عالمی سیاسی حالات کی متوقع تیزی…آخری حصہ

اسلام کو تشکیک اور شکوک و شبہات کا مذہب بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ISLAMABAD:
اگست 1990 کے آغاز میں اپنے فوجیوں کو کویت بھیجتے وقت بش سینئر نے تقریر کی، جس میں اس نے انھیں عیسائیت کی خاطر لڑنے پر ابھارا۔ بش نے امریکا کے تمام چرچوں سے کہا کہ وہ ان افواج کے لیے دعا کریں، یہ تقریر جزیرہ نما عرب اور خلیج کے مسلمان ممالک کے خلاف ایک نئی صلیبی مہم کا آغاز تھا۔

بش جونیئر نے 11 ستمبر کے واقعے کے بعد 16 ستمبر 2001 کو کہا کہ وہ افغانستان کے خلاف صلیبی حملے کی تیاری کر رہا ہے اور پھر اس کے بعد میڈیا، تعلیم اور غلط افکار کی ترویج اور تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اسلام کے خلاف ایک گہری سازش کے تحت بڑی منظم اور خوفناک خونریز جنگ کا آغاز کردیا گیا۔

یہ جنگ بش جونیئر اور بارک اوباما کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کے پری پلان انتخاب کے ساتھ آج بھی جاری ہے اور تمام عالم کفر عالم اسلام کے خلاف مختلف محاذوں پر صف آرا ہیں۔ مغرب کی نظر میں ہر راسخ العقیدہ مسلمان دہشت گرد اور مجرم ہے۔ مغرب کے متعصبانہ اقدام نے ان کے انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے بلند بانگ دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔

قرآن کریم کی بے حرمتی، شیطانی تحریریں و کتابیں، گستاخانہ خاکے اور کارٹونز، نیز نائن الیون کی گیارہویں برسی کے موقع پر جاری کردہ اسلام کی توہین اور شان رسالتؐ کے خلاف گستاخانہ امریکی فلم Innocence of Muslims نے دنیا بھر کے 1.5 ارب سے زائد مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو شدید مجروح کیا۔ تاہم مغرب کا اسلام دشمنی پر مبنی یہ متعصبانہ طرز عمل اکثر روز کا معمول بن کر رہ گیا ہے۔ مذکورہ انتہائی قابل مذمت، شرمناک و گھناؤنی فلم ایک اسرائیلی نژاد شخص ملعون سام باسل نے ہی ڈائریکٹ اور پروڈیوس کی تھی، جس کی سرپرستی اور تشہیر فلوریڈا (امریکی ریاست) سے تعلق رکھنے والے ملعون پادری ٹیری جونز نے کی تھی۔

یہ بدبخت شخص ماضی میں بھی قرآن پاک کو نذرآتش کرنے اور نیویارک میں گراؤنڈ زیرو کے قریب مسجد کی تعمیر کی مخالفت میں پیش پیش تھا۔ اس فلم کی تیاری پر پانچ ملین امریکی ڈالر لاگت آئی اور یہ ساری رقم یہودیوں نے فراہم کی ہے۔ یہود و نصاریٰ ازل سے اسلام، بانی اسلامؐ اور مسلم امہ کے دشمن ہیں اور چونکہ فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے، لہٰذا یہود و نصاریٰ کا یہ گٹھ جوڑ عصر حاضر میں بھی عالم اسلام کی نہ صرف تباہی و بربادی بلکہ صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔

یہ حقیقت بھی بخوبی عیاں ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کی طرف سے عرصہ دراز سے عملاً اسلامی انتہاپسندی، اسلامی بنیاد پرستی، اسلامی بم جیسی اصطلاحات استعمال کی جاتی رہی ہیں اور پھر نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اسلام کی ہر علامت مثلاً حجاب، اذان، مسجد، داڑھی، حتیٰ کہ اس کے محراب و منبر اور مینار تک ان کو قبول نہ ہوئے اور ان علامات کو خطرہ قرار دے دیا گیا۔ ان تمام قبیح اقدام کا مقصد مسلمانان عالم کو مطعون اور بدنام کرنا تھا اور ایک منظم سازش کے تحت جان بوجھ کر اسلام کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی گئی۔

