قسم سے
کورٹ اپنی آنکھ سے شواہد کو دیکھتی ہے، جس کی بنیاد ٹھوس، واضح اورجامع ہوتی ہے
RAWALPINDI:
کورٹ اپنی آنکھ سے شواہد کو دیکھتی ہے، جس کی بنیاد ٹھوس، واضح اورجامع ہوتی ہے، جب کہ عام آنکھ وطریقہ، حقیقت تک تو پہنچنا چاہتا ہے مگر اْس میں جھول بہت ہوتے ہیں۔
عین ممکن ہے کہ وہ حقیقت کو مسخ بھی کر دے اورآپ کو اپنی غلط فہمیوں کے ساتھ بہت آگے لے جائے اب کون جانے کے کون صادق ہے اورکون امین؟ جنرل ضیا کی ایک مجبور مجلس شوریٰ ( پارلیمنٹ) نے آرٹیکل 61 اورآرٹیکل 62 میں ترمیم تو ڈلوا دی مگر اس کی تشریح کے لیے کورٹ کو مشکل میں ڈال دیا۔ پارلیمنٹ کا کیا ''دن کو رات کہے، رات کو دن کہے، عورت کو مرد کہے مرد کو عورت کہے، شراب پر پابندی لگا دے یا سگریٹ نوشی کو ممنوع قرار دے دے۔ تو پھر ہوتا کیا ہے اْس کی تشریح اور اس تشریح پر عمل کروانا مفروضہ بن جاتا ہے۔
کسی کو ''صادق'' کسی کو''امین'' قرار دینا پھر ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔ جو دشمن ہے وہ جھوٹا ہے جودوست ہے وہ صادق ہے اور پھر یہی ہوا جو جنرل ضیاء چاہتے تھے، مگر کورٹ کے لیے سب سے اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ شواہد کو صدیوں پر مشتمل ارتقاء پر بنے، سائنسی انداز میں وضح کیے ہوئے طریقہ کار سے دیکھتی ہیں۔ جو بات مبہم ہے سو مبہم ہے۔جو بات مبہم نہیں ہے وہ واضح ہے، ٹھوس ہے جامع ہے وہ سچ ہے اور وہی شہادت ہے۔
'' وہ پری کہاں سے لاؤں جسے دلہن تری بناؤں'' گانے کی طرح پری ہو تو دلہن ہو بے چاری پری ایک مفروضہ ہے ہواؤں میں رہتا مفروضہ۔ بالکل اس طرح کون''صادق ''ہے اورکون ''امین'' جو معیار اْس کا ہے وہ اتنا بلند ہے کہ سوائے نومولود اور معصوم بچوں کے پاکستان کے بیس کروڑ عوام میں شاید ایک بھی صادق ہو امین ہو۔کورٹ کے پاس یا کسی ریسرچ اسکالرکے پاس شہادت کو دیکھنے کا بنیا دی اصول ایک ہے اور طریقہ کار بھی شاید ایک ہو مگر اس کا استعمال مختلف ہے۔
سائنس کو شہادت کے لیے بیان حلفی (Affidavit ) کی ضرورت نہ ہو مگر کورٹ کو ہوتی ہے اور گواہ جو کچھ بھی کہتا ہے وہ حلفیہ کہتا ہے۔ فوجداری مقدموں میں اس سے اور بھی سخت حلفیہ بیان لیا جاتا ہے کیونکہ اسی بیان پر کسی کی زندگی اور موت کا مدار ہوتا ہے اور جوبھی حلفیہ بیان دیتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ کورٹ کے کٹہرے میں بھی کھڑا ہو کہ اس کا مخالف یا پھر مخالف کا وکیل اس کے حلفیہ بیان پر جرح (cross examination ) کر سکے۔
ہماری عدالت نے بغیر کسی تحریر کے صادق اورامین پر خاموشی اختیارکرلی ہے وہ اس تفصیل میں نہیں جارہی کہ اگر اس کو چھیڑا جائے تو ایک بہت بڑا Pandora box کھل جائے گا پھر کوئی نا بچ سکے گا۔کچھ لوگوں نے کورٹ کو بے معنی کرنے کے لیے وکیلوںپر حملے کروائے، کورٹ پر خودکش حملے کروائے اورکوئٹہ کی المناک داستان رقم کی مگر ان کے پاس دیکھنے کی آنکھ واضح نہیں اور اس لیے دینے کے لیے کچھ نہیں۔اس بحث کو یہاں چھوڑتے ہوئے اسی حوالے سے آگے بڑھتے ہیں کہ ٹھیک ہے میاں صاحب پر آرٹیکل 61- 62 تو لاگو نہ ہو مگر جو حلفیہ بیان دے کے انھوں نے کورٹ میں کہا ہے کہ قطر کے شہزادے نے ان کو یہ عنایت کی تھی اور جو پارلیمنٹ کے ایوان زریں میںانھوں نے کہا وہ توکچھ اور تھا؟ جس کا ٹکراؤ ہوتا ہے ان کے حلفیہ بیان سے تو پارلیمنٹ میں ان کی غلط بیانی پر مواخذہ ہوسکتا ہے یا وہ اپنے آپ پر اخلاقیات صادرکرتے ہوئے استعفٰی عنایت کر دیں۔
ہماری جمہوریت اتنی بالغ اور بلیغ ابھی نہیں ہوئی۔اب کورٹ میں حلفیہ بیان جو انھوں نے دیا ہے وہ سچا ہے کہ جھوٹا ہے اس کے لیے انھوں نے آنا ہے اور عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے۔قطر کے شہزادے سے تعلقات تو اب کے ہیں مگر بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق سینٹرل لندن میں خریدے ہوئے فلیٹوں کا سلسلہ پرانا ہے۔ اب کورٹ کوئی پارلیمنٹ تو نہیں کہ نواز شریف کا مواخذہ نہ کرے۔ اسے معاف کر دے یا نواز شریف خود استعفٰی دے دیں پاناما کیس اب ایک نئی ڈگرپر نکل پڑا ہے ۔
مشکل یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے آرٹیکل (3 )184میں اتنی بڑی جیورسڈکشن ہے کہ وہ خود ٹرائیل کورٹ بن جائے اور شہادتوں کو پیمانے کے تحت پرکھے، ٹٹولے چھان بین کرے اور اگر ان کو جیورسڈکشن ہے تو سپریم کورٹ کو یہ اختیارملا ہے کہ وہ اپنی جیورسڈکشن کا خود بھی تعین کرسکتی ہے اور بڑھا بھی سکتی ہے ۔تو ایسا کرنا انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوگا یہ کہ ہمارے آئین کے مطابق؟ کیونکہ اگر پناما کیس میں فیصلہ نواز شریف کو لے ڈوبتا ہے یا یہ کہ عمران خان سْرخرو نہیں ہوتے تو پھر ان دونوں میں سے ایک فریق سپریم کورٹ کو دیے ہوئے ٹرائل کورٹ جیسے فیصلے کو کسی عدالت میں چیلنج کریں؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ (3)184کے تحت کمیشن بٹھانا تھا اورخود کمیشن کے اوپر ایک اور کمیشن ہوتا ہے جس کی ماہیت) pellant court)جیسی ہوتی ہے اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں بھی ایک اپیل بنتی ہے ۔
میاں صاحب کے حلفیہ بیان نے اور بی بی سی اردو کی رپورٹ نے اِن کے لیے بہت سی مشکلات پیدا تو کر دی ہیں مگر خود سپریم کورٹ کی(3)184جیورسڈکشن کی محدودیت نے خود کورٹ کے لیے مشکل پیدا کر دی ہے۔
اب آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ایسی مشکلات میں کورٹ کے فیصلے بڑے معنی رکھتے ہیں ۔ اب نظریہ ضرورت کی تاریخ وارد ہوئی توکسی کو سزا وجزا صادرکرنے سے جمہوریت پر بھی آنچ نہیں آئے گی ۔
مختصر یہ کہ عدلیہ آزاد ہے اْسے یہ خبر ہے اور عدلیہ آئین دوست ہوتی ہے۔ جب عدلیہ آئین دوست ہوتی ہے تو عدلیہ جمہوریت دوست بھی ہوتی ہے ۔تناظر یہ نہیں کہ کورٹ میں حلفیہ بیان کو اور میاں صاحب کی پارلیمنٹ میں کی ہوئی تقریر کو مقابل ٹہرایا جائے ۔
تناظر یہ ہے کہ میاں صاحب نے لندن میں فلیٹس ، قطر کے شہزادے سے ملی رقم وغیرہ سے لیے تھے یا جیسے کہ وہ اپنے حلفیہ بیان میں کہتے ہیں یا یہ کہ اس سے پہلے لیے تھے؟اور اگر یہ باتیںٹکراؤ میں آتی ہیں تو میاں صاحب پر حلفیہ بیان دینے پر سزا وجزا صادر ہوتی ہے جس کو انگریزی میںperjury کہا جاتا ہے مختصر یہ کے اردو میں اس کو ''جھوٹی گواہی''کہا جاتا ہے ۔
خیرپاناما، پاناما تو نہ ہوگا ہنگامہ تو ہوگا چوری تو نہیں کی ،ڈاکہ تو نہیں ڈالامگر فسانہ تو ہوگا ۔ جاتے جاتے موری اک عرض اور بھی سن لیجیے۔
پاکستان میں کرپشن کے حوالے سے قوانین بہت پسماندہ ہیںاب ہماری جمہوریت نے اتنی جڑیں پکڑ لی ہیںکہ انِ قوانین کو چست، چاق وچوبند کیا جا سکے ۔
ہم کو ان سے وفا کی ہے اْمید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
( غالبؔ)