انبیائے کرامؑ کی بعثت کا مقصد
ﷲ تعالیٰ کی منتخب ہستیوں نے انسانوں کو ہر غلامی سے نجات دلا کر صرف خالق و مالکِ حقیقی کے در پر جھکنا سکھایا
ابوالبشر سیدنا حضرت آدمؑ سے لے کر سردارِ انبیائے کرام حضور سرورِ کائنات ﷺ کی تشریف آوری تک اس کائناتِ ارضی میں جتنے بھی انبیاء و رسلؑ مبعوث ہوئے، اُن سب کی تشریف آوری کا اصل سبب اور مقصد انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلا کر اللہ واحد و قہار کی واحدانیت اور کبریائی سے آشنا کرکے اُن کی جبینوں کو خالق و مالک حقیقی کے در پر جھکانا تھا۔ ہمیں قرآن ِ حکیم اور دیگر صحائف آسمانی کی وساطت سے جتنے انبیاءؑ و مرسلین کی پاکیزہ زندگی کے حالات معلوم ہوئے ہیں، اُن کا ہر ایک لمحہ اقوام و ملل کو تصورِ توحید ِ الٰہی سے آشنائی میں بسر ہوا۔ اور اس جدوجہد میں انہیں انتہائی اندوہ ناک اور صبر آزما اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا اور ایسی ایسی اذیتیں جن کے محض تصور سے ہی انسان کا دل کانپ اٹھتا ہے۔ نتیجتاً نہ صرف اللہ کے اُن مرغوب و محبوب بندوں کو بھی آزمائش کی خوف ناک بھٹی سے گزرنا پڑا بل کہ منکرینِ توحید و نبوت بھی صفحۂ ہستی سے ایسے مٹے کہ بس مثالِ عبرت بن کر رہ گئے۔ اس حوالے سے قوم عاد و ثمود، آلِ فرعون کی گرفت و عذاب کو قرآن کریم نے بہت بلاغت و فصاحت سے بیان فرمایا ہے۔
حضرت ابراہیمؑ کو دہکتی آگ کے مُہیب شعلوں کی نذر کیا گیا، یہ تو خدا ئے بزرگ و برتر کی عنایات کی انتہا تھی کہ آتشِ نمرود کو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا، اے آگ خبردار! میرے خلیل کا ایک بال بھی بیکا نہ ہونے پائے اور اتنی ٹھنڈی بھی نہ ہونا کہ اس سے بھی ابراہیمؑ کو تکلیف پہنچے، بس سلامتی والی بن جا۔ پھر اہل دل نے دیکھا کہ حضرت ابراہیمؑ فی الواقع کام یاب و سرخ رو ہوئے اور خلیل اللہ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔
حضرت یونسؑ کو بھی بطنِ ماہی میں کچھ عرصے کے لیے رہنا پڑا۔ حتیٰ کہ انتہائے جبر یہ کہ ایک قوم نے وحشت و استبداد کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے اللہ کے ایک نبی برحق کو آرے سے چیر کر رکھ دیا۔ خود ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ ایسا جگر فگار اور لرزہ خیز سلوک روا رکھا گیا، جس سے تصور ِ عقلِ انسانیت کو بھی پسینہ آجائے۔
سرکارِ رسالت مآب ﷺ کو ان کی جائے پیدائش سے نکالا گیا، اڑھائی برس تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، اُن کی ایسی آزمائش کی گئی کہ چشمِ فلک کے بھی آنسو نکل آئے۔ (خاکم بہ دہن) رحمۃللعالمینؐ کو نازیبا کلمات کہے گئے، آپؐ کو گالیاں دی گئیں، طائف کے بازاروں میں آپؐ کے ابریشم سے بھی نازک جسمِ اطہر کو پتھروں سے مضروب کیا گیا اور جب وہ خیر الخلائق ہستی ایک لمحے کے لیے کسی درخت کے سائے تلے آرام کے لیے رکتی تو آوارگان طائف پھر جسمِ اطہر نبوت ﷺ کو تختۂ مشق ستم بنانے لگتے۔ غیراللہ کی نفی اور صنم پرستی کے خلاف اعلان ِ بغاوت کرنے اور دعوتِ الی الحق دینے کی وجہ سے آپؐ کے اعزہ اور رفقائے کار کو وحشت ناک مصائب کی بھٹی میں جھونکا گیا۔
آپؐ پر جنگیں مسلط کرکے چراغِ توحید الٰہی کو بجھانے کی مجرمانہ کوششیں کی گئیں۔ حضور ﷺ کی صاحب زادی کو نوک سناں سے شہید کر دیا گیا۔ ہر لحظہ منکرین ِ توحید ربانی کی طرف سے اٹھنے والی مصائب و آلام کی آندھیاں چلتی رہیں، لیکن یہ خدا کی محبوب ترین اور منتخب ہستیاں انبیائؑ اور ختم الرسل ﷺ ایک لحظے کے لیے بھی وفا کے رستے میں نہیں ڈگمگائیں اور نہ ہی کسی مصلحت سے کام لیا۔ ان عظیم ترین اور منتخب ہستیوں کو ان ساری اذیتوں کا سامنا بہ جرم حق گوئی کرنا پڑا۔
آج دنیائے عالم اسلام جس افراتفری کا شکار ہے، تذبذب اور بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے، یاس و قنوطیت و بے چارگی مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اپنا بے رحمانہ تسلط جماتی چلی جا رہی ہے، اہلِ اسلام اغیار کی دریوزہ گری پر نہ صرف مجبور ہیں بل کہ کچھ تو اس میں ایک احساسِ تفاخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ افسوس ہم حسنِ طلب کے انداز بھولتے جا رہے ہیں، ہوس پرستی جنون کی حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس خرابی کا بنیادی سبب فقط یہ ہے کہ ہم انبیائے علیہ السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد یعنی الوہیت و کبریائی کی شوکت و رفعت بھول بیٹھے ہیں۔
اللہ کے حضور نیاز مندی ہی انسان کو ارتقاء بخشتی ہے، خود اللہ کی محبوب ترین ہستی آقائے گیتی پناہ حضور سید عالم ﷺ سب سے ارفع مقام محمود پر متمکن ہونے کے باوجود اپنی حیاتِ طیبہ کے ہر لمحے میں ثنائے رب ِ جلیل اور خدائے واحد کی توحید میں زمزمہ سنج رہے، کیوں کہ اللہ رب العزت پر محکم یقین ہی معراج آدمیت ہے۔ اسی پر ایمان ِ کامل سے انسان مصائب و بلیات سے محفوظ ہوکر اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ توکل الی اللہ ہی ہر قسم کے خوف و وحشت ِ زمانہ سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جب ایک مسلمان خوف سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ عبودیت کی انتہاؤں کی جانب گام زن ہو جاتا ہے۔
خدائے بزرگ و برتر اپنے بندے کے مقامِ عبودیت کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوجاتے ہیں کہ ملائکۃ المکربین کو حکم ہوتا ہے کہ میرے فلاں بندے نے میری توحید کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور مقصدِ حیات بنا لیا ہے، اس لیے اس پر عنایات کے دروازے کھول دیے جائیں۔ جو انسان تعیشات ِ زمانہ کو تج کر مقام ِ کبریا کی رفعتوں سے آشنا ہو جاتا ہے، اس کے لیے سمندروں اور دریاؤں کی طلاطم خیز موجیں، برق و باراں کے ہنگامے، آندھیوں کی حشر خیزیاں، خزائنِ مخفی و جلی سب اُس کی نوک ِ پا کے اسیر بنا دیے جاتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں مسجود ملائک نظر آنے لگتا اور اُس کے سر پر تاج نیابت الٰہی سجا دیا جاتا ہے۔
