محسن اسلام۔ میرا بھائی

نیورو سرجری کا آپریشن تھیٹر کسی نامعلوم وجہ سے ابھی تک ایک پرانی ملحقہ عمارت میں ہے


Amjad Islam Amjad January 18, 2017
[email protected]

محسن، میرا بھائی عمر میں مجھ سے صرف سات برس چھوٹا تھا مگر زندگی بھر اس نے میرا احترام بڑے بھائی سے زیادہ والد کی طرح کیا اور اس کا یہ رویہ خود تین بچوں کا نانا بننے کے بعد بھی جاری و ساری تھا۔ ہمارے دادا حاجی قطب دین دست کار تھے ان کے چھ بیٹوں میں سے ہمارے والد سمیت تین بڑے بیٹے اسی شعبے سے وابستہ رہے جب کہ بقیہ نے برانڈرتھ روڈ لاہور پر خود کو ہارڈ ویئر ٹولز کی تجارت سے وابستہ کرلیا لیکن میرے علاوہ تعلیمی اعتبار سے کسی نے بھی یونیورسٹی کی شکل نہیں دیکھی۔ میرے سگے بھائیوں محسن اور احسن سمیت تمام کزنز زیادہ سے زیادہ ایف اے تک جاسکے۔

البتہ اتنا ضرور ہوا کہ دستکاری کا خاندانی پیشہ آگے نہ چل سکا اور یہ سب لوگ اور ان کی اگلی نسلیں بزنس میں ایڈجسٹ ہوتے چلے گئے اور یوں پہلے محسن اور پھر احسن نے بھی والد صاحب کے ساتھ دکانداری اور جزوی طور پر مشینری ٹولز کی سپلائی کو ذریعہ روزگار بنالیا۔ البتہ دونوں نے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اگرچہ بزرگوں نے ہماری تربیت ایک مشترکہ خاندانی نظام کے تحت کی کہ 1984ء تک ہم سب 65 فلیمنگ روڈ پر واقع ایک ہی بڑے سے گھر میں رہتے تھے جو وقت کے ساتھ ساتھ ایک سے تین منزلوں پر پھیل گیا تھا مزید گنجائش کی کمی اور باہمی مشورے سے یہ طے کیا گیا کہ اب سب بھائیوں کو علیحدہ علیحدہ گھر بنالینے چاہئیں کہ طرز معاشرت کی تبدیلی اور اگلی نسل کی شادیوں وغیرہ کے معاملات کی وجہ سے اب اس سلسلے کو اسی طرح سے قائم رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔

سو ہماری فیملی 22 ممتاز اسٹریٹ گڑھی شاہو والے نو تعمیر گھر میں منتقل ہوگئی لیکن دس بارہ برس کے اندر ہی یہ بھی کم پڑنا شروع ہوگیا کہ ہم تینوں بھائیوں کی اگلی نسلیں جوان ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ میں اپنے موجودہ ڈیفنس والے گھر میں منتقل ہوگیا جب کہ محسن اور احسن نے اپنے بزنس کی وجہ سے اسی علاقے میں رہنا پسند کیا۔ احسن اب بھی وہیں ہے لیکن محسن نے بڑی بیٹی زنیرہ کی شادی کے بعد گزشتہ چار برس سے گلشن راوی کے علاقے میں رہائش اختیار کرلی تھی جس کی وجہ سے ہماری ملاقاتوں کا تسلسل تو متاثر ہوا مگر باہمی محبت اللہ کے فضل و کرم سے قائم و دائم رہی۔

جیسا کہ میں نے گزشتہ کسی کالم میں ذکر کیا تھا ڈاکٹروں کے مشورے کے مطابق اس کی نیورو سرجری ضروری ہوگئی تھی کہ دماغ میں پیدا ہوجانے والی ایک رسولی کے باعث اس کی قوت بینائی بہت تیزی سے کم ہونے لگی تھی۔ تحقیق اور مشورے کے بعد یہ طے کیا گیا کہ جنرل اسپتال کے نیورالوجی شعبے میں مطلوبہ آپریشن کی سہولتیں نسبتاً بہتر ہیں اور اس شعبے کی نئی عمارت حال ہی میں فنکشنل ہوئی ہے۔

اس کی تعمیر بظاہر بہت جدید انداز میں کی گئی ہے اور مریضوں کے لیے سہولیات بھی نستباً بہتر ہیں مگر اس کے آس پاس اور اردگرد کی حالت ایسی ہے کہ اس پر اسپتال کے علاوہ ہر چیز کا گمان گزر سکتا ہے۔ گندگی، مریضوں اور ان کے لواحقین کی کثرت اور بدنظم ٹریفک کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونا اور کسی مطلوبہ جگہ تک پہنچنا ایک امتحان سے کم نہیں۔ اگرچہ دن کے وقت بھی سیکڑوں لوگ ادھر سے ادھر بھاگتے دکھائی دیتے ہیں مگر شام کے وقت تو وہاں ایک مسافر خانے کا سا منظر ہوتا ہے کہ مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے بے شمار لواحقین جگہ جگہ بستر بچھائے نظر آتے ہیں۔

