مسلسل کامیابی مبارک
عالمی ادبی کانفرنس احمد شاہ اور ان کی ٹیم کا واحد کارنامہ نہیں ہے۔ ان کے ترکش میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے تیر ہیں۔
منگل 25 دسمبر فتح و کامرانی سے عبارت خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور دن تھا۔ ایک طرف باہمت اور حوصلہ مند پاکستانی کرکٹ ٹیم نے موجودہ سیریز کے پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ میں اپنی حریف بھارتی ٹیم پر شاندار فتح حاصل کی اور دوسری جانب آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے سالانہ عام انتخابات میں محمد احمد شاہ کی ٹیم نے مسلسل چھٹی بار جیت کر اپنی ڈبل ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ ہمت مرداں مدد خدا! بلاشبہ یہ عظیم الشان کامیابی، ولولہ انگیز قیادت اور بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے جس کے لیے آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ، نائب صدر محمود احمد خان اور سیکریٹری پروفیسر اعجاز فاروقی کے علاوہ تمام ٹیم ممبران داد و تحسین کے مستحق ہیں۔ شاباش! well done۔
اب سے چند سال قبل احمد شاہ کی ٹیم نے اپنی اننگز کا آغاز کیا تھا تب ان کے سامنے بہت سے چیلنج موجود تھے اور ٹیم بھی نئی نئی اور ناپختہ تھی۔ مگر ایک زبردست ٹیم اسپرٹ اس کے اندر موجود تھی، جس پر کپتان کی بلند حوصلگی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ احمد شاہ اور ان کی ٹیم کے اہداف واضح تھے اور ان کا جذبہ صادق تھا۔ انھیں پورا یقین تھا کہ ''مشکلے نیست کہ آسان نہ شود' مرد باید کہ ہراساں نہ شود''۔
پانچ برس پہلے جب احمد شاہ پہلی مرتبہ آرٹس کونسل کے صدر منتخب ہوئے تھے تو انھوں نے ہر سال عالمی اردو کانفرنس منعقد کرانے کا اعلان کرکے ایک عظیم الشان روایت قائم کرنے اور کارنامہ سر انجام دینے کا بیڑہ اٹھایا تھا۔ اس وقت اسے مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب کہا گیا تھا۔ بعض لوگوں نے انھیں پاگل بھی کہا تھا اور ان کے خلاف ایک اتحاد بھی بنالیا تھا۔ مگر احمد شاہ دھن کے پکے تھے۔ اس کے علاوہ انھیں اپنے ساتھیوں کی ہمت اور صلاحیتوں پر بھی مکمل اعتماد تھا۔ مشکل سے مشکل کام کو سرانجام دینے کے لیے سب سے پہلے خواب ہی دیکھا جاتا ہے۔ اپنا پیارا وطن پاکستان بھی تو آخر ایک حسین خواب کی جیتی جاگتی تعبیر ہی تو ہے۔ بلاشبہ ہر سال عالمی اردو کانفرنس کا پابندی اور تسلسل سے انعقاد ایک بہت بڑا چیلنج تھا جوکہ جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ اس کے لیے بے پناہ وسائل بھی درکار تھے اور انتھک محنت اور انتظامی صلاحیت کی بھی ضرورت تھی۔ مگر حوصلہ مند قیادت، بہترین ٹیم ورک، عمائدین شہر کی ہمت افزائی، ادبی، ثقافتی، کاروباری اورسرکاری حلقوں کے بھرپور تعاون کی بدولت احمد شاہ اور ان کی ٹیم کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی اور پہلی کانفرنس بڑی شان کے ساتھ منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس کو میڈیا اور اردو کے متوالوں کی جانب سے توقع سے بھی بڑھ کر پذیرائی حاصل ہوئی۔ چنانچہ پہلی کانفرنس کے اختتام پر آیندہ سال دوسری کانفرنس منعقد کرانے کا اعلان کیا گیا اور یوں ہر سال پابندی کے ساتھ عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کراچی آرٹس کونسل کی ایک تابندہ روایت بن گیا۔ سب نے دیکھاکہ گزشتہ دنوں اس سلسلے کی پانچویں کانفرنس نے اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے اور خواص وعوام کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اردو کے عاشقوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا اور نظم و ضبط اور حسن انتظام دیدنی تھا۔ مختلف دلچسپ موضوعات اور بھرپور اجلاسوں پر مشتمل یہ یادگار کانفرنس ایک حسین قوس قزح تھی جس کا ہر رنگ نمایاں اور بے حد دلکش تھا۔ اس کانفرنس کی زبردست کامیابی کا اس سے بڑا ثبوت بھلا اور کیا ہوگا کہ اس نے شہر قائد کا پورا ماحول تبدیل کردیا اور شہر ابتلاء میں ایک جشن کا سماں برپا کردیااور آرٹس کونسل کو مقناطیس بناکر رکھ دیا۔
عالمی ادبی کانفرنس احمد شاہ اور ان کی ٹیم کا واحد کارنامہ نہیں ہے۔ ان کے ترکش میں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے تیر ہیں۔ دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کے انعقاد کا کریڈٹ بھی انھی کو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آرٹس کونسل کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بین الاقوامی امن کانفرنس منعقد کرانے کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔ ''جنوبی ایشیا میں امن اور ادیبوں کا کردار'' اس اہم کانفرنس کا عنوان تھا۔ اس کے علاوہ سندھ کے نام ور اسکالر ڈاکٹر نبی بخش بلوچ پر بھی ان کے شایان شان کانفرنس کا انعقاد بھی احمد شاہ اور ان کے رفقائے کار کے کھاتے میں جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی کانفرنسیں ہیں مثلاً حسرتؔ موہانی کانفرنس اور یوتھ کانفرنس وغیرہ۔ کتابوں کی تقاریب اجراء، مصوری کی نمائشیں، نعت و قرأت کی محفلیں، سیمینار، موسیقی کی خوبصورت محفلیں، علمی و ادبی نشستیں اور تھیٹر کی رنگارنگ سرگرمیاں بھی احمد شاہ پینل کے کارناموں میں شامل ہیں۔ ماشاء اللہ کراچی آرٹس کونسل کے چرچے اب محض پاک وہند ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ہورہے ہیں۔ اس کی ویب سائٹ نے اسے پوری دنیا میں روشناس کرادیا ہے اور روزانہ سیکڑوں فنون لطیفہ کے شیدائی اس سے فیضاب ہورہے ہیں۔ مختصر یہ کہ احمد شاہ اور ان کی ٹیم میں شامل لوگ محض گفتار کے نہیں بلکہ کردار کے غازی بھی ہیں۔ وہ باتوں اور وعدوں سے زیادہ عملی مظاہرے کے قائل ہیں۔احمد شاہ ایک بے قرار روح کا نام ہے جو نہ خود سوتی ہے اور نہ اپنے ساتھیوں کو سونے دیتی ہے۔ Complacency یا سست روی ان کے خمیر میں ہی شامل نہیں ہے۔ سب کے سب انتہائی متحرک اور فعال ہیں۔ یہ دن رات خوب سے خوب ترکی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور نت نئے خیالات اور آئیڈیاز ان کے ذہنوں میں جنم اور کروٹیں لیتے رہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ راحت فتح علی خان کے پروگرام میں پورا کراچی امڈ آیا تھا۔ یہی حال گلوکار سجاد علی کے پروگرام کا بھی تھا جوکہ اپنی نوعیت کا ایک انوکھا اور کامیاب پروگرام تھا۔ اس کے علاوہ غزل فیسٹیول بھی اپنی مثال آپ تھا جس میں استاد فتح علی خان، حمیرا چنہ، تصور خانم اور بلقیس خانم سمیت چالیس سے زیادہ فنکاروں نے اپنی کلا کا جادو جگایا تھا اور یہ رت جگا تین راتوں تک جاری رہا تھا۔
احمد شاہ اور ان کی سرگرم عمل ٹیم کی قابل رشک کارکردگی اظہر من الشمس ہے۔ انھوں نے دیکھتے ہی دیکھتے آرٹس کونسل کی کایا پلٹ دی ہے۔ آرٹس کونسل میں لفٹ کی فراہمی، بہترین جنریٹر کی تنصیب، انسٹیٹیوٹ آف آرٹ اینڈ کرافٹس کی اصلاح و ترویج، پرانی آرٹ گیلریوں کو بین الاقوامی معیار پر لانا، انٹرنیشنل آرٹ میوزم کی تکمیل ان ہی کے دیکھے ہوئے حسین خوابوں کی تعبیر ہیں۔ آرٹس کونسل کی Face Lifting اور تزئین نو احمد شاہ اور ان کی متحرک ٹیم کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ درحقیقت ممبران نے انھیں ووٹ دے کر ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ اس پر پورے اترے ہیں۔ جو لوگ آرٹس کونسل کراچی کو شہر قائد اور عروس البلاد کا اہم ادبی و ثقافتی مرکز بنتے دیکھنا چاہتے تھے وہ آج مطمئن اور خوش ہیں کہ انھوں نے بالکل صحیح اور بے لوث ٹیم کا انتخاب کیا تھا۔احمد شاہ اور ان کی ٹیم کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ انھوں نے شہر کے نامساعد حالات کے باوجود آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کو ماند نہیں پڑنے دیا اور اس عظیم الشان ادارے کی تقریبات پورے سال تواتر کے ساتھ جارہی رہیں۔ بلاشبہ کراچی آرٹس کونسل اس شہر کی شناخت بن گئی ہے اور کراچی کی ثقافتی تاریخ میں احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں کا تذکرہ روشن اور انمٹ الفاظ میں کیا جائے گا۔سچ پوچھیے تو آرٹس کونسل کا الیکشن محض ایک انتخابی معرکا نہیں بلکہ ایک رنگارنگ اور دلچسپ سالانہ فیسٹیول ہوتا ہے جس سے پورے شہر کی فضا خوشگوار ہوجاتی ہے۔ یہ جمہوری عمل کے تسلسل اور جمہوری کلچر کو پروان چڑھانے کی ایک انتہائی قابل تعریف عمل کوشش ہے۔ احمد شاہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے اس قول کو درست ثابت کردیا کہ آرٹس کونسل کے الیکشن کے بائیکاٹ سے جمہوری عمل سبوتاژ نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ انتخابات مقررہ تاریخ اور وقت پر ہی ہوئے اور رائے دہندگان نے انتہائی پرامن ماحول میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔الیکشن میں شاندار فتح کے حوالے سے 28 دسمبر کو نہایت باوقار انداز میں یوم تشکر منایا گیا۔
محمد احمد شاہ، پروفیسر اعجاز فاروقی، محمود احمد خان اور ان کی ٹیم کے تمام ممبران نے آرٹس کونسل کراچی میں اپنا جو مقام بنایا ہے اس پر انور مسعودؔ کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے:
اتفاق اپنی جگہ' خوش قسمتی اپنی جگہ
خود بناتا ہے جہاں میں آدمی اپنی جگہ
امید واثق ہے کہ آرٹس کونسل کراچی کی نومنتخب مگر آزمودہ کار سرگرم ٹیم نہ صرف اپنے وعدے کو ماضی کی طرح آیندہ بھی حرف بہ حرف عملی جامہ پہنا کر دکھائے گی بلکہ شہر قائد کے اس ادبی و ثقافتی مرکز و گہوارے کو فنون لطیفہ اور امن و آشتی کا پہلے سے بھی زیادہ موثر ذریعہ بنائے گی۔ ہم آرٹس کونسل کراچی کے سال 2013 کے عام انتخابات میں کامیاب ہونے والے تمام امیدواروں کو صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتے ہیں اور ان کی مزید کامیابیوں کے لیے دعا گو ہیں۔ ہماری دلی خواہش ہے کہ یہ مثالی ادارہ خوب پھلے پھولے اور ترقی کی نئی منازل طے کرے (آمین)۔