اسلام کو تشکیک اور شکوک و شبہات کا مذہب بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے، نیز دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو ہر جگہ ہدف تنقید و ملامت بنایا جاتا رہا ہے، یہ تمام متعصبانہ اقدام اس بات کا کھلا ثبوت ہیں کہ امریکا اور یورپ سمیت پوری مغربی دنیا ''دہشت گردی کے خلاف جنگ'' کو درحقیقت اسلام اور مسلم امہ کے خلاف جنگ سمجھتی ہے۔ دشمنانان اسلام انتہائی پرفریب، پرعناد، ہوشیار، مکار، عیار اور چالباز ہیں۔ کفر و الحاد کی طاقتیں ہر جگہ عالم اسلام کے خلاف متحد و منظم ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔

امریکن نیشنل سیکیورٹی کونسل کی رپورٹ کے تناظر میں امت مسلمہ عالم اسلام کو مزید مسائل سے دوچار کرنے اور سیاست، معاشی اور مذہبی ہر سطح پر مزید بحران سے دوچار کرنے کے لیے جو سازشی اقدام تجویز کیے گئے اور جن پر منصوبہ بندی کے تحت منظم انداز میں عمل بھی کیا اور کرایا جاتا رہا ہے یقیناً قابل غور ہے۔ ملاحظہ فرمائیے!

1۔ مسلمانوں کو آپس کے جھگڑوں اور اختلافات میں مصروف رکھا جائے گا تاکہ وہ کوئی بڑی قوت نہ بن سکیں اور امریکی مفادات کے خلاف ان کی مزاحمت تقویت نہ پکڑ سکے۔


2۔ ان ریاستوں کی حکومتیں تبدیل کروادی جائیں گی، جو نفاذ اسلام کے لیے سنجیدگی سے کوشش کر رہی ہیں۔ جن حکومتوں نے اسلام نافذ کرنے کی ابتدا کردی ہے انھیں شرعی قوانین کے نفاذ سے روک دیا جائے گا اور شرعی قوانین کو بھی تبدیل کردیا جائے گا۔

3۔ موثر مشائخ اور علما کو ذرایع ابلاغ کے ذریعے رائے عامہ کو متاثر کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔

4۔ اسلام پسند عناصر (بنیاد پرستوں) کو کسی ملک میں بھی تعلیمی اداروں اور ذرایع ابلاغ کے ذریعے عوام تک رسائی حاصل کرنے اور رائے عامہ، ہموار کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔

5۔ خلیجی ریاستوں میں مسلمانوں کو روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جائیں گے، بلکہ یہ افرادی قوت فلپائن، سری لنکا اور تھائی لینڈ سے حاصل کی جائے گی۔ ان لوگوں کے ذریعے خلیجی ریاستوں کی تہذیب و ثقافت تبدیل کردی جائے گی۔ اسلامی اقدار اور اسلامی رسومات کو ختم کردیا جائے گا۔ وہاں پاکستان اور بنگلہ دیش کے افراد کے روزگار پر مکمل پابندی لگا دی جائے گی۔

6۔ تمام ممالک کے تعلیمی اور ثقافتی اداروں میں اصلاحات لائی جائیں گی۔ ذرایع ابلاغ کے پروگراموں کو وسعت دی جائے گی۔

7۔ اسلام پسند عناصر اور اسلامی قیادت پر سختی سے نظر رکھی جائے گی۔

8۔ وہ ممالک جو سوڈان اور پاکستان کی طرح اسلامی نظریات اور سوچ کے حامل ہوں گے انھیں اختلافات اور مسائل میں مبتلا کردیا جائے گا۔ جہاں کہیں واقعہ رونما ہوتا ہے بغیر تصدیق مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔

آج مسلم امہ کی یہ حالت ہے کہ تمام مغربی اقوام ہمارے خلاف ہیں۔ دنیا میں ہم لالچی اور ہوس زدہ ممالک کے لیے مال غنیمت بن گئے ہیں اور ہمارے ممالک مختلف اقوام کی آپس کی محاذ آرائی کا میدان کارزار بن گئے ہیں اور دشمن اقوام ہمارے خلاف ایک دوسرے کو دعوت دے رہی ہیں اور ہم پر استعماری کفار کے اثر و رسوخ کا غلبہ ہے، ایسے آزمائشی حالات میں مسلمانان عالم کی خواب غفلت سے بیداری انتہائی ضروری ہے۔

ہمیں اپنی بے ہمتی، بے عملی اور کمزوریوں کا ادراک اور احساس کرتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولؐ سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا کیونکہ اسی میں ہماری ہمہ اقسام دنیوی مسائل و مصائب کا حل اور اخروی نجات مضمر ہے۔
Load Next Story