جس فیاضی سے مبدا فیاض نے اپنے بندے کی تخلیق کرکے اُسے اشرف المخلوقات قرار دے کر کراتِ ارضی اور سیارگان فلک کو اس کے تابع کر دیا، اُسے ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا، اس کے بدل میں وہ ذاتِ پروردگار بھی یہ چاہتی ہے کہ میری نوازشات کا پیکر پھر میرا ہی بن کر رہے اور اپنے ذہن سے غیراللہ کا شائبہ تک بھی نکال دے۔
اس حقیقت کو راسخ کرنے کے لیے تمام انبیائے کرام ؑ اور آخر میں جناب رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے اور جو شخص انبیاء و رسلؑ کی تشریف آوری کے اس عظیم و بدیہہ مقصد سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی یا صَرفِ نظر کرتا ہے اُسے اپنے موقف پر بار بار نظرثانی کرنی چاہیے کہ کہیں وہ دامنِ صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر اپنی ساری متاعِِ دین و دنیا ہی نہ لٹا بیٹھے۔
حضرت ابراہیمؑ کو دہکتی آگ کے مُہیب شعلوں کی نذر کیا گیا، یہ تو خدا ئے بزرگ و برتر کی عنایات کی انتہا تھی کہ آتشِ نمرود کو اللہ تعالی نے یہ حکم دیا، اے آگ خبردار! میرے خلیل کا ایک بال بھی بیکا نہ ہونے پائے اور اتنی ٹھنڈی بھی نہ ہونا کہ اس سے بھی ابراہیمؑ کو تکلیف پہنچے، بس سلامتی والی بن جا۔ پھر اہل دل نے دیکھا کہ حضرت ابراہیمؑ فی الواقع کام یاب و سرخ رو ہوئے اور خلیل اللہ کے اعزاز سے سرفراز ہوئے۔
حضرت یونسؑ کو بھی بطنِ ماہی میں کچھ عرصے کے لیے رہنا پڑا۔ حتیٰ کہ انتہائے جبر یہ کہ ایک قوم نے وحشت و استبداد کی تمام حدیں عبور کرتے ہوئے اللہ کے ایک نبی برحق کو آرے سے چیر کر رکھ دیا۔ خود ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی ذاتِ گرامی کے ساتھ ایسا جگر فگار اور لرزہ خیز سلوک روا رکھا گیا، جس سے تصور ِ عقلِ انسانیت کو بھی پسینہ آجائے۔
سرکارِ رسالت مآب ﷺ کو ان کی جائے پیدائش سے نکالا گیا، اڑھائی برس تک شعب ابی طالب میں محصور رکھا گیا، اُن کی ایسی آزمائش کی گئی کہ چشمِ فلک کے بھی آنسو نکل آئے۔ (خاکم بہ دہن) رحمۃللعالمینؐ کو نازیبا کلمات کہے گئے، آپؐ کو گالیاں دی گئیں، طائف کے بازاروں میں آپؐ کے ابریشم سے بھی نازک جسمِ اطہر کو پتھروں سے مضروب کیا گیا اور جب وہ خیر الخلائق ہستی ایک لمحے کے لیے کسی درخت کے سائے تلے آرام کے لیے رکتی تو آوارگان طائف پھر جسمِ اطہر نبوت ﷺ کو تختۂ مشق ستم بنانے لگتے۔ غیراللہ کی نفی اور صنم پرستی کے خلاف اعلان ِ بغاوت کرنے اور دعوتِ الی الحق دینے کی وجہ سے آپؐ کے اعزہ اور رفقائے کار کو وحشت ناک مصائب کی بھٹی میں جھونکا گیا۔
آپؐ پر جنگیں مسلط کرکے چراغِ توحید الٰہی کو بجھانے کی مجرمانہ کوششیں کی گئیں۔ حضور ﷺ کی صاحب زادی کو نوک سناں سے شہید کر دیا گیا۔ ہر لحظہ منکرین ِ توحید ربانی کی طرف سے اٹھنے والی مصائب و آلام کی آندھیاں چلتی رہیں، لیکن یہ خدا کی محبوب ترین اور منتخب ہستیاں انبیائؑ اور ختم الرسل ﷺ ایک لحظے کے لیے بھی وفا کے رستے میں نہیں ڈگمگائیں اور نہ ہی کسی مصلحت سے کام لیا۔ ان عظیم ترین اور منتخب ہستیوں کو ان ساری اذیتوں کا سامنا بہ جرم حق گوئی کرنا پڑا۔
