لینن کے نظریات و عصر حاضر
لینن نہ صرف اپنے بھائی الیگزنڈر سے بے حد الفت رکھتا تھا بلکہ لینن کی شخصیت پر اپنے بھائی کی شخصیت کا گہرا اثر تھا
BANGKOK:
روس میں اگرچہ مکمل جاگیرداری نظام قائم تھا اورملک میں زارشاہی راج قائم تھا، البتہ 19 ویں صدی میں روس میں سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ روس کے عوام صنعتی مزدور ہوں یا کھیت مزدور دونوں کی حالت زار دگرگوں تھی یہ لوگ تمام قسم کی سہولیات سے محروم ہوچکے تھے ملک کے عام شہری بہ مشکل روکھی سوکھی روٹی ہی حاصل کر پاتے گویا ان کو ان کی محنت کی انتہائی قلیل اجرت ملتی البتہ جن لوگوں کو روٹی کے ساتھ نمک لگے ابلے آلو نصیب ہوجاتے ایسے لوگ خوش خوراک شمار کیے جاتے تھے۔ بصورت دیگر حقیقت یہی تھی کہ روکھی سوکھی روٹی قہوے کے ساتھ عام روسیوں کی خوراک تھی۔
یہ ضرور تھا کہ اس سماجی جبر کے خلاف جو کوئی بھی آواز بلند کرتا قید و بند اس کا مقدر بنادیا جاتا کیونکہ جبرکے خلاف زار شاہی راج کوئی آواز سننے کو تیار نہ تھا۔ زار شاہی راج کے خلاف آواز بلند کرنے والا ایک نام الیگزنڈر کا بھی ہے جس پر الزام تھا کہ اس نے روس کے بادشاہ الیگزنڈر سوم کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی چنانچہ الیگزنڈر کو اسی جرم کی پاداش میں پھانسی کی سزا دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا تھا یہ تذکرہ ہے 1887 کا۔ الیگزنڈر کا طرز عمل گویا یہ تھا کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیا جائے مگر الیگزنڈرکے چھوٹے بھائی نے مارکسزم کا راستہ اپنایا۔
الیگزنڈر کے چھوٹے بھائی کا خیال تھا کہ روس کے مظلوم و محروم لوگوں کی نجات مارکسزم یا اشتراکی نظام ہی سے ممکن ہے یہ راستہ الیگزنڈر کے نظریات کے گویا برعکس تھا۔ الیگزنڈرکا وہ بھائی ولادیمیر ویلیچ اولیانوف جوکہ لینن کے نام سے جانا گیا۔ لینن کا جنم روس کے شہر سیمبرسک میں 22 اپریل 1870 کو ہوا۔ لینن نے اپنا بچپن سیمبرسک قازان و سمارا میں گزارا۔ یہ تینوں شہر دریائے والگا کے کنارے آباد ہیں۔لینن کے والد ایلیانکولائی وچ اولیانوف و والدہ ماریا الیگزنڈرونا نے اپنے دیگر چاربچوں کی طرح لینن کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا یہی باعث تھا کہ ان کے پانچوں بچے انقلابی بنے۔
لینن نہ صرف اپنے بھائی الیگزنڈر سے بے حد الفت رکھتا تھا بلکہ لینن کی شخصیت پر اپنے بھائی کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔الیگزنڈر جوکہ عزم عوام نامی تنظیم سے وابستہ تھا ،اسی کے زیر اثر لینن ابتدائی طور پر مارکسی تعلیمات و نظریات سے آگاہ ہوا تھا یوں بھی لینن کو بچپن ہی سے والدین کی جانب سے عام وغریب لوگوں سے ہمدردی و محبت کرنے کا خصوصی درس دیا گیا تھا۔ لینن تعلیمی میدان میں بھی ایک ذہین طالب علم تھے یہ سب تھا کہ جب 1887 میں انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی تو انھیں سونے کا تمغہ اسکول کی جانب سے عطا ہوا۔ اسی برس انھوں نے پیٹرسبرگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1891 میں قانون کی سند حاصل کی۔
