نئے امریکی صدر۔فاشسٹ یا لبرل
’’ٹرمپ اسرائیل کے سچے دوست ہیں‘‘
RAWALPINDI:
''ٹرمپ اسرائیل کے سچے دوست ہیں'' اسرائیلی وزیرِاعظم بنجامِن نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی پر ہدیہِ تبریک پیش کرتے ہوئے کہا تھا۔ بھارت اوراسرائیل کے یہ دوست270 ووٹوں کی مسابقت سے الیکٹرول کالج کا میدان بھی مارلینے کے بعد 20 جنوری کو اپنے عہد صدارت کا آغازکرنے والے ہیں۔ یوں آپ امریکا کے 45 ویں صدرہوں گے۔ٹرمپ کی کامیابی کوامریکا کی سیاسی تاریخ کے سب سے بڑے اپ سیٹ کے طور پر بھی دیکھا جارہا ہے کہ اُن کی یہ مہم نازی جرمنی کے ترجمان اور پرو پیگنڈے کے ماہر جوزف گوئبلزکے لیے بھی حیران کُن ہوگی۔
لبرل ازم کے حامیوں نے ابتدا سے ہی ٹرمپ کو ''فاشسٹ'' قرار دینا شروع کردیا تھا۔ ایڈم گوپنِک جو 1986ء سے ''دا نیویارکر'' میں اسٹاف رائٹر ہیں 20مئی 2016ء کو ٹرمپ پر نہ صرف شدید تنقید کرتے ہوئے اُسے فاشسٹ قرار دیتے ہیں بلکہ لکھتے ہیں کہ''ٹرمپ امریکا کے ''لبرل کانسٹی ٹیوشنل آرڈر'' کا اعلانیہ دشمن ہے''ٹیڈ کروز ٹرمپ کو پیدائشی جھوٹا قرار دیتا ہے جو جھوٹ اورسچ میں کوئی فرق نہیں رکھتا۔'' رابرٹ کاگن(بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے سینئیرفیلو اور واشنگٹن پوسٹ کے پرانے کالم نویس ہیں)۔ 18مئی 2016ء کے کالم ''فاشزم امریکا میں اِس طرح داخل ہو رہا ہے'' ٹرمپ کوامریکی جمہوریت کے لیے خطرہ قراردیتے ہیں۔
ایک اور اہم صحافی ''کرس ہیجز'' کے 16اکتوبر 2016ء کے کالم کا عنوان تھا ''ڈونلڈ ٹرمپ:فاشزم کی ڈریس ریہرسل''۔ ابھی چند ہی دن قبل 9 جنوری کو واشنگٹن پوسٹ میں رچرڈ کوہن کے ہفتہ وار کالم کا عنوان ہے''ٹرمپ کو صدارت سے کس طرح ہٹایا جاسکتا ہے'' کالم کے ابتدائی چند جملے بڑے ہی سخت ہیں۔ مثلاً ٹرمپ سو گھٹیوں کا ایک گھٹیا ہے، وہ شیخی خورا اور جھوٹا ہے۔''ٹرتھ آئوٹ''14نومبر2016ء کو امریکی دانشور''نوم چومسکی'' کا انٹرویو شایع کرتا ہے، چومسکی ٹرمپ کو ایک غیر معمولی خطرہ قراردیتے ہیں۔ اور یہ کہ ''ٹرمپ دراصل فاشزم کا دوستانہ چہرہ ہے'' چومسکی نے کہا میں گزشتہ کئی برس سے یہ ہی تو لکھ اور بول رہا ہوں،کہ امریکا میں ایسے نظریات پروان چڑھ رہے ہیں۔
اِس خطرے کا شکار معاشرے کے کمزور طبقات اور اقلیتیں بن سکتی ہیں۔(لیکن انھیں اِس خطرے کا ادراک نہیں کہ ماضی قریب میں گوروں کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہونے والی ہے، پھر اِس نسلی تفاخر و تعصب کی اندھی جنگ کا انجام کیا ہو گا؟)اِسی خطرے کا ''برٹرام گراس''(1912ء تا 12مارچ1997ء۔امریکی سوشل سائنٹسٹ،فیڈرل بیوروکریٹ، پروفیسر،1980ء میں لکھی گئی کتاب ''فرینڈلی فاشزم'' سے شہرت ملی) نے اب سے 3عشرے قبل اعلان کیا تھا۔آج وہ دوستانہ فاشزم پہلے سے کہیں زیادہ مہلک صورت میں آگیا ہے کیونکہ گلوبلائزیشن کا دور ختم ہو چکا ہے اور اب ٹرمپ کے ہاتھ بے انتہا طاقت آگئی ہے۔
''بہت سے امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ اُن کے مسائل حل کردیں گے، وہ نہیں جانتے کہ ٹرمپ کی تجاویز پر عمل سے جنم لینے والے نتائج شدید بحرانوں کا پیش خیمہ ہوں گے۔ٹرمپ جس تبدیلی کی بات کررہے ہیں وہ مہلک ہے۔افسوس کہ عام امریکی ادراک نہیں رکھتا۔امریکا کی40 فی صد آبادی عالمی ماحولیاتی حرارت کو مسئلہ ہی نہیں سمجھتی۔ٹرمپ کی فتح اور بریگزٹ میںیقینی مماثلت پائی جاتی ہے۔دوسری جانب یورپ میں انتہائی دائیں جانب کی قوم پرست پارٹیوں کو عروج مِل رہا ہے۔ وہ والہانہ سرُعت سے ٹرمپ کوکامیابی کی مبارک باد پیش کر چکے ہیں۔
وہ نو منتخب امریکی صدرکو اپنے جیسا ہی سمجھ رہے ہیں۔برطانوی نائیگل پال فیراج، فرانسیسی میرین لی پین،ہنگری کے وکٹر مہالے اوربن وغیرہ یہ سب ٹرمپ جیسے ہی ہیںاور یہ منظر نامہ بہت خوف زدہ کر دینے والا ہے۔آسٹریا اور جرمنی میں ہونے والے جائزے بتاتے ہیں کہ1930ء کی تلخ یادوں کے تازہ ہوجانے کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ٹرمپ کی پالیسیاں اور بیانات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔اُس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔البتہ یہ کہ خطرہ غیر معمولی ہے۔''
جارگن ہیبر ماس (18 جون 1929ء۔جرمنی کے معروف سماجیات دان اور فلسفی)کی اصطلاح ''لیجیٹی میشن کرائسس'' کے مطابق نیو لبرل ازم کا انہدام فاشس ازم کو جنم دیتا ہے۔سرمایہ داریت سوار تبدیل کردیتی ہے۔کیا واقعی ایسا ہونے جا رہا ہے؟بااختیار ترین امریکی صدر بھی اتنا بااختیار نہیں ہوتا ہے جتنا کہ تیسری دنیا کے لوگ سمجھ لیتے ہیں، لیکن آج تاریخ بدل رہی ہے۔وائٹ ہائوس میں ری پبلیکنز آچکے ہیں۔اُس سے بھی بڑھ کر وہ دونوں ایوانوںکے بعد سپریم کورٹ کو بھی کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔آیندہ 4برسوں میں امریکا میں اور دنیا میں کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں۔اپنے اندر حیرت ناک اور دور رس مضمرات لیے ہوں گی۔افسوس کے عالمی سطح کے فہیم عناصر کو خدشات اور خطرات بڑھتے محسوس ہورہے ہیں۔
ہمارے خیال میں لبرل یا تو خود مغالطے کا شکار ہیں یا وہ مغالطے میں مبتلا کرنا چاہ رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ فاشزم نہیں لبرل ازم کا اصل چہرہ ہے۔سرمایہ داریت، ترقی، لبرل ازم اور برابری۔ آج کے مذہب اور امریکی ریاست کے اجزائے ترکیبی و ایمان ہیں۔ ٹرمپ معروف معنوں میں سیاست دان نہیں کہ منافقت کا لبادہ اوڑھ کرکہیں کچھ کریں کچھ۔ وہ جو ہے سب کے سامنے ہے۔امریکی لبرل ازم، آزادی اور مساوات کی جو اصل ہے سو وہ وہی بیان کررہا ہے اورکرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے۔ وہ بغل میں چھری اورمنہ میں رام رام والا نہیں لگتا۔ اُس نے لبرل ازم کی نقاب اُلٹ دی ہے۔ لبرل ازم کی تاریخ خون خرابے، قتل وغارت گری اور دہشت گردی کی تاریخ ہے۔ جس کاآغاز ہی 10کروڑ سرخ ہندیوں کے قتل سے ہوتا ہے۔
ایک پوری نسل جو ختم کردی گئی۔ یہاں تک کہ بابائے لبرل ازم جان لاک (19اگست1632تا28اکتوبر1704)کی سوچ بھی کم متشددانہ نہ تھی۔ وہ نہ صرف غلامی کے قائل تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ سرخ ہندی(ریڈ انڈینز) اور جنگلی بھینسے میں کوئی فرق نہیں۔ انھیں افسوس تھا کہ سرخ ہندی انسان نہیں بن سکتے۔ وجہ یہ تھی کہ سرخ ہندی پراپرٹی رائٹس کے اور سرمایہ داریت کے قائل نہ تھے۔لہٰذا انھیں زندہ رہنے کا بھی کوئی حق نہیں۔پھر یہ ہی کیا بھی گیا قریباً10لاکھ سرخ ہندیوں کی نسل کُشی۔ تاریخ نے یہ بہیمیت کبھی نہ دیکھی ہو گی۔ کیمبرج سے شایع ہونے والی مائیکل مین کی کتاب ''دا ڈارک سائیڈ اوف ڈیموکریسی'' میں تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہاں تک کہ امریکی صدورروز ویلٹ اور لنکن وغیرہ نے سرخ ہندیوں کے بارے میں جو جارحانہ عزائم اور بے ہودہ الفاظ استعمال کیے ہیں وہ بھی درج ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ اتنے وحشی نہیں ہیں۔
''میڈ نس اینڈ سویلائزیشن''کا خالق،مائیکل فکالٹ (15اکتوبر1926ء تا25جون1984ء، فرانس کا مایہ ناز فلسفی)کہتا ہے کہ،اٹھارویں صدی سے قبل مکالمہ (ڈائیلاگ)ہوتا تھا،اب صرف اداروں کی بنیاد پر یکطرفہ خود کلامی (انسٹی ٹیوشنل مونو لاگ) ہوتا ہے ۔ ٹرمپ کی صورت میں لبرل ازم کا اصل مکالمہ شروع ہونے کو ہے ۔
محو ِحیرت ہوںکہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی۔