بے مقصد آرٹیکل 6263

قومی اسمبلی میں بھی شراب کی بازگشت متعدد بار سنی گئی اور شراب نہ پینے والےارکان نے شراب پرمکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے

KARACHI:
1973 کے آئین میں آرٹیکل 62-63 شامل کی گئی تھی جس کے تحت عوام کے منتخب نمایندوں کا صادق وامین ہونا بنیادی شرط ہے جس کا ذکر سپریم کورٹ میں خاص طور پر ہوتا رہا ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے آئین کی اس شرط پر خاص طور پر توجہ دلائی جا رہی ہے۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم میر ظفر اللہ جمالی قومی اسمبلی میں پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر آئین کے آرٹیکل 62-63 پر عمل ہوجائے تو پوری پارلیمنٹ خالی ہوجائے گی جس میں، میں خود بھی شامل ہوں گا۔

حال ہی میں قومی اسمبلی کے ایک (ن) لیگی رکن میاں عبدالمنان نے بھی کہا ہے کہ ہم عزت کے لیے پارلیمنٹ میں آئے تھے مگر ارکان پارلیمنٹ کا حال بیان نہیں کرسکتا جو انتہائی شرمناک ہے۔ قومی اسمبلی کے آزاد رکن جمشید دستی ایوان میں الزام لگا چکے ہیں کہ متعدد ارکان شراب پیتے ہیں جس کی تصدیق سینیٹر حمداللہ نے بھی کی ہے۔ سینیٹر شاہی سید نے بھی سیاستدانوں کے لیے شراب پینے پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے چرس کو درویشی نشہ قرار دیا ہے۔

قومی اسمبلی میں بھی شراب کی بازگشت متعدد بار سنی گئی اور شراب نہ پینے والے ارکان نے شراب پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا ہے جب کہ حکومتی حلقوں میں متعدد وزرا اور ارکان اسمبلی ہی نہیں بلکہ اعلیٰ افسران کے گھروں میں تو غیر ملکی شرابوں کے باقاعدہ بار بنے ہوئے ہیں جہاں شراب کے شوقین بڑے لوگ جاکر شراب نوشی کرتے ہیں اور شراب کی دعوتیں اب تعلقات بڑھانے اور اپنے کام نکلوانے کا ذریعہ بن چکی ہیں اور ایسی دعوتوں میں کھانے سے پہلے شراب ضروری جز بن چکی ہے۔

ایک سابق وزیر اعظم نے تو بھرے جلسے میں فخریہ کہا تھا کہ ہاں میں شراب پیتا ہوں غریبوں کا خون نہیں پیتا جس پر لوگوں نے تالیاں بجائی تھیں۔ ارکان پارلیمنٹ کیا ارکان اسمبلی خصوصاً وزرا کی بہت بڑی تعداد بھی ام الخبائث سے شغف رکھتی ہے اور عوام کے منتخب نمایندے عوام کے غم میں شراب پی کر اپنے غم غلط کرتے ہیں۔ ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کی بہت کم تعداد ایسی ہے جو شراب کے سخت خلاف ہیں اور دینی رجحان رکھتے ہیں۔

سینیٹر مشاہد اللہ نے بھی شراب پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے اور ایسے مطالبے وہی کرسکتے ہیں جو شراب یا دیگر نشوں سے دور ہیں۔ سینیٹر شاہی سید نے چرس کے نشے کو تو درویشی نشہ قرار دے دیا ہے جب کہ چرس کا استعمال لاکھوں افراد تو کرتے ہی ہیں مگر یہ نشہ طلبا اور طالبات میں بھی سرائیت کرچکا ہے۔ ایک سیاسی رہنما پر کوکین کے استعمال کا بھی الزام لگا ہے اور الزام لگانے والے بزرگ سیاستدان نے ان کے اور اپنے ڈی این اے ٹیسٹ کرانے کی پیشکش کی ہے۔


شراب یا دیگر نشے کرنے والے ارکان پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی صرف اس وجہ سے نااہل نہیں کیے جاسکتے کہ وہ نشہ کرنے کی وجہ سے صادق و امین نہیں ہیں۔ صادق وامین تو صرف وہی ہوسکتے ہیں جو جھوٹ، بے ایمانی، غیر شرعی، و غیر قانونی کاموں، عوام پر ظلم، غریبوں کی زمینوں اور جائیدادوں پر قبضوں، جرائم کی سرپرستی، کرپشن و دیگر اخلاقی اورغیر قانونی اقدامات پر یقین نہ رکھتے ہوں مگر آج کی سیاست میں تو یہ ساری برائیاں موجود ہیں اور سیاست کے ساتھ مذہبی ہونے کے دعویدار بھی مختلف الزامات سے محفوظ نہیں ہیں جس کا الزام عمران خان بھی ایک نامور شخصیت پر متعدد بار لگا چکے ہیں۔