اسی یونیورسٹی میں ان کی ملاقات انقلابی طلبا سے ہوئی اور لینن نے بھی انقلابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کردیا جس کی پاداش میں انھیں ایک برس کے لیے جلا وطن بھی ہونا پڑا۔ البتہ قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد لینن نے ضلع سمارا میں وکالت کا آغاز کردیا۔ جہاں وہ غریب کسانوں کے مقدمات مفت یا قلیل معاوضے کے عوض لڑتے رہے یہ سلسلہ جاری تھا ساتھ میں لینن نے 1892 میں پہلا مارکسی حلقہ منظم کیا گویا اب لینن و اس کے ساتھی مارکسی تعلیمات کا مطالعہ کرتے اور پھر عام لوگوں میں اس کی تشہیر کرتے ساتھ پیٹرسبرگ میں استاد معظم لینن نے وسیع پیمانے پر صنعتی مزدوروں میں اپنی سرگرمیاں بھی شروع کردیں اور یہی مقام تھا جہاں لینن کی قیادت میں ایک تنظیم قائم ہوئی جس کا نام جدوجہد کی انجمن رکھا گیا۔
اس انجمن نے لوگوں کا خوب خوب سیاسی شعور بیدار کیا۔ اسی انجمن کے تحت 1896 میں پیٹرسبرگ میں مزدوروں نے ایک ہڑتال زار شاہی جبر کے خلاف منظم کی۔ اس کامیاب و مشہور ہڑتال میں تین لاکھ مرد و خواتین محنت کشوں نے حصہ لیا۔ اس ہڑتال کی قیادت چونکہ کامریڈ لینن نے کی تھی اسی لیے اب ان کو بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ البتہ اب استاد کیبرلینن نے تخلیقی کام کا آغاز بھی کردیا تھا۔
یہ تخلیقی سلسلہ ان کی وفات سے ایک برس قبل یعنی 1923 تک جاری رہا۔ لینن نے کتابچے و مضامین تحریر کیے اخبارات و جرائد نکالے ان کی کتابوں کی تعداد 45 ہے۔ جب کہ مارکس و انگلز کی نامور کتاب کمیونسٹ بینی فسٹو کا جرمن زبان سے روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ لینن کی ان سرگرمیوں و نظریاتی تصانیف نے مارکسزم کی تعمیر و ترقی و روس میں مزدور تحریک میں ایک نئے دور لینن ازم کا آغاز کیا۔ 1897 میں ان کو تین برس کے لیے سائبیریا جلا وطن کردیا گیا۔
1900 میں لینن کی جلاوطنی ختم ہوئی مگر اب وہ زار شاہی کی نظروں میں ایک ایسے انقلابی تھے جن سے زار شاہی راج کو شدید خطرات تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب لینن خفیہ طریقے سے جرمنی چلے گئے اور اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے دسمبر 1900 میں جرمنی سے ایک انقلابی اخبار آسکر (چنگاری) جاری کیا۔ اس اخبار نے روسی عوام کو سیاسی شعور دینے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی جماعت کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1903 میں لینن کی پارٹی کی دوسری کانگریس میں اصلاحات کے حامی پلیخانوف سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے کیونکہ لینن مزدور راج کے حامی تھے چنانچہ لینن کا حامی گروپ اب بالشویک وانکا مخالف منشویک گروپ کہلاتا۔
