کرپشن سکینڈلز اور حکومتوں کا رویہ ایک جائزہ
پانامہ کیس ایک ایسی فلم کی طرح چل رہا ہے جس کا ہر منظر صورتحال ہی بدل دیتا ہے
ISLAMABAD:
پانامہ کیس ایک ایسی فلم کی طرح چل رہا ہے جس کا ہر منظر صورتحال ہی بدل دیتا ہے۔ ایک دن کی کارروائی ایک فریق کے حق میں جاتی نظر آتی ہے تو دوسرے دن دوسرا فریق بھاری نظر آتا ہے۔ بلکہ یہ صورتحال گھنٹوں میں بھی تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔جب ایک فریق دھواں دار پریس کانفرنس میں اپنی جیت کا دعویٰ کرتا ہے تو ماحول اس کے حق میں نظر آتا ہے ۔
اور جب چند گھنٹوں بعد دوسرا فریق اپنی بات کرتا ہے ماحول دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ اس طرح میں نے صحافت اور سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے بہت سے دوستوں سے پانامہ کیس کے مستقبل کے بارے میں پوچھا لیکن کسی کو ابھی کچھ نہیں پتہ کہ کیا ہو گا۔ لوگوں کے پاس اس سوال کا بھی کوئی واضح جواب نہیں کہ حکومت بچ جائے گی کہ نہیں۔ لیکن کوئی یقین سے یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ حکومت پھنس جائے گی ۔ اب تک کی سماعت کے بعد ہر طرف شش و پنج ہی ہے۔
میاں نواز شریف کے وکیل عدالت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کا نہ تو پانامہ میں ذکر ہے اور نہ ہی ان کا پانامہ سے کوئی تعلق ہے۔اس طرح اب تک کی حکمت عملی یہی ہے کہ میاں نواز شریف کو پانامہ سے الگ کر لیا جائے۔ اسی طرح دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تحریک انصاف کی شدید کوشش کے باوجود خود کو پانامہ سے الگ رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں تحریک انصا ف کی جانب سے بہت کوشش ہوئی کہ کسی طرح میاں شہباز شریف کو بھی اس میں لپیٹا جائے لیکن میاں شہباز شریف اس سے خود کومکمل طور پر الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔غالباً یہ وہی حکمت عملی ہے جس کے تحت مریم نواز صاحبہ بھی خود کو پانامہ سے الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پانامہ کیس سچا ہے یا جھوٹا اس کا فیصلہ تو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہی کرے گی۔ جس کا ابھی تک ملک میں کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ لیکن فی الوقت ملک میں کرپشن ایک بڑا ایشو بن گیا ہے۔ کرپشن پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس ماحول میں اگر ہم ملک میں قائم حکومتوں کا جائزہ لیں تو ایک دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔
بلوچستان کی حکومت کا جائزہ لیں تو وہاں کی وزارت خزانہ کا کرپشن سکینڈل جس میں سیکریٹری خزانہ کے گھر سے اربوں روپے کی برآمدگی ملک کا بڑا کرپشن سکینڈل بن کر سامنے آیا ہے جس نے بلوچستان حکومت کے تمام نظام حکومت کی شفافیت پر سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں۔ بعد ازاں اسی کیس میں اٹھائے گئے اعتراضات کے باعث حکومت پاکستان کو پلی بارگین کے قانون میں ہی ترمیم کرنا پڑ گئی تا کہ پلی بارگین کا راستہ روکا جا سکے۔
اسی طرح سندھ میں بھی شرجیل میمن سمیت کئی کرپشن سکینڈل موجودہ حکومت کے سامنے سوالیہ نشان کھڑے کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے کرپشن میں ملوث وزراء اور اعلیٰ افسران کی پشت پناہی سندھ حکومت کو داغ دار کر رہی ہے۔کسی بھی حکومت میں کسی ایک فرد کا کوئی انفرادی غلط عمل پوری حکومت کو تب تک داغ دار نہیں کر سکتا جب تک کہ حکومت اس انفرادی غلط عمل کی پشت پناہی نہ شروع کر دے۔ لیکن جس طرح سندھ حکومت نے شرجیل میمن پارٹی کی پشت پناہی کی ہے اس نے سندھ حکومت کو کوئی نیک نامی نہیں دی ہے۔
