اسلام میں بھائی چارے کا تصوّر
کافر اور مشرک آپس میں بھائی بھائی نہیں ہوسکتے۔
قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں، پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔''
(سورہ الحجرات)
اس آیۂ مبارکہ میں پہلا لفظ '' مومنون '' ہے جس کا یہاں ترجمہ مسلمان کیا گیا ہے۔ مومن کی جمع مومنون ہے جس کے معنی ایمان والے ہیں گویا یہاں آپس میں بھائی بھائی کی بنیاد ایمان بتائی جا رہی ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کافر اور مشرک آپس میں بھائی بھائی نہیں ہوسکتے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی اصل ایمان ہے اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین یعنی اسلام پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بل کہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہم درد، مونس، غم گسار اور خیر خواہ بن کر رہیں اور اگر کبھی ان کے درمیان غلط فہمی کی بنا پر نفرت پیدا ہوجائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔
اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا : '' مومن مرد و مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا، بے شک اﷲ غلبے اور حکمت والا ہے۔''
(سورہ التوبہ آیت 71)
اس آیۂ مبارکہ میں مسلمان کی پہلی تعریف یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں۔ آنحضور ؐ نے ایک حدیث مبارک میں فرمایا ہے: ''مومن ایک مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے پیوستہ ہے یعنی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ ''
(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ ، صحیح مسلم باب تراحم المومنین)
'' مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار کا شکار ہوکر بیدار رہتا ہے۔ '' (صحیح بخاری۔ صحیح مسلم)
دوسری صفت یہ بتائی کہ وہ نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں اور بدی یا برائی سے روکتے ہیں۔
مومن کی تیسری صفت یہ بتائی کہ وہ نمازوں کی ادائی پابندی سے کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہاں دو فرائض یعنی نماز اور زکوٰۃ کا ذکر اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں فرائض حقوق سے تعلق رکھتے ہیں، نماز حقوق اﷲ میں سے ایک حق ہے جب کہ زکوٰۃ کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ ان دونوں کی احسن طریقے سے ادائی مومن کو اﷲ سے قریب ترین کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس لیے بہ طور خاص ان دونوں کا ذکر کرکے فرما دیا کہ یہی لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان پر بہت جلد رحم فرمائے گا۔
رحم اﷲ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے جو پوری کائنات پر محیط ہے، اگر یہ صفت نہ ہوتی تو کائنات کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ اسی لیے ہر مومن ہر لمحے بس اسی کے رحم کا طالب رہتا ہے۔ اس نے اپنے رحم کا تھوڑا سا وصف جان داروں میں بھی ودیعت فرمایا تاکہ دنیاوی نظام احسن طریقے سے چل سکے۔ رحم کا یہ جذبہ انسانوں ہی میں نہیں جانوروں میں بھی بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کی جہاں بہت سی نشانیاں بیان کی ہیں وہاں ایمان کی ایک علامت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپس میں رحم کرنا، ایک دوسرے سے محبت سے پیش آنا بھی ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
قرآن حکیم اور صحاح ستّہ میں اخوت، بھائی چارے اور رحم دلی کا کئی مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ خصوصی طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم اور ترمذی میں تو ان فرمودات پر مستقل باب باندھے گئے ہیں۔
ارشاد نبویؐ ہے: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا، اﷲ اس کے کام آئے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو رفع کرے گا، اﷲ قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف کو رفع کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا، اﷲ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔'' (صحیح بخاری)
آپؐ نے فرمایا : آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خرید و فروخت نہ کرو۔ اس کے بہ جائے آپس میں اﷲ کے بندے اور بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، اﷲ کا ڈر یہاں (دل) ہوتا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے آپ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے بُرا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھے۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال، عزت اور آبرو حرام ہے۔''
(صحیح بخاری، مسلم)