1905 میں لینن نے یہ نعرہ روسی عوام کو دیا کہ آزادی یا موت چنانچہ اسی نعرے کے تحت دسمبر 1905 میں 14 لاکھ روسی عوام جن میں مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی شامل تھے زار کے شاہی محل کے سامنے سراپا احتجاج تھے مقام تھا پیٹرسبرگ شہر، اِن احتجاج کرنے والوں کا مقصد حکمرانوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ مگر جواب میں زار حکمرانوں نے بلاتفریق مرد و زن گولیاں چلوا دیں۔ اس موقع پر زار کے سپاہی نو روز تک لوگوں کا قتل عام کرتے رہے۔ مگر ایک جانب زار کے تربیت یافتہ سپاہی دوسری جانب نہتے و مسائل سے دوچار عوام جنھوں نے کسی حد تک مزاحمت کی مگر بے سود۔ گویا انقلاب ناکام رہا۔ گوکہ یہ انقلاب کامیاب نہ ہوسکا مگر حوصلہ مند لینن نے اپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے اپنی خامیاں تلاش کرنے کی کوشش کی اب لینن و ان کے انقلابی ساتھیوں کے لیے ایک کٹھن ترین دور شروع ہوچکا تھا۔
اب ان لوگوں کا گویا انداز یہ تھا جہاں ایک قدم آگے بڑھنا ضروری ہے وہیں حکمت عملی کے تحت دو قدم پیچھے بھی ہٹ جاؤ۔ لینن و ان کی پارٹی انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں تھے کہ اولین عالمگیر جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ میں ایک جانب جرمنی، آسٹریا و ہنگری و دوسری جانب روس، فرانس و برطانیہ مدمقابل تھے۔ لینن نے اس جنگ کو سرمایہ داری جنگ قرار دیا اور یہ نعرہ دیا کہ سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دو۔
جنگی حالات کے باعث روس شدید بحران سے دوچار ہوچکا تھا اب حکومتی امور چلانا زار شاہی کے بس میں نہ رہے تھے۔ چنانچہ ان حالات میں لینن نے یہ پیشگوئی کی کہ اب انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ چنانچہ لینن نے یہ نعرہ دیا کہ مطلق العنانی مردہ باد، جنگ مردہ باد، روٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے روسی عوام سڑکوں پر آگئے۔ بغاوت کا آغاز پیٹروگراڈ نامی شہر سے ہوا۔ جہاں ایک ہڑتال منظم کی تھی جس میں دو لاکھ مرد و زن نے شرکت کی۔ انقلابی عمل تیزی سے شروع ہوا اور 6 نومبر روسی کیلنڈر 24 اکتوبر کا دن تھا کہ صبح کو مسلح بغاوت شروع ہوگئی۔
7 نومبر کی صبح تک بالشویک مزدور و ان کا ساتھ دینے والے سپاہی و ملاح اہم ترین اداروں جن میں ریڈیو اسٹیشن، تار گھر، ٹیلیفون، ریلوے اسٹیشن وغیرہ تھے قابض ہوگئے۔ 7 نومبر ہی کو صبح 10 بجے لینن کی جانب سے ایک اعلان نامہ جاری کیا گیا جس میں زار شاہی راج کے خاتمے و انقلاب کی کامیابی کی نوید دی گئی تھی۔ بہرکیف جنوری 1924 تک لینن پر 3 بار فالج کے حملے ہوئے یہ فالج کے حملے مئی 1922 و اس کے بعد کے عرصے میں ہوئے تھے مگر وہ صحت یاب ہوگئے۔ البتہ 20 جنوری 1924 کو ہونے والا حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ لینن کی وفات سے گویا دنیا بھر میں صف ماتم بچھ گئی اور 27 جنوری 1924 کو انھیں سپرد خاک کردیا گیا۔