پاکستان کے قیام کے 70 سالوں میں صرف بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح، شہید ملت لیاقت علی خان اورگنتی کے سابق حکمران اور سیاستدان ہی ایسے ہیں جنھیں آرٹیکل 62-63 کے تحت صادق و امین قرار دیا جاسکے۔ ایک سابق وزیر اعلیٰ نے تو دعویٰ کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں صرف میرے ہی دور میں شرابوں کے دور نہیں چلے بلکہ مذہبی اجتماعات ہوئے اور ایوان وزیر اعلیٰ کو غیر شرعی حرکتوں سے محفوظ رکھا گیا۔

پاکستان کے 1955 میں ایک کفایت شعار وزیر اعظم چوہدری محمد علی تھے جنھوں نے سرکاری اسٹیشنری یا سرکاری ملازم کو کبھی اپنے نجی کام کے لیے استعمال کیا اور نہ کبھی انھوں نے سرکاری گاڑی اپنے لیے استعمال کی جب کہ ہمارے موجودہ حکمرانوں ہی کو دیکھ لیں جن کے اقتدار میں آنے کا مقصد اور اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ قوم کے ٹیکس اور سرکاری وسائل کو اپنی ذات ہی نہیں بلکہ اپنے پورے خاندان، سسرالیوں، دوستوں، اپنے حامیوں اور عزیز و اقارب کو بھی فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کریں۔ یہی نہیں بلکہ اقتدار ختم ہوجانے کے بعد بھی وہ حاصل سرکاری گاڑیوں اور وسائل سے محروم نہیں ہونا چاہتے اور سرکاری گھر تک خالی نہیں کرتے۔ ایک بار جو اقتدار میں آجاتا ہے وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ پورے ملک یا صوبے کا مستقل مالک بن گیا ہے اس لیے وہ امین و صادق کی بجائے لٹیرا بن جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب اس نے اقتدار میں ہی رہنا ہے۔

اقتدار حکمرانوں کے پاس عارضی اور قومی امانت ہوتا ہے مگر وہ یہ نہیں سمجھتے کہ اقتدار سے انھیں ضرور محروم ہونا ہے۔ صاحب اقتدار ہی نہیں بلکہ اس کی اولاد خاندان اور قریبی رفتار بھی سمجھتے ہیں کہ ملک اور اقتدار ان کی جاگیر ہے اس لیے جتنا چاہے لوٹ لو۔ انھیں یہ خوف بھی نہیں رہتا کہ مستقبل میں ان کے لیے بھی پانامہ لیکس میں کرپشن کے انکشافات ہوسکتے ہیں اور پانامہ نہ بھی ہو انھیں خدا کے پاس تو ہر حالت میں جانا ہے جہاں ان کی کرپشن کی نہیں سزا کی بات ہوگی۔

سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس میں ہر طرف سے اپنے قائدین کی خوشنودی کے لیے جھوٹ پہ جھوٹ بولنے کے مقابلے چل رہے ہیں اور عوام پریشان کہ کسے امین و صادق سمجھیں۔ موجودہ پارلیمنٹ کے 322 ممبران حکومتی محکموں کے کروڑوں روپے کے نادہندہ ہیں۔ ارکان اسمبلی اور سینیٹر تک جھوٹے گوشوارے جمع کراتے ہیں مگر غلط ثابت ہونے کی تحقیقات ہوتی ہے نہ ثبوت ملتے ہیں کہ وہ کتنے صادق اور امین ہیں۔

ارکان اسمبلی اور سینیٹروں ہی نہیں اعلیٰ افسران اور بڑے سیاستدانوں ہی کے اگر ڈی این اے ٹیسٹ کرا لیے جائیں تو کرپشن کے ثبوت نہ چھوڑنے والوں کی پاکیزگی کا پتا چل سکتا ہے کہ وہ کتنے صادق و امین ہیں۔ آرٹیکل 62-63 بے مقصد ہوچکا ہے جس پر عمل نہیں ہونا تو اسے آئین سے نکال دینا چاہیے۔
Load Next Story