ریپ کا ریپ
تو پھر دہلی کی ایک گمنام لڑکی کے اجتماعی ریپ پر یہاں سے وہاں تک لوگ باہر کیوں نکل آئے ؟
کیا یہ وہی بھارت نہیں جہاں عورتوں کے تحفظ کے مرکزی و ریاستی قوانین کے ہوتے ہوئے کشمیر سے کیرالا تک اور گجرات سے ناگا لینڈ تک روزانہ پانچ ہزار ریپ اور جنسی ہراسگی کے ان گنت واقعات ہوتے ہیں۔جس کا دارلحکومت دہلی ملک کا ریپ کیپٹل کہلاتا ہے اور وہاں اوسطاً ہر سال چھ سو اجتماعی و انفرادی ریپ ہوتے ہیں۔
تو پھر دہلی کی ایک گمنام لڑکی کے اجتماعی ریپ پر یہاں سے وہاں تک لوگ باہر کیوں نکل آئے ؟ ( ایسا نہیں کہ اس لڑکی کا نام معلوم نہیں کیا جاسکتا لیکن بھارتی میڈیا احتراماً اس کا نام نہیں لے رہا )ہزاروں لڑکیوں کے تو نام بھی کسی کو یاد نہیں مگر ایک ہی لڑکی کو آخر کیوں، اس کی جان بچانے کی آخری سرتوڑ کوشش کے طور پر سنگاپور بھیجا گیا۔اور جب وہ مر گئی تو اس کی لاش ایک خصوصی طیارے میں واپس کیوں لائی گئی ؟ چلیے لائی گئی مگر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیرِ اعظم من موہن سنگھ یہ لاش وصول کرنے کے لیے دلی کے اندراگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ پر کیوں موجود تھے ؟ کیا ان کے پاس کرنے کو کوئی اور کام نہیں تھا۔اور لوک سبھا کا بھی ایک قیمتی دن دلی کی ایک بس میں چھ نشے میں دھت افراد کے ہاتھوں ایک عام سی گمنام لڑکی کے ریپ پر گفتگو میں ضایع کردیا گیا ہے۔امیتابھ بچن کو اور کوئی کام نہیں کہ ٹویٹر پر اس کے سوگ میں نظمیں کہہ رہا ہے اور مہیش بھٹ پلے کارڈ لیے مجمع میں کھڑا ہے اور سلمان ، شاہ رخ اور عامر احتجاجی دستخطی مہم میں شریک ہیں اور ارون دھتی رائے احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتی گھوم رہی ہے؟
ہو نا ہو یہ سب میڈیا کی سازش ہے۔میڈیا کو ریٹنگ چاہیے۔عام آدمی میڈیا کے سحر میں اور خاص آدمی میڈیا کے دباؤ میں ہے۔ بس ایک اور بڑی ، مصالحے دار چٹ پٹی خبر آنے کی دیر ہے سب ٹھیک ہوجائے گا ، سب بھول بھال جائیں گے۔صرف گمنام لڑکی کے اہلِ خانہ ، دوستوں ، انسانی حقوق کی اکا دکا تنظیموں یا خواتین کے حقوق کے چند چیمپینز کو یہ بات یاد رہ جائے گی۔زندگی پھر دھرے پر چڑھ جائے گی۔ریپ بھی ہوتے رہیں گے بلکہ اور ہوتے رہیں گے ؟
آندھرا پردیش کے ایک کانگریسی وزیر نے صحیح کہا کہ بھائی اس لڑکی کو بس میں چڑھتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔جس طرح ڈیرہ غازی خان میں لیویز کے چھ سپاہیوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ جو لڑکی ہم پر اجتماعی ریپ الزام لگا رہی ہے، وہ اپنے مرد دوست کے ساتھ یہاں فورٹ سنڈیمن کے پہاڑ پر کیا لینے آئی تھی۔وہ تو خود بے باکی کا مظہر تھی۔اور بھلا شام کو ایسے ویران علاقے میں اسے آنے اور ٹھہرنے کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو وہ والی بات ہوئی کہ آ بیل مجھے مار۔
اور یہ تو وہ والی بات ہوئی جس طرح پولیس تھانے میں کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ رپورٹ لکھوانے کے لیے آجائے تو رپورٹ سے پہلے اور بعد میں سپاہی اور تھانیدار ایک دوسرے کو چسکے دار نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور پھر لڑکی سے پوچھا جاتا ہے۔نا تو آپ نے وقوعے کے وقت کس قسم کے کپڑے پہن رکھے تھے ؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ چار ہی تھے ؟ معاف کرنا ان میں سے کسی سے میرا مطلب ہے، آپ کی پہلے سے کوئی جان پہچان ، دوستی ، آشنائی وغیرہ تو نہیں تھی ؟ آپ تو خود پڑھی لکھی لگتی ہیں۔آپ کو بھی تھوڑی احتیاط کرنی چاہیے تھی۔میڈیکل کرایا ہے ؟ اوہو اب تک میڈیکل بھی نہیں کرایا ؟ پھر تو ریپ ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا۔
میڈیکل کے بغیر ہم کیا کارروائی کریں۔دیکھیں یہ تین نام تو میں شاملِ تفتیش کرلوں گا ،مگر یہ چوتھا نام ؟ ایک دفعہ پھر سوچ لیں، کہیں آپ کو بھلیکا تو نہیں لگ رہا ؟ یہ تو بڑے معزز اور بااثر خاندان کا بچہ ہے۔کہیں ایسا نا ہو کہ بعد میں الزام غلط ثابت ہوجائے اور آپ لوگوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں ؟ دیکھیں یہ قانون کا معاملہ ہے، بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ایک دفعہ پھر اچھی طرح سوچ لیں۔بابا جی آپ ہی اپنی بچی کو سمجھائیں۔اماں آپ تو اتنی جذباتی نا ہوں، آپ فکر نا کریں، ہم پوری کوشش کریں گے۔بیٹا ایف آئی آر تو میں لکھ لوں گا لیکن آپ کو یہ بتانا بھی میرا فرض ہے کہ آپ عزت دار شریف لوگ ہیں۔آپ کو تو پتہ ہے کہ وکیل کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں ؟ کورٹ میں سب کے سامنے کیسے کیسے سوالات پوچھتے ہیں۔
اور ابھی تو ہمیں ان چاروں فیملیوں کا پریشر بھی جھیلنا ہے جن کے لڑکوں کے خلاف آپ پرچہ کٹوانا چاہ رہی ہیں۔ہم پولیس والے بھی آپ کی طرح بال بچے دار ہوتے ہیں۔میرا دل بھی بہت دکھتا ہے۔پر بیٹا ایک بڑے بھائی کے طور پر میرا مشورہ تو یہ ہوگا کہ آپ کمپرومائیز کا سوچیں۔جو ہوگیا سو ہوگیا۔ہمیں جو کارروائی کرنی ہے وہ تو ہم کریں گے ہی لیکن بابا جی جیسا آپ نے بتایا کہ آپ کی تین بچیاں اور ہیں۔ اللہ کرے گا، ابھی ان کے رشتے ناطے بھی ہوں گے۔بات زیادہ پھیلے گی تو خدا نہ کرے، ان کی زندگی پر بھی اثر ہو سکتا ہے۔آپ ایسا کریں ایک دو دن سوچ لیں۔پھر بھی دل نہیں مانتا تو فون کردیں، میں خود اپنے ہاتھ سے حدود قوانین کے تحت پرچہ کاٹوں گا۔اب تو خوش ؟ بس اللہ پاک سے دعا کریں کہ یہ معاشرہ سدھر جائے۔بیٹا آپ بالکل اکیلی نہیں ہیں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں...اللہ حافظ۔۔اللہ خافظ ماں جی...اللہ حافظ بابا جی...
اور اس اللہ حافظ کے بعد ایک دوسرے سے کہتا ہے '' مینوں تے کڑی دو نمبر ای لگدی اے۔مجال اے جو اوہنے منٹ واسطے وی نگاہ تھلے کیتی ہووے۔۔۔۔''اور جب ان خاموش بے عزت ہونے والی ہزاروں عزت داروں میں سے کوئی ایک مختاراں مائی یا ڈاکٹر شازیہ خالد یا کائنات سومرو کھڑی ہوجاتی ہے تو پھر پاکستان بدنام ہونا شروع ہوجاتا ہے۔مختاراں اور شازیہ اور کائنات ایجنڈے باز این جی اوز کی یرغمالی اور مغربی ثقافتی سوداگروں کی داسیاں اور پاکستان دشمن لابیوں کی ایجنٹ کہلائی جاتی ہیں۔عام آدمی کا کیا ذکر کرنا صدرِ مملکت تک کہتا ہے کہ ریپ دراصل کینیڈا وغیرہ کا امیگریشن ویزا حاصل کرنے کے حربے کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ریپ کرالو اور گرین کارڈ لے لو۔۔۔۔۔
کہنے کو بھارت میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے سیکڑوں این جی اوز ، لابیاں اور ہیلپ لائنز سرگرم ہیں۔پاکستان میں نہ صرف حدود قوانین موجود ہیں بلکہ جنسی ہراسگی اور گھریلو تشدد کے خلاف بھی جدید ممالک کے ہم پلہ کئی قوانین نافذ ہوچکے ہیں۔دونوں خطے تقسیم کے دوران ایک لاکھ سے زائد مسلمان ، ہندو اور سکھ خواتین کے ریپ کاگھاؤ بھی جھیل چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد کوئی بھارتی بچہ ایسا نہیں جسے سیتا مئیا کے پوتر کردار کی کہانی نا سنائی جاتی ہو اور پاکستان میں کوئی ایسا بچہ نہیں جس نے نصاب میں ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کی لبیک کی داستان نہ پڑھی ہو۔دونوں طرف کوئی ایسا شخص نہیں جو غیرت کے لفظ سے نا آشنا ہو۔ پھر بھی دونوں ممالک کی مجموعی ڈیڑھ ارب آبادی میں سالانہ پونے چار لاکھ کے لگ بھگ انفرادی و اجتماعی ریپ ہورہے ہیں۔یعنی ہر سال انیس سو سینتالیس سے تین گنا زائد۔۔۔سرحدیں بدل گئیں ، سماج کہاں بدلا ؟
bbcurdu.com ( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے پر کلک کیجیے )
تو پھر دہلی کی ایک گمنام لڑکی کے اجتماعی ریپ پر یہاں سے وہاں تک لوگ باہر کیوں نکل آئے ؟ ( ایسا نہیں کہ اس لڑکی کا نام معلوم نہیں کیا جاسکتا لیکن بھارتی میڈیا احتراماً اس کا نام نہیں لے رہا )ہزاروں لڑکیوں کے تو نام بھی کسی کو یاد نہیں مگر ایک ہی لڑکی کو آخر کیوں، اس کی جان بچانے کی آخری سرتوڑ کوشش کے طور پر سنگاپور بھیجا گیا۔اور جب وہ مر گئی تو اس کی لاش ایک خصوصی طیارے میں واپس کیوں لائی گئی ؟ چلیے لائی گئی مگر کانگریس کی صدر سونیا گاندھی اور وزیرِ اعظم من موہن سنگھ یہ لاش وصول کرنے کے لیے دلی کے اندراگاندھی انٹرنیشنل ایرپورٹ پر کیوں موجود تھے ؟ کیا ان کے پاس کرنے کو کوئی اور کام نہیں تھا۔اور لوک سبھا کا بھی ایک قیمتی دن دلی کی ایک بس میں چھ نشے میں دھت افراد کے ہاتھوں ایک عام سی گمنام لڑکی کے ریپ پر گفتگو میں ضایع کردیا گیا ہے۔امیتابھ بچن کو اور کوئی کام نہیں کہ ٹویٹر پر اس کے سوگ میں نظمیں کہہ رہا ہے اور مہیش بھٹ پلے کارڈ لیے مجمع میں کھڑا ہے اور سلمان ، شاہ رخ اور عامر احتجاجی دستخطی مہم میں شریک ہیں اور ارون دھتی رائے احتجاجی ریلیوں سے خطاب کرتی گھوم رہی ہے؟
ہو نا ہو یہ سب میڈیا کی سازش ہے۔میڈیا کو ریٹنگ چاہیے۔عام آدمی میڈیا کے سحر میں اور خاص آدمی میڈیا کے دباؤ میں ہے۔ بس ایک اور بڑی ، مصالحے دار چٹ پٹی خبر آنے کی دیر ہے سب ٹھیک ہوجائے گا ، سب بھول بھال جائیں گے۔صرف گمنام لڑکی کے اہلِ خانہ ، دوستوں ، انسانی حقوق کی اکا دکا تنظیموں یا خواتین کے حقوق کے چند چیمپینز کو یہ بات یاد رہ جائے گی۔زندگی پھر دھرے پر چڑھ جائے گی۔ریپ بھی ہوتے رہیں گے بلکہ اور ہوتے رہیں گے ؟
آندھرا پردیش کے ایک کانگریسی وزیر نے صحیح کہا کہ بھائی اس لڑکی کو بس میں چڑھتے وقت احتیاط سے کام لینا چاہیے تھا۔جس طرح ڈیرہ غازی خان میں لیویز کے چھ سپاہیوں میں سے ایک نے کہا تھا کہ جو لڑکی ہم پر اجتماعی ریپ الزام لگا رہی ہے، وہ اپنے مرد دوست کے ساتھ یہاں فورٹ سنڈیمن کے پہاڑ پر کیا لینے آئی تھی۔وہ تو خود بے باکی کا مظہر تھی۔اور بھلا شام کو ایسے ویران علاقے میں اسے آنے اور ٹھہرنے کی کیا ضرورت تھی۔یہ تو وہ والی بات ہوئی کہ آ بیل مجھے مار۔
اور یہ تو وہ والی بات ہوئی جس طرح پولیس تھانے میں کوئی لڑکی اپنے ماں باپ کے ہمراہ رپورٹ لکھوانے کے لیے آجائے تو رپورٹ سے پہلے اور بعد میں سپاہی اور تھانیدار ایک دوسرے کو چسکے دار نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور پھر لڑکی سے پوچھا جاتا ہے۔نا تو آپ نے وقوعے کے وقت کس قسم کے کپڑے پہن رکھے تھے ؟ کیا آپ کو یقین ہے کہ وہ چار ہی تھے ؟ معاف کرنا ان میں سے کسی سے میرا مطلب ہے، آپ کی پہلے سے کوئی جان پہچان ، دوستی ، آشنائی وغیرہ تو نہیں تھی ؟ آپ تو خود پڑھی لکھی لگتی ہیں۔آپ کو بھی تھوڑی احتیاط کرنی چاہیے تھی۔میڈیکل کرایا ہے ؟ اوہو اب تک میڈیکل بھی نہیں کرایا ؟ پھر تو ریپ ثابت کرنا مشکل ہوجائے گا۔
میڈیکل کے بغیر ہم کیا کارروائی کریں۔دیکھیں یہ تین نام تو میں شاملِ تفتیش کرلوں گا ،مگر یہ چوتھا نام ؟ ایک دفعہ پھر سوچ لیں، کہیں آپ کو بھلیکا تو نہیں لگ رہا ؟ یہ تو بڑے معزز اور بااثر خاندان کا بچہ ہے۔کہیں ایسا نا ہو کہ بعد میں الزام غلط ثابت ہوجائے اور آپ لوگوں کو لینے کے دینے پڑ جائیں ؟ دیکھیں یہ قانون کا معاملہ ہے، بڑی احتیاط کرنی پڑتی ہے۔ایک دفعہ پھر اچھی طرح سوچ لیں۔بابا جی آپ ہی اپنی بچی کو سمجھائیں۔اماں آپ تو اتنی جذباتی نا ہوں، آپ فکر نا کریں، ہم پوری کوشش کریں گے۔بیٹا ایف آئی آر تو میں لکھ لوں گا لیکن آپ کو یہ بتانا بھی میرا فرض ہے کہ آپ عزت دار شریف لوگ ہیں۔آپ کو تو پتہ ہے کہ وکیل کس قماش کے لوگ ہوتے ہیں ؟ کورٹ میں سب کے سامنے کیسے کیسے سوالات پوچھتے ہیں۔
اور ابھی تو ہمیں ان چاروں فیملیوں کا پریشر بھی جھیلنا ہے جن کے لڑکوں کے خلاف آپ پرچہ کٹوانا چاہ رہی ہیں۔ہم پولیس والے بھی آپ کی طرح بال بچے دار ہوتے ہیں۔میرا دل بھی بہت دکھتا ہے۔پر بیٹا ایک بڑے بھائی کے طور پر میرا مشورہ تو یہ ہوگا کہ آپ کمپرومائیز کا سوچیں۔جو ہوگیا سو ہوگیا۔ہمیں جو کارروائی کرنی ہے وہ تو ہم کریں گے ہی لیکن بابا جی جیسا آپ نے بتایا کہ آپ کی تین بچیاں اور ہیں۔ اللہ کرے گا، ابھی ان کے رشتے ناطے بھی ہوں گے۔بات زیادہ پھیلے گی تو خدا نہ کرے، ان کی زندگی پر بھی اثر ہو سکتا ہے۔آپ ایسا کریں ایک دو دن سوچ لیں۔پھر بھی دل نہیں مانتا تو فون کردیں، میں خود اپنے ہاتھ سے حدود قوانین کے تحت پرچہ کاٹوں گا۔اب تو خوش ؟ بس اللہ پاک سے دعا کریں کہ یہ معاشرہ سدھر جائے۔بیٹا آپ بالکل اکیلی نہیں ہیں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں...اللہ حافظ۔۔اللہ خافظ ماں جی...اللہ حافظ بابا جی...
اور اس اللہ حافظ کے بعد ایک دوسرے سے کہتا ہے '' مینوں تے کڑی دو نمبر ای لگدی اے۔مجال اے جو اوہنے منٹ واسطے وی نگاہ تھلے کیتی ہووے۔۔۔۔''اور جب ان خاموش بے عزت ہونے والی ہزاروں عزت داروں میں سے کوئی ایک مختاراں مائی یا ڈاکٹر شازیہ خالد یا کائنات سومرو کھڑی ہوجاتی ہے تو پھر پاکستان بدنام ہونا شروع ہوجاتا ہے۔مختاراں اور شازیہ اور کائنات ایجنڈے باز این جی اوز کی یرغمالی اور مغربی ثقافتی سوداگروں کی داسیاں اور پاکستان دشمن لابیوں کی ایجنٹ کہلائی جاتی ہیں۔عام آدمی کا کیا ذکر کرنا صدرِ مملکت تک کہتا ہے کہ ریپ دراصل کینیڈا وغیرہ کا امیگریشن ویزا حاصل کرنے کے حربے کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ریپ کرالو اور گرین کارڈ لے لو۔۔۔۔۔
کہنے کو بھارت میں عورتوں کے حقوق کی پاسداری کے لیے سیکڑوں این جی اوز ، لابیاں اور ہیلپ لائنز سرگرم ہیں۔پاکستان میں نہ صرف حدود قوانین موجود ہیں بلکہ جنسی ہراسگی اور گھریلو تشدد کے خلاف بھی جدید ممالک کے ہم پلہ کئی قوانین نافذ ہوچکے ہیں۔دونوں خطے تقسیم کے دوران ایک لاکھ سے زائد مسلمان ، ہندو اور سکھ خواتین کے ریپ کاگھاؤ بھی جھیل چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد کوئی بھارتی بچہ ایسا نہیں جسے سیتا مئیا کے پوتر کردار کی کہانی نا سنائی جاتی ہو اور پاکستان میں کوئی ایسا بچہ نہیں جس نے نصاب میں ایک عورت کی پکار پر محمد بن قاسم کی لبیک کی داستان نہ پڑھی ہو۔دونوں طرف کوئی ایسا شخص نہیں جو غیرت کے لفظ سے نا آشنا ہو۔ پھر بھی دونوں ممالک کی مجموعی ڈیڑھ ارب آبادی میں سالانہ پونے چار لاکھ کے لگ بھگ انفرادی و اجتماعی ریپ ہورہے ہیں۔یعنی ہر سال انیس سو سینتالیس سے تین گنا زائد۔۔۔سرحدیں بدل گئیں ، سماج کہاں بدلا ؟
bbcurdu.com ( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے پر کلک کیجیے )