مودی کو مہاتما گاندھی بنانے کی کوشش
گاندھی جی کو عوام کے جذبات کا بخوبی احساس تھا
اس بات پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کھڈی بورڈ نے وزیراعظم نریندر مودی کی اس تصویر کی اشاعت کے لیے اجازت دی ہے جس میں انھیں مہاتما گاندھی کے انداز سے چرخہ کاتتے ہوئے دکھایا گیا ہے حالانکہ یہ وزیراعظم کے آفس کی اجازت کے بغیر کیا گیا ہے۔ غالباً کسی نے نچلی سطح سے بورڈ کو ایسا کرنے کا کہا ہو گا لیکن عوام کی طرف سے اس قدر شور و غوغا پیدا ہوا کہ اس کی تردید لازمی ہو گئی۔ حتیٰ کہ وزیراعظم کے دفتر کی طرف سے کسی ٹھوس موقف کا اظہار نہیں کیا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر بڑی سختی سے انتباہ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ آیندہ اس قسم کی کوئی حرکت بغیر کسی تادیبی کارروائی کے عمل میں نہ لائی جا سکے۔ اس سے ان لوگوں کو کان ہو جاتے جو کسی نہ کسی بہانے ریاست کی توقیر سے کھیلنے کی کوشش کرتے۔ انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ خود اپنی توہین کا ارتکاب کر رہے ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جب قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونا لازم تھا۔ لوگ اب بھی اس کا احترام نہیں کرتے اور سینما گھروں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جب کہ ترانہ بھی ختم نہیں ہوا ہوتا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا حکم ہے جس کو ماننا ضروری نہیں ہے۔ عوام اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ قومی ترانہ اور قومی پرچم ایک خاص تقدس کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ یہ قوم کی عزت اور خود مختاری کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اس بات کا احساس لوگوں کو خود کرنا چاہیے نہ کہ اس مقصد کی خاطر قوانین وضع کیے جائیں۔ جب قومی اور انفرادی مفاد کی بات ہو تو لوگوں کا فرض ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انھیں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی قومی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دی جائے۔
گاندھی جی کو عوام کے جذبات کا بخوبی احساس تھا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ انھوں نے وہ عبادت کا اجلاس روک دیا جب کسی نے قرآن پاک کی تلاوت پر اعتراض کیا اور یہ اجلاس دوبارہ اس وقت شروع کیا جب متعلقہ شخص نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ گاندھی جی بہرحال کولکتہ میں زیادہ کامیاب تھے جب وہاں کے وزیراعلیٰ حسین شہید سہروردی نے کانگریس کی ستیا گرہ کے جواب میں مسلم لیگ کے ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ اس کے جواب میں شدید ردعمل ہواجس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔ گاندھی جی اس موقع پر کولکتہ چلے گئے اور عوام سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار انھیں دیدیں۔ حتیٰ کہ سب سے زیادہ متاثر ہونیوالوں نے بھی 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہتھیار ڈال دیے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے، جو اس وقت گورنر جنرل تھے کہا، ہزاروں مسلح افراد نے صرف ایک شخص کے کہنے پر اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بھارت نے اس کے بعد سے بڑا طویل فاصلہ طے کیا ہے لیکن اب اس کا اعتقاد اجتماعیت پر پہلے سے بہت کم ہو گیا ہے۔ مذہب کے نام پر سرحد بندی کی وجہ سے سیکولر ازم کو ضعف پہنچا ہے۔ لیکن اس میں قصور کانگریس کا ہے مسلم لیگ کا نہیں جو کہ روز اول سے مطالبہ کر رہی تھی کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ کانگریس جو سیکولر ازم کی نمایندگی کی دعویدار تھی وہ خود اپنے مقصد سے ہٹ چکی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد جو کہ بہت قد آور مسلمان لیڈر تھے انھوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلمان غیر منقسم ہندوستان میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے حالانکہ یہاں پر ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود انھیں مساوی مواقع حاصل ہیں تو ممکن ہے کہ علیحدگی کے بعد ان کی وہ پوزیشن نہ رہے۔ لیکن مسلمان ہر قیمت پر علیحدگی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انھوں نے ایسا ملک حاصل کر لیا جہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین امتیاز ناگزیر تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا انتباہ درست ثابت ہوا۔ تقریباً 18کروڑ مسلمانوں کا بھارتی حکومت میں کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کے بارے میں خبریں ملتی ہیں کہ ان کے ساتھ دلتوں سے بھی برا سلوک ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ ہندوؤں کی شاونیت (Chauvinism) کو روکنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ وہ قطعاً بے بس محسوس ہوتے ہیں۔ جہاں تک بھارت میں مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ مجموعی طور پر بڑی مشکل صورت حال میں مبتلا ہیں۔
جہاں تک مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کا تعلق ہے تو ان کا طرز عمل ایسا ہے جیسے وہ پہلے ہی آزادی حاصل کر چکے ہیں۔ کشمیر کے مقبول عام لیڈر شیخ عبداللہ نے کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ کی طرف سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کی تھی۔ البتہ جب بھارت نے دفاع' امور خارجہ اور مواصلات کے علاوہ مزید محکموں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ کشمیر کی موجودہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات پر کشمیری ان پر سخت تنقید کر رہے ہیں کیونکہ مودی خود کو ہندوؤں کا لیڈر کہتے ہیں۔ حالانکہ مودی کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ پورے بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ لیکن چونکہ وہ 540 رکنی لوک سبھا کی 262 نشستیں جیت کر ایوان میں آئے ہیں لہذا وہ خود کو بہت سی چیزوں سے ماورا محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر کی زہرا وسیم کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ایک فلم میں بہت قابل قدر کردار ادا کیا جس کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر عامر خان تھے۔ انھوں نے بھی اس کے کردار کی تعریف کی ہے لیکن ٹی وی انٹرویو میں اس لڑکی کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو وادی کو الگ ریاست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ حقیقت کو مدنظر نہیں رکھ رہے۔ میں جب سری نگر گیا تو میں نے کہا کہ بھارتی لوک سبھا کشمیر کو الگ ریاست بنانے کی اجازت نہیں دے گی تو کشمیری نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے پر بڑی سختی سے انتباہ کیا جانا چاہیے تھا تاکہ آیندہ اس قسم کی کوئی حرکت بغیر کسی تادیبی کارروائی کے عمل میں نہ لائی جا سکے۔ اس سے ان لوگوں کو کان ہو جاتے جو کسی نہ کسی بہانے ریاست کی توقیر سے کھیلنے کی کوشش کرتے۔ انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ اس طرح وہ خود اپنی توہین کا ارتکاب کر رہے ہوں۔ ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے جب قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہونا لازم تھا۔ لوگ اب بھی اس کا احترام نہیں کرتے اور سینما گھروں کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں جب کہ ترانہ بھی ختم نہیں ہوا ہوتا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت کا حکم ہے جس کو ماننا ضروری نہیں ہے۔ عوام اس بات کا احساس نہیں کرتے کہ قومی ترانہ اور قومی پرچم ایک خاص تقدس کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ یہ قوم کی عزت اور خود مختاری کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اس بات کا احساس لوگوں کو خود کرنا چاہیے نہ کہ اس مقصد کی خاطر قوانین وضع کیے جائیں۔ جب قومی اور انفرادی مفاد کی بات ہو تو لوگوں کا فرض ہے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہ انھیں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ یعنی قومی مفاد کو انفرادی مفاد پر ترجیح دی جائے۔
گاندھی جی کو عوام کے جذبات کا بخوبی احساس تھا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ انھوں نے وہ عبادت کا اجلاس روک دیا جب کسی نے قرآن پاک کی تلاوت پر اعتراض کیا اور یہ اجلاس دوبارہ اس وقت شروع کیا جب متعلقہ شخص نے اپنا اعتراض واپس لے لیا۔ گاندھی جی بہرحال کولکتہ میں زیادہ کامیاب تھے جب وہاں کے وزیراعلیٰ حسین شہید سہروردی نے کانگریس کی ستیا گرہ کے جواب میں مسلم لیگ کے ایکشن پلان کا اعلان کیا۔ اس کے جواب میں شدید ردعمل ہواجس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں گئیں۔ گاندھی جی اس موقع پر کولکتہ چلے گئے اور عوام سے کہا کہ وہ اپنے ہتھیار انھیں دیدیں۔ حتیٰ کہ سب سے زیادہ متاثر ہونیوالوں نے بھی 24 گھنٹوں کے اندر اندر ہتھیار ڈال دیے۔
لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے، جو اس وقت گورنر جنرل تھے کہا، ہزاروں مسلح افراد نے صرف ایک شخص کے کہنے پر اپنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔ بھارت نے اس کے بعد سے بڑا طویل فاصلہ طے کیا ہے لیکن اب اس کا اعتقاد اجتماعیت پر پہلے سے بہت کم ہو گیا ہے۔ مذہب کے نام پر سرحد بندی کی وجہ سے سیکولر ازم کو ضعف پہنچا ہے۔ لیکن اس میں قصور کانگریس کا ہے مسلم لیگ کا نہیں جو کہ روز اول سے مطالبہ کر رہی تھی کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔ کانگریس جو سیکولر ازم کی نمایندگی کی دعویدار تھی وہ خود اپنے مقصد سے ہٹ چکی ہے۔
مولانا ابوالکلام آزاد جو کہ بہت قد آور مسلمان لیڈر تھے انھوں نے خبردار کیا کہ اگر مسلمان غیر منقسم ہندوستان میں خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتے حالانکہ یہاں پر ان کی تعداد بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود انھیں مساوی مواقع حاصل ہیں تو ممکن ہے کہ علیحدگی کے بعد ان کی وہ پوزیشن نہ رہے۔ لیکن مسلمان ہر قیمت پر علیحدگی کا فیصلہ کر چکے تھے۔ انھوں نے ایسا ملک حاصل کر لیا جہاں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین امتیاز ناگزیر تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد کا انتباہ درست ثابت ہوا۔ تقریباً 18کروڑ مسلمانوں کا بھارتی حکومت میں کوئی عمل دخل نہیں۔ ان کے بارے میں خبریں ملتی ہیں کہ ان کے ساتھ دلتوں سے بھی برا سلوک ہوتا ہے۔ سیاسی طور پر ان کی کوئی حیثیت نہیں اور نہ ہی وہ ہندوؤں کی شاونیت (Chauvinism) کو روکنے کی قدرت رکھتے ہیں بلکہ وہ قطعاً بے بس محسوس ہوتے ہیں۔ جہاں تک بھارت میں مسلمانوں کا تعلق ہے تو وہ مجموعی طور پر بڑی مشکل صورت حال میں مبتلا ہیں۔
جہاں تک مقبوضہ وادی کے کشمیریوں کا تعلق ہے تو ان کا طرز عمل ایسا ہے جیسے وہ پہلے ہی آزادی حاصل کر چکے ہیں۔ کشمیر کے مقبول عام لیڈر شیخ عبداللہ نے کشمیر کے مہاراجا ہری سنگھ کی طرف سے ریاست کے بھارت کے ساتھ الحاق کی حمایت کی تھی۔ البتہ جب بھارت نے دفاع' امور خارجہ اور مواصلات کے علاوہ مزید محکموں پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی۔ کشمیر کی موجودہ وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ملاقات پر کشمیری ان پر سخت تنقید کر رہے ہیں کیونکہ مودی خود کو ہندوؤں کا لیڈر کہتے ہیں۔ حالانکہ مودی کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ پورے بھارت کے وزیراعظم ہیں۔ لیکن چونکہ وہ 540 رکنی لوک سبھا کی 262 نشستیں جیت کر ایوان میں آئے ہیں لہذا وہ خود کو بہت سی چیزوں سے ماورا محسوس کرتے ہیں۔
کشمیر کی زہرا وسیم کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ایک فلم میں بہت قابل قدر کردار ادا کیا جس کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر عامر خان تھے۔ انھوں نے بھی اس کے کردار کی تعریف کی ہے لیکن ٹی وی انٹرویو میں اس لڑکی کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو وادی کو الگ ریاست بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ حقیقت کو مدنظر نہیں رکھ رہے۔ میں جب سری نگر گیا تو میں نے کہا کہ بھارتی لوک سبھا کشمیر کو الگ ریاست بنانے کی اجازت نہیں دے گی تو کشمیری نوجوانوں کا کہنا تھا کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)