یہ ضروری ہے کہ لینن کی موت ان کی جسمانی موت تھی نظریاتی نہیں۔ ان کے نظریات آج بھی قابل عمل ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو جبر و استبداد سے نجات مل سکتی ہے آنے والا ضرور مارکسی انگلز و لینن کا زمانہ ہے کیونکہ ان کے نظریات ضرور کامیاب ہوں گے۔ آج 20 جنوری 2017 کو ہم لینن کو ان کی 93 ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
روس میں اگرچہ مکمل جاگیرداری نظام قائم تھا اورملک میں زارشاہی راج قائم تھا، البتہ 19 ویں صدی میں روس میں سرمایہ کاری کا آغاز بھی ہوچکا تھا۔ روس کے عوام صنعتی مزدور ہوں یا کھیت مزدور دونوں کی حالت زار دگرگوں تھی یہ لوگ تمام قسم کی سہولیات سے محروم ہوچکے تھے ملک کے عام شہری بہ مشکل روکھی سوکھی روٹی ہی حاصل کر پاتے گویا ان کو ان کی محنت کی انتہائی قلیل اجرت ملتی البتہ جن لوگوں کو روٹی کے ساتھ نمک لگے ابلے آلو نصیب ہوجاتے ایسے لوگ خوش خوراک شمار کیے جاتے تھے۔ بصورت دیگر حقیقت یہی تھی کہ روکھی سوکھی روٹی قہوے کے ساتھ عام روسیوں کی خوراک تھی۔
یہ ضرور تھا کہ اس سماجی جبر کے خلاف جو کوئی بھی آواز بلند کرتا قید و بند اس کا مقدر بنادیا جاتا کیونکہ جبرکے خلاف زار شاہی راج کوئی آواز سننے کو تیار نہ تھا۔ زار شاہی راج کے خلاف آواز بلند کرنے والا ایک نام الیگزنڈر کا بھی ہے جس پر الزام تھا کہ اس نے روس کے بادشاہ الیگزنڈر سوم کو قتل کرنے کی سازش تیار کی تھی چنانچہ الیگزنڈر کو اسی جرم کی پاداش میں پھانسی کی سزا دے کر موت کی نیند سلا دیا گیا تھا یہ تذکرہ ہے 1887 کا۔ الیگزنڈر کا طرز عمل گویا یہ تھا کہ قوت کا جواب قوت ہی سے دیا جائے مگر الیگزنڈرکے چھوٹے بھائی نے مارکسزم کا راستہ اپنایا۔
الیگزنڈر کے چھوٹے بھائی کا خیال تھا کہ روس کے مظلوم و محروم لوگوں کی نجات مارکسزم یا اشتراکی نظام ہی سے ممکن ہے یہ راستہ الیگزنڈر کے نظریات کے گویا برعکس تھا۔ الیگزنڈرکا وہ بھائی ولادیمیر ویلیچ اولیانوف جوکہ لینن کے نام سے جانا گیا۔ لینن کا جنم روس کے شہر سیمبرسک میں 22 اپریل 1870 کو ہوا۔ لینن نے اپنا بچپن سیمبرسک قازان و سمارا میں گزارا۔ یہ تینوں شہر دریائے والگا کے کنارے آباد ہیں۔لینن کے والد ایلیانکولائی وچ اولیانوف و والدہ ماریا الیگزنڈرونا نے اپنے دیگر چاربچوں کی طرح لینن کی تعلیم وتربیت کا خاص خیال رکھا یہی باعث تھا کہ ان کے پانچوں بچے انقلابی بنے۔
لینن نہ صرف اپنے بھائی الیگزنڈر سے بے حد الفت رکھتا تھا بلکہ لینن کی شخصیت پر اپنے بھائی کی شخصیت کا گہرا اثر تھا۔الیگزنڈر جوکہ عزم عوام نامی تنظیم سے وابستہ تھا ،اسی کے زیر اثر لینن ابتدائی طور پر مارکسی تعلیمات و نظریات سے آگاہ ہوا تھا یوں بھی لینن کو بچپن ہی سے والدین کی جانب سے عام وغریب لوگوں سے ہمدردی و محبت کرنے کا خصوصی درس دیا گیا تھا۔ لینن تعلیمی میدان میں بھی ایک ذہین طالب علم تھے یہ سب تھا کہ جب 1887 میں انھوں نے اسکول کی تعلیم مکمل کی تو انھیں سونے کا تمغہ اسکول کی جانب سے عطا ہوا۔ اسی برس انھوں نے پیٹرسبرگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور 1891 میں قانون کی سند حاصل کی۔
اسی یونیورسٹی میں ان کی ملاقات انقلابی طلبا سے ہوئی اور لینن نے بھی انقلابی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لینا شروع کردیا جس کی پاداش میں انھیں ایک برس کے لیے جلا وطن بھی ہونا پڑا۔ البتہ قانون کی سند حاصل کرنے کے بعد لینن نے ضلع سمارا میں وکالت کا آغاز کردیا۔ جہاں وہ غریب کسانوں کے مقدمات مفت یا قلیل معاوضے کے عوض لڑتے رہے یہ سلسلہ جاری تھا ساتھ میں لینن نے 1892 میں پہلا مارکسی حلقہ منظم کیا گویا اب لینن و اس کے ساتھی مارکسی تعلیمات کا مطالعہ کرتے اور پھر عام لوگوں میں اس کی تشہیر کرتے ساتھ پیٹرسبرگ میں استاد معظم لینن نے وسیع پیمانے پر صنعتی مزدوروں میں اپنی سرگرمیاں بھی شروع کردیں اور یہی مقام تھا جہاں لینن کی قیادت میں ایک تنظیم قائم ہوئی جس کا نام جدوجہد کی انجمن رکھا گیا۔
اس انجمن نے لوگوں کا خوب خوب سیاسی شعور بیدار کیا۔ اسی انجمن کے تحت 1896 میں پیٹرسبرگ میں مزدوروں نے ایک ہڑتال زار شاہی جبر کے خلاف منظم کی۔ اس کامیاب و مشہور ہڑتال میں تین لاکھ مرد و خواتین محنت کشوں نے حصہ لیا۔ اس ہڑتال کی قیادت چونکہ کامریڈ لینن نے کی تھی اسی لیے اب ان کو بار بار قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ البتہ اب استاد کیبرلینن نے تخلیقی کام کا آغاز بھی کردیا تھا۔
یہ تخلیقی سلسلہ ان کی وفات سے ایک برس قبل یعنی 1923 تک جاری رہا۔ لینن نے کتابچے و مضامین تحریر کیے اخبارات و جرائد نکالے ان کی کتابوں کی تعداد 45 ہے۔ جب کہ مارکس و انگلز کی نامور کتاب کمیونسٹ بینی فسٹو کا جرمن زبان سے روسی زبان میں ترجمہ کیا۔ لینن کی ان سرگرمیوں و نظریاتی تصانیف نے مارکسزم کی تعمیر و ترقی و روس میں مزدور تحریک میں ایک نئے دور لینن ازم کا آغاز کیا۔ 1897 میں ان کو تین برس کے لیے سائبیریا جلا وطن کردیا گیا۔
1900 میں لینن کی جلاوطنی ختم ہوئی مگر اب وہ زار شاہی کی نظروں میں ایک ایسے انقلابی تھے جن سے زار شاہی راج کو شدید خطرات تھے۔ یہ وہی وقت تھا جب لینن خفیہ طریقے سے جرمنی چلے گئے اور اپنی انقلابی سرگرمیاں جاری رکھتے ہوئے دسمبر 1900 میں جرمنی سے ایک انقلابی اخبار آسکر (چنگاری) جاری کیا۔ اس اخبار نے روسی عوام کو سیاسی شعور دینے کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی جماعت کی تعمیر میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ 1903 میں لینن کی پارٹی کی دوسری کانگریس میں اصلاحات کے حامی پلیخانوف سے شدید اختلافات پیدا ہوگئے کیونکہ لینن مزدور راج کے حامی تھے چنانچہ لینن کا حامی گروپ اب بالشویک وانکا مخالف منشویک گروپ کہلاتا۔
1905 میں لینن نے یہ نعرہ روسی عوام کو دیا کہ آزادی یا موت چنانچہ اسی نعرے کے تحت دسمبر 1905 میں 14 لاکھ روسی عوام جن میں مرد و خواتین کے ساتھ بچے بھی شامل تھے زار کے شاہی محل کے سامنے سراپا احتجاج تھے مقام تھا پیٹرسبرگ شہر، اِن احتجاج کرنے والوں کا مقصد حکمرانوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ مگر جواب میں زار حکمرانوں نے بلاتفریق مرد و زن گولیاں چلوا دیں۔ اس موقع پر زار کے سپاہی نو روز تک لوگوں کا قتل عام کرتے رہے۔ مگر ایک جانب زار کے تربیت یافتہ سپاہی دوسری جانب نہتے و مسائل سے دوچار عوام جنھوں نے کسی حد تک مزاحمت کی مگر بے سود۔ گویا انقلاب ناکام رہا۔ گوکہ یہ انقلاب کامیاب نہ ہوسکا مگر حوصلہ مند لینن نے اپنی شکست تسلیم کرنے کی بجائے اپنی خامیاں تلاش کرنے کی کوشش کی اب لینن و ان کے انقلابی ساتھیوں کے لیے ایک کٹھن ترین دور شروع ہوچکا تھا۔
اب ان لوگوں کا گویا انداز یہ تھا جہاں ایک قدم آگے بڑھنا ضروری ہے وہیں حکمت عملی کے تحت دو قدم پیچھے بھی ہٹ جاؤ۔ لینن و ان کی پارٹی انقلاب برپا کرنے کے لیے کوشاں تھے کہ اولین عالمگیر جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ میں ایک جانب جرمنی، آسٹریا و ہنگری و دوسری جانب روس، فرانس و برطانیہ مدمقابل تھے۔ لینن نے اس جنگ کو سرمایہ داری جنگ قرار دیا اور یہ نعرہ دیا کہ سامراجی جنگ کو خانہ جنگی میں بدل دو۔
جنگی حالات کے باعث روس شدید بحران سے دوچار ہوچکا تھا اب حکومتی امور چلانا زار شاہی کے بس میں نہ رہے تھے۔ چنانچہ ان حالات میں لینن نے یہ پیشگوئی کی کہ اب انقلاب کو کوئی نہیں روک سکتا۔ چنانچہ لینن نے یہ نعرہ دیا کہ مطلق العنانی مردہ باد، جنگ مردہ باد، روٹی کا مطالبہ کرتے ہوئے روسی عوام سڑکوں پر آگئے۔ بغاوت کا آغاز پیٹروگراڈ نامی شہر سے ہوا۔ جہاں ایک ہڑتال منظم کی تھی جس میں دو لاکھ مرد و زن نے شرکت کی۔ انقلابی عمل تیزی سے شروع ہوا اور 6 نومبر روسی کیلنڈر 24 اکتوبر کا دن تھا کہ صبح کو مسلح بغاوت شروع ہوگئی۔
7 نومبر کی صبح تک بالشویک مزدور و ان کا ساتھ دینے والے سپاہی و ملاح اہم ترین اداروں جن میں ریڈیو اسٹیشن، تار گھر، ٹیلیفون، ریلوے اسٹیشن وغیرہ تھے قابض ہوگئے۔ 7 نومبر ہی کو صبح 10 بجے لینن کی جانب سے ایک اعلان نامہ جاری کیا گیا جس میں زار شاہی راج کے خاتمے و انقلاب کی کامیابی کی نوید دی گئی تھی۔ بہرکیف جنوری 1924 تک لینن پر 3 بار فالج کے حملے ہوئے یہ فالج کے حملے مئی 1922 و اس کے بعد کے عرصے میں ہوئے تھے مگر وہ صحت یاب ہوگئے۔ البتہ 20 جنوری 1924 کو ہونے والا حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ لینن کی وفات سے گویا دنیا بھر میں صف ماتم بچھ گئی اور 27 جنوری 1924 کو انھیں سپرد خاک کردیا گیا۔
یہ ضروری ہے کہ لینن کی موت ان کی جسمانی موت تھی نظریاتی نہیں۔ ان کے نظریات آج بھی قابل عمل ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو جبر و استبداد سے نجات مل سکتی ہے آنے والا ضرور مارکسی انگلز و لینن کا زمانہ ہے کیونکہ ان کے نظریات ضرور کامیاب ہوں گے۔ آج 20 جنوری 2017 کو ہم لینن کو ان کی 93 ویں برسی پر خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