آج دنیائے عالم اسلام جس افراتفری کا شکار ہے، تذبذب اور بے یقینی بڑھتی جا رہی ہے، یاس و قنوطیت و بے چارگی مسلمانوں کے قلوب و اذہان پر اپنا بے رحمانہ تسلط جماتی چلی جا رہی ہے، اہلِ اسلام اغیار کی دریوزہ گری پر نہ صرف مجبور ہیں بل کہ کچھ تو اس میں ایک احساسِ تفاخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ افسوس ہم حسنِ طلب کے انداز بھولتے جا رہے ہیں، ہوس پرستی جنون کی حد تک بڑھتی چلی جا رہی ہے اور اس خرابی کا بنیادی سبب فقط یہ ہے کہ ہم انبیائے علیہ السلام کی بعثت کا بنیادی مقصد یعنی الوہیت و کبریائی کی شوکت و رفعت بھول بیٹھے ہیں۔
اللہ کے حضور نیاز مندی ہی انسان کو ارتقاء بخشتی ہے، خود اللہ کی محبوب ترین ہستی آقائے گیتی پناہ حضور سید عالم ﷺ سب سے ارفع مقام محمود پر متمکن ہونے کے باوجود اپنی حیاتِ طیبہ کے ہر لمحے میں ثنائے رب ِ جلیل اور خدائے واحد کی توحید میں زمزمہ سنج رہے، کیوں کہ اللہ رب العزت پر محکم یقین ہی معراج آدمیت ہے۔ اسی پر ایمان ِ کامل سے انسان مصائب و بلیات سے محفوظ ہوکر اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔ توکل الی اللہ ہی ہر قسم کے خوف و وحشت ِ زمانہ سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جب ایک مسلمان خوف سے آزاد ہو جاتا ہے تو وہ عبودیت کی انتہاؤں کی جانب گام زن ہو جاتا ہے۔
خدائے بزرگ و برتر اپنے بندے کے مقامِ عبودیت کو دیکھ کر اس قدر خوش ہوجاتے ہیں کہ ملائکۃ المکربین کو حکم ہوتا ہے کہ میرے فلاں بندے نے میری توحید کو زندگی کا اوڑھنا بچھونا اور مقصدِ حیات بنا لیا ہے، اس لیے اس پر عنایات کے دروازے کھول دیے جائیں۔ جو انسان تعیشات ِ زمانہ کو تج کر مقام ِ کبریا کی رفعتوں سے آشنا ہو جاتا ہے، اس کے لیے سمندروں اور دریاؤں کی طلاطم خیز موجیں، برق و باراں کے ہنگامے، آندھیوں کی حشر خیزیاں، خزائنِ مخفی و جلی سب اُس کی نوک ِ پا کے اسیر بنا دیے جاتے ہیں، وہ صحیح معنوں میں مسجود ملائک نظر آنے لگتا اور اُس کے سر پر تاج نیابت الٰہی سجا دیا جاتا ہے۔
جس فیاضی سے مبدا فیاض نے اپنے بندے کی تخلیق کرکے اُسے اشرف المخلوقات قرار دے کر کراتِ ارضی اور سیارگان فلک کو اس کے تابع کر دیا، اُسے ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا، اس کے بدل میں وہ ذاتِ پروردگار بھی یہ چاہتی ہے کہ میری نوازشات کا پیکر پھر میرا ہی بن کر رہے اور اپنے ذہن سے غیراللہ کا شائبہ تک بھی نکال دے۔
اس حقیقت کو راسخ کرنے کے لیے تمام انبیائے کرام ؑ اور آخر میں جناب رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے اور جو شخص انبیاء و رسلؑ کی تشریف آوری کے اس عظیم و بدیہہ مقصد سے دانستہ یا نادانستہ چشم پوشی یا صَرفِ نظر کرتا ہے اُسے اپنے موقف پر بار بار نظرثانی کرنی چاہیے کہ کہیں وہ دامنِ صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر اپنی ساری متاعِِ دین و دنیا ہی نہ لٹا بیٹھے۔