ایک اہم کام جو آپؐ نے انجام دیا وہ ''مواخات '' یعنی بھائی چارہ تھا۔ مہاجر ین مکہ سے بے سرو سامان نکلے تھے اور ان مہاجرین کا مہمان خانہ ہر ایک انصاری کا گھر تھا۔ تاہم ان کے لیے ایک مستقل انتظام کی ضرورت تھی، یہ مہاجرین بڑے خوددار تھے، ان میں سے اکثر تجارت پیشہ تھے۔ چناں چہ نذر اور خیرات انہیں پسند نہ تھا، وہ محنت سے اپنا پیٹ پالنا چاہتے تھے۔ جب حضورؐ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو خیال فرمایا کہ اب مسلمانوں میں رشتہ ٔ اخوت قایم کر دینا چاہیے تو آپ ؐ نے انصار کو طلب فرمایا۔ آپؐ ایک انصار اور ایک مہاجر کو بلاتے رہے اور ان دونوں میں مواخات کا رشتہ قائم فرماتے رہے۔ اس طرح ہر انصار اپنے مہاجر بھائی کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور اپنا آدھا اثاثہ اس کے آگے رکھ دیا۔
سیرت النبیؐ میں صحیح بخاری کے حوالے سے ایک بڑا حیران کن واقعہ لکھا ہے کہ سعد بن ربیع ؓ جب عبدالرحمن بن عوفؓ کے بھائی قرار پائے تو وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ہر چیز نصف کرکے ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میری دو بیویاں بھی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک جسے تم پسند کرو، میں اسے طلاق دیتا ہوں اس سے تم نکاح کرلو۔ ایثار کی اس سے بڑی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے سعید ربیعؓؓ کی اس پیش کش کا احسان مندی کے ساتھ انکار کردیا۔
( مواخات کا یہ ذکر تاریخ ابن ہشام کے صفحہ 178اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا واقعہ صحیح بخاری کتاب المناقب میں پڑھا جاسکتا ہے )
اس کے علاوہ انصار مدینہ نے حضور اکرم ؐ کو ایک اور پیش کش یہ بھی کی کہ ہمارے باغات مہاجرین میں برابر تقسیم کر دیے جائیں۔ مگر مہاجرین چوں کہ تجارت پیشہ تھے وہ باغ بانی کے فن سے ناواقف تھے، اس لیے انہوں نے باغات لینے سے بھی انکار کردیا۔ کیوں کہ لینے کی صورت میں ان کے اجڑنے کے خدشات موجود تھے البتہ ان باغات کی آمدنی کا کچھ حصہ لینا قبول کرلیا۔
اسلام کے نزدیک ایمان اور اخوت دونوں لازم و ملزوم ہیں، اگر کسی شخص میں ایک وصف ہے دوسرا نہیں تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔
ارشاد نبویؐ ہے: '' تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ نہ پسند کرے جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''
(سورہ الحجرات)
اس آیۂ مبارکہ میں پہلا لفظ '' مومنون '' ہے جس کا یہاں ترجمہ مسلمان کیا گیا ہے۔ مومن کی جمع مومنون ہے جس کے معنی ایمان والے ہیں گویا یہاں آپس میں بھائی بھائی کی بنیاد ایمان بتائی جا رہی ہے جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ کافر اور مشرک آپس میں بھائی بھائی نہیں ہوسکتے۔ مفسرین لکھتے ہیں کہ ان کی اصل ایمان ہے اس لیے اس اصل کی اہمیت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دین یعنی اسلام پر ایمان رکھنے والے آپس میں نہ لڑیں بل کہ ایک دوسرے کے دست و بازو، ہم درد، مونس، غم گسار اور خیر خواہ بن کر رہیں اور اگر کبھی ان کے درمیان غلط فہمی کی بنا پر نفرت پیدا ہوجائے تو اسے دور کرکے انہیں آپس میں دوبارہ جوڑ دیا جائے۔
اﷲ تعالٰی نے ارشاد فرمایا : '' مومن مرد و مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے ہیں زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی اطاعت کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اﷲ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا، بے شک اﷲ غلبے اور حکمت والا ہے۔''
(سورہ التوبہ آیت 71)
اس آیۂ مبارکہ میں مسلمان کی پہلی تعریف یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے دوست، معاون و غم خوار ہیں۔ آنحضور ؐ نے ایک حدیث مبارک میں فرمایا ہے: ''مومن ایک مومن کے لیے ایک دیوار کی طرح ہے، جس کی ایک اینٹ دوسری اینٹ سے پیوستہ ہے یعنی مضبوطی کا ذریعہ ہے۔ ''
(صحیح بخاری کتاب الصلوٰۃ ، صحیح مسلم باب تراحم المومنین)
'' مومنوں کی مثال آپس میں ایک دوسرے سے محبت اور رحم کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے جب جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو سارا جسم بخار کا شکار ہوکر بیدار رہتا ہے۔ '' (صحیح بخاری۔ صحیح مسلم)
دوسری صفت یہ بتائی کہ وہ نیکی اور بھلائی کی طرف بلاتے ہیں اور بدی یا برائی سے روکتے ہیں۔
مومن کی تیسری صفت یہ بتائی کہ وہ نمازوں کی ادائی پابندی سے کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ یہاں دو فرائض یعنی نماز اور زکوٰۃ کا ذکر اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں فرائض حقوق سے تعلق رکھتے ہیں، نماز حقوق اﷲ میں سے ایک حق ہے جب کہ زکوٰۃ کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ ان دونوں کی احسن طریقے سے ادائی مومن کو اﷲ سے قریب ترین کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ اس لیے بہ طور خاص ان دونوں کا ذکر کرکے فرما دیا کہ یہی لوگ ہیں جو اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ ان پر بہت جلد رحم فرمائے گا۔
