میاں بیوی کے حقوق قرآن و سنّت کی روشنی میں

اعتدال، مساوات و انصاف جو برابری کی سطح پر ہو، عدل کہلاتا ہے، یہی اسلام کی اولین ترجیح ہے۔

مرد کے حقوق سے مراد وہ ذمے داریاں ہیں، جن کا بجا لانا اور انہیں پورا کرنا عورت کے لیے لازم و ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

لاہور:
اسلام، اعتدال کا دین ہے، عدل و انصاف اور حقوق کی مساویانہ تقسیم اس کا وصفِ خاص ہے۔ مرد و زن کے حقوق کے بارے میں بھی اس دین متین نے راہ اعتدال کو اختیار کیا ہے اور اپنے اس وصف خاص کے سبب دین اسلام دنیا کے تمام تر دیگر ادیان کے سبب ممتاز ہے۔

حقوق زوجین: میاں بیوی کے حقوق سے مراد وہ ذمے داریاں ہیں، جو مرد و زن پر ازدواجی رشتے میں منسلک ہونے کے بعد شرعی و اخلاقی طور پر عاید ہوتی ہیں۔ جس طرح اسلام نے مرد کے حقوق بیان کیے ہیں، اسی طرح عورتوں کے حقوق کا تعین بھی فرمایا ہے۔ اعتدال، مساوات و انصاف جو برابری کی سطح پر ہو، عدل کہلاتا ہے، یہی اسلام کی اولین ترجیح ہے۔ معاشرے کے ارتقاء، باہمی محبت و رواداری، ایک دوسرے کے مابین مفاہمت و اعتماد، حقوق کی مساویانہ تقسیم اور اس پر عملا ً قایم رہنا ایک مستحکم اور مضبوط گھرانے کی بنیاد ہو تا ہے۔

حضور اکرم ﷺ نے عورتوں کے بارے میں مردوں کو نصیحت فرمائی: '' عورتوں کے بارے میں بھلائی کی نصیحت اختیار کرو، کیوں کہ عورتیں تمہارے ماتحت ہیں، تم اس کے سوا کسی اور شے کے مالک نہیں۔'' (ابن ماجہ )

اسی طرح جہاں مردوں کو ازدواجی تعلقات مستحکم اور مضبوط رکھنے کے لیے یہ ہدایت فرمائی، وہیں عورتوں کو بھی اسلامی حدود کا پابند کیا اور دائرہ اسلام میں رہتے ہوئے انہیں مردوں کی امانتوں کا امین بنایا کہ وہ خیانت کا ارتکاب نہ کریں۔ قرآن کریم نے ازدواجی زندگی کے بندھن کو گرہ لگا کر رکھا ہے، تاکہ معاشرتی نظم برقرار رہے۔ گویا معاشرت، میاں بیوی کے مابین حقوق کی مساویانہ تقسیم اور ان کے مابین خوش گوار تعلقات کا نام ہے۔ جب فریقین میں قلبی و ذہنی ہم آہنگی ہوگی تو اچھا اور عمدہ معاشرہ تشکیل پائے گا۔

مرد کے حقوق سے مراد وہ ذمے داریاں ہیں، جن کا بجا لانا اور انہیں پورا کرنا عورت کے لیے لازم و ضروری ہے اور بیوی کے حقوق سے مراد وہ امورِ لازم و شرعیہ ہیں، جن کا ملحوظ رکھنا مرد کے لیے لازم و ضروری ہے۔ اس لیے قرآن کریم میں انہیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ہے۔ یہ حقوق شرعی طور پر ایک دوسرے کے لیے ادائی فرائض کا درجہ رکھتے ہیں، کیوں کہ شرعاً و اخلاقاً وہ ان احکامات پر عمل کے پابند ہیں، جو شریعت نے انہیں ایک دوسرے کے حق میں عطا کیے ہیں۔ شوہر کی اطاعت عورت پر قرآن و سنت کے نصوص کے مطابق ہے اور مرد کے لیے عورت کی ذمے داری پورا کرنا سنت پر عمل کرنا ہے۔ فرمان عالی شان ہے: ''جو عورتیں نیک ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کی عدم موجودی میں بہ حفاظت الٰہی (مال و آبرو) کی حفاظت کرتی ہیں۔ ''


حضرت ام سلمہؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : '' ہر عورت جو اس حال میں فوت ہوکہ اس کا خاوند اس سے راضی ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگی۔'' ( ترمذی )

اسی طرح مردوں پر عورتوں کے حقوق لازم ہیں اور ان کے حقوق کیا ہیں، اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے اسے تفصیلا ًبیان فرمایا ہے، مثلاً عورت کے معاشی، سماجی اور تمدنی حقوق کی پاس داری کے ساتھ گھر کی کفالت بھی مرد کی ذمے داری ہے، وہ عورت کو سماج سے کاٹ کر نہیں رکھ سکتا، عورت کو بھی معاشرتی و سماجی طور پر اپنے مقام کو منوانے کا حق حاصل ہے اور یہ مرد کی ذمے داری ہے کہ وہ اسے ایسے مواقع فراہم کرے، جس سے فائدہ اٹھا کر عورت حدود معاشرت میں اپنی فطری صلاحیتوں کو ترقی دے سکے اور تعمیر تمدن و تہذیب میں اپنے حصے کا کام بہتر طور پر سرانجام دے سکے اور کام یابی کے بلند تر مقام کو پہنچے۔ اس سے نہ صرف معاشرہ بل کہ دین بھی ترقی کرے گا اور تخلیقی و سماجی میدان میں وسعت بھی پید ا ہوگی جو قوموں کے عروج کی علامت ہے۔ معاشرہ وہی ترقی کرتا ہے جہاں مرد و زن کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور مذہب اسلام ان کی ترقی و کام یابی پر کوئی قدغن نہیں لگاتا، بہ شرطے کہ وہ دائرہ اسلام اور حدود شرع میں ہو۔ عورت کے مساوی حقوق کے بارے میں یہ حدیث کریم بھی ہے۔ حضرت حکیم بن معاویہ ؓ اپنے والد سے روای ہے کہ انہوں نے حضور ﷺ سے عرض کی یارسول اﷲ ﷺ ! شوہر پر بیوی کا کیا حق ہے تو آپؐ نے فرمایا : '' جب کھائے تو اسے کھلائے اور جب پہنے تو اسے پہنائے اور اس کے منہ پر نہ مارے اور اسے بُرا نہ کہے۔(ابن ماجہ)

یہ فرمان عالی شان قطرے میں سمندر رکھتا اور اس کا عامل ہر طرح سے خوش حال زندگی بسر کرسکتا ہے، بہ شرطے کہ وہ صدق دل سے اس فرمان پر عمل پیرا ہوجائے۔

حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : '' مومنوں میں کامل ترین وہ ہے جو سب سے زیادہ حسن اخلاق والا ہو اور تم میں سب سے زیادہ بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے بہتر ہے۔'' (ابن ماجہ )

حسن سلوک کے بعد سب سے بڑا حق عورت کی آزادی یعنی شوہر کے انتخاب اور شوہر کے ساتھ رہنے میں شریعت نے اسے اختیار دیا ہے۔ اگر عورت گھر میں خود کو محبوس نہ سمجھے، گھر کو قید خانہ نہ جانے، گھریلو معاملات میں خود مختار ہو، تو گھر کبھی نہیں بگڑے گا۔ اسلام نے عورت کو معاشی، سماجی اور تمدنی حقوق دے کر اس کی حیثیت کو مضبوط کردیا ہے تاکہ معاشرے میں اس کی بھی عزت و وقار رہے اور وہ لوگوں کی دست برد سے بھی محفوظ رہے۔

 
Load Next Story