اسی کے مقابلے میں پنجاب میں رانا مشہود کا بھی ایک سکینڈل سامنے آیا۔ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے رانا مشہود کی کسی بھی قسم کی پشت پناہی نہیں کی بلکہ ان کو تب تک مکمل طور پر غیر فعال کر دیا جب تک کہ انھوں نے خود کو عدالتوں سے کلیئر نہیں کروا لیا۔ انھیں تو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی بلانا بند کر دیا گیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہباز شریف نے حکومت کو اس سکینڈل سے دور رکھ لیا۔میں رانا مشہود کا مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا۔ اور نہ ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا فعل درست تھا یا نہیں۔ کیونکہ اعلیٰ جمہوری روایات کسی بھی وزیر کو اس قسم کی غیر ذمے داری کی اجازت نہیں دیتیں۔ لیکن شاید پاکستان ابھی اعلیٰ جمہوری روایات تک نہیں پہنچا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کی کے پی کے کی حکومت بھی کئی کرپشن سکینڈلز کی زد میںہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر بھرتیوں کا الزام ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے منحرف ارکان ہی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے پہلے شیرپاؤ کی جماعت کے وزرا کو کرپشن پر فارغ کیا بعد میں منتیں کر کے ان کی جماعت کو دوبارہ شریک اقتدار کر لیا۔ پہلے احتساب کمیشن بنانے کا نعرہ لگایا گیا لیکن جب اس کا ہاتھ اپنی گردن پر پہنچا تواسے راتوں رات بند کر دیا۔ کمیشن کے سربراہ کو گھر بھیج دیا۔ اور وہ اب تک غیر فعال ہے۔اس طرح کے پی کے کی تحریک انصاف کی حکومت بھی بہت سے کرپشن سکینڈلز کے گھیرے میں ہے۔اسی طرح ٹمبر مافیا پر کمزوری اور دیگر کئی سکینڈل بھی پرویز خٹک کو سوال کر رہے ہیں۔
پنجاب میں صورتحال اس سارے سے یکسر مختلف ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے دور حکومت کو کسی بھی بڑے کرپشن سکینڈل سے پاک رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ الزامات کی سیاست اپنی جگہ لیکن شہباز شریف کے مخالفین بھی ان کے خلاف کوئی کرپشن سکینڈل سامنے نہیں لا سکے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے موجودہ دور حکومت میں بڑے بڑے کام ہوئے ہیں۔
جن کے بڑے بڑے ٹھیکے دیے گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی ٹھیکہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ حتیٰ کے اورنج لائن کے مخالفین بھی اس میں کرپشن کا کوئی ثبوت اعلیٰ عدلیہ میں نہیں پیش کر سکے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب حکومت نے گڈ گورننس میںاب یہ استطاعت حاصل کر لی ہے کہ وہ اپنے اندر کی خرابیوں کے خلاف خود بڑے بڑے ایکشن لینے کے قابل ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں صاف پانی میں گھپلوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایکشن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک شخص کا انفرادی فعل تھا جس پر حکومت نے اس کے خلاف ایکشن لیا۔ اسی طرح لینڈ ریکارڈ کے محکمہ میں خلاف میرٹ بھرتیوں کا ایکشن بھی گڈ گورننس کی ایک مثال ہے کہ حکومت اپنے اندر کی خرابیوں کو صاف کرنے کی اہل ہو گئی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب کپتان خود کسی سکینڈل میں ملوث نہ ہو۔
میں یہ نہیں کہتا کہ باقی صوبوں کے کپتان خود کرپشن میں ملوث ہیں کہ نہیں۔ لیکن ان کے صوبوں میں بڑے بڑے کرپشن سکینڈلز پر ان کی خاموشی ان کی بیڈ گورننس کی عکاس ہے۔ جب کہ مقابلے میں شہباز شریف کی جانب سے حکومتی اہلکاروں کی غلطیوں کا اعتراف اور ان پر سخت ایکشن کم ازکم یہ تو ثابت کر رہا ہے کہ وہ خود اس میں ملوث نہیں ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت مکمل طور پر کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر حکومت اپنے اندر کی کرپشن کے خلاف خود ایکشن لینے کے قابل ہوجائے تو اسے گڈ گورننس کہا جاتا ہے اور جب حکومت اس کرپشن کے خلاف ایکشن لینے کے قابل نہ ہو اور کسی تیسرے فریق یا ادارے کو مداخلت کرنی پڑے تو اسے بیڈ گورننس کہا جاتا ہے۔
پانامہ کیس ایک ایسی فلم کی طرح چل رہا ہے جس کا ہر منظر صورتحال ہی بدل دیتا ہے۔ ایک دن کی کارروائی ایک فریق کے حق میں جاتی نظر آتی ہے تو دوسرے دن دوسرا فریق بھاری نظر آتا ہے۔ بلکہ یہ صورتحال گھنٹوں میں بھی تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔جب ایک فریق دھواں دار پریس کانفرنس میں اپنی جیت کا دعویٰ کرتا ہے تو ماحول اس کے حق میں نظر آتا ہے ۔
اور جب چند گھنٹوں بعد دوسرا فریق اپنی بات کرتا ہے ماحول دوسری طرف چلا جاتا ہے۔ اس طرح میں نے صحافت اور سیاست سے تعلق نہ رکھنے والے بہت سے دوستوں سے پانامہ کیس کے مستقبل کے بارے میں پوچھا لیکن کسی کو ابھی کچھ نہیں پتہ کہ کیا ہو گا۔ لوگوں کے پاس اس سوال کا بھی کوئی واضح جواب نہیں کہ حکومت بچ جائے گی کہ نہیں۔ لیکن کوئی یقین سے یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ حکومت پھنس جائے گی ۔ اب تک کی سماعت کے بعد ہر طرف شش و پنج ہی ہے۔
میاں نواز شریف کے وکیل عدالت میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ میاں نواز شریف کا نہ تو پانامہ میں ذکر ہے اور نہ ہی ان کا پانامہ سے کوئی تعلق ہے۔اس طرح اب تک کی حکمت عملی یہی ہے کہ میاں نواز شریف کو پانامہ سے الگ کر لیا جائے۔ اسی طرح دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف تحریک انصاف کی شدید کوشش کے باوجود خود کو پانامہ سے الگ رکھنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس ضمن میں تحریک انصا ف کی جانب سے بہت کوشش ہوئی کہ کسی طرح میاں شہباز شریف کو بھی اس میں لپیٹا جائے لیکن میاں شہباز شریف اس سے خود کومکمل طور پر الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔غالباً یہ وہی حکمت عملی ہے جس کے تحت مریم نواز صاحبہ بھی خود کو پانامہ سے الگ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
پانامہ کیس سچا ہے یا جھوٹا اس کا فیصلہ تو ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہی کرے گی۔ جس کا ابھی تک ملک میں کسی کو کچھ اندازہ نہیں۔ لیکن فی الوقت ملک میں کرپشن ایک بڑا ایشو بن گیا ہے۔ کرپشن پر سوال اٹھ رہے ہیں۔ اس ماحول میں اگر ہم ملک میں قائم حکومتوں کا جائزہ لیں تو ایک دلچسپ صورتحال سامنے آتی ہے۔
بلوچستان کی حکومت کا جائزہ لیں تو وہاں کی وزارت خزانہ کا کرپشن سکینڈل جس میں سیکریٹری خزانہ کے گھر سے اربوں روپے کی برآمدگی ملک کا بڑا کرپشن سکینڈل بن کر سامنے آیا ہے جس نے بلوچستان حکومت کے تمام نظام حکومت کی شفافیت پر سوالیہ نشان پیدا کر دیے ہیں۔ بعد ازاں اسی کیس میں اٹھائے گئے اعتراضات کے باعث حکومت پاکستان کو پلی بارگین کے قانون میں ہی ترمیم کرنا پڑ گئی تا کہ پلی بارگین کا راستہ روکا جا سکے۔
اسی طرح سندھ میں بھی شرجیل میمن سمیت کئی کرپشن سکینڈل موجودہ حکومت کے سامنے سوالیہ نشان کھڑے کر رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے کرپشن میں ملوث وزراء اور اعلیٰ افسران کی پشت پناہی سندھ حکومت کو داغ دار کر رہی ہے۔کسی بھی حکومت میں کسی ایک فرد کا کوئی انفرادی غلط عمل پوری حکومت کو تب تک داغ دار نہیں کر سکتا جب تک کہ حکومت اس انفرادی غلط عمل کی پشت پناہی نہ شروع کر دے۔ لیکن جس طرح سندھ حکومت نے شرجیل میمن پارٹی کی پشت پناہی کی ہے اس نے سندھ حکومت کو کوئی نیک نامی نہیں دی ہے۔