رحم اﷲ تعالیٰ کی ایک خاص صفت ہے جو پوری کائنات پر محیط ہے، اگر یہ صفت نہ ہوتی تو کائنات کا نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔ اسی لیے ہر مومن ہر لمحے بس اسی کے رحم کا طالب رہتا ہے۔ اس نے اپنے رحم کا تھوڑا سا وصف جان داروں میں بھی ودیعت فرمایا تاکہ دنیاوی نظام احسن طریقے سے چل سکے۔ رحم کا یہ جذبہ انسانوں ہی میں نہیں جانوروں میں بھی بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے اور ہم اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
اﷲ اور اس کے رسولؐ نے ایمان کی جہاں بہت سی نشانیاں بیان کی ہیں وہاں ایمان کی ایک علامت یہ بھی بیان کی ہے کہ آپس میں رحم کرنا، ایک دوسرے سے محبت سے پیش آنا بھی ایمان کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
قرآن حکیم اور صحاح ستّہ میں اخوت، بھائی چارے اور رحم دلی کا کئی مقامات پر ذکر ہوا ہے۔ خصوصی طور پر صحیح بخاری، صحیح مسلم اور ترمذی میں تو ان فرمودات پر مستقل باب باندھے گئے ہیں۔
ارشاد نبویؐ ہے: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو اکیلا چھوڑتا ہے اور جو اپنے بھائی کے کام آئے گا، اﷲ اس کے کام آئے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو رفع کرے گا، اﷲ قیامت کے دن کی تکلیفوں میں سے اس کی تکلیف کو رفع کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی ستر پوشی کرے گا، اﷲ قیامت کے دن اس کی ستر پوشی کرے گا۔'' (صحیح بخاری)
آپؐ نے فرمایا : آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے پر بولی نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے دشمنی نہ کرو، ایک دوسرے سے بے رخی نہ برتو اور ایک دوسرے کے بیچ میں چڑھ کر خرید و فروخت نہ کرو۔ اس کے بہ جائے آپس میں اﷲ کے بندے اور بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہوتا ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کو گری نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑتا ہے، اﷲ کا ڈر یہاں (دل) ہوتا ہے۔ ایسا کہتے ہوئے آپ نے تین بار اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔ آدمی کے بُرا ہونے کے لیے کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھے۔ ہر مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان کی جان و مال، عزت اور آبرو حرام ہے۔''
(صحیح بخاری، مسلم)
ایک اہم کام جو آپؐ نے انجام دیا وہ ''مواخات '' یعنی بھائی چارہ تھا۔ مہاجر ین مکہ سے بے سرو سامان نکلے تھے اور ان مہاجرین کا مہمان خانہ ہر ایک انصاری کا گھر تھا۔ تاہم ان کے لیے ایک مستقل انتظام کی ضرورت تھی، یہ مہاجرین بڑے خوددار تھے، ان میں سے اکثر تجارت پیشہ تھے۔ چناں چہ نذر اور خیرات انہیں پسند نہ تھا، وہ محنت سے اپنا پیٹ پالنا چاہتے تھے۔ جب حضورؐ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوگئے تو خیال فرمایا کہ اب مسلمانوں میں رشتہ ٔ اخوت قایم کر دینا چاہیے تو آپ ؐ نے انصار کو طلب فرمایا۔ آپؐ ایک انصار اور ایک مہاجر کو بلاتے رہے اور ان دونوں میں مواخات کا رشتہ قائم فرماتے رہے۔ اس طرح ہر انصار اپنے مہاجر بھائی کو اپنے ساتھ گھر لے گیا اور اپنا آدھا اثاثہ اس کے آگے رکھ دیا۔
سیرت النبیؐ میں صحیح بخاری کے حوالے سے ایک بڑا حیران کن واقعہ لکھا ہے کہ سعد بن ربیع ؓ جب عبدالرحمن بن عوفؓ کے بھائی قرار پائے تو وہ انہیں اپنے ساتھ گھر لے گئے اور ہر چیز نصف کرکے ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ میری دو بیویاں بھی ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک جسے تم پسند کرو، میں اسے طلاق دیتا ہوں اس سے تم نکاح کرلو۔ ایثار کی اس سے بڑی مثال دنیا کے کسی اور مذہب میں نہیں ملتی۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ نے سعید ربیعؓؓ کی اس پیش کش کا احسان مندی کے ساتھ انکار کردیا۔
( مواخات کا یہ ذکر تاریخ ابن ہشام کے صفحہ 178اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کا واقعہ صحیح بخاری کتاب المناقب میں پڑھا جاسکتا ہے )
اس کے علاوہ انصار مدینہ نے حضور اکرم ؐ کو ایک اور پیش کش یہ بھی کی کہ ہمارے باغات مہاجرین میں برابر تقسیم کر دیے جائیں۔ مگر مہاجرین چوں کہ تجارت پیشہ تھے وہ باغ بانی کے فن سے ناواقف تھے، اس لیے انہوں نے باغات لینے سے بھی انکار کردیا۔ کیوں کہ لینے کی صورت میں ان کے اجڑنے کے خدشات موجود تھے البتہ ان باغات کی آمدنی کا کچھ حصہ لینا قبول کرلیا۔
اسلام کے نزدیک ایمان اور اخوت دونوں لازم و ملزوم ہیں، اگر کسی شخص میں ایک وصف ہے دوسرا نہیں تو وہ اسلام کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا۔
ارشاد نبویؐ ہے: '' تم میں سے کوئی شخص ایمان والا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی کچھ نہ پسند کرے جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔''