کیا بات ہے تیری ’’چیرن‘‘
ایک قصبہ، جس کے باسیوں نے لڑکر غنڈوں کے ساتھ سیاست دانوں اور پولیس سے بھی نجات حاصل کرلی
میکسیکو کے قصبے چیرن (Cherán )میں خُنک اور بادلوں سے ڈھکی شام اُتر آئی ہے۔ یہ جولائی کا وسط ہے۔ میکسیکو کے قدیم باشندوں Purépecha کا ایک گروہ مقامی اسکول کے صحن میں جمع ہے، یہ اجتماع دراصل باقاعدہ سے ہونے والی کمیونٹی اسمبلی ہے۔ اسٹیل کی صحن پر پڑی اسٹیل کی چادر پر پڑتی بوندیں اور کھیل کود میں مصروف بچوں کے شور سے فضا گونج رہی ہے۔ اس چھت کے نیچے گہری نیلی شالیں اوڑھے خواتین اور جنگل سے کام نمٹا کر آنے والے بوڑھے اور نوجوان تبادلۂ خیال میں مصروف ہیں۔
اکٹھ یا اسمبلی کی شروعات ایک نوجوان ''آرڈر آف دی ڈے'' پڑھ کے کرتا ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ قصبے کے 6 لاکھ 73 ہزار 563 ڈالر پر مبنی سالانہ میزانیے پر پوری تفصیل سے بات ہوگی اور ایک ایک سینٹ کا حساب پیش کیا جائے گا۔ ان کے نزدیک پبلک ورکس آفس کے چار اراکین کو عوام کے پیسے سے تعمیر کردہ سڑکوں، گلیوں اور دیواروں پر خرچ کردہ ہر ''پینی'' کے بارے میں بتانا چاہیے۔حکام کی جانب سے پیش کردہ کچھ اعدادوشمار حاضرین کے لیے معقولیت پر مبنی نہیں تھے۔ ایک شخص نے اپنا ہاتھ اٹھا اور ایک ہی موضوع پر کوئی درجن بھر سوال کرڈالے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایک پہاڑی پر سیڑھیاں بنانے کے لیے 6 ہزار 270 ڈالر خرچ کرنے کی بات کیوں کی جارہی ہے، جب کہ یہ مجموعی لاگت 5 ہزار405 ڈالر ہے ؟
''باقی کے پیسے کہاں گئے؟'' اس نے پوچھا۔
''ہر چیز کا ثبوت موجود ہے۔'' حکام میں سے ایک Domingo Tapia نے جواب دیا۔ اسے اپنے منصب پر فائز ہوئے ابھی ایک سال گزرا تھا، اور یہ منصب مقامی آبادی نے اسے کڑی چھان بین کے بعد عطا کیا تھا۔ ''خریداری کی کچھ دستاویزات ہم سے کھوگئی ہیں۔'' اس کے لہجے میں شرمندگی اور جھجک تھی۔
''فضول جواب۔'' ایک عورت نے اس عذر پر اسے ڈانٹ پلادی۔ ''ہم بہت سے معاملات میں غلطی کرسکتے ہیں، مگر اعدادوشمار میں نہیں۔'' اسے نے اپنی بات جاری رکھی،''تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے دستاویزات کھودیں۔ ہم حساب کتاب میں شفافیت چاہتے ہیں۔ اگلی بار آؤ تو بہتر ہوگا کہ ٹھیک ٹھیک اعدادوشمار لے کے آؤ۔''
چیرن کے باسی اس طرح کے اجتماعات سے بہت مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہ سب ہونا پانچ سال پہلے تک ممکن نہ تھا۔
میکسیکو کی ذیلی ریاست Michoacán کے دیگر علاقوں کی طرح چیرن بھی مُنظّم جرائم اور استحصال کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اغوا، دھمکیاں اور درختوں کی غیرقانونی کٹائی روز کا معمول تھا۔ اس قصبے کے لوگ خود کو کم زور، بے وقعت اور غیرمحفوظ خیال کرتے تھے، کیوں کہ نہ تو پولیس اور نہ ہی مقامی انتظامیہ انھیں تحفظ فراہم کرنے کی اہل تھیں، نہ ہی اس کی خواہش مند۔ لیکن پھر 15اپریل 2011 کا دن آیا، اور چیزیں تیزی سے تبدیل ہونے لگیں۔
استحصال، غنڈاگردی اور بدعنوانی سے عاجز آجانے والے اس قصبے کے باسی سرجھکا کر اور حالات کو قسمت کا لکھا جان کر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہ سکتے تھے، مگر انھوں نے عزت اور حمیت کا راستہ چُنا، اور راہ بری کا فریضہ صنف نازک نے انجام دیا۔ انقلاب کا آغاز قصبے کی عورتوں کے خفیہ اجلاسوں سے ہوا، جہاں غنڈوں سے نبردآزما ہونے کے لیے منصوبے ترتیب دیے گئے۔ یہ سب ایک ایسے ماحول میں ہورہا تھا جہاں قتل اور اغوا روزوشب کا حصہ تھے۔ جہاں نقاب پوش (نامعلوم افراد!) قصبے میں منڈلاتے اور اسلحے کے زور پر چھوٹاموٹا کاروبار کرنے والوں سے من مانا بَھتّا وصول کرتے تھے۔ قصبے کے باسی کوئی تین سال سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا محبوب اور معاشی کفیل جنگل اجاڑا جارہا ہے۔ ان کے گھروں کے سامنے سے ٹرک کے ٹرک گزرتے، جن پر جنگل سے کاٹے گئے ہرے بھرے پیڑوں کی شاخیں اور تنے لدے ہوتے۔
میکسیکو کے منشیات فروش گروہ اپنے اصل دھندے کے ساتھ دوسرے منافع بخش شعبوں میں بھی پنجے گاڑ چکے ہیں، جن میں لکڑی کی صنعت بھی شامل ہے، جو جنگل سے ملحق چیرن کے باسیوں کے لیے بنیادی معیشت کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2011میں منشیات فروشوں کے پیڑکاٹنے والے آلۂ کار درختوں کا قتل عام کرتے قصبے کے ایک چشمے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ قصبے میں انقلاب لانے والوں میں شامل Margarita Elvira Romero اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،''ہم خوف زدہ تھیں۔ اگر درخت کاٹ ڈالے گئے تو پانی کی کمی واقع ہوجائے گی۔ پھر ہمارے شوہر جو مویشی پالتے ہیں اگر چشمہ خشک ہوگیا تو وہ پانی کہاں سے پییں گے۔ ''
حالات سے تنگ آجانے والوں کو مستقبل کے خدشات نے بے کل کردیا۔ خفیہ اجلاسوں کے بعد یہ خواتین جنگل میں گئیں اور وہاں موجود مسلح افراد کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ درخت نہ کاٹے جائیں۔ لیکن ان کی ایک نہ سُنی گئی اور انھیں گالیاں دے کر بھگادیا گیا۔ یوں آخری راستہ بھی بند ہوا، مذاکرات کا راستہ۔ اب اجلاسوں میں طے کیے گئے منصوبے پر عمل کرنا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ بہت خطرناک ہے، مگر انھیں درخت کو نگلتے ٹرکوں کو روکنا تھا، جس کے لیے قصبے کے دیگر لوگوں کی مدد درکار تھی۔
پندرہ اپریل کا دن ایک حیرت انگیز منظر لے کر طلوع ہوا۔ جنگل سے آکر قصبے سے گزرنے والی سڑک چھڑیوں اور آتشیں مواد سے لیس عورتوں نے جنگل اجاڑنے والوں اور ان کی گاڑیوں کے لیے بند کردی، اور پیڑ کاٹ کر لانے والوں میں سے کچھ کو یرغمال بنالیا۔ پو پھٹتے ہی جوں ہی چرچ کی گھنٹیاں بجیں قصبہ دھماکا خیز مواد پھٹنے سے گونج اٹھا، جو انقلاب کا ہراول دستہ بنی عورتوں نے قصبے کے باسیوں کو ہوشیار کرنے کے لیے کیا تھا۔ لوگ جاگ اٹھے، ان کی مدد کو دوڑ پڑے۔ مشتعل خواتین کو بڑی مشکل سے سمجھانا پڑا کہ وہ یرغمالیوں کو چرچ کے باہر لگے قدیم درخت سے نہ باندھیں۔ لوگ خنجر لیے دوڑے چلے آرہے تھے، آنے والے مردوں اور عورتوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ لوگ مسلسل چِلّا رہے تھے اور چرچ کی گھنٹیاں تواتر سے بج رہی تھیں۔
مقامی پولیس میئر کے ساتھ موقع پر پہنچی اور یرغمالیوں کے ساتھی بھی انھیں چُھڑانے آپہنچے۔ قصبے کے لوگوں، پولیس اور موقع پر موجود جرائم پیشہ عناصر کے درمیان معاملے پر شدیدکشمکش جاری تھی، جس کا خاتمہ ایک نوجوان کے ہاتھوں دو غنڈوں کے جھلسنے سے ہوا جس نے ان پر آتشیں مواد پھینک دیا تھا، جس کے ساتھ ہی چیرن کی خودمختاری اور یہاں امن وسکون کا دور شروع ہوگیا۔ قصبے کو درختوں کی غیرقانونی کٹائی کرنے والوں اور دیگر غنڈوں سے نجات مل گئی، جو منشیات فروشوں کے آلہ کار تھے اور انتظامیہ کے حکام ان سے ملے ہوئے تھے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے اس مظاہرے نے خودارادیت اور خودمختاری کی تحریک کی بنیاد ڈالی، جو تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔
پولیس اور مقامی سیاست داں فوری طور پر قصبے سے رفوچکر ہوگئے، کیوں کہ وہ لوگوں کے اس شبہے کی زد میں آگئے تھے کہ ان کے جرائم پیشہ گروہوں سے مراسم ہیں۔ اسی دن سے قصبے میں سیاسی جماعتوں کا کالعدم قرار دے دیا گیا، اور آج تک ان کی سرگرمیوں پر پابندی عاید ہے۔ اس پابندی کا سبب یہ ہے کہ قصبے میں بسنے والوں کے خیال میں سیاسی جماعتیں لوگوں کو تقسیم کردیتی ہیں۔ عدالتوں نے اس قصبے کے ریاستی سیاست سے دور رہنے کا حق تسلیم کرتے ہوئے اسے مقامی، ریاستی اور وفاقی انتخابات میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
جرائم پیشہ عناصر سے نجات پاتے ہی قصبے میں آنے والی تینوں سڑکوں پر چوکیاں بنادی گئیں، جہاں نگرانی کے لیے مسلح رضاکار موجود رہتے ہیں۔ یہ چوکیاں اب بھی برقرار ہیں جہاں قصبے کی نئی انتظامیہ کی تشکیل کردہ پولیس تعینات رہتی ہے، جس کا خواتین بھی حصہ ہیں۔ ان چوکیوں پر آنے والی ہر گاڑی کو روکا جاتا ہے، ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جانا ہے؟ ان چوکیوں کا مقصد قصبے کے امن اور جنگل کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس پولیس کے بانیوں میں سے ایک Heriberto Camposکہتے ہیں،''ابتدا میں ہم بندوقوں کے استعمال کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لیکن اب ہم جان گئے ہیں کہ کیسے لڑنا ہے، اگر جرائم پیشہ عناصر واپس آتے ہیں تو ہم ان سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔''
چیرن کا اپنا نظام انصاف ہے، جس کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں، جیسے 18نوجوانوں کو اس جرم میں جیل کی ہوا کھانی پڑی کہ وہ شراب پی کر گلیوں میں گھوم رہے تھے یا نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کر رہے تھے۔ قانون شکنی کی سزا کے طور پر جرمانے بھی ہوتے ہیں اور سماجی نوعیت کے کام بھی کروائے جاتے ہیں، جیسے کوڑاکرکٹ اٹھوانا۔
تشدد اور جرائم سے بھری میکسیکو کی ریاست Michoacan کے تمام شہروں اور قصبوں کے لیے چیرن امید کی کرن بن کے سامنے آیا ہے۔ اس قصبے کا امن اور محفوظ ماحول ریاست کے خوف کے سائے میں جیتے علاقوں کے لیے ایک حیرت انگیز اور تاب ناک مثال ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے مختلف علاقوں میں لوگ سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں، چیرن کے لوگ روایتی اداروں پر انحصار ترک کرکے اجتماعی معاملات چلانے کے لیے اپنا الگ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کو عملاً ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قدیم مقامی روایات اور اقدار جدید دور میں اپناتے ہوئے وہ ان کے مطابق ایک محفوظ اور بہتر سماج کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
کسی بھی اعتبار سے یہ معمولی تبدیلی نہیں۔ چیرن اس علاقے میں واقع ہے جہاں نہایت طاقت ور اور ہر وقت تشدد پر تیار منشیات فروش گروہ عملاً حکم رانی کرتے ہیں۔ یوایس ڈرگ انفورسمینٹ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ان میں سے بعض وسطی میکسیکو میں تیزی سے اپنا دھندا بڑھا رہے ہیں۔ Michoacán میکسیکو میں کیمیکلز سے تیار کردہ منشیات (synthetic drugs) کی سب سے بڑی تیارکنندہ ریاست ہے، جو marijuanaاور پوست کی بہت بڑی برآمدکنندہ بھی ہے۔ منشیات فروش گروہوں کی باہمی کشمکش نے اس خطے میں ایک طویل اور خونی جنگ کو جنم دیا، جو شدت پاتی چلی گئی ہے۔ ان گروہوں کو جزوی طور پر امریکا سے مالی امداد ملتی ہے۔
ان حالات میں یہ بات ہر ایک کے لیے حیرت انگیز ہے کہ 19ہزار نفوس پر مشتمل یہ برادری کس طرح خودانحصاری کی کام یاب تحریک چلانے کے قابل ہوئی اور خود کو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کی مداخلت سے بچائے رکھا۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اب کس طرح کے چیلینج درپیش ہوسکتے ہیں۔
''یہ برادری پر منحصر ہے۔'' قصبے کے انتظامات سنبھالنے والے 12ارکان میں سے ایک پیڈرو شاویز کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،''عدم تحفظ اور غیریقینی صورت حال میں رہنے کے بعد ہم نے کم سے کم اچھے حالات پیدا کیے، فیصلہ کیا کہ ہم اپنی جڑوں کی طرف لوٹیں گے اور گروہی اتحاد اپنے وسائل کی تعظیم پر مبنی زندگی کا ایک مختلف راستہ تعمیر کریں گے۔''
یہ کوئی آسان لڑائی نہیں تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس میں 20 جانیں گئیں۔ سرکاری سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے وفاق اور ریاست حکومت سے طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی۔ اس جرأت اور جدوجہد کے باعث چیرن میں ایک منفرد طرز کی حکومت قائم ہے، جس میں ساری کی ساری طاقت عوام کے پاس ہے۔ یوں یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہوگئی ہے۔ قصبے میں کوئی فیصلہ استصوابِ رائے کے بغیر نہیں کیا جاتا۔ کسے کوئی ملازمت دینی ہے، کیا تعمیر کیا جانا ہے، عوامی خدمات کی تفویض، میزانیے کا جائزہ، ہر عمل میں قصبے کے تمام لوگ شامل ہوتے ہیں۔ قصبے کی اسمبلی کو مقامی حکومت کے کسی بھی ادارے پر فوقیت حاصل ہے۔
کبھی کبھی یہ سب بہت ناگوار اور مشکل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات کسی معاملے پر اسمبلی میں گھنٹوں بوجھل گفتگو پر مبنی مباحثہ گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ تاہم اس سب کے آخر میں جو خوش گوار نتیجہ نکلتا ہے اسے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہوگا ''احتساب''، جس کے لیے پاکستان کے عوام ترس رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ بدعنوانی اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے مصائب کا شکار ہے، چیرن واحد جگہ ہے جہاں احتساب اپنے حقیقی معنی کے ساتھ زندہ اور بروئے کار ہے۔
درس وتدریس سے وابستہ 36 سالہ شاویز کہتے ہیں،''یہ ایک تھکادینے والا عمل ہے، اور بعض اوقات اہم فیصلوں کو تاخیر کا شکار کردیتا ہے۔ تاہم ہمارا طرزحکومت، لوگ، اسمبلی۔۔۔یہ سب قواعد پر مبنی ہے۔ یہ ایک الگ نوعیت کی حکومت ہے، جو ہمارے لیے بہت عمدگی سے کام کر رہی ہے۔''
اسمبلی میں فیصلہ سازی کا عمل لوگوں کے حلقوں کی صورت میں کسی موضوع پر باہمی تبادلۂ خیال سے شروع ہوتا ہے، جو کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اپنے نمائندوں کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے چار حلقے ہیں، جن میں سے سب کا ایک ایک رابطہ کار ہے۔ یہ حلقے تجاویز یا قراردادیں منظور کرکے رابطہ کاروں کے ذریعے قصبے کی 12رکنی انتظامی قیادت تک پہنچادیتے ہیں، جسے مقامی زبان میں ''K'eris'' کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ بزرگ ترین اور دانا ترین افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے تحت قصبے میں آٹھ دفاتر قائم ہیںِ، جو لوگوں کے فیصلے نافذ کرتے ہیں۔
قصبے میں ہر نمائندہ ایک غیرروایتی طریقے سے منتخب ہوتا ہے۔ سب سے پہلے لوگوں کے حلقے پس منظر، صلاحیتوں اور قابل اعتماد ہونے کی بنیاد پر امیدواروں کے نام تجویز کرتے ہیں۔ چناؤ والے دن لوگ اس امیدوار کے پیچھے قطار بنالیتے ہیں جسے وہ منتخب کرنا چاہتے ہیں، جس کے حامیوں کی قطار سب سے طویل ہو وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ یہ طریقہ گویا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہیں جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ تاہم، جب وہ نمائندہ منتخب ہوجاتا ہے تو بعض اوقات یہ اعتماد بہت جلد عدم اعتماد میں بدل جاتا ہے۔ اس بابت شاویز کہتے ہیں،''یہ ایک ثقافتی معاملہ ہے، ایک ایسی چیز جو ہمیں سیاسی نظام سے ورثے میں ملی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی قوت بدعنوان بنادیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے نمائندوں سے اوپر رہنا چاہتے ہیں، جو میرے خیال میں ایک صحت مند رجحان ہے۔''
قصبے کی مقامی حکومت کی معیشت جنگل کے وسائل، زراعت، تجارت اور امریکا میں مقیم قصبے کے لوگوں کی ترسیلات زر پر منحصر ہے۔ جنگل کا 60 فی صد درختوں کی غیرقانونی کٹائی کی نذر ہوجانے کے باعث دس سے پندرہ سال کے دوران جنگل کو لوگوں کے روزگار کے لیے قابل انحصار بنانا مقامی حکومت کے لیے اہم چیلینج ہے۔ مقامی تاجر Salvador Campos جو فرنیچر اسٹور کے مالک اور مقامی منتظمین میں شامل ہیں، کہتے ہیں،''ہم نے سماجی استحکام اور تحفظ کی منزل تو پالی ہے، لیکن ہم اپنے لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا نہیں کر پارہے ہیں۔ اور روزگار کا نہ ہونا ہمیں غیرمحفوظ بناتا ہے۔''
چیرن میں نہ تو ایسی دکانیں ہیں جہاں ہر شے دست یاب ہو، نہ سپرمارکیٹس، یہاں تجارتی سرگرمیاں ریڑھی والوں اور مقامی سطح کی تجارت تک محدود ہیں۔ کوئی عورت اپنے گھر کے دروازے پر مرغی بیچتی نظر آتی ہے تو کوئی ٹوکری میں مٹھائی فروخت کرتی دکھائی دیتی ہے اور کچھ لوگ مقامی مصنوعات بیچتے ہیں۔ قصبے میں قصاب کی ایک ہی دکان ہے، جہاں بس گوشت کا ایک بڑا سا پارچہ ٹنگا رہتا ہے۔ بس یہی ہے کل تجارت، جس پر خاندانوں کا گزارہ ہوتا ہے۔
قصبے میں لے دے کر چار صنعتیں ہیں۔۔۔ آرا مشین، درختوں کی نرسری، گوند بنانے کا کارخانہ اور پتھروں کی کان۔ تاحال ان میں سے کوئی بھی صنعتی یونٹ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہے، ان سب کا زیادہ تر انحصار وفاقی حکومت کی امداد پر ہے۔ اس وقت قصبے میں زیادہ تر دست یاب ملازمتیں عارضی نوعیت کی ہیں۔ تاہم پانی کی صفائی کے نوتعمیرشدہ پلانٹ نے کچھ ملازمتیں فراہم کی ہیں۔
کسب معاش کا اہم ذریعہ آرا مشین ہے، جہاں جنگل سے کاٹ کر لائی جانے والی لکڑی کو ہموار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ لکڑی کی غیرقانونی کٹائی کرنے والوں کو مار بھگانے کے بعد اس عمل پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ اب صرف ان درختوں کا کاٹا جاسکتا ہے جو پرانے، بیمار یا قدرتی وجوہات کی بنا پر شکست وریخت کا شکار ہوچکے ہوں۔ اس کے ساتھ جنگل میں شجرکاری کا ایک منصوبہ شروع کردیا گیا ہے۔ پندرہ سے بیس سال کے عرصے پر محیط یہ منصوبہ قصبے کے روشن مستقبل کی نوید ہے، جو نئے درختوں کی صورت میں جنگل کو نئی زندگی دے گا۔ 2011 میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور مقامی لوگوں کے چہرے اس امید سے روشن ہیں کہ یہ منصوبہ جنگل کے اُجڑ جانے والے ساٹھ فی صد علاقے کو دوبارہ ہرابھرا کردے گا۔
اپنے جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کردہ نئے انتظام کے ساتھ چیرن کے لوگ امن وسکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قصبے میں کوئی جرم ہوتا ہے تو بس ڈھورڈنگر چرانے کی وارداتیں۔ خودمختاری کے پانچ سال کے دوران نہ کوئی قتل ہوا، نہ جنسی زیادتی کا واقعہ اور نہ ہی کوئی پُرتشدد جرم وقوع پذیر ہوا۔ حفاظتی انتظامات رضاکاروں نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرائم پیشہ عناصر سے نجات میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ یہ عام شہری ہیں، جو روزانہ جنگل اور قصبے کی گلیوں میں گشت کرتے ہیں۔ وہ قصبے کے مرکزی داخلی راستوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔
قصبے میں داخل ہونے والے ہر اجنبی کو ایک چوکی سے گزرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اندیشے والی بات نظر آئے تو ریڈیو کے ذریعے آگاہی دی جاتی ہے اور پورا قصبہ خبردار ہوجاتا ہے۔ حفاظتی دستے کے ارکان کو، جو مناسب طور پر تربیت یافتہ نہیں، اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ریاستی انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس قصبے میں پولیس تعینات ہو، لیکن مقامی لوگ ماضی کے تجربے کے باعث یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ خود کو پولیس کے بغیر زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ شاویز کہتے ہیں،''ہماری تحریک کا مقصد اپنی حفاظت آپ تھا۔ جب ہمیں منظم جرائم کرنے والوں کی دھمکیوں کا سامنا تھا تو حکومت نے ہم پر کوئی توجہ نہیں دی اور اب وہ مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ ریاستی پولیس کا حصہ بننا ہمیں ہماری خودمختاری سے محروم کردے گا۔''
اس چھوٹے سے قصبے نے ظلم واستحصال اور بدعنوانی کے شکار دنیا کے ہر ملک، ہر شہر اور قصبے اور گاؤں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تبدیلی کی خواہش ہو اور واضح مقاصد کے ساتھ اس کے لیے جدوجہد کی جائے تو اندھیرے روشنی میں بدل جاتے ہیں۔ اس قصبے کے باسیوں نے دنیا کو حقیقی جمہوریت کا چہرہ دکھا دیا ہے، بہت روشن چہرہ۔
اکٹھ یا اسمبلی کی شروعات ایک نوجوان ''آرڈر آف دی ڈے'' پڑھ کے کرتا ہے۔ لوگوں کو توقع تھی کہ قصبے کے 6 لاکھ 73 ہزار 563 ڈالر پر مبنی سالانہ میزانیے پر پوری تفصیل سے بات ہوگی اور ایک ایک سینٹ کا حساب پیش کیا جائے گا۔ ان کے نزدیک پبلک ورکس آفس کے چار اراکین کو عوام کے پیسے سے تعمیر کردہ سڑکوں، گلیوں اور دیواروں پر خرچ کردہ ہر ''پینی'' کے بارے میں بتانا چاہیے۔حکام کی جانب سے پیش کردہ کچھ اعدادوشمار حاضرین کے لیے معقولیت پر مبنی نہیں تھے۔ ایک شخص نے اپنا ہاتھ اٹھا اور ایک ہی موضوع پر کوئی درجن بھر سوال کرڈالے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ایک پہاڑی پر سیڑھیاں بنانے کے لیے 6 ہزار 270 ڈالر خرچ کرنے کی بات کیوں کی جارہی ہے، جب کہ یہ مجموعی لاگت 5 ہزار405 ڈالر ہے ؟
''باقی کے پیسے کہاں گئے؟'' اس نے پوچھا۔
''ہر چیز کا ثبوت موجود ہے۔'' حکام میں سے ایک Domingo Tapia نے جواب دیا۔ اسے اپنے منصب پر فائز ہوئے ابھی ایک سال گزرا تھا، اور یہ منصب مقامی آبادی نے اسے کڑی چھان بین کے بعد عطا کیا تھا۔ ''خریداری کی کچھ دستاویزات ہم سے کھوگئی ہیں۔'' اس کے لہجے میں شرمندگی اور جھجک تھی۔
''فضول جواب۔'' ایک عورت نے اس عذر پر اسے ڈانٹ پلادی۔ ''ہم بہت سے معاملات میں غلطی کرسکتے ہیں، مگر اعدادوشمار میں نہیں۔'' اسے نے اپنی بات جاری رکھی،''تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے دستاویزات کھودیں۔ ہم حساب کتاب میں شفافیت چاہتے ہیں۔ اگلی بار آؤ تو بہتر ہوگا کہ ٹھیک ٹھیک اعدادوشمار لے کے آؤ۔''
چیرن کے باسی اس طرح کے اجتماعات سے بہت مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہ سب ہونا پانچ سال پہلے تک ممکن نہ تھا۔
میکسیکو کی ذیلی ریاست Michoacán کے دیگر علاقوں کی طرح چیرن بھی مُنظّم جرائم اور استحصال کے پنجوں میں جکڑا ہوا تھا۔ اغوا، دھمکیاں اور درختوں کی غیرقانونی کٹائی روز کا معمول تھا۔ اس قصبے کے لوگ خود کو کم زور، بے وقعت اور غیرمحفوظ خیال کرتے تھے، کیوں کہ نہ تو پولیس اور نہ ہی مقامی انتظامیہ انھیں تحفظ فراہم کرنے کی اہل تھیں، نہ ہی اس کی خواہش مند۔ لیکن پھر 15اپریل 2011 کا دن آیا، اور چیزیں تیزی سے تبدیل ہونے لگیں۔
استحصال، غنڈاگردی اور بدعنوانی سے عاجز آجانے والے اس قصبے کے باسی سرجھکا کر اور حالات کو قسمت کا لکھا جان کر ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہ سکتے تھے، مگر انھوں نے عزت اور حمیت کا راستہ چُنا، اور راہ بری کا فریضہ صنف نازک نے انجام دیا۔ انقلاب کا آغاز قصبے کی عورتوں کے خفیہ اجلاسوں سے ہوا، جہاں غنڈوں سے نبردآزما ہونے کے لیے منصوبے ترتیب دیے گئے۔ یہ سب ایک ایسے ماحول میں ہورہا تھا جہاں قتل اور اغوا روزوشب کا حصہ تھے۔ جہاں نقاب پوش (نامعلوم افراد!) قصبے میں منڈلاتے اور اسلحے کے زور پر چھوٹاموٹا کاروبار کرنے والوں سے من مانا بَھتّا وصول کرتے تھے۔ قصبے کے باسی کوئی تین سال سے دیکھ رہے تھے کہ ان کا محبوب اور معاشی کفیل جنگل اجاڑا جارہا ہے۔ ان کے گھروں کے سامنے سے ٹرک کے ٹرک گزرتے، جن پر جنگل سے کاٹے گئے ہرے بھرے پیڑوں کی شاخیں اور تنے لدے ہوتے۔
میکسیکو کے منشیات فروش گروہ اپنے اصل دھندے کے ساتھ دوسرے منافع بخش شعبوں میں بھی پنجے گاڑ چکے ہیں، جن میں لکڑی کی صنعت بھی شامل ہے، جو جنگل سے ملحق چیرن کے باسیوں کے لیے بنیادی معیشت کی حیثیت رکھتی ہے۔ 2011میں منشیات فروشوں کے پیڑکاٹنے والے آلۂ کار درختوں کا قتل عام کرتے قصبے کے ایک چشمے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ قصبے میں انقلاب لانے والوں میں شامل Margarita Elvira Romero اُس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،''ہم خوف زدہ تھیں۔ اگر درخت کاٹ ڈالے گئے تو پانی کی کمی واقع ہوجائے گی۔ پھر ہمارے شوہر جو مویشی پالتے ہیں اگر چشمہ خشک ہوگیا تو وہ پانی کہاں سے پییں گے۔ ''
حالات سے تنگ آجانے والوں کو مستقبل کے خدشات نے بے کل کردیا۔ خفیہ اجلاسوں کے بعد یہ خواتین جنگل میں گئیں اور وہاں موجود مسلح افراد کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ درخت نہ کاٹے جائیں۔ لیکن ان کی ایک نہ سُنی گئی اور انھیں گالیاں دے کر بھگادیا گیا۔ یوں آخری راستہ بھی بند ہوا، مذاکرات کا راستہ۔ اب اجلاسوں میں طے کیے گئے منصوبے پر عمل کرنا تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ بہت خطرناک ہے، مگر انھیں درخت کو نگلتے ٹرکوں کو روکنا تھا، جس کے لیے قصبے کے دیگر لوگوں کی مدد درکار تھی۔
پندرہ اپریل کا دن ایک حیرت انگیز منظر لے کر طلوع ہوا۔ جنگل سے آکر قصبے سے گزرنے والی سڑک چھڑیوں اور آتشیں مواد سے لیس عورتوں نے جنگل اجاڑنے والوں اور ان کی گاڑیوں کے لیے بند کردی، اور پیڑ کاٹ کر لانے والوں میں سے کچھ کو یرغمال بنالیا۔ پو پھٹتے ہی جوں ہی چرچ کی گھنٹیاں بجیں قصبہ دھماکا خیز مواد پھٹنے سے گونج اٹھا، جو انقلاب کا ہراول دستہ بنی عورتوں نے قصبے کے باسیوں کو ہوشیار کرنے کے لیے کیا تھا۔ لوگ جاگ اٹھے، ان کی مدد کو دوڑ پڑے۔ مشتعل خواتین کو بڑی مشکل سے سمجھانا پڑا کہ وہ یرغمالیوں کو چرچ کے باہر لگے قدیم درخت سے نہ باندھیں۔ لوگ خنجر لیے دوڑے چلے آرہے تھے، آنے والے مردوں اور عورتوں نے اپنے چہرے ڈھانپ رکھے تھے۔ لوگ مسلسل چِلّا رہے تھے اور چرچ کی گھنٹیاں تواتر سے بج رہی تھیں۔
مقامی پولیس میئر کے ساتھ موقع پر پہنچی اور یرغمالیوں کے ساتھی بھی انھیں چُھڑانے آپہنچے۔ قصبے کے لوگوں، پولیس اور موقع پر موجود جرائم پیشہ عناصر کے درمیان معاملے پر شدیدکشمکش جاری تھی، جس کا خاتمہ ایک نوجوان کے ہاتھوں دو غنڈوں کے جھلسنے سے ہوا جس نے ان پر آتشیں مواد پھینک دیا تھا، جس کے ساتھ ہی چیرن کی خودمختاری اور یہاں امن وسکون کا دور شروع ہوگیا۔ قصبے کو درختوں کی غیرقانونی کٹائی کرنے والوں اور دیگر غنڈوں سے نجات مل گئی، جو منشیات فروشوں کے آلہ کار تھے اور انتظامیہ کے حکام ان سے ملے ہوئے تھے۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے اس مظاہرے نے خودارادیت اور خودمختاری کی تحریک کی بنیاد ڈالی، جو تیزی سے پھیلتی چلی گئی۔
پولیس اور مقامی سیاست داں فوری طور پر قصبے سے رفوچکر ہوگئے، کیوں کہ وہ لوگوں کے اس شبہے کی زد میں آگئے تھے کہ ان کے جرائم پیشہ گروہوں سے مراسم ہیں۔ اسی دن سے قصبے میں سیاسی جماعتوں کا کالعدم قرار دے دیا گیا، اور آج تک ان کی سرگرمیوں پر پابندی عاید ہے۔ اس پابندی کا سبب یہ ہے کہ قصبے میں بسنے والوں کے خیال میں سیاسی جماعتیں لوگوں کو تقسیم کردیتی ہیں۔ عدالتوں نے اس قصبے کے ریاستی سیاست سے دور رہنے کا حق تسلیم کرتے ہوئے اسے مقامی، ریاستی اور وفاقی انتخابات میں شرکت نہ کرنے کی اجازت دے دی ہے۔
جرائم پیشہ عناصر سے نجات پاتے ہی قصبے میں آنے والی تینوں سڑکوں پر چوکیاں بنادی گئیں، جہاں نگرانی کے لیے مسلح رضاکار موجود رہتے ہیں۔ یہ چوکیاں اب بھی برقرار ہیں جہاں قصبے کی نئی انتظامیہ کی تشکیل کردہ پولیس تعینات رہتی ہے، جس کا خواتین بھی حصہ ہیں۔ ان چوکیوں پر آنے والی ہر گاڑی کو روکا جاتا ہے، ان سے پوچھا جاتا ہے کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جانا ہے؟ ان چوکیوں کا مقصد قصبے کے امن اور جنگل کو محفوظ رکھنا ہے۔ اس پولیس کے بانیوں میں سے ایک Heriberto Camposکہتے ہیں،''ابتدا میں ہم بندوقوں کے استعمال کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے، لیکن اب ہم جان گئے ہیں کہ کیسے لڑنا ہے، اگر جرائم پیشہ عناصر واپس آتے ہیں تو ہم ان سے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔''
چیرن کا اپنا نظام انصاف ہے، جس کے تحت سزائیں دی جاتی ہیں، جیسے 18نوجوانوں کو اس جرم میں جیل کی ہوا کھانی پڑی کہ وہ شراب پی کر گلیوں میں گھوم رہے تھے یا نشے کی حالت میں ڈرائیونگ کر رہے تھے۔ قانون شکنی کی سزا کے طور پر جرمانے بھی ہوتے ہیں اور سماجی نوعیت کے کام بھی کروائے جاتے ہیں، جیسے کوڑاکرکٹ اٹھوانا۔
تشدد اور جرائم سے بھری میکسیکو کی ریاست Michoacan کے تمام شہروں اور قصبوں کے لیے چیرن امید کی کرن بن کے سامنے آیا ہے۔ اس قصبے کا امن اور محفوظ ماحول ریاست کے خوف کے سائے میں جیتے علاقوں کے لیے ایک حیرت انگیز اور تاب ناک مثال ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے مختلف علاقوں میں لوگ سیاست دانوں سے عاجز آچکے ہیں، چیرن کے لوگ روایتی اداروں پر انحصار ترک کرکے اجتماعی معاملات چلانے کے لیے اپنا الگ راستہ تلاش کر رہے ہیں۔ وہ اس بات کو عملاً ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ قدیم مقامی روایات اور اقدار جدید دور میں اپناتے ہوئے وہ ان کے مطابق ایک محفوظ اور بہتر سماج کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
کسی بھی اعتبار سے یہ معمولی تبدیلی نہیں۔ چیرن اس علاقے میں واقع ہے جہاں نہایت طاقت ور اور ہر وقت تشدد پر تیار منشیات فروش گروہ عملاً حکم رانی کرتے ہیں۔ یوایس ڈرگ انفورسمینٹ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ان میں سے بعض وسطی میکسیکو میں تیزی سے اپنا دھندا بڑھا رہے ہیں۔ Michoacán میکسیکو میں کیمیکلز سے تیار کردہ منشیات (synthetic drugs) کی سب سے بڑی تیارکنندہ ریاست ہے، جو marijuanaاور پوست کی بہت بڑی برآمدکنندہ بھی ہے۔ منشیات فروش گروہوں کی باہمی کشمکش نے اس خطے میں ایک طویل اور خونی جنگ کو جنم دیا، جو شدت پاتی چلی گئی ہے۔ ان گروہوں کو جزوی طور پر امریکا سے مالی امداد ملتی ہے۔
ان حالات میں یہ بات ہر ایک کے لیے حیرت انگیز ہے کہ 19ہزار نفوس پر مشتمل یہ برادری کس طرح خودانحصاری کی کام یاب تحریک چلانے کے قابل ہوئی اور خود کو منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ گروہوں کی مداخلت سے بچائے رکھا۔ سوال یہ ہے کہ انھیں اب کس طرح کے چیلینج درپیش ہوسکتے ہیں۔
''یہ برادری پر منحصر ہے۔'' قصبے کے انتظامات سنبھالنے والے 12ارکان میں سے ایک پیڈرو شاویز کہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے،''عدم تحفظ اور غیریقینی صورت حال میں رہنے کے بعد ہم نے کم سے کم اچھے حالات پیدا کیے، فیصلہ کیا کہ ہم اپنی جڑوں کی طرف لوٹیں گے اور گروہی اتحاد اپنے وسائل کی تعظیم پر مبنی زندگی کا ایک مختلف راستہ تعمیر کریں گے۔''
یہ کوئی آسان لڑائی نہیں تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس میں 20 جانیں گئیں۔ سرکاری سطح پر شناخت حاصل کرنے کے لیے وفاق اور ریاست حکومت سے طویل قانونی جنگ لڑنی پڑی۔ اس جرأت اور جدوجہد کے باعث چیرن میں ایک منفرد طرز کی حکومت قائم ہے، جس میں ساری کی ساری طاقت عوام کے پاس ہے۔ یوں یہاں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہوگئی ہے۔ قصبے میں کوئی فیصلہ استصوابِ رائے کے بغیر نہیں کیا جاتا۔ کسے کوئی ملازمت دینی ہے، کیا تعمیر کیا جانا ہے، عوامی خدمات کی تفویض، میزانیے کا جائزہ، ہر عمل میں قصبے کے تمام لوگ شامل ہوتے ہیں۔ قصبے کی اسمبلی کو مقامی حکومت کے کسی بھی ادارے پر فوقیت حاصل ہے۔
کبھی کبھی یہ سب بہت ناگوار اور مشکل ہوجاتا ہے اور بعض اوقات کسی معاملے پر اسمبلی میں گھنٹوں بوجھل گفتگو پر مبنی مباحثہ گھنٹوں جاری رہتا ہے۔ تاہم اس سب کے آخر میں جو خوش گوار نتیجہ نکلتا ہے اسے ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہوگا ''احتساب''، جس کے لیے پاکستان کے عوام ترس رہے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں لوگ بدعنوانی اور قانون پر عمل درآمد نہ ہونے سے مصائب کا شکار ہے، چیرن واحد جگہ ہے جہاں احتساب اپنے حقیقی معنی کے ساتھ زندہ اور بروئے کار ہے۔
درس وتدریس سے وابستہ 36 سالہ شاویز کہتے ہیں،''یہ ایک تھکادینے والا عمل ہے، اور بعض اوقات اہم فیصلوں کو تاخیر کا شکار کردیتا ہے۔ تاہم ہمارا طرزحکومت، لوگ، اسمبلی۔۔۔یہ سب قواعد پر مبنی ہے۔ یہ ایک الگ نوعیت کی حکومت ہے، جو ہمارے لیے بہت عمدگی سے کام کر رہی ہے۔''
اسمبلی میں فیصلہ سازی کا عمل لوگوں کے حلقوں کی صورت میں کسی موضوع پر باہمی تبادلۂ خیال سے شروع ہوتا ہے، جو کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اپنے نمائندوں کو اس سے آگاہ کرتے ہیں۔ اس طرح کے چار حلقے ہیں، جن میں سے سب کا ایک ایک رابطہ کار ہے۔ یہ حلقے تجاویز یا قراردادیں منظور کرکے رابطہ کاروں کے ذریعے قصبے کی 12رکنی انتظامی قیادت تک پہنچادیتے ہیں، جسے مقامی زبان میں ''K'eris'' کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ بزرگ ترین اور دانا ترین افراد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مقامی انتظامیہ کے تحت قصبے میں آٹھ دفاتر قائم ہیںِ، جو لوگوں کے فیصلے نافذ کرتے ہیں۔
قصبے میں ہر نمائندہ ایک غیرروایتی طریقے سے منتخب ہوتا ہے۔ سب سے پہلے لوگوں کے حلقے پس منظر، صلاحیتوں اور قابل اعتماد ہونے کی بنیاد پر امیدواروں کے نام تجویز کرتے ہیں۔ چناؤ والے دن لوگ اس امیدوار کے پیچھے قطار بنالیتے ہیں جسے وہ منتخب کرنا چاہتے ہیں، جس کے حامیوں کی قطار سب سے طویل ہو وہ منتخب ہوجاتا ہے۔ یہ طریقہ گویا اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اس کے پیچھے کھڑے ہیں جس پر وہ اعتماد کرتے ہیں۔ تاہم، جب وہ نمائندہ منتخب ہوجاتا ہے تو بعض اوقات یہ اعتماد بہت جلد عدم اعتماد میں بدل جاتا ہے۔ اس بابت شاویز کہتے ہیں،''یہ ایک ثقافتی معاملہ ہے، ایک ایسی چیز جو ہمیں سیاسی نظام سے ورثے میں ملی ہے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ سیاسی قوت بدعنوان بنادیتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے نمائندوں سے اوپر رہنا چاہتے ہیں، جو میرے خیال میں ایک صحت مند رجحان ہے۔''
قصبے کی مقامی حکومت کی معیشت جنگل کے وسائل، زراعت، تجارت اور امریکا میں مقیم قصبے کے لوگوں کی ترسیلات زر پر منحصر ہے۔ جنگل کا 60 فی صد درختوں کی غیرقانونی کٹائی کی نذر ہوجانے کے باعث دس سے پندرہ سال کے دوران جنگل کو لوگوں کے روزگار کے لیے قابل انحصار بنانا مقامی حکومت کے لیے اہم چیلینج ہے۔ مقامی تاجر Salvador Campos جو فرنیچر اسٹور کے مالک اور مقامی منتظمین میں شامل ہیں، کہتے ہیں،''ہم نے سماجی استحکام اور تحفظ کی منزل تو پالی ہے، لیکن ہم اپنے لوگوں کے لیے ملازمتیں پیدا نہیں کر پارہے ہیں۔ اور روزگار کا نہ ہونا ہمیں غیرمحفوظ بناتا ہے۔''
چیرن میں نہ تو ایسی دکانیں ہیں جہاں ہر شے دست یاب ہو، نہ سپرمارکیٹس، یہاں تجارتی سرگرمیاں ریڑھی والوں اور مقامی سطح کی تجارت تک محدود ہیں۔ کوئی عورت اپنے گھر کے دروازے پر مرغی بیچتی نظر آتی ہے تو کوئی ٹوکری میں مٹھائی فروخت کرتی دکھائی دیتی ہے اور کچھ لوگ مقامی مصنوعات بیچتے ہیں۔ قصبے میں قصاب کی ایک ہی دکان ہے، جہاں بس گوشت کا ایک بڑا سا پارچہ ٹنگا رہتا ہے۔ بس یہی ہے کل تجارت، جس پر خاندانوں کا گزارہ ہوتا ہے۔
قصبے میں لے دے کر چار صنعتیں ہیں۔۔۔ آرا مشین، درختوں کی نرسری، گوند بنانے کا کارخانہ اور پتھروں کی کان۔ تاحال ان میں سے کوئی بھی صنعتی یونٹ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہے، ان سب کا زیادہ تر انحصار وفاقی حکومت کی امداد پر ہے۔ اس وقت قصبے میں زیادہ تر دست یاب ملازمتیں عارضی نوعیت کی ہیں۔ تاہم پانی کی صفائی کے نوتعمیرشدہ پلانٹ نے کچھ ملازمتیں فراہم کی ہیں۔
کسب معاش کا اہم ذریعہ آرا مشین ہے، جہاں جنگل سے کاٹ کر لائی جانے والی لکڑی کو ہموار اور فروخت کیا جاتا ہے۔ لکڑی کی غیرقانونی کٹائی کرنے والوں کو مار بھگانے کے بعد اس عمل پر پابندی عاید کردی گئی ہے۔ اب صرف ان درختوں کا کاٹا جاسکتا ہے جو پرانے، بیمار یا قدرتی وجوہات کی بنا پر شکست وریخت کا شکار ہوچکے ہوں۔ اس کے ساتھ جنگل میں شجرکاری کا ایک منصوبہ شروع کردیا گیا ہے۔ پندرہ سے بیس سال کے عرصے پر محیط یہ منصوبہ قصبے کے روشن مستقبل کی نوید ہے، جو نئے درختوں کی صورت میں جنگل کو نئی زندگی دے گا۔ 2011 میں شروع کیا جانے والا یہ منصوبہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور مقامی لوگوں کے چہرے اس امید سے روشن ہیں کہ یہ منصوبہ جنگل کے اُجڑ جانے والے ساٹھ فی صد علاقے کو دوبارہ ہرابھرا کردے گا۔
اپنے جدوجہد اور قربانیوں سے حاصل کردہ نئے انتظام کے ساتھ چیرن کے لوگ امن وسکون سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ قصبے میں کوئی جرم ہوتا ہے تو بس ڈھورڈنگر چرانے کی وارداتیں۔ خودمختاری کے پانچ سال کے دوران نہ کوئی قتل ہوا، نہ جنسی زیادتی کا واقعہ اور نہ ہی کوئی پُرتشدد جرم وقوع پذیر ہوا۔ حفاظتی انتظامات رضاکاروں نے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرائم پیشہ عناصر سے نجات میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ یہ عام شہری ہیں، جو روزانہ جنگل اور قصبے کی گلیوں میں گشت کرتے ہیں۔ وہ قصبے کے مرکزی داخلی راستوں پر نظر بھی رکھتے ہیں۔
قصبے میں داخل ہونے والے ہر اجنبی کو ایک چوکی سے گزرنا ہوتا ہے۔ اگر کوئی اندیشے والی بات نظر آئے تو ریڈیو کے ذریعے آگاہی دی جاتی ہے اور پورا قصبہ خبردار ہوجاتا ہے۔ حفاظتی دستے کے ارکان کو، جو مناسب طور پر تربیت یافتہ نہیں، اسلحہ رکھنے کی اجازت ہے۔ ریاستی انتظامیہ چاہتی ہے کہ اس قصبے میں پولیس تعینات ہو، لیکن مقامی لوگ ماضی کے تجربے کے باعث یہ بات ماننے کو تیار نہیں۔ وہ خود کو پولیس کے بغیر زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں۔ شاویز کہتے ہیں،''ہماری تحریک کا مقصد اپنی حفاظت آپ تھا۔ جب ہمیں منظم جرائم کرنے والوں کی دھمکیوں کا سامنا تھا تو حکومت نے ہم پر کوئی توجہ نہیں دی اور اب وہ مداخلت کرنا چاہتی ہے۔ ریاستی پولیس کا حصہ بننا ہمیں ہماری خودمختاری سے محروم کردے گا۔''
اس چھوٹے سے قصبے نے ظلم واستحصال اور بدعنوانی کے شکار دنیا کے ہر ملک، ہر شہر اور قصبے اور گاؤں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تبدیلی کی خواہش ہو اور واضح مقاصد کے ساتھ اس کے لیے جدوجہد کی جائے تو اندھیرے روشنی میں بدل جاتے ہیں۔ اس قصبے کے باسیوں نے دنیا کو حقیقی جمہوریت کا چہرہ دکھا دیا ہے، بہت روشن چہرہ۔