بی آئی ایس پی کے ذریعے خواتین کی با اختیاری
فیصلہ سازی میں شمولیت سے خواتین کی حیثیت میں نہ صرف گھریلو سطح پر بہتری آئی ہے بلکہ برادری میں بھی واضح فرق پڑا ہے
خواتین کی معاشی زندگی میں بھر پور شمولیت کے لیے صنفی برابری اور خواتین کی با اختیاری کا حصول نہ صرف ان کا بنیادی حق ہے بلکہ ریاست کی اہم ذمے داری بھی ہے۔ خواتین کی با اختیاری کو نہ صرف ہدف کے طور پر بلکہ آج کے دور کے وسیع تر چیلینجز کے حل میں حصہ دار کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے۔
جنوبی ایشاء کا سب سے بڑا سوشل سیفٹی نیٹ پروگرام اس انفرادیت کا حامل ہے کہ یہ نہ صرف امدادی رقوم کی تقسیم کے ذریعے معاشی مضبوطی کے لیے خواتین کو ٹارگٹ کرتا ہے بلکہ ان کی سماجی ترقی کے لیے از حد ضروری امدادی نظام کو بھی یقینی بناتا ہے۔ یہ خاتون خانہ کو خاص طور پر پروگرام کا براہ راست مستحق قرار دیتا ہے۔ اور خواتین کو عزت نفس اور مقصد حیات فراہم کرتے ہوئے انھیں با اختیار بناتا ہے۔
آبی آئی ایس پی Impact Evaluation Report 2016اس مقداری اور معیاری ریسرچ کے نتائج پیش کرتی ہے۔ جو بی آئی ایس پی کے تیسرے مرحلے میں کی گئی ہیں ۔ میں اپنے قارئین کے لیے چند انڈیکیٹر کو مختصراً بیان کروں گی جنھوں نے نے پچھلے 5سالوں میں خواتین کی بااختیاری پر اثرات ڈالے ہیں۔
بی آئی ایس پی کے 8سالہ عرصے کے دوران بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کی قدر میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کی حقدار براہ راست پورے خاندان کے بجائے مستحق خاندان کی سربراہ خاتون کو قرار دیا گیا ہے۔ بی آئی ایس پی کے 10 فیصد مستحق گھرانوں میں 1.11%کی شرح سے ہر گھرانے میںایک سے زیادہ مستحقین رہتے ہیں۔
بی آئی ایس پی کا مستحق بننے کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ خاتون کے پاس کمپیوٹر ائزڈ شناختی کارڈ ہو جو کہ خواتین کی سیاسی شمولیت کو یقینی بناتی ہے۔ یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ بی آئی ایس پی کے مستحقین کی قومی سطح پر شرح خواندگی صرف9% ہے جب کہ صرف 8%نے پرائمری سطح تک تعلیم حاصل کی ہے۔ اس رپورٹ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ بی آئی ایس کی بدولت ان خواتین کی شرح میں نمایاں اور مثبت اضافہ ہوا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ خواہ قومی الیکشن ہوں یا مقامی الیکشن وہ ووٹ ضرور ڈالیں گی۔ 2011ء میں مستحق گھرانوں کی صرف 40%خواتین انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی خواہاں تھیں جب کہ 2016ء کی Impact Evaluation Reportکے مطابق یہ شرح 70%تک پہنچ چکی ہے۔
حال ہی میں بی آئی ایس پی نے 32اضلاع میں 55000 Beneficiary Comittees (BBCs) قائم کی ہیں۔ ان کمیٹیوں کا مقصد غذایت، بچوں کی صحت ، تعلیم ، فیملی پلاننگ اور تعلیم بالغاں کے کے علاوہ مستحق خواتین کو متحرک گرنے کے لیے پلیٹ فارم فہیار کرنا ہے۔ ان کمیٹیوں کی خواتین کی رائے ایسے پراجیکٹ ڈیزائن کرنے میں مدد کرتی ہے۔ جن کے ذریعے ان خواتین کے تعلیم، صحت اور مالیات سے متعلق مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمیں یہ ثبوت ملے ہیں کہ جب مالی امداد ایک خاندان کی مستحق خاتون کو دی جاتی ہے۔ تو اس خاندان کی بچیوں کی غذائی ضروریات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
رپورٹ یہ بھی تصدیق کرتی ہے ملک بھر میں 76%مستحق خواتین بی آئی ایس پی کی مالی معاونت پر مکمل کنٹرول رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اسے کیسے خرچ کیا جائے۔ مزید براں بی آئی ایس پی نے خواتین کی حیثیت میں بہتری لاتے ہوئے ، گھرانوں میں ان کی فیصلہ سازی کی قوت میں اضافہ کیا ہے۔
مستحق گھرانوں کے شوہروں اور بیٹوں میں بی آئی ایس پی کو بتدریج ایسے پروگرام کے طور پر تسلیم کیا جانے لگا ہے جو خواتین کے ذریعے مالی معاونت فراہم کرتاہے۔ اور اسی لیے اس مالی معاونت پر کنٹرول بھی خواتین کا ہونا چاہیے۔ 48مرد خواتین کے تفصیلی انٹرویو میں سے 38نے یہ کہا کہ مستحق خواتین کو خود اپنا وظیفہ وصول کرنا چاہیے اور یہ فیصلہ بھی خود کرنا چاہیے کہ اس وظیفے کو کسے خرچ کیا جائے۔
زیادہ تر انٹرویو دینے والے افراد نے کہا کہ مستحق خواتین اب رقوم کے استعمال سمیت گھریلو فیصلہ سازی میں زیادہ فعال کردار ادا کرتی ہیں اور یہ مثبت تبدیلی بی آئی ایس پی کی وجہ سے آئی ہے۔ یہ نتیجہ سب سے زیادہ خیبر پختونخواہ میں نظر آیا جب کہ دوسرے نمبر پر پنجاب رہا ۔ رپورٹ یہ بھی بتاتی ہے کہ فیصلہ سازی میں شمولیت سے خواتین کی حیثیت میں نہ صرف گھریلو سطح پر بہتری آئی ہے بلکہ برادری میں بھی واضح فرق پڑا ہے۔ مجموعی طور پر 96%مستحقین نے یہ بتایا کہ وہ مکمل یا جزوی طور پر اس بات سے مطمئین ہیں کہ وہ بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کیسے وصول کرتے ہیں۔
مستحقین کے اطمینان کے یہ نتائج ملک کے تمام صوبوں میں ایک جیسے ہیں۔ مالی معاونت وصول کرنے کے طریقے سے غیر مطمئین مستحقین کی شرح پنجاب میں صرف 7%، سندھ میں 4%، خیبر پختونخواہ میں 11%،بلوچستان میں 1%ہے۔ یوں مجموعی طور پر ملک بھر میں غیر مطمئین مستحقین کی شرح 4%ہے ۔ رپورٹ سے یہ بات بھی ظاہر کہ مستحقین بی آئی ایس پی Debit Cardکے فوائد کے پیش نظر ATMsکو فوقیت دیتے ہے کیونکہ ATMsکے ذریعے کوئی بھی کسی بھی وقت پیسے وصول کر سکتا ہے۔
رپورٹ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ بی آئی ایس پی نے خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی پر مثبت اور اعداد و شمار سے ثابت کردہ اثر ڈالا ہے۔ زیادہ تر مستحقین نے یہ بیاں کیا ہے کہ وہ بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کو بنیادی ضروریات پر خرچ کرتے ہیں۔ کچھ مستحقین نے یہ بتایا کہ مالی معاونت کا 80%خوراک پر 55%صحت پر اور 48%کپڑوں پر خرچ کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر مستحق گھرانوں میں مالی بچت کی سطح کم رہی ہے تا ہم 2011ء سے 2016ء کے عرصے کے دوران یہ شرح 9%گھرانوں سے بڑھ کر 13%ہوگئی ہے۔ جنھوں نے کسی قسم کی بچت کی ہو۔
بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کے نتیجے میں ان خواتین کی شرح میں کمی آئی ہے جو بغیر ادائیگی کے خاندانی طور پر مزدوری کرتی ہیں۔ رپورٹ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کچھ مستحق خواتین ذاتی کاروبار کرتی ہیں۔ جیساکہ مالی معاونت سے سلائی میشن خرید کر سلائی کڑھائی کا کام کرنا ۔ بی آئی ایس پی کی مالی معاونت کے نتیجے میں مستحقین کا دیہاڑی دار مزدوری پر انحصار کم ہوا ہے۔ 2011ء سے 2016ء تک کے عرصے کے دوران پر دیہاڑی دار مزدوری پر انحصار 51%مستحق گھرانوں سے کم ہو کر 45%مستحق گھرانوں تک پہنچ چکا ہے۔
رپورٹ میں اس بات کا بھی ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ بی آئی ایس پی کی مالی معاونت سے کھپت کے اخراجات میں اضافے کے معاملے کی حد تک مستحقین کی فلاح و بہبود میں اضافہ ہوا ہے۔ معیار زندگی میں بہتری سے متعلق بھی ٹھوس ثبوت حاصل ہوئے ہیں جن کے مطابق مستحق گھرانوں میں بہتر معیار کا آٹا اور پکانے کا تیل کا موجود ہونا ہے۔ BISP Impact Evaluation Reportکے نتائج سے یہ صاف ظاہر ہے کہ بی آئی ایس پی کا کردار مستحق خواتین کو صرف مالی معاونت فراہم کرنے سے بہت زیادہ ہے۔
بی آئی ایس پی کی مالی معاونت مستحقین کو اپنے سیاسی، سماجی اور مالی حقوق کو استعمال کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ 2016ء کی رپورٹ میں پہلی مرتبہ یہ بات سامنے آئی ہے کہ بی آئی ایس پی نے مستحقین کی بچت میں اضافے اور مادی بھلائی کے اضافے میں مدد کی ہے۔ رپورٹ یہ واضح کرتی ہے کہ بی آئی ایس پی کے اثرات آہستہ آہستہ بڑھ رہے ہیں جن کی بدولت مستحق گھرانوں کی روزگار سے متعلق حکمت عملیوں میں تبدیلی آرہی ہے اور مستحق خواتین اپنے خاندانوں کو برابری کی بنیاد پر مدد فراہم کر رہی ہیں۔
( مضمون نگار وزیر مملکت و چئیر پرسن بی آئی ایس پی، ایم این اے ہیں)