نیورو سرجری کا آپریشن تھیٹر کسی نامعلوم وجہ سے ابھی تک ایک پرانی ملحقہ عمارت میں ہے۔ مجھے محسن کے آپریشن کے دوران کئی گھنٹے وہاں بیٹھنا پڑا اور اس دوران میں جو منظر میں نے دیکھے ہیں وہ افسوسناک بھی ہیں اور حاکمان وقت کے لیے نشان عبرت بھی۔ تسلیم کہ اس صورتحال کی ساری ذمے داری ان پر نہیں ڈالی جاسکتی مگر یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا شہریوں کی زندگی اور صحت کے مسائل ان کی ترجیحات میں اپنی صحیح جگہ پر ہیں؟

آپریشن سے قبل محسن کا بلڈ پریشر مسلسل دوائیوں کے باوجود متوازن نہیں ہورہا تھا جس کی وجہ سے ایک بار اسے مؤخر بھی کیا گیا لیکن متعلقہ ڈاکٹرز کے مطابق یہ صورت حال کامیاب آپریشن کے باوجود اسی لیے مزید پیچیدہ ہوگئی کہ اس کے گردے بھی اپنا کام ٹھیک سے نہیں کررہے تھے۔ چار جنوری کو آپریشن ہوا اور آٹھ دن بعد اسے اسپتال سے یہ کہہ کر ڈسچارج کردیا گیا کہ اب آپ اس کو لاحق دیگر امراض کا علاج کہیں اور سے کرائیں۔ ہمارا کام بس یہیں تک تھا جب کہ اصل وجہ غالباً یہ تھی کہ ان لوگوں کے پاس بیڈ کم تھے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنی بڑی سات منزلہ عمارت میں زنانہ مردانہ وارڈ اور سی سی یو وغیرہ ملا کر ایک وقت میں صرف ساٹھ کے قریب مریض رکھے جاسکتے ہیں جب کہ ضرورت اس سے کہیں زیادہ کی تھی اور ہے۔

عام عقیدے کے مطابق ہر شخص اپنے مقررہ وقت کے مطابق دنیا سے رخصت ہوتا ہے اور چاہے آپ کچھ بھی کرلیں وہ وقت بدل نہیں سکتا یہ بھی طے ہے کہ جو پیدا ہوا ہے اسے ایک دن مرنا ہے تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ بیمار کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے کہ اگر اس کا وقت آگیا ہے تو حکم ربی اور من جانب اللہ کہہ کر اپنے فرض سے سبک دوش ہوجائیں اور اگر ایسا نہیں تو پھر کوئی بھی بیماری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی لیکن یہ بات عقل اور ایمان دونوں حوالوں سے محل نظر ہے کہ رب کریم نے ہر بیماری کے ساتھ اس کا علاج بھی پیدا کیا ہے۔

سو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لکھی گئی موت کے نامعلوم وقت سے پہلے ہمیں ہر طرح کے علاج کی کوشش کرنی چاہیے اور اس کے لیے مطلوبہ سہولیات مہیا کرنا ہر حکومت اور معاشرے پر فرض ہے اس بات کی مزید گہرائی میں جانے کا نہ یہ وقت ہے اور نہ موقع سو میں واپس اپنے بھائی کے آخری وقت پر آتا ہوں۔ وفات سے چند گھنٹے قبل چودہ جنوری کی شام کو جب میں نے آخری بار اسے سانس لیتے ہوئے دیکھا تو میرے دماغ میں اسی طرح کی ایک گھنٹی بجی جیسی چند ماہ قبل والد مرحوم کو آخری بار دیکھنے کے وقت بجی تھی کہ شاید میں آخری بار انھیں زندہ دیکھ رہ ہوں ممکن ہے یہ بات ذہن کے پنہاں خانے میں اس وجہ سے بیدار ہوئی ہو کہ جانے والوں کی ظاہری حالت اور کیفیت اس کی ترجمانی کررہی تھی مگر یہ احساس ہے بہت خوفناک۔

محسن گزشتہ کئی برسوں سے اگر بیمار نہیں تو کوئی بہت زیادہ صحت مند بھی نہیں تھا مگر یوں تھا کہ عمومی جسمانی کمزوری کے باوجود وہ زندگی کے سارے مسائل کو نمٹاتا چلا آرہا تھا اور اس کی کسی بھی بات سے یہ گمان نہیں ہوتا تھا کہ وہ یوں دیکھتے ہی دیکھتے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ ابھی کچھ دن قبل اس نے مجھ سے حسب معمول نئے سال کی ڈائری کی فرمائش کی تھی۔ اتفاق سے پہلی ڈائری مجھے اس دن ملی جس دن صبح اس کا آپریشن تھا۔ سوچا جونہی وہ اٹھنے بیٹھنے کے قابل ہوتا ہے اس کی امانت اسے پہنچا دوں گا۔ میرے سرہانے رکھی وہ ڈائری جیسے بار بار مجھ سے سوال کرتی ہے کہ اب میرا کیا بنے گا کہ میرے تو سارے کے سارے صفحے کچھ لکھے جانے سے قبل ہی پُر ہوگئے ہیں۔

یہ ڈائری میرے پاس اس کی امانت ہے جو اب میں اس کے بیٹے اور اپنے بھتیجے احمد محسن کو اقبال کے اس شعر کے ساتھ دوں گا کہ؎

مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں

وہ حقیقت میں کبھی ہم سے جدا ہوتے نہیں

رب کریم ہمارے ماں باپ کی روحوں کے ساتھ اس کی روح کو بھی سدا اپنی امان میں رکھے کہ بالآخر لوٹنا تو سب کو اسی کی طرف ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