اسی کے مقابلے میں پنجاب میں رانا مشہود کا بھی ایک سکینڈل سامنے آیا۔ لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے رانا مشہود کی کسی بھی قسم کی پشت پناہی نہیں کی بلکہ ان کو تب تک مکمل طور پر غیر فعال کر دیا جب تک کہ انھوں نے خود کو عدالتوں سے کلیئر نہیں کروا لیا۔ انھیں تو کابینہ کے اجلاسوں میں بھی بلانا بند کر دیا گیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شہباز شریف نے حکومت کو اس سکینڈل سے دور رکھ لیا۔میں رانا مشہود کا مقدمہ نہیں لڑنا چاہتا۔ اور نہ ہی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کا فعل درست تھا یا نہیں۔ کیونکہ اعلیٰ جمہوری روایات کسی بھی وزیر کو اس قسم کی غیر ذمے داری کی اجازت نہیں دیتیں۔ لیکن شاید پاکستان ابھی اعلیٰ جمہوری روایات تک نہیں پہنچا ہے۔
اسی طرح تحریک انصاف کی کے پی کے کی حکومت بھی کئی کرپشن سکینڈلز کی زد میںہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر بھرتیوں کا الزام ہے۔ تحریک انصاف کے اپنے منحرف ارکان ہی وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پر کرپشن کا الزام لگا رہے ہیں۔ تحریک انصاف نے پہلے شیرپاؤ کی جماعت کے وزرا کو کرپشن پر فارغ کیا بعد میں منتیں کر کے ان کی جماعت کو دوبارہ شریک اقتدار کر لیا۔ پہلے احتساب کمیشن بنانے کا نعرہ لگایا گیا لیکن جب اس کا ہاتھ اپنی گردن پر پہنچا تواسے راتوں رات بند کر دیا۔ کمیشن کے سربراہ کو گھر بھیج دیا۔ اور وہ اب تک غیر فعال ہے۔اس طرح کے پی کے کی تحریک انصاف کی حکومت بھی بہت سے کرپشن سکینڈلز کے گھیرے میں ہے۔اسی طرح ٹمبر مافیا پر کمزوری اور دیگر کئی سکینڈل بھی پرویز خٹک کو سوال کر رہے ہیں۔
پنجاب میں صورتحال اس سارے سے یکسر مختلف ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنے دور حکومت کو کسی بھی بڑے کرپشن سکینڈل سے پاک رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ الزامات کی سیاست اپنی جگہ لیکن شہباز شریف کے مخالفین بھی ان کے خلاف کوئی کرپشن سکینڈل سامنے نہیں لا سکے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے موجودہ دور حکومت میں بڑے بڑے کام ہوئے ہیں۔
جن کے بڑے بڑے ٹھیکے دیے گئے ہیں لیکن ابھی تک کسی بھی ٹھیکہ پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ حتیٰ کے اورنج لائن کے مخالفین بھی اس میں کرپشن کا کوئی ثبوت اعلیٰ عدلیہ میں نہیں پیش کر سکے۔ یہ درست ہے کہ پنجاب حکومت نے گڈ گورننس میںاب یہ استطاعت حاصل کر لی ہے کہ وہ اپنے اندر کی خرابیوں کے خلاف خود بڑے بڑے ایکشن لینے کے قابل ہو گئی ہے۔ اس ضمن میں صاف پانی میں گھپلوں پر وزیر اعلیٰ پنجاب کا ایکشن اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک شخص کا انفرادی فعل تھا جس پر حکومت نے اس کے خلاف ایکشن لیا۔ اسی طرح لینڈ ریکارڈ کے محکمہ میں خلاف میرٹ بھرتیوں کا ایکشن بھی گڈ گورننس کی ایک مثال ہے کہ حکومت اپنے اندر کی خرابیوں کو صاف کرنے کی اہل ہو گئی ہے۔ یہ تب ہی ممکن ہے جب کپتان خود کسی سکینڈل میں ملوث نہ ہو۔
میں یہ نہیں کہتا کہ باقی صوبوں کے کپتان خود کرپشن میں ملوث ہیں کہ نہیں۔ لیکن ان کے صوبوں میں بڑے بڑے کرپشن سکینڈلز پر ان کی خاموشی ان کی بیڈ گورننس کی عکاس ہے۔ جب کہ مقابلے میں شہباز شریف کی جانب سے حکومتی اہلکاروں کی غلطیوں کا اعتراف اور ان پر سخت ایکشن کم ازکم یہ تو ثابت کر رہا ہے کہ وہ خود اس میں ملوث نہیں ہیں۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت مکمل طور پر کرپشن سے پاک نہیں ہو سکتی۔ لیکن اگر حکومت اپنے اندر کی کرپشن کے خلاف خود ایکشن لینے کے قابل ہوجائے تو اسے گڈ گورننس کہا جاتا ہے اور جب حکومت اس کرپشن کے خلاف ایکشن لینے کے قابل نہ ہو اور کسی تیسرے فریق یا ادارے کو مداخلت کرنی پڑے تو اسے بیڈ گورننس کہا جاتا ہے۔