر ابھی زیادہ بات نہیں کرسکتے۔ ایم کیوایم کے شیخ صلاح الدین نے کہا کہ فوجی عدالتوں کا جب قیام عمل میں آیا ان دنوں غیر معمولی صورتحال تھی یہ کسی ایک جماعت کا نہیں بلکہ ریاست کا مسئلہ ہے۔اجلاس میں جماعت اسلامی کے رہنما شریک نہیں ہوئے، اجلاس ڈھائی گھنٹے جاری رہا۔ وقفے کے دوران پارلیمانی رہنماؤں نے فضل الرحمان کی امامت میں نماز مغرب ادا کی جبکہ ایاز صادق نے اپنے چیمبر میں جا کر نماز ادا کی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں