بیمار گلاب
آج جنوری کا سرد ترین دن ہے اوراحساس بے حسی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے
ISLAMABAD:
آج جنوری کا سرد ترین دن ہے اوراحساس بے حسی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ پے درپے بری خبروں نے اعصاب کو سن کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوا کی ہر سانس میں ان کہے دکھوں کا ذائقہ شامل ہے اور مجھے سیفوکی ہم عصر یونانی شاعرہ بلائی ٹس بے اختیار یاد آرہی ہے۔ سات سو قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی اس شاعرہ نے محبت کی بے باک شاعری کی۔ محبت اس کے لیے گناہ کا حصہ نہ تھی۔ یونان کے دور کی عورت نے بھی لاتعداد دکھ جھیلے۔ افلاطون نے عورتوں کوکم تر ثابت کرنے کی کم کوششیں نہ کی تھیں۔ دوسری جانب سقراط تھا، جس نے صنف نازک کو ناقص العقل قرار دیا، مگر اسپارٹا کی تباہی کے بعد وہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ عورتوں کی بدترین حالت اور معاشرتی بدسلوکی نے اسپارٹا کو تباہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ معروف یونانی ڈراما نویس یوری پیڈیز عورتوں کے کمزور پہلوؤں کو ڈراموں میں اجاگرکرتا تھا۔ لہٰذا ایتھنز کی عورتیں اس کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہوگئیں اور اسے شہر میں ''برے شوہر'' کے نام سے مشہورکردیا کیونکہ یوری پیڈیز کی دو شادیاں بری طرح سے ناکام ہوچکی تھیں۔اس نے جب ڈراما ٹروجن وومن لکھا تھا جس میں اس نے یونانی فوجیوں کوعورتوں، بوڑھوں و بچوں پر مظالم ڈھاتے دکھایا تو اسے ایتھنز میں ڈراما پیش کرنے کی اجازت نہ ملی۔لہٰذا اس نے سرحد کے باہر یہ ڈراما اسٹیج کیا، جس میں سقراط نے واحد تماشائی کے طور پر شرکت کی۔
بلائی ٹس کے دور میں یونان میں جنگوں اور بیرونی حملوں نے معاشرتی زندگی کو منجمد کرکے رکھ دیا تھا۔ ہر یونانی کو فوج میں شامل ہونے کا حکم تھا۔ مرد کم ہوتے گئے اورعورت کی عورت سے محبت پروان چڑھی۔ ہم جنس پرستی جسے اوباما نے قانونی شکل دے کر برائی کے بدلے معاشرتی اقدار کا حصہ بنایا، یہ اوائلی دور سے انسانی جبلت میں پرورش پاتی رہی ہے۔ بلائی ٹس اپنی نظم میں کہتی ہے:
میں بستر کو ویسے ہی رہنے دوں گی
جیسا وہ چھوڑ کرگئی ہے
(بے ترتیب، شکن آلود اور سلوٹوں سے بھرا ہوا)
تاکہ اس کے جسم کا نقشہ بستر پر بنا رہے
کل تک میں غسل نہیں کروں گی
کوئی لباس نہیں پہنوں گی
بال نہیں بناؤں گی
مجھے ڈر ہے کہ اس کے بدن کا لمس نہ ختم ہوجائے
میں آج کھانا نہیں کھاؤں گی
نہ شام کو اپنے چہرے پر غازہ ملوں گی
نہ ہونٹوں پر سرخی لگاؤں گی
میں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی
اس ڈر سے
کہ کہیں اس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہوجائیں
بلائی ٹس کے اپنے دکھ تھے، جو وہ بے باکی سے بتا سکتی تھی، مگر یہ وہ معاشرہ ہے جس میں عورت اپنی پسندکا اظہار نہیں کرسکتی۔ ایسا کرنے پر وہ زندہ جلا دی جاتی ہے۔ جیسا لاہور میں نسرین بی بی نے اپنی بیٹی زینت کے ساتھ کیا تھا۔ اسے گھر سے بھاگ کے پسند کی شادی کرنے پر بیٹے کی مدد سے زندہ جلادیا۔ وہ بھائی جو خود باہر نہ جانے کیا کچھ کرتے ہیں اپنی بہن کو پسند سے جینے کا حق نہیں دے سکتے۔
محبت کو سب سے زیادہ خطرہ معاشرے کے دہرے معیار سے لاحق رہا ہے۔ لہٰذا وہ معاشرہ جو ہر طرح کی برائی کا شکار ہو، مگر محبت بھرے دل کو روندنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ ایسا سماج اندر سے کس قدرکھوکھلا اور منتشر ہوگا۔ جہاں ماں اپنی بیٹی کے حقوق کا دفاع کرنے کے بجائے اسے نام نہاد رسموں کے بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ پسندکی شادی کا حق تو اس سے مذہب نے بھی نہیں چھینا۔
عورت کے اندر ایک خلا رہ جاتا ہے جو اسے گھر سے ملتا ہے۔ عدم تحفظ اور معاشرتی تضادکی شکار ماں، بیٹی کے اندر بے یقینی کی کمی بھر دیتی ہے۔ کہیں باپ کی بے توجہی،اسے پیاس کا صحرا بنا دیتی ہے۔ عورت کے تلخ رویوں سے کہیں نہ کہیں ماضی کی دھتکار جھلکتی ہے۔ چاہے وہ بے رخی بھائی کی ہو، باپ نے دی ہو یا اس کی ہم جنس ماں نے ورثے میں عطا کی ہو۔ ایک ڈرا ، سہما بے یقینی پر مشتمل ،ایک ترسا ہوا لمحہ ہر پل اس کے خوابوں کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ یہ برے حالات ہوتے ہیں جو اسے خواب دیکھنے پر اکساتے ہیں۔ معاشرہ جب اس کے پہلے خواب کا قتل کرتا ہے تو اس تکلیف دہ کیفیت سے گزرکر وہ بنتی اور بگڑتی ہے۔ کہیں اپنے اندر مرتے خواب کی گھٹن اس کا حوصلہ بنتی ہے، توکہیں وہ اپنے لیے خود ساختہ پھندے کا انتخاب کرکے اس پر لٹک جاتی ہے۔ معاشرہ اگر عورت کی غلطی کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو تو نائلہ رندکبھی ایسی دردناک موت نہ مرتی۔ یہ لڑکیاں کیوں اپنا دکھ کسی سے نہیں بانٹ سکتیں،کیوں کسی سے مدد طلب نہیں کرتیں اورحادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔
جس معاشرے میں دیواروں سے ہم کلام ہونے کی روایتیں فروغ پاتی ہیں۔ وہاں دکھ بانٹنے پر انسان موت کو ترجیح دیتا ہے۔ ہر وقت اٹھی ہوئی انگلیوں کا خوف اس کے حواسوں پر طاری رہتا ہے۔معاشرے کی سوچ کے رخ پر مرنے اور جینے کی یہ روایتیں خوبصورت زندگیوں کو نگل جاتی ہیں۔ جتنی عورت کی احساس محرومی گہری ہوتی ہے۔ اتنا ہی اس کی گردن کے ارد گرد روایتوں کے پھندے تنگ ہونے لگتے ہیں۔ ہر گہری تشنگی کے قریب تباہی کی کھائی ساتھ سفر کرتی ہے۔ وہ معاشرہ جس نے سیراب کرنا سیکھا نہ ہو، پیاس بانٹتے بانٹے خواہشوں کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پے درپے خودکشی کی خبریں ملنے لگتی ہیں۔ گزشتہ سال کراچی کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم 16 سالہ لڑکے نے رشتے پرانکار کے بعد اپنے ساتھ زیر تعلیم لڑکی کو قتل کے بعد خودکو بھی گولی مارکے خودکشی کرلی تھی۔ کل کی خبر ہے کہ ٹیچر کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم نے محبت میں ناکامی پر خود کوگولی مار کر خودکشی کرلی۔ ایک تحقیق کے مطابق 2002ء میں 15000 افراد نے خودکشی کی جس میں 25 فیصد ٹین ایجرز شامل ہیں جب کہ 2011ء میں 2,131 افراد میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ تقریباً پانچ سے چھ لڑکیاں روز خودکشی کرتی ہیں۔اخبار میں آئے دن نوجوانوں کی خودکشی کی خبریں ملتی ہیں جن میں سے اکثر چھوٹی باتوں جیسے موبائل نہ ملنے پر خودکشی کرلیتے ہیں۔
گھر ہوں یا اسکول بچوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کے حوالے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوچکا ہے۔ والدین میں جو سمجھ یا ضبط ہوا کرتا تھا وہ آج کے دور میں مفقود ہے۔ وہ اس نئے دور کے تضادات اور انتشار کے پس منظر میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور نہ ان کی غلطیوں کو عقلی بنیاد پر سمجھنے یا حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی حال تعلیمی درسگاہوں کا ہے جس میں اسکول سے لے کر جامعات تک کے اساتذہ کے غیر منطقی رویے، نئی نسل کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔
محبت کی موت کے مختلف مناظر دیکھ کر مجھے ولیم بلیک کی نظم بیمارگلاب یاد آنے لگتی ہے۔ بلیک نے یہ نظم معاشرے کے خود ساختہ اخلاقی معیار اور محبت کی کرپشن کے پس منظر میں لکھی تھی۔ جس میں محبت کرنے والوں کو بیمارگلاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔
آج جنوری کا سرد ترین دن ہے اوراحساس بے حسی کی دھند میں لپٹا ہوا ہے۔ پے درپے بری خبروں نے اعصاب کو سن کرکے رکھ دیا ہے۔ ہوا کی ہر سانس میں ان کہے دکھوں کا ذائقہ شامل ہے اور مجھے سیفوکی ہم عصر یونانی شاعرہ بلائی ٹس بے اختیار یاد آرہی ہے۔ سات سو قبل مسیح سے تعلق رکھنے والی اس شاعرہ نے محبت کی بے باک شاعری کی۔ محبت اس کے لیے گناہ کا حصہ نہ تھی۔ یونان کے دور کی عورت نے بھی لاتعداد دکھ جھیلے۔ افلاطون نے عورتوں کوکم تر ثابت کرنے کی کم کوششیں نہ کی تھیں۔ دوسری جانب سقراط تھا، جس نے صنف نازک کو ناقص العقل قرار دیا، مگر اسپارٹا کی تباہی کے بعد وہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ عورتوں کی بدترین حالت اور معاشرتی بدسلوکی نے اسپارٹا کو تباہ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ معروف یونانی ڈراما نویس یوری پیڈیز عورتوں کے کمزور پہلوؤں کو ڈراموں میں اجاگرکرتا تھا۔ لہٰذا ایتھنز کی عورتیں اس کے خلاف محاذ آرائی میں مصروف ہوگئیں اور اسے شہر میں ''برے شوہر'' کے نام سے مشہورکردیا کیونکہ یوری پیڈیز کی دو شادیاں بری طرح سے ناکام ہوچکی تھیں۔اس نے جب ڈراما ٹروجن وومن لکھا تھا جس میں اس نے یونانی فوجیوں کوعورتوں، بوڑھوں و بچوں پر مظالم ڈھاتے دکھایا تو اسے ایتھنز میں ڈراما پیش کرنے کی اجازت نہ ملی۔لہٰذا اس نے سرحد کے باہر یہ ڈراما اسٹیج کیا، جس میں سقراط نے واحد تماشائی کے طور پر شرکت کی۔
بلائی ٹس کے دور میں یونان میں جنگوں اور بیرونی حملوں نے معاشرتی زندگی کو منجمد کرکے رکھ دیا تھا۔ ہر یونانی کو فوج میں شامل ہونے کا حکم تھا۔ مرد کم ہوتے گئے اورعورت کی عورت سے محبت پروان چڑھی۔ ہم جنس پرستی جسے اوباما نے قانونی شکل دے کر برائی کے بدلے معاشرتی اقدار کا حصہ بنایا، یہ اوائلی دور سے انسانی جبلت میں پرورش پاتی رہی ہے۔ بلائی ٹس اپنی نظم میں کہتی ہے:
میں بستر کو ویسے ہی رہنے دوں گی
جیسا وہ چھوڑ کرگئی ہے
(بے ترتیب، شکن آلود اور سلوٹوں سے بھرا ہوا)
تاکہ اس کے جسم کا نقشہ بستر پر بنا رہے
کل تک میں غسل نہیں کروں گی
کوئی لباس نہیں پہنوں گی
بال نہیں بناؤں گی
مجھے ڈر ہے کہ اس کے بدن کا لمس نہ ختم ہوجائے
میں آج کھانا نہیں کھاؤں گی
نہ شام کو اپنے چہرے پر غازہ ملوں گی
نہ ہونٹوں پر سرخی لگاؤں گی
میں کھڑکیاں دروازے بند رکھوں گی
اس ڈر سے
کہ کہیں اس کی یادیں ہوا میں تحلیل نہ ہوجائیں
بلائی ٹس کے اپنے دکھ تھے، جو وہ بے باکی سے بتا سکتی تھی، مگر یہ وہ معاشرہ ہے جس میں عورت اپنی پسندکا اظہار نہیں کرسکتی۔ ایسا کرنے پر وہ زندہ جلا دی جاتی ہے۔ جیسا لاہور میں نسرین بی بی نے اپنی بیٹی زینت کے ساتھ کیا تھا۔ اسے گھر سے بھاگ کے پسند کی شادی کرنے پر بیٹے کی مدد سے زندہ جلادیا۔ وہ بھائی جو خود باہر نہ جانے کیا کچھ کرتے ہیں اپنی بہن کو پسند سے جینے کا حق نہیں دے سکتے۔
محبت کو سب سے زیادہ خطرہ معاشرے کے دہرے معیار سے لاحق رہا ہے۔ لہٰذا وہ معاشرہ جو ہر طرح کی برائی کا شکار ہو، مگر محبت بھرے دل کو روندنا اپنا اولین فرض سمجھتا ہے۔ ایسا سماج اندر سے کس قدرکھوکھلا اور منتشر ہوگا۔ جہاں ماں اپنی بیٹی کے حقوق کا دفاع کرنے کے بجائے اسے نام نہاد رسموں کے بھینٹ چڑھا دیتی ہے۔ پسندکی شادی کا حق تو اس سے مذہب نے بھی نہیں چھینا۔
عورت کے اندر ایک خلا رہ جاتا ہے جو اسے گھر سے ملتا ہے۔ عدم تحفظ اور معاشرتی تضادکی شکار ماں، بیٹی کے اندر بے یقینی کی کمی بھر دیتی ہے۔ کہیں باپ کی بے توجہی،اسے پیاس کا صحرا بنا دیتی ہے۔ عورت کے تلخ رویوں سے کہیں نہ کہیں ماضی کی دھتکار جھلکتی ہے۔ چاہے وہ بے رخی بھائی کی ہو، باپ نے دی ہو یا اس کی ہم جنس ماں نے ورثے میں عطا کی ہو۔ ایک ڈرا ، سہما بے یقینی پر مشتمل ،ایک ترسا ہوا لمحہ ہر پل اس کے خوابوں کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ یہ برے حالات ہوتے ہیں جو اسے خواب دیکھنے پر اکساتے ہیں۔ معاشرہ جب اس کے پہلے خواب کا قتل کرتا ہے تو اس تکلیف دہ کیفیت سے گزرکر وہ بنتی اور بگڑتی ہے۔ کہیں اپنے اندر مرتے خواب کی گھٹن اس کا حوصلہ بنتی ہے، توکہیں وہ اپنے لیے خود ساختہ پھندے کا انتخاب کرکے اس پر لٹک جاتی ہے۔ معاشرہ اگر عورت کی غلطی کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھتا ہو تو نائلہ رندکبھی ایسی دردناک موت نہ مرتی۔ یہ لڑکیاں کیوں اپنا دکھ کسی سے نہیں بانٹ سکتیں،کیوں کسی سے مدد طلب نہیں کرتیں اورحادثوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔
جس معاشرے میں دیواروں سے ہم کلام ہونے کی روایتیں فروغ پاتی ہیں۔ وہاں دکھ بانٹنے پر انسان موت کو ترجیح دیتا ہے۔ ہر وقت اٹھی ہوئی انگلیوں کا خوف اس کے حواسوں پر طاری رہتا ہے۔معاشرے کی سوچ کے رخ پر مرنے اور جینے کی یہ روایتیں خوبصورت زندگیوں کو نگل جاتی ہیں۔ جتنی عورت کی احساس محرومی گہری ہوتی ہے۔ اتنا ہی اس کی گردن کے ارد گرد روایتوں کے پھندے تنگ ہونے لگتے ہیں۔ ہر گہری تشنگی کے قریب تباہی کی کھائی ساتھ سفر کرتی ہے۔ وہ معاشرہ جس نے سیراب کرنا سیکھا نہ ہو، پیاس بانٹتے بانٹے خواہشوں کے سیلاب میں بہہ جاتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ پے درپے خودکشی کی خبریں ملنے لگتی ہیں۔ گزشتہ سال کراچی کے ایک نجی اسکول میں زیر تعلیم 16 سالہ لڑکے نے رشتے پرانکار کے بعد اپنے ساتھ زیر تعلیم لڑکی کو قتل کے بعد خودکو بھی گولی مارکے خودکشی کرلی تھی۔ کل کی خبر ہے کہ ٹیچر کے عشق میں مبتلا ساتویں جماعت کے طالب علم نے محبت میں ناکامی پر خود کوگولی مار کر خودکشی کرلی۔ ایک تحقیق کے مطابق 2002ء میں 15000 افراد نے خودکشی کی جس میں 25 فیصد ٹین ایجرز شامل ہیں جب کہ 2011ء میں 2,131 افراد میں 60 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ تقریباً پانچ سے چھ لڑکیاں روز خودکشی کرتی ہیں۔اخبار میں آئے دن نوجوانوں کی خودکشی کی خبریں ملتی ہیں جن میں سے اکثر چھوٹی باتوں جیسے موبائل نہ ملنے پر خودکشی کرلیتے ہیں۔
گھر ہوں یا اسکول بچوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کے حوالے سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوچکا ہے۔ والدین میں جو سمجھ یا ضبط ہوا کرتا تھا وہ آج کے دور میں مفقود ہے۔ وہ اس نئے دور کے تضادات اور انتشار کے پس منظر میں بچوں کی نفسیات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور نہ ان کی غلطیوں کو عقلی بنیاد پر سمجھنے یا حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہی حال تعلیمی درسگاہوں کا ہے جس میں اسکول سے لے کر جامعات تک کے اساتذہ کے غیر منطقی رویے، نئی نسل کی تباہی کا سبب بن رہے ہیں ۔
محبت کی موت کے مختلف مناظر دیکھ کر مجھے ولیم بلیک کی نظم بیمارگلاب یاد آنے لگتی ہے۔ بلیک نے یہ نظم معاشرے کے خود ساختہ اخلاقی معیار اور محبت کی کرپشن کے پس منظر میں لکھی تھی۔ جس میں محبت کرنے والوں کو بیمارگلاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