پاکستان کرکٹ ٹنڈولکر اور میرٹ
ٹیلنٹ تو پاکستانی بیٹسمینوں میں بھی بہت ہے مگر و ہ اس سطح پر کیوں نہ پہنچ سکے جہاں آج ٹنڈولکر دکھائی دیتے ہیں
یہ فروری1999 کا ذکر ہے ، پاکستان کرکٹ ٹیم ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ میں بھارت کے خلاف میچ کے لیے کولکتہ پہنچی تومیچ سے قبل پریکٹس سیشن کے دوران نوجوان پاکستانی فاسٹ بالر شعیب اختر نے بھارتی بلے باز سچن ٹنڈولکر سے دریافت کیاکہ کیا وہ انھیںجانتے ہیں؟ ٹنڈولکر نے نفی میں جواب دیا۔ توشعیب نے کہا کہ میچ کے بعد اچھی طرح جان جاؤ گے! راولپنڈی ایکسپریس نے لٹل ماسٹرکو پہلی ہی گیند پرکلین بولڈ کیا تو ٹنڈلکر نے شعیب اختر کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ اب انھیں ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔
سوال یہ ہے کہ بھارتی ٹیم میں اس وقت اظہر الدین، راہول ڈریوڈ اور ساروگنگولی جیسے نامی گرامی کھلاڑی موجود تھے مگر شعیب نے صرف سچن کو ہی یہ چیلنج کیوں دیا؟دراصل ٹنڈولکر بہت جلد اپنی مستقل مزاجی ، منفرد اسٹائل اور چیلنجز قبول کرنے کی صلاحیت کے باعث نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کے کرکٹ شائقین کی توجہ کا مرکزبن گئے تھے ۔بالرز انھیں آؤٹ کرنا اپنے لیے فخرکا باعث سمجھتے ،سر ڈان بریڈ مین ، سنیل گواسکراور جاوید میانداد جیسے بڑے نام بھی نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو سراہتے بلکہ کھلے الفاظ میں اس کا اعتراف کرتے ۔کرکٹ کے میدان میں ٹنڈولکر کو کچھ عرصہ گزرا تو وہ روز نت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگے اور جلد ہی مقبولیت کی اس بلندی پر پہنچے کہ بھارت میں اگر کرکٹ کو مذہب کا درجہ حاصل تھا تو ٹنڈولکر دیوتا ٹھہرتے ۔لٹل ماسٹر کے اسی بلند قد کے باعث نوجوان شعیب اختر نے انھیں چیلنج دیا۔
سوال یہ ہے کہ ٹیلنٹ تو پاکستانی بیٹسمینوں میں بھی بہت ہے مگر و ہ اس سطح پر کیوں نہ پہنچ سکے جہاں آج ٹنڈولکر دکھائی دیتے ہیں ۔اگر مختصر الفاظ اور صاف گوئی سے کام لیا جائے تو اس کی وجہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی ناقدری ، میرٹ کا فقدان اور علاقائی ترجیحات و تعصبات ہیں۔ جاوید میانداد کی عظمت سے کو ن واقف نہیں ؟مگر1983 میں حیدرآباد ٹیسٹ کے دوران میانداد 300 رنز کا سنگ میل عبور کرنے کے قریب پہنچے تو کپتان نے پانی کے وقفے کے دوران اننگ ڈیکلیئر کرکے سب کو حیران کردیا۔جاوید میانداد تو فیصلے سے حیران و پریشان تھے ہی میدان میں موجودبھارتی کرکٹر سنیل گواسکر نے بھی حیرت کے ساتھ سوال کیا کہ یہ کپتان نے کیا کیا؟اسی طرح میانداد 90 کی دہائی میں سنیل گواسکر کا سب سے زیادہ 10ہزار رنز کا ریکارڈ توڑنے کے قریب پہنچے تو پاکستان کرکٹ بورڈ نے انھیں نہ صرف کپتانی سے برطرف کردیا بلکہ ہمیشہ کے لیے ٹیسٹ کرکٹ سے بھی باہر کردیا۔
آج جب کہ آسٹریلیا، ویسٹ انڈیز ، بھارت اور سری لنکا کے متعدد بلے باز دس ہزاررنز بنانے والے بیٹسمینوں کے کلب میں موجود ہے تو پاکستان کے کسی ایک کھلاڑی کا نام بھی اس فہرست میں دکھائی نہیں دیتا۔سعید انور کی مثال لیجیے جنھیں پاکستان کی تاریخ کا کامیاب ترین اوپنر قرار دیا جاتاہے ۔سرویون رچرڈ کے 189 رنز کی اننگ کا ریکارڈ سب سے پہلے سعید انور نے ہی توڑا، 3 میچز میں 3 لگاتار سینچریوں کا اعزاز بھی ان ہی کے پاس ہے ،2003 کے عالمی کپ میں سعید انورنے بھارت کے خلاف یادگار سینچری بنائی مگر ٹورنامنٹ کے بعد ان پر کرکٹ کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کردیے گئے ۔وہ دن ہے اور آج کا دن پاکستان کرکٹ ٹیم اب تک اوپننگ بیٹسمین کا مسئلہ ہی حل نہ کرسکی ۔بوریوالہ ایکسپریس وقار یونس کو 90 کی دہائی میں صرف کپتان سے اختلاف کی بنیاد پر 1 سال سے زائد عرصے کے لیے ٹیم سے باہر رکھا گیا۔
رنز مشین محمد یوسف کو جس طرح اچھے دنوں میں دودھ سے مکھی کی طرح باہر نکالا گیا وہ تو ابھی کل ہی کی بات ہے ۔میانداد ، سعید انور،وقار یونس اور محمدیوسف تو بڑے نام ہیں، عاصم کمال کی مثال لیں ۔انھوں نے پہلے ہی ٹیسٹ میچ میں جنوبی افریقہ کی مضبوط ٹیم کے خلاف99رنز کی اننگ کھیلی ،پھر بھارت کے خلاف بھارتی میدانوں میں 91رنز بنائے ،پھر آسٹریلیا میں جب پوری بیٹنگ لائن ناکام ہوگئی تو87رنز کی اننگ کھیلی ، معروف آسٹریلوی اوپنر میتھیو ہیڈن عاصم کمال کی اس اننگ کے بعد ڈریسنگ روم میں ملاقات کے لیے آئے اور دریافت کیا کہ تم نے کس طرح اس مہارت کے ساتھ لیگ اسپنر شین وارن کو کھیلا؟12 ٹیسٹ میچز میں مشکل ٹیموں کے خلاف نازک صورتحال میں 8نصف سینچریاں اسکورکرنے والے عاصم کمال کو جب ٹیم میں موجود بعض کھلاڑیوں نے اپنے لیے خطرہ بنتے دیکھا تو انھیں کیرئیر کے آغاز پر ہی ٹیم سے باہر کردیا گیا۔ملتان کے نوید یٰسین ، حیدر آباد کے فیصل اطہر اور لاہور کے عامر سجاد کئی سال سے ڈومیسٹک کرکٹ میں رنز کے انبار لگا رہے ہیں مگر سلیکٹرز ہیں کہ مہربان ہوکر نہیں دے رہے شاید اس لیے کہ ان کھلاڑیوں کی پشت پر کوئی سیاستدان ، جنرل یا بااثر بیوروکریٹ نہیں ہے ۔
یہ تو پاکستان میں ٹیلنٹ کی ناقدری اور میرٹ کا قتل ہے ،اب ایک بار پھر بھارت کی طرف چلتے ہیں ۔کپل دیو آخری زمانے میں اپنی فارم کھوچکے تھے ،ان کی کارکردگی ٹیم کے لیے بوجھ بن چکی تھی مگر بھارتی بورڈ نے انھیں موقع فراہم کیا کہ وہ سر رچرڈہیڈلی کا سب سے زیادہ 431 وکٹوں کا ریکارڈ توڑیں ۔احمد آباد ٹیسٹ میں کپل دیو نے 432ویں وکٹ حاصل کی تو ریکارڈ بک میں کپل دیو کے ساتھ بھارت کا نام بھی درج ہوگیا۔اس سے پہلے سنیل گواسکر کو ٹیسٹ کرکٹ میں 10ہزار رنز مکمل کرنے کا پورا موقع فراہم کیا گیا ۔
یہ بات اب ہمیشہ تاریخ میں درج رہے گی کہ بین الاقوامی کرکٹ میں سب سے پہلے 10ہزار رنزایک بھارتی سنیل گواسکر نے مکمل کیے ۔اب ٹنڈولکر ہی کی بات کریں2011 کے عالمی کپ میں کامیابی کے بعد بعض حلقوں نے مطالبہ کیا کہ اب سچن کو میدان کرکٹ کو خیرباد کہہ دینا چاہیے ،مگر انہو ں نے کرکٹ جاری رکھی،جب بنگلہ دیش کے خلاف میچ میں انھوں نے بین الاقوامی کرکٹ میں سینچریوں کی سینچری مکمل کی تو وہ یہ کارنامہ انجام دینے والے پہلے بلے باز بن گئے ۔آج ریکارڈ بک میں بے شمار ریکارڈز ان کے نام ہیں اور بھارتی عوام ان پر فخر کرتے ہیں۔ٹنڈولکر کے ان کارناموں میں جہاں ان کی بے پناہ محنت، ٹیلنٹ اورمستقل مزاجی کا دخل ہے وہیں بھارتی کرکٹ بورڈ اور مقامی مزاج کا ہاتھ بھی ہے۔
جاویدمیانداد، سعید انور اور محمد یوسف بھی بے شمار ریکارڈز اپنے نام کرسکتے تھے مگر یہ کھلاڑی علاقائی تعصبات اور بڑوں کی تنگ نظری کی نذر ہوگئے جب کہ بھارت کی صورتحال یہ ہے کہ اگر میرٹ کی بات ہوتو ایک مسلمان اظہر الدین کو کئی سال تک کرکٹ ٹیم کی قیادت سونپے رکھی ،بھارتی ٹیم میں بیک وقت ظہیرخان ، محمد کیف ،عرفان پٹھان،یوسف پٹھان اور مناف پٹیل جیسے مسلمان کرکٹرز اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے ہیں۔
بھارت آج کرکٹ کی سب سے بڑی نرسری بن چکا ہے ،آئی پی ایل میں شرکت کے لیے گورے اور کالے سب ہی بے چین دکھائی دیتے ہیں ،جب کہ پاکستانی میدان آج سنسان و ویران ہیں ۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ بھارتی حکام یہ بات سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص خواہ مسلمان یا ہندو بین الاقوامی سطح پر کوئی کارنامہ انجا م دے گا تو نام بھارت کا ہی ہوگا جب پاکستان آج ہر طرح کے وسائل،صلاحیت اور ٹیلنٹ کے باوجود اس لیے پیچھے ہے کہ قیادت کا وژن نہایت محدود اور تنگ نظری پر مشتمل ہے ۔ یہ بات آج غیرملکی بھی سمجھتے ہیں ۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کپتان اور عظیم فاسٹ بالر کورٹنی والش نے ایک جگہ کہا ہے کہ پاکستان میں اگر ٹیم میرٹ پر سلیکٹ کی جائے تو دنیا کی کوئی ٹیم اسے نہیں ہرا سکتی !کاش یہ بات ارباب اختیار اور پی سی بی کے ذمے داران بھی سمجھ سکیں ۔